سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

دراصل یہ بھی زندگی کاایک تجربہ تھا ایک امتحان تھا اورخداتعالیٰ آپؑ کے اخلاق عالیہ و فاضلہ اورآپ کی نیکی وتقویٰ وراستبازی پر ایک زمانے کوشاہداور گواہ بنانا چاہتاتھا

شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب استاذگرامی شاعر مشرق علامہ اقبال

(گذشتہ سے پیوستہ)میاں بوٹاکشمیری جن کے گھرمیں حضورؑ کی رہائش تھی بیان کرتے ہیں کہ ’’میں تو ان کو ولی اللہ جانتاہوں۔ ایک دفعہ میرے والد بیمارہوئے تمام ڈاکٹر اورحکیم جواب دے چکے کہ اب یہ نہیں بچے گا اورعلاج کرنا فضول ہے لیکن ہم نے حضرت مرزاصاحب کو بلایا آپ نے دعا فرمائی اور کچھ علاج بھی بتایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعا سے میرے والدصاحب کوشفا دی اور بہت سی ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوئیں۔‘‘ ( الفضل 8؍اکتوبر 1925ء صفحہ6کالم 3جلد13نمبر41، تاریخ احمدیت جلداول صفحہ85-86)

ایک روایت محترمہ مائی حیات بی بی صاحبہ کی ہے جو اوپر درج کی جاچکی ہے۔ جن کے گھرمیں اول اول حضورؑ کاقیام رہا۔ ان کی روایت کا یہ اقتباس دوبارہ ہمارے پڑھنے والاہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں:’’ہمارے نانا فضل دین صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب جب کچہری سے واپس آتے تو چونکہ آپ ا ہلمد تھے۔ مقدمہ والے زمیندار ان کے مکان تک ان کے پیچھے آ جاتے۔ تو مرزا صاحب فضل دین صاحب کو بلاتے اور کہتے کہ فضل دین میرا پیچھا ان سے چھڑا دو یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ فضل دین صاحب ان زمینداروں کو سمجھاتے کہ جو تمہارا کام ہے مرزا صاحب کچہری میں ہی کر دیں گے۔ گھر میں وہ کسی سے نہیں ملتے۔‘‘

سید میرحسن کی ایک روایت پہلے بیان ہوچکی ہے۔ سیالکوٹ میں وہ حضرت اقدسؑ کے ہم مجلس بھی رہے اور بہت سارے واقعات کے چشم دید گواہ بھی رہے وہ بیان کرتے ہیں:’’حسب عادت زمانہ صاحبِ حاجات جیسے اہل کاروں کے پاس جاتے ہیں۔ ان کی خدمت میں بھی آجایاکرتے تھے۔ اسی عمرامالک مکان کے بڑے بھائی فضل دین نام کو جو فی الجملہ محلہ میں موقر تھا۔ آپ بلا کرفرماتے۔ میاں فضل دین ان لوگوں کو سمجھادو کہ یہاں نہ آیاکریں۔ نہ اپنا وقت ضائع کیاکریں اورنہ میرے وقت کو برباد کیاکریں۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں حاکم نہیں ہوں۔ جتنا کام میرے متعلق ہوتاہے کچہری میں ہی کرآتاہوں …‘‘( سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر280)

روایت کے ان الفاظ پر غورکریں تو صاف معلوم ہوجاتاہے کہ ایسے الفاظ وہی کہہ سکتاہے کہ جو صرف اپنے کام سے کام رکھے اور کسی بھی قسم کی پیشہ وارانہ خیانتوں میں نہ پڑاہواورنہ جانتاہو۔

اسی روایت میں سیدمیرحسن کے یہ الفاظ آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہیں وہ بیان کرتے ہیں:’’حضرت مرزا صاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہرسیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اورفضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے…مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ تھے…‘‘

