خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 10؍جون 2022ء
سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ذکر میں جنگِ یمامہ کے بارے میں ذکرچل رہا تھا۔
سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ احد اور جنگ یمامہ میں حضرت ام عمارہ ؓکی جرأت و بہادری کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب:فرمایا:ام عمارہ جو تاریخِ اسلام کی بہت بہادر خواتین میں سے ایک صحابیہ تھیں ان کا نام نُسَیبہبنت کعب تھا۔ یہ غزوۂ احد میں بھی شریک ہوئیں اور نہایت پامردی سے لڑیں۔ جب تک مسلمان فتح یاب تھے وہ مشک میں پانی بھر بھر کر لوگوں کو پلا رہی تھیں لیکن جب شکست ہوئی تو آنحضرتﷺ کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر ہو گئیں۔ کفار جب آپﷺ کی طرف بڑھتے تو یہ تیر اور تلوار سے روکتی تھیں۔ آنحضرتﷺ نے بعد میں خود فرمایا کہ مَیں احد میں ان کو اپنے دائیں اور بائیں برابر لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ابن قمِئَہ جب آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گیا تو ام عمارہؓ نے اس کو بڑھ کر روکا۔ چنانچہ اس کے وار سے حضرت ام عمارہؓ کے کندھے پر گہرا زخم آیا۔انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے کارگر نہ ہوئی۔ بہرحال یہ ام عمارہ کا تاریخی مقام ہے یہ بیان کرتی ہیں کہ ان کے بیٹے عبداللہ نے مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ حضرت ام عمارہؓ اس روز خود بھی جنگِ یمامہ میں شامل تھیں اور اس میں ان کا ایک بازو کٹ گیا تھا۔ حضرت ام عمارہؓ کے اس جنگ میں شامل ہونے کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ … حضرت حبيبؓ مسیلمہ کے پاس جب خط لے کر گئے تو اس وقت اس نے حضرت حبيبؓ کو اس طرح ايک ايک عضو کاٹ کے شہيد کيا اور پھر آگ ميں جلا ديا۔جب حضرت ام عمارہؓ کو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ خود مسیلمہ کذاب کا سامنا کریں گی اور یا اس کو مار ڈالیں گی یا خود خدا کی راہ میں شہید ہو جائیں گی۔جب حضرت خالد بن ولیدؓ نے یمامہ کے لیے لشکر تیار کیا تو ام عمارہؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جنگ میں شمولیت کے لیے آپؓ سے اجازت طلب کی۔حضرت ابوبکرؓنے فرمایا کہ آپ جیسی خاتون کے جنگ کے لیے نکلنے میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی۔ اللہ کا نام لے کر نکلیں۔ اس جنگ میں ان کا ایک اَور بیٹا عبداللہ بھی شریک تھا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب ہم یمامہ پہنچے تو شدید جنگ ہوئی۔ انصار نے مدد کے لیے پکارا اور مسلمان مدد کے لیے پہنچے۔ جب ہم باغ کے سامنے پہنچے تو باغ کے دروازے پر اژدہام ہو گیا اور ہمارے دشمن باغ میں ایک طرف تھے اور اس جانب تھے جس طرف مسیلمہ تھا۔ ہم اس میں زبردستی گھس گئے اور کچھ دیر تک ہم نے ان سے جنگ کی۔ اللہ کی قسم! مَیں نے ان سے زیادہ اپنی مدافعت کرنے والا نہیں دیکھا اور مَیں نے دشمنِ خدا مسیلمہ کا قصد کیا کہ اسے پاؤں اور دیکھوں۔ مَیں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر مَیں نے اسے دیکھ لیا تو مَیں اس کو چھوڑوں گی نہیں۔ اس کو ماروں گی یا خود مر جاؤں گی۔ لوگ آپس میں حملہ آور ہوئے ان کی تلواریں آپس میں ٹکرانے لگیں گویا کہ وہ بہرے ہو گئے اور سوائے تلوار کی ضرب کی آواز کے اَور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔یہاں تک کہ مَیں نے اللہ کے دشمن کو دیکھا۔ مَیں نے اس پر حملہ کر دیا۔ ایک شخص میرے سامنے آیا اس نے میرے ہاتھ پر ضرب لگائی اور اسے کاٹ دیا۔ اللہ کی قسم! مَیں ڈگمگائی نہیں تاکہ مَیں اس خبیث تک پہنچ جاؤں اور وہ زمین پر پڑا تھا اور مَیں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو وہاں پایا اس نے اسے مار دیا تھا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ام عمارہؓ بیان کرتی ہیں کہ میرا بیٹا اپنے کپڑے سے اپنی تلوار کو صاف کر رہا تھا مَیں نے پوچھا کیا تم نے مسیلمہ کو قتل کیا ہے؟ اس نے کہا ہاں اے میری والدہ! مَیں نے اللہ کے سامنے سجدہ شکر کیا حضرت ام عمارہؓ کہتی ہیں کہ اللہ نے دشمنوں کی جڑ کاٹ دی۔ جب جنگ ختم ہو گئی اور مَیں اپنے گھر واپس لوٹی تو حضرت خالد بن ولیدؓ ایک عرب طبیب کو میرے پاس لے کر آئے۔ اس نے ابلتے ہوئے تیل کے ساتھ میرا علاج کیا۔ اللہ کی قسم! یہ علاج میرے لیے ہاتھ کٹنے سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ حضرت خالدؓ میرا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور ہم سے حسن سلوک کرتے تھے۔ ہمارا حق ہمیشہ یاد رکھتے تھے اور ہمارے بارے میں نبی کریمﷺ کی وصیت کا خیال رکھتے تھے۔
سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ یمامہ میں شامل اصحابؓ اورحضرت معن بن عدیؓ کی بہادری کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب:فرمایا: مُجَّاعَہکہتے ہیں کہ جب وہ حضرت ابوبکرؓکے پاس جنگِ یمامہ کے ختم ہونے کے بعد وفد میں آئے تو حضرت ابوبکرؓ ایک روز شہداء کی قبروں کی زیارت کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا رہے تھے۔ مَیں بھی ان کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ اور آپؓ کے ساتھی ستر صحابہ کی قبروں پر گئے۔ مَیں نے عرض کیا اے خلیفہ رسول! مَیں نے جنگِ یمامہ میں شامل ہونے والے اصحاب سے زیادہ کسی کو تلواروں کے واروں کے سامنے ثابت قدم رہنے والا نہیں دیکھا اور نہ ان سے زیادہ شدت سے حملہ کرنے والا دیکھا ہے۔ مَیں نے ان میں ایک شخص کو دیکھا۔ اللہ ان پر رحم کرے۔ میری اور ان کی دوستی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا( پہچان گئے آپ) کہ معن بن عدی؟مَیں نے عرض کیا ہاں اور حضرت ابوبکرؓ میری اور ان کی دوستی کو جانتے تھے۔ آپؓ نے فرمایا اللہ ان پر رحم کرے تم نے ایک صالح شخص کا ذکر کیا ہے۔ مَیں نے کہا اے خلیفہ رسول! گویا مَیں اب بھی چشمِ تصور میں انہیں دیکھ رہا ہوں اور مَیں خالد بن ولید کے خیمے میں بندھا ہوا تھا۔ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور اس شدت سے قدم اکھڑے کہ مَیں نے سمجھا کہ اب ان کے قدم دوبارہ جم نہیں سکیں گے اور مجھے یہ ناگوار لگا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا بخدا! واقعی تمہیں ناگوار گزرا تھا؟ کیونکہ یہ مرتد ہو گیا تھا اور اسی لیے قید کیا گیا تھا۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے یہ ناگوار گزرا۔ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا کہ اس پر مَیں اللہ کی حمد کرتا ہوں۔ مُجَّاعَہکہتے ہیں مَیں نے مَعْن بن عدی کو دیکھا وہ سر پر سرخ کپڑا پہنے ہوئے پلٹ کر حملہ کر رہے تھے۔ تلوار کندھے پر رکھی ہوئی تھی اور اس سے خون ٹپک رہا تھا۔ وہ پکار رہے تھے اے انصار! پوری قوت سے حملہ کرو۔ مُجَّاعَہکہتے ہیں کہ انصار نے پلٹ کر حملہ کیا اور اتنا شدید حملہ تھا کہ انہوں نے دشمن کے قدم اکھاڑ دیے۔ مَیں خالد بن ولیدؓ کے ساتھ چکر لگا رہا تھا۔ مَیں بنو حنیفہ کے مقتولین کو پہچانتا تھا۔ مَیں انصار کو بھی دیکھ رہا تھا وہ شہید ہو کر گرے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر رو پڑے یہاں تک کہ آپؓ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔
سوال نمبر5: مجاعہ بن مرارہ نے بنوحنیفہ کو بچانے کے لیے حضرت خالدبن ولید ؓکے سامنے کیا چال چلی؟
جواب:فرمایا:جب حضرت خالد ؓکو مسیلمہ کے قتل کی خبر دی گئی تو وہ مُجَّاعَہکو بیڑیوں میں جکڑ کر ساتھ لائے تاکہ مسیلمہ کی شناخت کروائیں۔وہ لاشوں میں اسے دیکھتا رہا مگر وہاں مسیلمہ نہ ملا۔ پھروہ باغ میں داخل ہوا تو ایک پستہ قد، زرد رنگ، چپٹی ناک والے آدمی کی لاش نظر آئی تو مُجَّاعَہ نے کہا یہ مسیلمہ ہے جس سے تم فراغت حاصل کر چکے ہو۔اس پر حضرت خالدؓ نے کہا یہ ہے وہ آدمی جس نے تمہارے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے۔ مُجَّاعَہکیونکہ قید تھا، بنو حنیفہ کا نمائندہ تھا، سردار تھا۔ اس لیے ان کو بچانا بھی چاہتا تھا۔ مرد تو اکثر مر چکے تھے لیکن اس نے ایک چال چلی۔ باقی جو لوگ قلعہ میں بند تھے ان کو بچانے کے لیے اس نے فریب کیا اور حضرت خالد بن ولیدؓ سے ایک صلح کا معاہدہ کیا۔ اس نے حضرت خالد بن ولیدؓ سے کہا کہ یہ لوگ جو تمہارے مقابلے میں جنگ کے لیے نکلے تھے یہ تو صرف جلد باز لوگ تھے جبکہ قلعے تو ابھی بھی جنگجوؤں سے بھرے ہوئے ہیں۔ حضرت خالدؓ نے کہا تم پر ہلاکت ہو تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ اس پر مُجَّاعَہ نے کہا بخدا! جو کہہ رہا ہوں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ پس آؤ اور میرے پیچھے موجود میری قوم کی طرف سے مجھ سے صلح کر لو۔ دھوکے سے اس نے یہ باتیں کیں بہرحال آگے اس کا واضح بھی ہو جائے گا۔ حضرت خالدؓ اس ہولناک جنگ میں مسلمانوں کو جس قدر جانی نقصان دیکھ چکے تھے اس کے پیش نظر انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اب جبکہ بنو حنیفہ کا سردار اور اصل باغی سرغنہ مع اپنے ساتھیوں کے مارا جا چکا ہے تو اب مسلمانوں کا مزید جانی نقصان نہ ہی کروایا جائے تو بہتر ہے چنانچہ حضرت خالدؓ نے صلح کے لیے رضا مندی ظاہر کر دی۔ حضرت خالدؓ کی طرف سے صلح کی ضمانت لے کر مُجَّاعَہنے کہا مَیں ان کے پاس جا کر ان سے مشورہ کرتا ہوں پھر وہ ان لوگوں کے پاس گیا جبکہ مُجَّاعَہ اچھی طرح جانتا تھا کہ قلعوں میں سوائے عورتوں بچوں اور انتہائی عمر کو پہنچے ہوئے بوڑھوں اور کمزوروں کے کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے انہیں زرہیں پہنائیں اور عورتوں سے کہا کہ میری واپسی تک وہ قلعے کی دیواروں پر چڑھ جائیں۔ پھر وہ حضرت خالدؓ کے پاس آیا اور کہا کہ جس شرط پر مَیں نے صلح کی تھی وہ اس کو قبول نہیں کرتے۔ جب حضرت خالدؓ نے قلعوں کی طرف دیکھا تو وہ آدمیوں سے بھرے ہوئے نظر آئے۔ زرہیں پہنا کےعورتیں وغیرہ وہاں بٹھا آیا تھا ۔ اس جنگ نے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا اور لڑائی بہت طویل ہو گئی تھی اس لیے مسلمان یہ چاہتے تھے کہ وہ فتح حاصل کر کے واپس چلے جائیں کیونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ اس لیے حضرت خالدؓ نے نسبتاً نرم شرائط پر، سونے، چاندی، اسلحہ اور نصف قیدیوں پر صلح کر لی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک چوتھائی پر صلح کی تھی۔جب قلعوں کے دروازے کھولے گئے تو ان میں سوائے عورتوں بچوں اور کمزوروں کے کوئی بھی نہیں تھا۔ اس پر حضرت خالدؓ نے مُجَّاعَہسے کہا تیرا بُرا ہو تُو نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ مُجَّاعَہنے کہا یہ میری قوم کے لوگ ہیں ان کو بچانا میرے لیے ضروری تھا۔ اس کے علاوہ مَیں اَور کیا کر سکتا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کا خط حضرت خالدؓ کو پہنچا کہ ہر بالغ کو قتل کر دیا جائے لیکن یہ خط اس وقت پہنچا کہ جب حضرت خالدؓ ان لوگوں سے صلح کر چکے تھے اس لیے انہوں نے اپنے عہد کو پورا کیا اور بد عہدی نہیں کی۔
سوال نمبر6: حضرت ابوبکرؓ کو جنگ یمامہ کی فتح کی خبرکس نے دی اوراس خبرپرحضرت ابوبکرؓ نے کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکراداکیا؟
جواب:فرمایا:حضرت ابوبکرؓ یمامہ کی طرف سے آنے والی خبروں کا بشدت انتظار فرماتے تھے اور جیسے ہی خالدؓ کی طرف سے کوئی ایلچی آتا تو آپؓ ان سے خبریں حاصل کرتے۔ ایک روز حضرت ابوبکرؓ دوپہر کے وقت گرمی میں نکلے۔ آپؓ صرار نامی مقام کی طرف جانا چاہتے تھےآپ کے ساتھ حضرت عمرؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، طلحہ بن عبیدا للہ ؓ اور مہاجرین و انصار کا ایک گروہ تھا۔ آپؓ ابو خیثمہ نجاری سے ملے جنہیں خالدؓ نے بھیجا تھا۔ جب انہیں حضرت ابوبکرؓنے دیکھا تو فرمایا اے ابوخیثمہ! کیا خبر ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول! اچھی خبر ہے۔ اللہ نے ہمیں یمامہ پر فتح عطا فرمائی ہے۔راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓنے سجدہ کیا۔ ابوخیثمہ نے کہا کہ خالد کا آپؓ کے نام خط ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور آپؓ کے اصحاب نے اللہ کی حمد کی پھر آپؓ نے فرمایا مجھے جنگ کے بارے میں بتاؤ کہ کیسا رہا؟ ابو خیثمہ آپؓ کو بتانے لگے کہ خالدؓ نے کیا کیا کیا تھا اور کیسے اپنے ساتھیوں کی صف آرائی کی تھی اور کس طرح مسلمانوں کو ہزیمت پہنچی اور کون ان میں سے شہید ہوئے۔ حضرت ابوبکر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے لگے اور ان کے لیے رحم کی دعا کرنے لگے۔
سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ یمامہ میں شہید ہونے والےمسلمانوں کی تعدادکے حوالے سے کیا بیان فرمایا اورشہداءمیں سے کن مشہورصحابہؓ کے اسماءبیان فرمائے ؟
جواب:فرمایا:بعض روایات میں جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد سات سو، بارہ سو اور سترہ سو بھی بیان ہوئی ہے۔ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں شہید ہونے والوں میں سات سو سے زائد حفاظ قرآن تھے…ان شہداء میں بعض مشہور صحابہ کے نام یہ تھے۔ حضرت زید بن خطابؓ، حضرت ابو حُذیفہ بن عتبہ بن ربیعہؓ، حضرت سالم مولیٰ ابوحُذیفہؓ ، حضرت خالد بن اُسَیدؓ، حضرت حَکَم بن سعیدؓ ، حضرت طفیل بن عَمرودَوسیؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ کے بھائی حضرت سائب بن عوامؓ، حضرت عبداللہ بن حارث بن قَیسؓ، حضرت عَبَّادبن حارثؓ، حضرت عَبَّادبن بشؓر، حضرت مالک بن اوسؓ ، حضرت سُراقہ بن کعبؓ ، حضرت معن بن عدیؓ، خطیب رسولﷺ حضرت ثابت بن قَیس بن شَمَّاسؓ، حضرت ابودجانہؓ، رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کے مومن صادق فرزند حضرت عبداللہ بن عبداللہؓ اور حضرت یزید بن ثابت خزرجیؓ۔
