متفرق مضامین

حضرت مصلح موعوؓد کی قیادت میں تعمیر و ترقی ربوہ

(محمد فاتح ملک۔ربوہ)

دنیا کی تاریخ میں اَن گنت شہر وں کی آبادی کا ذکر آتا ہے۔ کچھ کی تعمیر حادثاتی طور پر تو کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے۔ ان میں سے کچھ شہر اپنی مثال آپ تھے اور ہیں۔ لیکن تاریخِ عالم میں مکہ کے علاوہ شاید ہی کوئی شہر ہو جس کی بنیاد جو خداتعالیٰ کی خاطر رکھی گئی ہو، جس کی بنیادیں توحید الٰہی اور عشق رسولؐ پر مبنی ہوں۔ ربوہ بھی ایسا ہی ایک شہر ہے جو بظاہر تو اینٹوں اور چونے کا بنا ہے لیکن اس کے قیام کا مقصد اکناف عالم میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنا ہے اور ہر قوم و ملت کو رسول اللہﷺ کے جھنڈے کے نیچے جمع کرنا ہے۔

انبیاء کی بہت سی جماعتوں ہجرت کرنی پڑی ہے۔ مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ انبیاءکی جماعتیں مخالفتوں کی وجہ سے ہجرت ضرور کرتی ہیں لیکن یہ ہجرتیں ان کے لیے ترقیات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ‘‘داغ ہجرت’’کا الہام فرمایا (الہام 18؍ستمبر 1894ء، تذکرہ صفحہ 218)جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپؑ یا آپ کی جماعت کے لیے ہجرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر تھی۔

قادیان سے ہجرت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام آپؑ کے متبع اور فرزندِ اکبر سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور بابرکت میں پورا ہوا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی قادیان کی مقدس زمین اور جماعت احمدیہ کے دائمی مرکز کو الوداع کہنا پڑا تا آسمانی نوشتے پورے ہوں اور اسلام کا جھنڈا پہلے سے زیادہ اونچا لہرایا جانے لگے۔ قادیان سے ربوہ ہجرت جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ‘‘داغ ہجرت’’کو پورا کرنے والا تھا وہاں پیشگوئی مصلح موعود ‘‘وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا’’کو بھی ظاہر کرنے والا تھا۔ قادیان سے ہجرت مقدر تھی۔ اور اس کا اشارہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ پہلے سے دے دیا تھا۔

(تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور 1948، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 29-30)

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جماعت احمدیہ نے قادیان سے ہجرت کی اور مسیح موعودؑ کی پاک بستی کو دل پر پتھر رکھ کر عارضی طور پر الوداع کہا۔ لیکن خلافت احمدیہ کی برکت سے یہ خوف جلد امن میں بدل گیا۔ ہندوستان سے پاکستان لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی۔ وہ لاکھوں لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے لیکن آج ستر سال تک وہ مہاجر ہی کہلا رہے ہیں اور مستقل settleنہیں ہوپائے۔ لیکن خلافت احمدیہ کی عظیم الشان نعمت سے جماعت احمدیہ کا شیرازہ یہ ہجرت بھی بکھیر نہ پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی مدبرانہ قیادت میں جماعت احمدیہ نہ صرف پاکستان میں مستحکم ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ متحد ہو کر خدمت اسلام میں سر گرم عمل ہو گئی۔ ؎

اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار

نئے دَور کا آغاز

قادیان سے ہجرت کے موقعہ پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ساری جماعت کو اس پُر آشوب اور نازک دور میں خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:

’’آج ہر احمدی سمجھ لے کہ اب احمدیت پر ایک نیا دور آیا ہے۔’’

(تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 4)

اپنی محبوب بستی کو چھوڑ جانے کا غم تو سب کو ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی ہجرت مدینہ کے وقت اس کا اظہار فرمایا تھا، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس ہجرت کو خدائی نوشتہ سمجھ کر قبول فرمایا ۔ آپؓ فرماتے ہیں:

‘‘میں نے جب قادیان چھوڑا یہ عہد کرلیا تھا کہ میں اس کا غم نہیں کرونگا۔’’

(خطبات محمود جلد 30صفحہ 93 خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍اپریل 1949ء)

ہجرت ہندوستان اور پاکستان کے حالات آج تاریخ کا حصہ ہیں۔ وہ وقت جب دشمن مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا تھا ، ہر روز سینکڑوں پنجاب میں شہید کیے جار ہے تھے۔ ہزاروں احمدی بے سرو سامانی کی حالت میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے تھے، ان کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان کی اشد ضرورت تھی۔ ان نازک حالات میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی شکل میں جماعت احمدیہ کو جو‘‘مسیحی نفس ’’اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہوا تھا اس نے باپ سے بڑھ کر شفقت کا مظاہرہ کیا اور ایک جرنیل کی سی ذمہ داری ادا کی۔ آپؓ نے اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ عہد کیا :

‘‘مَیں اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہتے ہوئے یہ اقرار کرتا ہوں کہ خواہ جماعت کو کوئی بھی دھکّا لگے۔ مَیں اُس کے فضل اور اُس کے احسان سے کسی اپنے صدمہ یا اپنے دکھ کو اِس کام میں حائل نہیں ہونے دونگا بِفَضْلِہٖ تَعَالیٰ وَ بِتَوْفِیْقِہٖ وَ بِنَصْرِہٖ جو خدا تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کے قائم کرنے کا میرے سپرد کیا ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ستمبر 1947ء خطبات محمود جلد 28صفحہ 311)

دوسری طرف آپؓ نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ

‘‘مرکز کے بغیر کوئی جماعت نہیں رہ سکتی۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ انہوں نے بے مرکز کے کبھی نہیں رہنا۔’’

(خطبات محمود جلد 30 صفحہ 95 خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍ اپریل 1949ء)