دراصل یہ بھی زندگی کاایک تجربہ تھا۔ ایک امتحان تھا اورخداتعالیٰ آپؑ کے اخلاق عالیہ و فاضلہ اورآپ کی نیکی وتقویٰ وراستبازی پر ایک زمانے کوشاہداور گواہ بنانا چاہتاتھا۔ اسی تجربہ و مشاہداتی کیفیت کاذکرکرتے ہوئے حضورؑ اپنی ایک تصنیف میں بیان فرماتے ہیں:’’اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو پورے طور پر صوم و صلوٰةکے پابند ہوں اور جو ان ناجائز حظوظ سے اپنے تئیں بچا سکیں۔ جو ابتلا کے طور پر ان کوپیش آتے رہتے ہیں۔ میں ہمیشہ ان کے منہ دیکھ کر حیران رہا۔ اور اکثر کو ایسا پایا کہ ان کی تمام دلی خواہشیں مال ومتاع تک خواہ حلال کی وجہ سے ہو یا حرام کے ذریعہ سے محدود تھیں۔ اور بہتوں کی دن رات کی کوششیں صرف اسی مختصر زندگی کی دنیوی ترقی کے لئے مصروف پائیں۔ میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے اخلاق فاضلہ حلم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی مخلوق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پرہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں۔ بلکہ بہتوں کو تکبر اور بد چلنی اور لا پروائی دین اور طرح طرح کے اخلاق رذیلہ میں شیطان کے بھائی پایا۔ اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ ہر ایک قسم اور ہر ایک نوع کے انسانوں کا مجھے تجربہ حاصل ہو اس لئے ہر ایک صحبت میں مجھے رہنا پڑا ۔اور بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے۔‘‘ (کتاب البریہ، روحانی خزائن13صفحہ185-186، حاشیہ)

عبادت وتلاوت قرآن کریم

اگردیکھاجائےتو سیالکوٹ میں آپؑ کی اصل مصروفیت اور شغل اپنے خالق رب العالمین کی عبادت ہی تھی اور اس عبادت میں شامل ایک اہم کام جو تھا وہ اس شعرکا عملی اظہار تھا کہ

دل میں یہی ہے ہردم تیرا صحیفہ چوموں

قرآں کے گردگھوموں کعبہ مرا یہی ہے

’’آپؑ جب کچہری سے واپس تشریف لاتےتھے تودروازہ میں داخل ہونے کےبعد دروازہ کو پیچھے مڑکر بندنہیں کرتے تھے تاکہ گلی میں اچانک کسی نامحرم عورت پر نظرنہ پڑے بلکہ دروازہ میں داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ پیچھے کرکے پہلے دروازہ بند کرلیتے تھے اور پھرپیچھے مڑکر زنجیرلگایاکرتے تھے۔‘‘ (حیات طیبہ ازشیخ عبدالقادرسابق سوداگرمل، صفحہ20)اور گھرمیں داخل ہونے کے بعدکسی سے بھی نہ ملتے۔ معلوم ہوتاہے کہ بعض متجسس نگاہوں کو خیال آیاہوگا کہ یہ کیاماجراہے۔ اور اس میں بھی حکمت الٰہی تھی کہ تاآج ہمیں اپنے پیارے آقا کی سوانح کی ان پوشیدہ گھڑیوں کے روشن لمحات پر اطلاع ہوسکے جواگرایسے متجسسانہ طبع لوگوں کی کوشش نہ ہوتی تو شایدہمیشہ ہم سے پوشیدہ ہی رہتے۔

سیالکوٹ کی ان گھڑیوں اور’’سراغرسانی‘‘کی مہم کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’حضرت مسیح موعودؑ کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ جب وہ اپنے کمرے یا حجرے میں بیٹھتے۔ تو دروازہ بند کر لیا کرتے تھے۔ یہی طرز عمل آپؑ کا سیالکوٹ میں تھا لوگوں سے ملتے نہیں تھے۔ جب کچہری سے فارغ ہو کر آتے تو دروازہ بند کر کے اپنے شغل اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ عام طور پر انسان کی عادت متجسس واقع ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کو یہ ٹوہ لگی کہ یہ دروازہ بند کر کے کیا کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن ان ٹوہ لگانے والوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی اس مخفی کارروائی کا سراغ مل گیا۔ اور وہ یہ تھا کہ آپ مصلّٰی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لئے دعا کر رہے ہیں کہ’’یا الله تیرا کلام ہے۔ مجھے توتُو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘ ( حیاتِ احمدؑ، ازعرفانی صاحبؓ، جلداول صفحہ175)

