متفرق شعراء
غزل
نہ دُکھ سُنا یہاں وہاں نہ سنگِ رہ شمار کر
بہشت کی ہے آرزو تو ہر کسی سے پیار کر
کسی میں کتنے عیب ہیں یہ تیرا مسئلہ نہیں
تُو جن کا ہے جوابدہ وہ کام بار بار کر
غرور وہ کرے جو کُن کہے تو کائنات ہو
تُو ہاتھ جوڑ، سر جُھکا، نِگہ کو خاکسار کر
تُو فیصلہ یہ کر کہ تیرا خیرخواہ کون ہے
اُسے پسند جو نہیں وہ رہ نہ اختیار کر
تُو خود نہیں یہ جانتا تُو کس قدر حسین ہے
سو دُور بیٹھ، پاس آکے دل نہ بیقرار کر
جو ’’آج‘‘ کو امر کرے وہ کامیاب شخص ہے
سو آج نیکیاں کما، نہ کل پہ اِنحصار کر