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے پاکستان ہجرت کے بعد ساری جماعت کے احمدیوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اعلانات شائع کروائے۔جماعت احمدیہ کی شیرازہ بندی کی خاطر آپ نے لاہور میں عارضی طور پر جماعت کا مرکز قائم فرمایا نیز آپؓ نے نازک حالات کو سمجھتے ہوئے فوراً جماعت کے لیے نئے مرکز کے قیام کی کوششیں شروع کر دیں۔ یہ کتنا مشکل کام تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خود بیان فرماتے ہیں:

‘‘یہ جماعت پرندوں کی تو تھی نہیں کہ ایک جگہ سے اُڑ کر دوسری جگہ پر جابیٹھتی بلکہ ایک مرکز رکھنے والی جماعت تھی۔ اسے ایک ایسے مرکز کی ضرورت تھی جہاں جماعت پھر اپنی بنیادوں پر کھڑی ہو سکے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍ جولائی 1949ء۔ خطبات محمود جلد 30صفحہ 206تا 208)

مرکز کے لیے موزوں جگہ کی تلاش

پاکستان میں نئے مرکز کے قیام کے لیے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کسی موزوں جگہ کی تلاش کے لیے ابتداسے ہی کوشش شروع کر دی تھیں۔ اس سلسلہ میں ایک کمیٹی کے سپرد یہ کام تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے چودھری عزیز احمد باجوہ صاحب کو حضورؓ نے لاہور بلوایا تھا۔ کمیٹی نے متعدد مقامات کو مرکز بنانے کی تجاویز پر غور کیا۔ ننکانہ صاحب کے قریب زمین خریدنے کے بارے میں ایک وقت تک کافی غور ہوتا رہا۔ ماڈل ٹاؤن کے علاقے کے بارے میں حکومت کی طرف سے بھی دبے لفظوں میں پیش کش ہوئی۔ حضورؓ اپنے خواب کی بنا پر سندھ میں مرکز بنانا چاہتے تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پنجاب میں مبعوث ہونے کی وجہ سے پنجاب کو اہمیت دی گئی اور پنجاب کے کئی علاقے زیر بحث آئے جن میں سیالکوٹ ، شیخوپورہ، راولپنڈی، چنیوٹ ، جڑانوالہ وغیرہ شامل تھے۔

چک ڈھگیاں

آخر کار چوہدری عزیز احمد باجوہ صاحب کی تجویز پر ‘‘چک ڈھگیاں’’کی اراضی جہاں اب ربوہ ہے منظور ہوئی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے چوہدری عزیز احمد باجوہ صاحب کو مجوزہ جگہ کا دورہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ انہوں نے ربوہ کے علاقہ کا دورہ کیا اور اس بارہ میں جو رپورٹ دی وہ درج ذیل تھی:

‘‘یہ قطعہ زمین زراعت کے ناقابل، بالکل کلّر تھوہر ہے۔ جہاں صرف ایک بوٹی ‘لانی ’کے، جو اونٹوں کا چارہ ہے، اور جو خود زمین کے ناقابل زراعت ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ اور کسی قسم کی سبزی، درخت وغیرہ کا وہاں نشان تک نہیں۔ بعض سرمایہ داروں نے لمبی میعاد کے پٹہ پر گورنمنٹ سے یہ زمین لے کر اس کو آباد کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے۔’’

(تاریخ احمدیت 11صفحہ 286)

اس مایوس کن رپورٹ کے باوجود حضرت مصلح موعودؓ خود بنفس نفیس اس جگہ کے معائنہ کے لیے 18؍ اکتوبر 1947ء کو تشریف لے گئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس سارے علاقہ کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اور جگہ کو مرکز کے لیے منظور فرمایا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ربوہ کی زمین کی جگہ کو دیکھ کر فرمایا:

‘‘وہ جگہ دیکھی، واقع میں وہ جگہ ایسی ہی تھی۔ صرف فرق یہ تھا کہ مَیں نے خواب میں جو جگہ دیکھی تھی اس میں سبزہ تھا اور یہاں سبزہ کی ایک پتی بھی نہ تھی…لیکن ہم نے سمجھا کہ اگر کوشش کی جائے تو شاید یہاں بھی سبزہ ہو سکتا ہو۔ چنانچہ ہم نے گورنمنٹ سے اس کے خریدنے کی درخواست کی اور اس سے کہا کہ آخر آپ نے ہمیں کوئی جگہ دینی ہی ہے اور کہیں بسانا ہی ہے اگر یہ جگہ ہمیں مل جائے تو جتنے احمدی یہاں بس جائیں گے اُن کا بوجھ گورنمنٹ پر نہیں پڑے گا۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ستمبر 1948ء خطبات محمود جلد 29صفحہ 289تا 291)