جس گھرمیں آپؑ نے رہائش رکھی ان مکینوں کی اپنی چشم دید روایت ملاحظہ ہو۔ [یہ روایت مکمل اوپردرج ہوچکی ہے اس کا یہ اقتباس دوبارہ ہم پڑھتے ہیں جس میں راویہ بتلاتی ہیں:]’’مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے تھے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں۔ اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔‘‘ ( سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 625)

اسی طرح ایک اور روایت مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمدشاہدصاحب نے تاریخ احمدیت میں درج کی ہے آپ لکھتے ہیں:’’اسی طرح میاں بوٹاصاحب کشمیری کی شہادت ہے کہ جب حضرت مرزاصاحب ہمارے مکان میں رہتے تھے تومکان کے صحن میں ٹہلتے رہتے اورقرآن شریف پڑھتے رہتے تھے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلداول صفحہ 85، الفضل 8؍ اکتوبر1925ء صفحہ6، جلد13نمبر41)

خدمت خلق اور درس وتدریس غرباء اور حاجت مندوں کی مدد

سیالکوٹ میں قیام کے دوران بھی آپ نے خدمت خلق کے پہلوکو نظراندازنہیں فرمایا۔ قادیان کی طرح یہاں بھی یہی معمول رہا کہ جس طرح بھی ممکن ہوسکے غرباء اور حاجت مندوں کا خیال رکھاجائے۔ اس زمانے کے چشم دید راویوں نے جو آپؑ کے معمولات کے گواہ تھے ان میں سے محترمہ مائی حیات بی بی صاحبہ اوران کے والد بزرگوارہیں جو آپؑ کاکھانا لے کرجاتے اور گھرکے روزمرہ کے کام بھی کرتے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ’’جو تنخواہ مرزا صاحب لاتے۔ محلہ کی بیوگان اور محتاجوں کو تقسیم کر دیتے۔ کپڑے بنوا دیتے یا نقد دے دیتے تھے۔ اور صرف کھانے کا خرچ رکھ لیتے۔‘‘

آپؑ کے والدبزرگوار بھی آپؑ کو قادیان سے رقم بھیجا کرتے تھے جو کہ آپؑ اسی مصرف میں لے آتے۔

آپؑ کی انگریزی میں لکھی جانے والی سوانحی کتاب Life of Ahmad کے مصنف لکھتے ہیں:

WHILE Ahmad was at Sialkot, he used to entertain the poor and look after them and, as a result of this, whatever he earned did not meet all his expenses. His father used, therefore, to send him regular extra amounts.(Life of Ahmad by A.R.Dard page: 42)

آپؑ کی والدہ ماجدہؒ کو آپؑ سے بہت ہی زیادہ محبت تھی۔ وہ قادیان سے اپنے اس جگرگوشے کے لیے ضرورت کی اشیاء اور لباس وغیرہ تیارکرواکے بھیجاکرتی تھیں۔ ایک بار قادیان سے چار جوڑے کپڑوں کے تیارکرواکے سیالکوٹ بھیجے جو کہ حیات حجام لے کر گیا۔ آپؑ کی طبیعت میں خدمت خلق اور فیاضی کا جو دریاموجزن تھا اس کا اظہاریوں ہوتاہے کہ آپؑ نےکپڑوں کاایک جوڑا اس حیات نامی حجام کو دے دیا۔

پرانا مستعمل جوڑانہیں، ان نئے جوڑوں میں سے جو آپؑ کی والدہ ماجدہ نے نہایت اہتمام کے ساتھ اعلیٰ درجہ کے تیارکرواکے اسی حجام کے ہاتھ بھیجے تھے۔ (ماخوذازحیات احمدؑ جلداول صفحہ273، 272)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button