سوال نمبر8: حضرت مصلح موعودؓ نے جھوٹے مدعیان نبوت سے جنگ کرنے کی کیا وجہ بیان فرمائی؟
جواب:فرمایا: حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے دعویٰ نبوت کیا اور جن سے صحابہؓ نے جنگ کی وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا…مسیلمہ نے تو خود رسول کریمﷺ کے زمانہ میں آپؐ کو لکھا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدھا ملک عرب کا ہمارے لئے ہے اور آدھا ملک قریش کے لئے ہے اور رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد اس نے ھَجَراور یمامہ میں سے ان کے مقرر کردہ والی ثُمامہ بن اُثا ل کو نکال دیا اور خود اس علاقہ کا والی بن گیا اور اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اسی طرح مدینہ کے دو صحابہ حَبِیب بن زیدؓ اور عبداللہ بن وہب کو اس نے قید کر لیا اور ان سے زور کے ساتھ اپنی نبوت منوانی چاہی۔ عبداللہ بن وہب نے تو ڈر کر اس کی بات مان لی مگر حَبِیب بن زیدؓ نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر مسیلمہ نے اس کا عضو عضو کاٹ کر آگ میں جلا دیا۔اسی طرح یمن میں بھی جو رسولِ کریمﷺ کے افسر مقرر تھے ان میں سے بعض کو قید کر لیا اور بعض کو سخت سزائیں دی گئیں۔ اسی طرح طبری نے لکھا ہے کہ اَسْوَد عَنْسی نے بھی علم بغاوت بلند کیا تھا اور رسولِ کریمﷺ کی طرف سے جو حکام مقرر تھے ان کو اس نے تنگ کیا تھا اور ان سے زکوٰة چھین لینے کا حکم دیا تھا۔ پھر اس نے صنعا میں رسولِ کریمﷺ کے مقرر کردہ حاکم شَھْربن باذان پر حملہ کر دیا تھا۔ بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا، لوٹ مار کی، گورنر کو قتل کر دیا اور اس کو قتل کر دینے کے بعد اس کی مسلمان بیوی سے جبراً نکاح کر لیا۔ بنو نجران نے بھی بغاوت کی اور وہ بھی اسود عَنْسی کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے دو صحابہ عمرو بن حزمؓ اور خالد بن سعیدؓ کو علاقہ سے نکال دیا۔ ان واقعات سے ظاہر ہے کہ مدعیانِ نبوت کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ رسولِ کریمﷺ کی امت میں سے نبی ہونے کے دعوےدار تھے اور رسولِ کریمﷺ کے دین کی اشاعت کے مدعی تھے بلکہ صحابہ نے ان سے اس لئے جنگ کی تھی کہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ کر کے اپنے قانون جاری کرتے تھے اور اپنے اپنے علاقہ کی حکومت کے دعوےدار تھے اور صرف علاقہ کی حکومت کے دعوےدار ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے صحابہ کو قتل کیا۔‘‘اسلامی ملکوں پر چڑھائیاں کیں، قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنی آزادی کا اعلان کیا۔