عمرانیات کے اصولوں کے مطابق جب کسی شہر کو تعمیر کرنا ہو تو ایسی جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں سبزہ زیادہ ہو اور جہاں پانی کی سہولت موجود ہو۔ لیکن مکہ کی زمین کی طرح ربوہ کی زمین بھی وَادٍ ی غَیْرَ ذِیْ زَرْعٍتھی۔ اور ماہرین کا خیال تھا کہ ‘‘یہ زمین بالکل ناقابل کاشت ہے’’ اور ‘‘یہاں گرمی بہت زیادہ پڑے گی’’، ‘‘میٹھے پانی کا نکلنا بھی ممکن نہیں۔’’لیکن اللہ تعالیٰ کی خاطر مرکز کی بنیاد رکھنے کا جوش لیے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بنجر زمین کو ہی لالہ زار بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جو کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ ربوہ کی اس زمین کو ایک کروڑ پتی ہندو نے قابل کاشت بنانے کے لیے ہزار ہا روپیہ خرچ کیا تھا لیکن ناکام ہوا اور اس صدمہ سے ہی چل بسا تھا۔ اب کی بار خدا تعالیٰ کے پہلوان اور ‘‘مسیحی نفس’’حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے اس شورہ زمین کو گل و گلزار بنانےکا ارادہ محض اللہ تعالیٰ کے اذن سے کیا تھا۔ اور آج ربوہ کا چپہ چپہ گواہ ہے کہ یہ زمین سر سبز و شاداب ہو چکی ہے۔ دنیاوی ماہرین جس زمین کو بنجر اور تھوہر زدہ قرار دے چکے تھے اسی زمین کو ایک روحانی دنیاکے ماہر نے ساری دنیا کے لیے ایک مثالی شہر میں تبدیل کر کے دکھا دیا ہے۔
اس رقبہ کی کل اراضی جو چک ڈھگیاں کے نام پر تھا 1506؍ ایکڑ تھی جبکہ اس میں 472؍ ایکڑ رقبہ آبادی کے قابل نہ تھا جس میں بڑی سڑک، ریلوے لائن اور پہاڑیاں شامل ہیں۔ بقیہ 1034؍ ایکڑ زراعت کے ناقابل تھا تاہم اس میں مکانات تعمیر ہو سکتے تھے اور یہ کسی کی ملکیت بھی نہیں تھا۔چنانچہ اس رقبہ کے حصول کی درخواست پیش کی گئی۔ درخواست پیش کیے جانے کے بعد اس کی کئی قانونی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ 10؍روپے فی ایکڑ کے حساب سے 1034؍ایکڑ زمین جماعت احمدیہ کو گورنمنٹ نے فروخت کی۔ 22؍ جون 1948ء کو زمین اور رجسٹری وغیرہ کی قیمت 12000؍ روپے ادا کرکے جماعت احمدیہ نے اپنے نئے مرکز کے قیام کی غرض سے جگہ خریدی۔ اس وقت مخالفین کے پراپیگنڈہ کی وجہ سے حکومت مغربی پنجاب نے جو تحقیر آمیز اعلان شائع کیا وہ یہ تھا:

‘‘احمدیوں کو 10روپے فی ایکڑ کے بھاؤ بنجر زمین دی گئی۔یہاں قادیان کے خانماں ویران لوگ آباد ہوں گے۔’’

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10صفحہ 295)

مخالفین تو خوش تھے کہ ایک بنجر زمین مہنگے داموں جماعت احمدیہ کو بیچ دی گئی ہے جو کبھی آباد نہ ہو سکے گی۔ لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے اگست 1948ء میں جماعت احمدیہ نے اس قطعہ اراضی پر قبضہ حاصل کیا۔ اور اس بے آب و گیاہ وادی کو سرسبز و شاداب اور مقدس بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جو ایک معجزہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ظاہر فرمایا۔

ربوہ کا نام

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت احمدیہ کے نئے مرکز کا نام ‘‘ربوہ’’رکھا جو مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ کی تجویز پر حضورؓ نے منظور فرمایا تھا۔16؍ستمبر 1948ء کو لاہور میں حضرت مصلح موعودؓ نے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے مشترکہ اجلاس میں نئے مرکز کے افتتاح کے لیے 20؍ستمبر کا دن مقرر فرمایا اور اس کے انتظامات کی بعض اہم ہدایات دیں۔

ربوہ کے افتتاح کی تیاریاں

ربوہ شہر کی تعمیر کے لیے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے10؍افراد پر مشتمل ایک کمیٹی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد ؓ صاحب کی زیر صدارت تشکیل دی ۔ افتتاح کی تاریخ طے ہو جانے کے بعد حضور ؓکی ہدایات کی روشنی میں صدر انجمن اور تحریک جدید نے فوری طور پر انتظامات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس مقصد کے لیے 19؍ستمبر کو ربوہ کے لیے لاہور سے دو قافلے روانہ ہوئے۔ پہلا قافلہ چوہدری عبدالسلام اختر صاحب اور مولانا چوہدری محمد صدیق صاحب پر مشتمل تھا جس نے رات ربوہ گزاری۔ ان دونوں افراد نے مل کر ربوہ میں پہلا خیمہ بغیر کسی مزدور کی مدد کے اپنے ہاتھ سے نصب کرنے کی سعادت بھی پائی۔ان دونوں بزرگان نے ایک چھولداری کو درست کیا اور میدان کے وسط میں بغیر کسی مدد کے اس کو نصب کر دیا۔ افتتاحی تقریب کے لیے نصب خیموں کے ساتھ ساتھ 6 رہائشی خیمہ جات بھی نصب کیے تھے۔

(ربوہ دار الہجرت از خادم حسین صاحب صفحہ 30-31) (تاریخ احمدیت جلد 12صفحہ 428-429)

دوسرا قافلہ مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب کی امارت میں شام پانچ بجے لاہور سے بس کے ذریعہ براستہ فیصل آباد (لائلپور)رات گیارہ بجے چنیوٹ پہنچا۔ اس قافلے نے رات چنیوٹ میں سڑک کے کنارے گزاری اور اگلے روز یعنی 20؍ستمبر کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ربوہ پہنچا۔اس قافلہ میں صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے 34؍عہدیداران شامل تھے۔

20؍ستمبر 1948ء کو سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ربوہ کی مبارک بستی کے افتتاح کی غرض سے تشریف لے گئے۔ ربوہ پہنچ کر آپؓ نے نماز ظہر باجماعت پڑھائی اور ایک خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں حضور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعائیں جو انہوں نے مکہ مکرمہ کی بنیاد رکھتے ہوئے پڑھی تھیں وہ بلند آواز سے پڑھیں اور شاملین ان دعاو ں کو دہراتے جاتے تھے۔

ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ اس مقدس بستی کا افتتاح کیا گیا۔ ربوہ کے چارو ں کونوں پر اور وسط میں ایک ایک بکرا ذبح کیا گیا۔ وسط میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خود اپنے دست مبارک سے بکرا ذبح کیا اور چاروں کونوں پر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ، حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی ، چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال تحریک جدید اور مولوی محمد صدیق صاحب مولوی فاضل نے ایک ایک بکرا ذبح کیا۔

