بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر40)
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)
٭… کیا باپ اپنی بیٹی کی اقتدا میں نماز تراویح ادا کرسکتا ہے؟ کیاسورت فاتحہ کے بعد دوبارہ سورت فاتحہ پڑھنے کے بعد سورت البقرہ کی قراءت شروع کی جاسکتی ہے؟ کیا جہری نمازوں میں سورتوں کی قراءت سے قبل بسم اللہ بھی اونچی آواز میں پڑھنی چاہیے؟
٭… اللہ تعالیٰ کو طاق نمبر کیوں پسند ہے؟
٭… اللہ تعالیٰ نے اپنے لیےقرآن مجید میں مذکر کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے؟
٭… کیا کم مقام والے جنتی اپنے سے اعلیٰ مقام والوں سے مل سکیں گے؟
٭… ایک دہریہ کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالآخر انسانوں کو معاف کر کے جنت میں لے جانا ہے؟
سوال:قرآن کریم کی حافظہ ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بذریعہ خط استفسار کیا کہ میرے والد صاحب میری اقتدا میں نماز تراویح ادا کر سکتے ہیں؟ اور اگرنماز میں قرآن کریم کی تلاوت کا آغاز کرنا ہو تو کیا پہلی رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد دوبارہ سورت فاتحہ پڑھنے کے بعد سورت البقرہ کی قراءت شروع کی جائے گی؟ نیز یہ کہ جہری نمازوں میں سورتوں کی قراءت سے قبل بسم اللہ بھی اونچی آواز میں پڑھنی چاہیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 25؍جولائی2021ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اسلام نے نماز باجماعت کی فرضیت صرف مردوں پر عائد فرمائی ہے اورعورتوں کا باجماعت نماز ادا کرنا محض نفلی حیثیت قرار دیا ہے۔ اس لیے مردوں کی موجودگی میں کوئی عورت نماز باجماعت میں ان کی امام نہیں بن سکتی۔ آنحضورﷺ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے کبھی کسی عورت کو مردوں کا امام مقرر نہیں فرمایا۔ اسی طرح اس زمانے کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جب کبھی کسی علالت کی وجہ سے گھر پر نماز ادا فرماتے تو باوجود علالت کے نماز کی امامت خود کراتے۔ پس نفل نماز ہو یا فرض، اگر کسی جگہ پرمرد اور عورتیں دونوں موجود ہوں تو نماز باجماعت کی صورت میں نماز کا امام مرد ہی ہو گا۔
۲۔ نمازکے دوران قرآن کریم کی تلاوت آغاز سے شروع کرتے وقت بھی طریق یہی ہے کہ نماز میں پڑھی جانے والی سورت فاتحہ پڑھنے کے بعد سورت البقرہ کی تلاوت شروع کی جائے گی، دوبارہ سورت فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی۔ البتہ فقہاء نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ قرآن کریم ختم کرنے کی صورت میں اگر کوئی شخص نماز میں سورت الناس کے بعد دوبارہ قرآن کریم کا کچھ ابتدائی حصہ پڑھنا چاہے تو وہ سورت فاتحہ سے آغاز کر سکتا ہےاور اس کے بعد سورت البقرہ کا بھی کچھ حصہ پڑھ سکتاہے، اس میں کچھ حرج کی بات نہیں لیکن ابتدا میں سورت فاتحہ کا تکرار بعض فقہاء کے نزدیک موجب سجدہ سہو ہے۔
۳۔ نماز میں سورت کی تلاوت شروع کرنے سے قبل بسم اللہ بلند آواز میں پڑھنا یا آہستہ پڑھنا ہر دو طریق درست اور رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں۔ چنانچہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ، حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سب کے پیچھے نماز پڑھی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی میں نے بسم اللہ بالجہرپڑھتے نہیں سنا۔(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب حجۃ من قال لا یجھر بالبسملۃ)نعیم بن المجمر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرۃؓ کی امامت میں نماز پڑھی، انہوں نے بسم اللہ اونچی آواز میں تلاوت کی پھر سورت فاتحہ پڑھی۔ پھر جب غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّينَ پر پہنچے تو انہوں نے آمین کہی تو لوگوں نے بھی آمین کہی۔ جب آپ سجدہ میں جاتے تو اللّٰهُ أَکْبَرُ کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر اٹھتے تو اللّٰهُ أَکْبَرُ کہتے۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو کہامجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ مَیں نماز کے معاملہ میں تم میں سے سب سےزیادہ آنحضرتﷺ کی نماز سے مشابہ ہوں۔ (یعنی میری نماز حضورﷺ کی نماز سے مشابہ ہے)( سنن نسائی کتاب الافتتاح باب قرأۃ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم)حضرت ابو ہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جہراًپڑھا کرتے تھے۔ (المستدرک للحاکم کتاب الامامۃ و صلاۃ الجماعۃ باب التامین)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’بسم اللہ جہراً اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے۔ ہمارے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب (اللّٰھم اغفرہ وارحمہ) جوشیلی طبیعت رکھتے تھے۔ بسم اللہ جہراً پڑھا کرتے تھے۔ حضرت مرزا صاحبؑ جہراً نہ پڑھتے تھے۔ ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں۔ صحابہ میں ہر دو قسم کے گروہ ہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو۔ ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہر دو طرح جائز ہے۔ بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بُرا لگتا تھاتو صحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے۔ مجھے ہر دو طرح مزا آتا ہے۔ کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے۔‘‘ (بدر نمبر32 جلد11، 23؍مئی 1912ء صفحہ 3)
حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ روایت کرتے ہیں:’’میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کر تے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجہر پڑھتے سنا ہے۔
خاکسار[حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحبؓ ]عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پرگرفت نہیں کرتا بعض آمین بالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے بعض رفع یدین کر تے ہیں اکثر نہیں کرتے بعض بسم اللہ بالجہرپڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرتﷺ سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرتﷺ نے کثرت کے ساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر خود حضرت صاحب کا عمل تھا۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ147، 148 روایت نمبر 154، مطبوعہ فروری 2008ء)
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیاکہ اللہ تعالیٰ کو طاق نمبر کیوں پسند ہے؟ ۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیےقرآن مجید میں مذکر کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے؟ ۳۔ کیا یہ بات درست ہے کہ جنت میں اعلیٰ مقام والے لوگ اپنے سے کم مقام والوں کو تو مل سکیں گے، لیکن کم درجہ والے اعلیٰ درجہ والوں سے نہیں مل سکیں گے؟ ۴۔ ایک دہریہ کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالآخر انسانوں کو معاف کر کے جنت میں لے جانا ہے؟
جواب: آپ کے پہلے سوال کا جواب تو حدیث میں بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ خود ایک ہے اور ایک کا ہندسہ طاق ہے اس لیےاللہ تعالیٰ کو طاق پسند ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا إِنَّ اللّٰهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ۔ یعنی اللہ تعالیٰ یقیناً وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفاربَاب فِي أَسْمَاءِ اللّٰهِ تَعَالَى وَفَضْلِ مَنْ أَحْصَاهَا)حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون نظر آتا ہے کہ وہ طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ رسول کریمﷺ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود بھی ایک ہے اور دوسری اشیاء کے متعلق بھی وہ یہی پسند کرتا ہے کہ وہ طاق ہوں۔ چنانچہ یہ حکمت ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ مگر یہ ایک الگ اور وسیع مضمون ہے جس کو اس وقت بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام قانون قدرت میں اللہ تعالیٰ نے طاق کو قائم رکھا ہے اور اس کے ہر قانون پر طاق حاوی ہے۔ قرآن کریم کے محاوروں اور سول کریمﷺ کے محاوروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سات کے عدد کو تکمیل کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے دُنیا کو سات دن میں بنایا۔ اسی طرح انسان کی روحانی ترقیات کے سات زمانے ہیں۔ پھر آسمانوں کے لیے بھی قرآن کریم میں سَبْعَ سَمٰوات کے الفاظ آتے ہیں اور یہ طاق کا عدد ہے۔ تو طاق کا عدد اﷲ تعالیٰ کے حضور خاص حکمت رکھتا ہے اور اس کا مظاہرہ ہم تمام قانون قدرت میں دیکھتے ہیں۔‘‘ (روز نامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ 7؍اپریل 1939ءصفحہ 5)