سوال نمبر9:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خالدبن ولیدؓ اور مجاعہ بن مرارہ کی بیٹی کےنکاح کے متعلق اعتراض کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: مؤرخین کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کو جب اس شادی کی خبر ملی تو حضرت ابوبکرؓ حضرت خالدؓ سے ناراض ہوئے لیکن جب حضرت خالدؓ نے تفصیلی وضاحت بذریعہ خط پیش خدمت کی تو حضرت ابوبکرؓ کی ساری ناراضگی جاتی رہی۔اس کی تفصیلات کے مطابق صلح ہو جانے کے بعد خالدؓ نے مُجَّاعَہسے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی آپؓ سے کر دے۔ مُجَّاعَہکو مالک بن نُوَیرہ کی بیوی لیلیٰ ام تمیم کا واقعہ اور حضرت ابوبکرؓکا حضرت خالدؓ سے شادی کی ناراضگی کا علم تھا چنانچہ اس نے کہا کہ رک جائیے۔ آپ میری کمر توڑ دینے کا باعث بنیں گے اور خود بھی حضرت ابوبکرؓکے عتاب سے بچ نہ سکیں گے لیکن حضرت خالد ؓنے کہا تُو اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے چنانچہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کر دی۔ ابوبکر ؓ یمامہ کی خبروں کے برابر منتظر رہتے تھے اور آپ کو خالدؓ کے خبر رساں کا انتظار رہتا تھا۔ ایک روز آپ شام کے وقت مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے ساتھ ایک مقام پر تھے کہ وہاں خالدؓکے فرستادہ ابوخَیثَمہ ؓسے ملاقات ہو گئی جبکہ ابوبکر ؓنے انہیں دیکھا تو ان سے دریافت کیا: پیچھے کیا خبریں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ خیر ہے اے خلیفہ رسول! اللہ تعالیٰ نے ہمیں یمامہ پر فتح نصیب فرمائی ہے اور لیجیے یہ خالدؓکا خط ہے…پھر حضرت خالدؓکی شادی کا بھی ذکر ہوا۔ حضرت ابوبکرؓنے انہیں خط لکھا کہ اے ام خالد کے بیٹے! تمہیں عورتوں سے شادی کی سوجھی ہے اور ابھی تمہارے صحن میں ایک ہزار دو سو مسلمانوں کا خون خشک نہیں ہوا اور پھر مُجَّاعَہ نے تمہیں فریب دے کر مصالحت کر لی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان پر مکمل قدرت عطا کر دی تھی۔ مُجَّاعَہ سے مصالحت اور اس کی بیٹی سے شادی کی وجہ سے خلیفہ رسول ابوبکرؓکی طرف سے یہ عتاب خالدؓ کو پہنچا تو آپ نے جوابی خط حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کیا جس میں اپنے موقف کی وضاحت اور اس کے دفاع میں لکھا۔ حضرت خالدؓ نے لکھاکہ امّا بعد! دین کی قسم، مَیں نے اس وقت تک شادی نہیں کی جب تک خوشی مکمل نہ ہو گئی اور استقرار حاصل نہ ہو گیا۔ مَیں نے ایسے شخص کی بیٹی سے شادی کی ہے کہ اگر میں مدینہ سے پیغام بھیجتا تو وہ انکار نہ کرتا۔ معاف کیجیے، مَیں نے اپنے مقام سے پیغام دینے کو ترجیح دی۔ اگر آپ کو یہ رشتہ دینی یا دنیاوی اعتبار سے ناپسند ہو تو مَیں آپ کی مرضی پوری کرنے کے لیے تیار ہوں۔ رہا مسئلہ مسلم مقتولین کی تعزیت کا تو اگر کسی کا حزن و غم کسی زندہ کو باقی رکھ سکتا یا مردہ کو لوٹا سکتا تو میرا حزن و غم زندہ کو باقی رکھتا اور مردہ کو لوٹا دیتا۔مَیں نے اس طرح حملہ کیا کہ زندگی سے مایوس ہو گیا اور موت کا یقین ہو گیا اور رہا مسئلہ مُجَّاعَہکی فریب دہی کا تو مَیں نے اپنی رائے میں غلطی نہیں کی لیکن مجھے علم غیب نہیں ہے۔ جو کچھ کیا اللہ نے مسلمانوں کے حق میں خیر کیا ہے۔ انہیں زمین کا وارث بنایا اور انجام کار متقیوں کے لیے ہے۔ جب یہ خط حضرت ابوبکرؓ کو موصول ہوا تو آپؓ کا غصہ جاتا رہا اور قریش کی ایک جماعت نے اور جو حضرت خالدؓکا خط لے کر آیا تھا اس نے بھی حضرت خالد کی طرف سے عذرخواہی کی تو حضرت ابوبکرؓنے فرمایا تم سچ کہہ رہے ہو اور حضرت خالد کی وضاحت اور معذرت قبول فرمائی۔
٭…٭…٭