(تاریخ احمدیت جلد 12صفحہ 443)

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ربوہ کو امریکی اور یورپی طرز پر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ آپؓ ربوہ کو ایک جدید اور مثالی شہر بنانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے آپؓ نے شروع میں ہی احباب جماعت کے سامنے کچھ قواعد رکھے کہ یہ شہر کیسے آباد کیا جائے گا۔اس ضمن میں حضور اقدس ؓ نے باریک سے باریک نصائح فرمائیں مثلاً مکانات کیسے ہوں، کتنی مدت میں تیار ہوں، کون لوگ یہاں آکر آباد ہوں، ان مکانات کی تعمیر کیسے کی جائے، دکانیں کیسی ہوں،سبزہ زار کس جگہ پر اور کیسے ہوں، سڑکیں اور گلیاں کتنی چوڑی ہوں، ربوہ میں کس چیز اور کس پیشہ کی زیادہ ضرورت ہوگی، نالیوں اور سیوریج کا نظام کیسا ہو، دفاتر کہاں تعمیر ہوں، بازار کہاں ہوں، فیکٹریاں اور کارخانے کہاں اور کونسے لگیں وغیرہ وغیرہ۔

ربوہ کا سروے کروا کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نقشہ تیار کرنے کی ہدایات جاری فرمائیں۔ ایک ایک چیز کے بارے میں تفصیلی ہدایت آپ نے خود دیں۔ سروے اور نقشہ کی تیاری کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت فضل الدین صاحب کمبوہ نے کیا۔ اس کے بعد جناب محمد مختار صاحب نے اس ذمہ داری کو انجام دیا۔(تاریخ احمدیت جلد 13صفحہ 31) اس ابتدائی نقشہ میں تقریباً نصف کے قریب زمین کھلے پارکوں، گرین بیلٹس اور سڑکوں کے لیے چھوڑی گئی تھی۔

(ربوہ دار الہجرت از ملک خادم حسین صاحب صفحہ 28)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ابتدا میں مستقل آبادی سے پیشتر عارضی مکانات اور جھونپڑیوں کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ نیز حضورؓنے ہدایات جاری فرمائی کہ تعمیراتی سامان ارزاں داموں اور کثیر تعداد میں خریدا جائے تاکہ دفاتر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی میسر ہو۔اس مقصد کے لیے سرکنڈے، عمارتی سامان اور کچی اینٹوں کی بڑی تعداد جمع کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح دروازوں او ر کھڑکیوں کے لیے ایک ماڈل تیار کرنے کی ہدایت فرمائی تاکہ ہر رہائشگاہ کے لیے فائدہ مند ہو سکے۔پانی کی قلت کے باوجود ربوہ میں ہی کچی اینٹیں تیار ہونے لگیں۔

7؍دسمبر 1948ء کو پہاڑوں کے دامن میں ربوہ کی پہلی عارضی عمارت کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ اس پہلی عمارت کے سنگ بنیاد کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓچنیوٹ سے تشریف لائے۔ اور اپنے ہاتھ سے سنگ بنیاد رکھا اس پہلی عمارت کی تعمیر کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ربوہ میں موجود تمام صحابہؓ نے ایک ایک اینٹ رکھی۔

(تاریخ احمدیت جلد 12صفحہ 47تا 50)

دوسری طرف حضور ؓنے اہل حرفت احباب کو ہدایت کی کہ وہ اپنی خدمات تعمیر ربوہ کے لیے پیش کریں۔ معمار، بڑھئی، مستری، حلوائی، نان بائی، حجام، دھوبی ، مزدور وغیرہ جس میں شامل تھے۔ اس پر کئی احمدی مخلصین نے اپنے امام کی آواز پر لبیک کہا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کس قدر ربوہ کی تعمیر کا جوش رکھتے تھے اس کا اندازہ حضورؓ کے ان الفاظ سے ہو سکتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:

‘‘یاد رکھو ہمارا ایک ایک دن بہت قیمتی ہے اور مرکز کے قیام میں ایک گھڑی کی تعویق بھی ہمارے لیےمضر ہے۔’’

(تاریخ احمدیت جلد 12صفحہ 50)

پانی کی دستیابی

ربوہ میں پانی کی دستیابی بہت اہم تھی۔ ربوہ میں بورنگ کا پہلا تجربہ پہاڑی کے دامن میں کیا گیا جہاں خیمے نصب تھے۔ کئی دنوں تک کھدائی کی گئی ، 75 فٹ تک کھدائی کے باوجود پانی کا نام و نشان نہ ملا۔ اس کے بعد ایک دوسری جگہ کھدائی شروع کی گئی لیکن 40 فٹ پر پہنچ کر بورنگ ٹیوب پھنس گئی۔ لیکن 11؍ اکتوبر 1948ء کو جب حضورؓ ربوہ میں تشریف لائے تو اس بور سے پانی نکل آیا۔ لیکن یہ پانی انتہائی کڑوا اور بدبودار تھا۔ اس کے بعد موجودہ جامعہ نصرت کے قریب ایک ٹیسٹ بور کیا گیا۔ 200 فٹ گہرائی سے جو پانی حاصل ہوا جب وہ پانی ٹیسٹ کے لیے فیصل آباد (لائلپور) بھیجا گیا تو اس کی رپورٹ درج ذیل آئی:

The Water is Unfit for Irrigation and Domestic Use

جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو یہ رپورٹ پیش کی گئی تو آپؓ نے بذریعہ تار ارشاد فرمایا:

Start Boring Near River in Rabwah Land Southern Part

حضور ؓکے اس ارشاد کی تعمیل میں چوہدری عبداللطیف صاحب نے دریائے چناب کے قریب بور کرایا۔ اس بورنگ سے جو پانی حاصل ہوا لائلپور زرعی کالج میں برائے ٹیسٹ بھیجا گیا تو رپورٹ ملی کہ یہ پانی زرعی استعمال کے لیے مفید ہے لہٰذا بعد میں جب پلاٹ بندی ہوئی تو اس جگہ کو ٹیوب ویل کے لیے محفوظ کرلیا گیا۔اس کے بعد مزید کئی جگہوں پر بورنگ اور کھدائی کی گئی۔ چھ ماہ کی محنت شاقہ کے بعد ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ تک 9نلکے لگ گئے لیکن اکثر کھارے یا نیم کھارے پانی کے تھے۔ جلسہ سالانہ کے اختتام کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی متضرعانہ دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور آپؓ کے ذریعہ غیب سے میٹھے پانی کا سامان فرمایا۔ جس کی تفصیل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یہ ہے:

‘‘جلسہ کے اختتام کے بعد جس دن ہم ربوہ سے واپس چلے (یعنی 21؍اپریل 1949ء بروز جمعرات)مجھے ایک الہام ہوا…مجھ پر ایک غنودگی سی طاری ہوگئی۔ اس نیم غنودگی کی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ میں خداتعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھ رہا ہوں ؎

جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب

پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا

میں نے اسی حالت میں سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں ‘‘جاتے ہوئے’’سے کیا مراد ہے؟ اس پر میں نے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اِس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہو سکالیکن جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے گا کہ جس سے ہمیں پانی با افراط میسر آنے لگے گا…‘‘پاؤں کے نیچے’’سے مراد یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے اسماعیل قرار دیا ہے۔ جس طرح وہاں اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے پانی بہ نکلا تھا اُسی طرح یہاں خداتعالیٰ میری دعاؤں کی وجہ سے پانی بہا دے گا۔ ’’

(خطبات محمود جلد 30صفحہ 106-107، خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اپریل 1949ء)

‘‘سو خداتعالیٰ نے اِس جلسہ کی وجہ سے کہ اس کے بندے ایک بڑی تعداد میں یہاں آئے اور اُنہوں نے اس کے ذکر کو بلند کیا اِس الہام کو بھی پورا کر دیا۔ جس طرح بادشاہ کے آنے پر لوگ تحفے دیا کرتے ہیں اسی طرح اس دفعہ خداتعالیٰ نے کہا میرے بندے آئے ہیں چلو اِنہیں تحفہ کے طور پر میٹھا پانی ہی دے دو۔ چنانچہ سرکاری ٹکڑوں میں جہاں میرا گھر بنایا جانا تجویز کیا گیا ہے اُسی جگہ کے نیچے خداتعالیٰ نے پانی نکال دیا ہے۔پہلے یہاں پانی نہیں نکلتا تھا ہم نے لائلپور کے محکمہ کے ذریعہ تین جگہ بورنگ کروائی مگر بے سُود لیکن عین اُس جگہ کے نیچے جہاں میرا مکان تجویز کیا گیا تھا پانی نکل آیا۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہے کہ کنویں پر انجن لگا ہوا ہے اور وہی پانی آپ لوگ استعمال کر رہے ہیں۔’’

(قادیان سے ہماری ہجرت آسمانی تقدیر تھی، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 362،361)

اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس وادی غیر ذی زرع کو ہرا بھرا کرنے کے لیے پانی کے سامان بھی میسر فرما دیے۔

پیشگوئی مصلح موعودکے الفاظ‘‘دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ’’کا بھی ربوہ کی سرزمین کی آباد کاری سے گہرا تعلق ہے۔ 20؍ستمبر 1948ء کو نئے مرکز کا افتتاح ہوا جو کہ دوشنبہ (سوموار)کا دن تھا وہ بھی مبارک دن ہے اور پھر حضورؓ19؍ ستمبر 1949ء کو مستقل سکونت کے لیے ربوہ تشریف لائے۔ یہ بھی دوشنبہ کا دن جسے نئے مرکز کے لیے مبارک قرار دے دیا گیا۔ یہ الہام ایک بار پھر 3؍ اکتوبر 1949ء کو پورا ہواجب ربوہ کی پہلی مستقل مسجد ،مسجدمبارک کا سنگِ بنیاد حضور ؓنے اپنے دستِ مبارک سے رکھا۔ مسجد مبارک کا نقشہ حفیظ الرحمان واحد صاحب نے تیار کیا جبکہ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹیؓ صحابی حضرت مسیح موعودکی نگرانی میں مسجد مبارک اگست 1951ء میں مکمل ہوئی۔ حضور نے 23؍ اگست 1951ء میں اس میں پہلا خطبہ ارشاد فرمایا۔ ربوہ میں ابتدا سے ہی مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ دی گئی۔ہر محلےکی اپنی مسجد تعمیر ہوئی۔ اور جوں جوں ربوہ میں گھروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ویسےہی یہاں خانہ خدا میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ اس وقت ربوہ کے طول و عرض میں 70 سے زائد مساجد ہیں۔ جس میں مسجد اقصیٰ سب سے بڑی مسجد ہے۔ نیز 20؍ستمبر 1948ءکو جس جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے پہلی نماز پڑھائی تھی اس جگہ بھی مسجد یادگار کے نام سے ایک مسجد قائم ہے۔
نئے مرکز میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے پہلا جمعہ 30؍ستمبر 1949ء کو پڑھایا۔

بہشتی مقبرہ

ربوہ کے ابتدائی نقشہ میں ربوہ کی شمالی جانب پہاڑیوں کے دامن میں 75کنال پرمشتمل اراضی قبرستان بہشتی مقبرہ کے نام سے مختص کی گئی تھی۔ 1989ء میں اس میں توسیع کرتے ہوئے مزید 24کنال اراضی شامل کی گئی اوراب یہ کل 99کنال پرمشتمل ہے۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں سب سے پہلی تدفین محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری برکت علی صاحب وکیل المال اوّل تحریک جدید کی ہوئی جنہوں نے 27؍اپریل 1949ء کو وفات پائی تھی۔

(ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جون 2005ء)