۲۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں مذکر اور مؤنث کے صیغے انسانوں میں جنسی فرق کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہ ٗلا شریک ہے اور اس قسم کی تقسیم سے منزہ ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ نے ہمیں سمجھانے کے لیے اپنے متعلق خود کچھ باتیں بیان فرمائی ہیں لیکن وہ سب استعارہ کے رنگ میں ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ نہ مرد ہے اور نہ عورت اور وہ ہر قسم کی جنس سے پاک ہے۔ اسی طرح دنیا کے تقریباً تمام معاشروں میں عورت کو مرد کی نسبت کمزور سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کی بعثت کے وقت عرب میں بھی یہی تصور پایا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں کفار کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنے لیےتو بیٹے چنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیےبیٹیاں چنی ہیں۔ یعنی وہ فرشتوں کو مؤنث کے صیغے سے پکارتے تھےا ور انہیں اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق فرماتا ہے کہ یہ بہت ہی بُری تقسیم ہے جو وہ کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الۡاُنۡثٰی۔ تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی(النجم:22، 23) یعنی کیا تمہارے لیےتو بیٹے ہیں اور اس کے لیے بیٹیاں ہیں؟ تب تو یہ ایک بہت ناقص تقسیم ٹھہری۔ پس آغاز آفرینش سے ہی مؤنث کو کمزور اور مذکر کو اعلیٰ اور طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں بھی مذکر کا صیغہ کامل قوت اور قدرت والے پر دلالت کرتا ہے اس لیےاللہ تعالیٰ جو تمام قوتوں کا سر چشمہ اور ورا الوراء طاقتوں کا مالک ہے اس نے اپنے لیے وہ صیغہ استعمال فرمایا ہے جو انسانوں کی نظر میں بھی اس کی ذات کے قریب ترین قرار پاتا ہے۔ ورنہ قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں جو تشبیہات بیان ہوئی ہیں وہ سب استعارہ کے طور پر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ کی مصداق ہے جیسا کہ فرمایا: فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕجَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ مِنَ الۡاَنۡعَامِ اَزۡوَاجًاۚ یَذۡرَؤُکُمۡ فِیۡہِ ؕ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚوَ ھُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ۔ (الشوریٰ:12)یعنی وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے ساتھی بنائے ہیں اور چارپایوں کے بھی جوڑے بنائے ہیں اور اس طرح وہ تم کو زمین میں بڑھاتاہے اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ بہت سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’خدا شناسی کے بارے میں وسط کی شناخت یہ ہے کہ خدا کی صفات بیان کرنے میں نہ تو نفی صفات کے پہلو کی طرف جھک جائے اور نہ خدا کو جسمانی چیزوں کا مشابہ قرار دے۔ یہی طریق قرآن شریف نے صفات باری تعالیٰ میں اختیار کیا ہے چنانچہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ خدا سنتا، جانتا، بولتا، کلام کرتا ہے اور پھر مخلوق کی مشابہت سے بچانے کیلئے یہ بھی فرماتا ہے لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ …یعنی خدا کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 376، 377)پھر فرمایا:’’ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں۔ ایک صفت تشبیہی دوسری صفت تنزیہی۔ اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرنا ضروری تھا یعنی ایک تشبیہی صفت اور دوسری تنزیہی صفت اِس لئے خدا نے تشبیہی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہاتھ آنکھ محبت غضب وغیرہ صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے اور پھر جب کہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ کہہ دیا۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 277)
۳۔ قرآن کریم میں اہل جنت اور اہل جہنم کا جہاں ذکر کیا گیا ہے، وہاں ان دونوں کے درمیان ایک روک کے حائل ہونے کا ذکر بھی کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنتی اور جہنمی ایک دوسرے سے نہیں مل سکیں گے لیکن اسی جگہ پر ان کے ایک دوسرے کو دیکھ سکنے کا ذکر آیا ہے۔ جس کا بظاہر یہ مقصد نظر آتا ہے کہ تا جنتی جہنمیوں کو دیکھ کر اپنے رب کے احسانات کے شکر گزار ہوں جس نے انہیں راہ راست پر قائم رکھا اور جنت کی ان نعمتوں کا وارث بنایا۔ اور جہنمی جنتیوں کو ملنے والی نعماء کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ کر دنیا میں کیےگئے اپنے بُرے اعمال پر کف افسوس ملیں۔ چنانچہ سورۃ الاعراف آیت 41 تا 51 میں اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک مختلف درجات والے جنتیوں کے آپس میں ملنے جلنے کا معاملہ ہے تو قرآن و حدیث میں جنت کے مختلف مقام اور مدارج کا تو ذکر ہوا ہے لیکن جنت کے ان مختلف مقام اور مدارج میں رہنے والوں کے آپس میں ملنے جلنے میں کسی روک ٹوک کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ بلکہ ا س کے برعکس اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے معاملہ میں ان کے پیچھے چلی ہے ہم اعلیٰ جنتوں میں ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دیں گے اور ان کے باپ دادوں کے عملوں میں بھی کوئی کمی نہیں کریں گے۔ (سورۃ الطور:22)اسی طرح احادیث میں بھی آیا ہے کہ جن لوگوں کے تین چھوٹے بچے فوت ہو جائیں اللہ تعالیٰ ان بچوں پر رحم کرتے ہوئے ان کے والدین کو بھی ان بچوں کے ساتھ جنت میں داخل فرما دے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ)علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنت میں مختلف مدارج پانے والے جنتیوں کی مستقل رہائش کا الگ الگ ہونا اور بات ہے اور ان مختلف مدارج والوں کا آپس میں ملنا جلنا الگ چیز ہے، جس کے بارہ میں قرآن و حدیث میں کسی قسم کی کوئی روک ٹوک بیان نہیں ہوئی بلکہ قرآن کریم نے تو جنتیوں کے متعلق ایک حقیقت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ لَہُمۡ فِیۡہَا مَا یَشَآءُوۡنَ۔ (النحل:32) یعنی ان کے لیے ان میں وہی کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ پھر فرمایالَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ۔ (الزمر:35)یعنی وہ جو کچھ چاہیں گےان کو اپنے رب کے ہاں مل جائے گا۔ پھر فرمایا وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ۔ (حم السجدہ:32)یعنی اس (جنت) میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے تم کو ملے گا اور جو کچھ تم مانگو گے وہ بھی تم کو اس میں ملے گا۔ پس ان آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مختلف درجات رکھنے والے جنتی اگر اپنے کسی پیارے سے ملنا چاہیں گے تو ان کی یہ خواہش بھی جنت میں پوری ہو گی۔
۴۔ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو اس کی کسی غلطی پر سزا دی جائے تو وہ سزا دائمی نہیں ہوتی بلکہ ایک وقت پر وہ سزا بھی ختم ہو جاتی ہے۔ جب ہم انسانوں اور ہمارے بنائے ہوئے قوانین کا یہ حال ہے تو خدا تعالیٰ جو تمام صفات حسنہ اور محامدہ طیبہ کا جامع، سب سے برتر اور تقدس کے اعلیٰ ترین مقام پر جلوہ گر ہے اور جس کا اپنی ذات کے متعلق وعدہ ہے کہ إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي۔ ( بخاری کتاب بدء الخلق بَاب مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ) یعنی یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ اور جو ایک مہربان ماں سے بھی بہت بڑھ کر اپنے بندوں سے محبت اور پیار کرتا ہے۔ اس کے متعلق ہم کیسے یہ سوچ بھی سکتے ہیں کہ وہ انسانوں کو ان کی غلطیوں اور گناہوں کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب میں مبتلا رکھے گا۔ دوزخ تو ایک ہسپتال ہے جہاں بیماروں کا علاج کر کے ان کے شفا پاجانے کے بعد انہیں ڈِسچارج کر دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہنم کے متعلق اُمّ یعنی ماں کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ۔ (القارعہ:10)یعنی اس کی ماں ہاویہ ہو گی۔ اور ماں کے پیٹ میں انسان ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ بلکہ جب جنین مکمل ہو جاتا ہے تو وہاں سے دنیا میں آ جاتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہاویہ کو اُمّ کہنے میں یہ مطلب ہے کہ جب تک تربیت یافتہ نہ ہو ماں سے تعلق رہتا ہے۔ بعد تربیت پا لینے کے ماں سے علیحدگی ہو جاتی ہے۔ اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد طول مکث کے دوزخی دوزخ سے نکال دئیے جائیں گے۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 446)اسی طرح حدیث میں بھی آتا ہے کہ جہنم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں کوئی آدم زاد باقی نہیں رہے گا اور ہوا اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی۔ (کنز العمال جلد 14 حدیث نمبر 39506)پھر حضرت ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے دوزخ سے نکالے جانے والے آخری انسان کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا جو آدمی سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا وہ گرتا پڑتا اور گھسٹتا ہوا دوزخ سے اس حال میں نکلے گا کہ دوزخ کی آگ اسے جلا رہی ہوگی۔ پھر جب دوزخ سے نکل جائے گا تو دوزخ کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور دوزخ سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ نعمت عطا فرمائی ہے کہ اولین وآخرین میں سے کسی کو بھی وہ نعمت عطا نہیں فرمائی۔ پھر اس کےلیے ایک درخت بلند کیا جائے گا۔ وہ آدمی کہے گا کہ اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب کر دیجیے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے پھلوں سے پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم اگر میں تجھے یہ دے دوں تو پھر تو اس کے علاوہ بھی مجھ سے مانگے گا۔ وہ عرض کرے گا کہ نہیں اے میرے پروردگار۔ چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کے علاوہ اور کچھ نہ مانگنے کا معاہدہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرمائے گا کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر اسے صبر نہ ہوگا۔ پس اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردے گا۔ وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور اس کے پھلوں کے پانی سے پیاس بجھائے گا۔ پھر اس کے لیے ایک اور درخت ظاہر کیا جائے گا جو پہلے درخت سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوگا۔ وہ آدمی عرض کرے گا اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کا پانی پیوں، اور اس کے بعد میں اور کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ فرمائے گااے ابن آدم کیا تو نے مجھ سے معاہدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے اور کوئی سوال نہیں کرے گا اور اب اگر تجھے اس درخت کے قریب پہنچا دیا تو پھر تو اور سوال کرے گا۔ اللہ تعالیٰ پھر اس سے اس بات کا وعدہ لے گا کہ وہ اور کوئی سوال نہیں کرے گا، تاہم اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ معذور ہوگا کیونکہ وہ ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہ کرسکے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے قریب کردے گا۔ وہ اس کے سایہ میں آرام کرے گا اور اس کا پانی پیے گا۔ پھر اسے جنت کے دروزاے پر ایک درخت دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔ پس وہ آدمی کہے گا اے میرے رب مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجیے تاکہ میں اس کے سایہ میں آرام کروں اور پھر اس کا پانی پیوں اور اس کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا اے ابن آدم !کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے بعد اور کوئی سوال نہیں کرے گا۔ وہ عرض کرے گا ہاں اے میرے پروردگار اب میں اس کے بعد اس کے علاوہ اور کوئی سوال نہیں کروں گا اللہ اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہیں کرسکے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردے گا۔ جب وہ اس درخت کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا تو وہ پھر عرض کرے گا اے میرے رب مجھے اس میں داخل کر دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم !تیرے سوال کو کون سی چیز روک سکتی ہے کیا تو اس پر راضی ہے کہ تجھے دنیا اور اس کے ساتھ دنیا کے برابر اور دے دیا جائے؟ وہ شخص کہے گا اے میرے رب کیا تو مجھ سے مذاق کر رہا ہے جبکہ تو تورب العالمین ہے؟
اس پر اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہنس پڑے اور لوگوں سے کہا کہ تم مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں کیوں ہنسا ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کس وجہ سے ہنسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ حضورﷺ بھی اسی طرح ہنسے تھے اور صحابہؓ نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ آپ کسی وجہ سے ہنسے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اللہ رب العالمین کے ہنسنے کی وجہ سے۔ جب وہ آدمی کہے گا کہ تو رب العالمین ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کر رہاہے تو اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا مگر جو چاہوں کرنے پر قادر ہوں۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان بَاب آخِرِ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا)
٭… ٭… ٭