ربوہ میں پہلا جلسہ سالانہ

جماعت احمدیہ کا سر زمین ربوہ پر پہلا جلسہ سالانہ 15؍تا 17 ؍اپریل 1949ء کو منعقد ہوا۔ جس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ شمولیت کے لیے لاہور سے تشریف لائے۔ غیر معمولی طور پر اس بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں سولہ ہزار سے زائد افراد اس جلسہ میں شامل ہوئے۔پہاڑی کے دامن میں لنگر خانہ قائم کیا گیا جہاں 45تنور لگائے گئے۔ مہمانوں کی رہائش کے لیے ریلوے اسٹیشن کے دونوں طرف دور دور تک200 بیرکس تعمیر کی گئیں۔ بہت سے احباب نے اپنے طور پر میدان میں خیمے لگائے۔

(الفضل 23؍اپریل 1949ءنیز تاریخ احمدیت جلد13 صفحہ 71)

ربوہ کے محلہ جات اور شاہرات

تعمیر نئے مرکز کے سلسلہ میں جب محلہ جات بنائے گئے تو ان کو الف۔ ب۔ ج۔ د۔ س۔ص اور ط کے نام دیے گئے۔ ستمبر 1950ء میں حضور کے حکم پر ان محلہ جات کے مندرجہ ذیل نام رکھے گئے:

دارالیمن (الف)، باب الابواب (ب)، دارالنصر (ج)دارالبرکات(د)،دارالرحمت(س)،دارالصدر(ص)، دارالفضل(ط)۔ الاٹمنٹ پلاٹس سب سے پہلے دارالیمن اور دارالصدر کی ہوئی۔پھر باب الابواب اور دارالفضل کی الاٹمنٹ کی گئی۔ دارالصدر میں سب سے پہلی کوٹھی نواب محمد احمد صاحب کی تعمیر ہوئی۔ دارالیمن میں پہلا ذاتی مکان ٹھیکیدار نور احمد صاحب نے تعمیر کیا۔ باب الابواب میں پہلا مکان چوہدری عبداللطیف صاحب نے اور دارالفضل میں کیپٹن نواب دین صاحب نے پہلا مکان بنایا۔

(تاریخ احمدیت جلد 13صفحہ 216)

ربوہ کی ابتدائی شاہرات کے نام درج ذیل رکھے گئے:

شارع مبارک، محطہؔ ، روضہؔ، تجارتؔ، بعیدؔ، جامعہؔ، مصلیؔ، مبداءؔ، یُمنؔ، صحتؔ، معبّرؔ، اور رحمتؔ۔

ربوہ میں پہلا مرکزی ادارہ

ربوہ میں مرکزی ادارہ جات میں سے سب سے پہلے جس ادارہ کی بنیاد رکھی گئی وہ دار الضیافت یعنی لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھا۔ شروع سے ہی مہمانوں کی مہمان نوازی کا انتظام کیا جاتارہا۔1968ء میں پہلی بار لنگرخانہ میں گیس کا کنکشن لگا۔

(الفضل 12؍ اپریل 2008ء )

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت وسیع ، شاندار اور جدید عمارت دار الضیافت کی موجود ہے۔ جس میں اندرون و بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کی حتی الوسع خدمت کی جاتی ہے۔ اسی طرح متعدد گیسٹ ہاؤسز بھی ربوہ میں قائم ہیں۔

ربوہ میں دفاتر اور دیگر عمارتوں کی تعمیر

مرکز کے افتتاح کے بعد یہاں عارضی دفاتر تو قائم کر دیے گئے تاہم مستقل دفاتر کی تعمیر کا سلسلہ 1950ء میں شروع ہوا۔

29؍مئی 1950ء کو حضور نے اپنے ذاتی مکان کا سنگ بنیاد رکھا۔

31؍مئی 1950ء کو حضور نے درج ذیل عمارتوں کا سنگِ بنیاد رکھا:

تعلیم الاسلام ہائی سکول،قصرِخلافت، دفاتر تحریک جدید،دفاتر صدرانجمن احمدیہ اور دفاتر لجنہ اماء اﷲ مرکزیہ۔

(ربوہ دار الہجرت از ملک خادم حسین صاحب صفحہ 88-87 نیز تاریخ احمدیت جلد 13 صفحہ 219)

ان مرکزی دفاتر کا افتتاح حضرت مصلح موعودؓ نے 19؍ نومبر1953ء کو فرمایا ۔(تاریخ احمدیت جلد 17 صفحہ 111-110)وقت کے ساتھ ساتھ ان کی توسیع کا کام جاری رہا۔ اس وقت ان تمام وفاتر کی جدید عمارتیں ربوہ کی زینت میں اضافہ کر رہی ہیں۔

دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا سنگ بنیاد حضورؓ نے 6؍ فروری 1952ء کو جبکہ دفتر انصار اﷲ مرکزیہ کا سنگِ بنیاد 20؍ فروری 1956ء کو رکھا۔

ریلوے اسٹیشن

ریلوے اسٹیشن کی منظوری مارچ 1949ء میں ہو گئی چنانچہ 25؍مارچ 1949ء کے الفضل میں اسٹیشن کی منظوری کا اعلان شائع ہوا۔ یکم اپریل 1949ء سے ریلوے اسٹیشن ربوہ پر گاڑیوں نے سٹاپ کرنا شروع کیا۔ مارچ 1950ء میں مستقل اسٹیشن کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا اور اپریل 1950ءسے مال و اسباب کی بکنگ ربوہ سے شروع ہو گئی۔ ریلوے اسٹیشن کے پہلے اسٹیشن ماسٹر مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب آف نارووال مقرر ہوئے۔

(تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 216 و ربوہ دار الہجرت از ملک خادم حسین صاحب صفحہ96-95)

ڈاک خانے کا قیام

ڈاک خانےکا قیام 14؍ستمبر 1949ء سے ہوا اور مکرم بابو برکت اﷲ صاحب سب پوسٹ ماسٹر نے سمندری سے نئے مرکز آکر ڈاک خانےکا کام شروع کر دیا۔29؍جنوری 1951ء سے ڈاک خانے کے ساتھ تار گھر بھی کھول دیا گیا۔

(ربوہ دار الہجرت از ملک خادم حسین صاحب صفحہ 109)

بازار

نئے مرکز میں ابتدائی بازار کچا بازار کہلاتا تھا۔یہ موجودہ دارالرحمت وسطی و شرقی کے درمیان تعمیر ہوا۔ حضورؓ 19؍ ستمبر1949ء کو نئے مرکز آئے تو 20؍ستمبر کو حضور نے بازار بھی ملاحظہ فرمایا جس میں اس وقت تک 28؍دکانیں بن چکی تھیں۔ حضور ؓنے خوشی کا اظہار فرمایا اور دکانوں کی اصلاح کے لیے ہدایات بھی دیں۔ نئے مرکز میں پہلی دکان قریشی فضل حق صاحب اور قریشی محمد اکمل صاحب نے کھولی ۔

(الفضل 14؍اکتوبر 1949ء)

تعلیمی ادارہ جات و لائبریریاں

تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا تو جامعہ احمدیہ کے اساتذہ و طلباء 10 نومبر 1947ء کو کانوائے کے ذریعہ قادیان سے لاہور آگئے جہاں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کا مخلوط ادارہ جاری ہوا۔ جامعہ احمدیہ دسمبر 1947ء میں لاہور سے چنیوٹ اور فروری 1948ء میں احمدنگر منتقل ہوگیا۔ جہاں سے 22 فروری 1955ء کو ربوہ میں منتقل ہوا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 3؍اپریل 1987ء کو تحریکِ وقف نو کا اجرا فرمایا تو جامعہ احمدیہ کو وسیع کرنے کا منصوبہ شروع ہوا۔

 چنانچہ سابق طبیہ کالج (دارالنصر) کے احاطہ میں جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن کی ایک نئی عمارت تعمیر کی گئی جس کا افتتاح حضرت صاحبزادہ مرزامسروراحمدصاحب ناظرِاعلیٰ وامیرِمقامی (خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ الودود) نےیکم ستمبر2002ءکوفرمایا۔

اب اللہ تعالی کے فضل سے جامعہ احمدیہ مزید وسعت اختیار کر گیا ہے اور دو پانچ پانچ منزلہ ہوسٹلز کے ساتھ ساتھ 900سے زائد طلبہ اس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔حال ہی میں حسبِ ارشاد حضورِ انور جامعہ احمدیہ کے دونوں سیکشنز جونیئر و سینئر کو مدغم کر دیا گیا ہے۔

نصرت گرلز ہائی سکول اپریل 1949ء میں لاہور سے نئے مرکزمنتقل ہوا۔ ربوہ میں قائم ہونے والا یہ پہلا تعلیمی ادارہ تھا۔

ہجرت کے بعد تعلیم الاسلام کالج لاہور میں، تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ اور مدرسہ جامعہ احمدیہ احمد نگر میں قائم کیے گئے تھے۔یہ تمام ادارہ جات وقت کے ساتھ ساتھ جدید ہوتے گئے۔

اس وقت ربوہ میں جامعہ احمدیہ کی دو جدید بلڈنگز ہیں۔ متعدد سکول و کالج قائم ہیں جن کی عمارات جدید سہولیات سے آراستہ ہیں۔ اور ربوہ تعلیمی میدان میں پاکستان کے باقی سب شہروں کے لیےنمونہ ہے۔

جامعہ نصرت برائے خواتین کا افتتاح 14؍جون 1951ء کو حضورؓ نے فرمایا ۔یہ حضور ؓکی کوٹھی میں قائم کیا گیا تھا۔ اسے اگلے سال دفتر لجنہ میں جبکہ 1953ء میں اپنی موجودہ عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔

(تاریخ احمدیت جلد 13صفحہ 311)

تعلیم الاسلام کالج کی عمارت کا سنگ بنیاد 26؍جون 1953ء کو رکھا گیا۔ 7؍نومبر 1954ء کو کالج لاہور سے نئے مرکز کی نئی عمارت میں منتقل ہو گیا۔ 6؍دسمبر 1954ء کو حضرت مصلح موعود ؓنے اس کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔

فضل عمرانسٹیٹیوٹ کی عمارت کا ربوہ میں افتتاح 25؍ جون1953ء کو حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا۔ اس کی عمارت تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے شرقی جانب تعمیر کی گئی تھی۔

(تاریخ احمدیت جلد 17 صفحہ 50)

مئی1953ءمیںحضرت مصلح موعودؓ اور صدر انجمن احمدیہ کی قادیان سے منتقل شدہ لائبریری یکجا کر دی گئی۔ اس لائبریری کے لیےقصر خلافت کے ساتھ ایک پختہ عمارت تعمیر کی گئی۔ بعد ازاں خلافت لائبریری کے نام سے ایک مستقل لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔

(تاریخ احمدیت جلد 14 صفحہ 412)

فضل عمر ہسپتال

فضل عمر ہسپتال ربوہ کا آغاز 21؍ اپریل 1949ء کو ایک خیمہ میں ہوا جس کی نگرانی صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے سپرد تھی۔ ان دنوں ڈاکٹر حشمت اﷲ صاحب لاہور میں قیام رکھتے تھے ان کی آمد پر وہ نگران مقرر ہوئے۔ فضل عمر ہسپتال کی پختہ عمارت کا سنگ بنیاد 20؍فروری 1956ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے رکھا۔

ربوہ میں ٹیلی فون اور بجلی کا نظام

31؍مئی 1951ء کو نئے مرکز میں ٹیلی فون کنکشن لگا۔ ایک فون ڈاکخانہ میں لگا دیا گیا۔ پہلا فون شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کا آیا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے پہلا فون درویشان قادیان کو کیا۔ دسمبر 1956ء میں ایکسچینج کا قیام عمل میں آیا اور جنوری 1957ء میں ٹیلی فون ایکسچینج نے بھی کام شروع کر دیا اور یوں دفاتر اور ذاتی ضرورت کے لیے احباب کو فون کی سہولت مل گئی۔

(تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 374و ربوہ دار الہجرت از ملک خادم حسین صاحب صفحہ 110)

اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ بھر میں جدید ٹیلی فون، موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔

اور دنیا کے دوسرے شہروں کی طرح ربوہ سے ساری دنیا کا رابطہ چند سیکنڈوں کا محتاج ہے۔

9 ؍جون 1954ء کو ربوہ میں بجلی کا پہلا کنکشن لگا اس کا افتتاح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مسجد مبارک کی بجلی کا سوئچ آن کر کے کیا۔

(ربوہ دار الہجرت از ملک خادم حسین صاحب صفحہ 111)

ربوہ میں تھانہ

نئے مرکز کا رقبہ تھانہ لالیاں کی حدود میں تھا جو آٹھ میل کے فاصلہ پر تھا۔ 22؍جون 1958ء کو ربوہ میں پولیس چوکی قائم ہوئی۔

ربوہ۔ ایک زندہ نشان

یوں دیکھتے دیکھتے یہ ویرانہ ایک گنجان آباد شہر بن گیا۔ ربوہ کی شورہ زدہ بنجر زمین چند سالوں میں سبزہ زار کی شکل اختیار کر گئی۔ وہ زمین جہاں کوئی ایک پھل اور سبزی اُگ آنا ناممکن خیال کیا جاتا تھا آج وہاں دنیا کی ہر نعمت موجود ہے۔بچھوؤں اور سانپوں کی پناہ گاہ یہ قطعہ زمین جہاں رات کو گزرنا تو دور دن کے وقت بھی لوگ یہاں کا سفر پسند نہیں کرتے تھے وہاں آج ہزاروں نفوس پر مشتمل ایک مثالی معاشرہ قائم ہے۔ ربوہ ہر دن ترقی کی جانب گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ بستی ربوہ ‘عافیت کا حصار’ہے۔ صحیح معنوں میں ربوہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے تیار ہوا شہر ہے اور پاکستان کے باقی شہروں کے لیے مثال ہے۔ ربوہ اس وقت ہر طرح کی جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔ بہترین تعلیمی ادارہ جات ہیں، state of the art ہسپتال طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کی شکل میں یہاں موجود ہے۔ روحانی مائدہ کے لیے 70 سے زائد مساجد روزانہ دن میں پانچ مرتبہ اس چھوٹے سے شہر میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتی ہیں۔ ربوہ کا چھوٹا سا شہر مرجع خلائق ہے اور رہتی دنیا تک ایک مسیحا نفس کا زندہ معجزہ شمار ہوگا۔ ان شاء اللہ

پاکستان کے ایک مشہور صحافی مولانا وقار انبالوی نے اخبار سفینہ 13؍ نومبر 1948ء میں ربوہ کے قیام کے وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا تھا :

‘‘ایک مہاجر کی حیثیت سے ہمارے لیے ربوہ ایک سبق ہے ۔ساٹھ لاکھ مہاجر پاکستان آئے لیکن اس طرح کہ وہاں سے بھی اُجڑے اور یہاں بھی کسمپرسی نے انہیں منتشر رکھا۔ یہ لوگ مسلمان تھے ۔ رب العالمین کے پرستار اور رحمة للعالمین کے نام لیوا، مساوات و اخوت کے علم بردار۔ لیکن اتنی بڑی مصیبت بھی انہیں یکجا نہ کر سکی۔ اس کے برعکس ہم اعتقادی حیثیت سے احمدیوں پر ہمیشہ طعنہ زن رہے ہیں لیکن ان کی تنظیم، ان کی اخوّت اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی حمایت نے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا قادیان آباد کرنے کی ابتدا کر دی ہے…ربوہ ایک اور نقطہ نظر سے بھی ہمارے لیےمحل نظر ہے وہ یہ کہ حکومت بھی اس سے سبق لے سکتی ہے اور مہاجرین کی صنعتی بستیاں اس نمونہ پر بسا سکتی ہے۔ اس طرح ربوہ عوام اور حکومت کے لیے ایک مثال ہے اور زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ لمبے چوڑے دعوے کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور عملی کام کرنے والے کوئی دعوے کیے بغیر کچھ کر دکھاتے ہیں۔’’

(تاریخ احمدیت جلد 12صفحہ 61)

تیری عظمت کا دے رہی ہے پتہ تیری آباد کی ہوئی بستی

اس کی ہر اینٹ سے ہویدا ہے تیری جرأت تیری اولوالعزمی

ربوہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک زندہ نشان ہے۔ربوہ کے متعلق آپ ہی کےالفاظ پر خاکسار اپنے مضمون کو ختم کرتا ہے:

‘‘ربوہ کو خداتعالیٰ نے مسیح موعود کا دوسرا مسکن مقرر فرمایا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسیح موعود کی الہامی جائے پناہ قرار دیا ہے۔ میرے الہامات نے اس پیشگوئی کے قرب میں پورا ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سو اب یہ مقدس ہے جس طرح خداتعالیٰ کی مقدس جگہیں ہوتی ہیں…اب یہ جگہ ہمیشہ کے لیے بابرکت ہے خواہ ہمیں اِسے کسی وقت چھوڑنا ہی پڑے۔ اس کی برکت اس سے کبھی چھینی نہیں جائے گی بلکہ پیش گوئیوں سے جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ قیامت سے پہلے یہ جگہ ضرور ایک دفعہ علم محمدی کے سربلند کرنے کا موجب ثابت ہوگی اور اسرافیل یہاں سے ایک دفعہ ضرور اپنا صور پھونکے گا ۔’’

(قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 367تا 371)

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button