تعارف کتاب

قادیان کے آریہ اور ہم

(ابو سلطان)

حضورؑ نے اس رسالے میں اپنے بہت سے ایسے نشانات کی تفصیل بیان فرمائی ہے جن کا تعلق ذاتی طور پر مذکور آریہ صاحبان سے ہے یا کم از کم وہ ان کے عینی گواہ ہیں

تعارف

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘جنوری 1907ءمیں تحریر فرمائی جو 20؍ فروری 1907ء کو شائع ہوئی۔ دسمبر 1906ءکے جلسہ سالانہ میں تقریر کرتے ہوئے حضورؑ نے فرمایا تھا کہ قادیان کے ہندو خاص طور پر لالہ شرم پت اور لالہ ملاوامل میرے بیسیوں نشانات کے گواہ ہیں اور 35برس سے میری بہت ساری پیشگوئیاں ان کے سامنے پوری ہوئی ہیں۔ قادیان کے آریوں نے اپنے اخبار شبھ چنتک میں لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل کی طرف منسوب کر کے یہ اعلان شائع کیا کہ ہم مرزا صاحب کے کسی بھی نشان کے گواہ نہیں ہیں۔ چنانچہ حضورؑ نے اس رسالے میں اپنے بہت سے ایسے نشانات کی تفصیل بیان فرمائی ہے جن کا تعلق ذاتی طور پر مذکور آریہ صاحبان سے ہے یا کم از کم وہ ان کے عینی گواہ ہیں۔

مضامین کا خلاصہ

دسمبر 1906ءکے جلسہ میں دو ہزار کے قریب احباب کے سامنے حضورؑ نے یہ بیان کیا کہ ان آسمانی نشانوں کے جو خدا نے مجھے عطا کیے ہیں صرف مسلمان ہی گواہ نہیں بلکہ اس قصبہ کے ہندو بھی گواہ ہیں۔ جس پر ان آریوں نے اپنے اخبار میں یہ تہمت حضورؑ پر لگائی کہ یہ بات درست نہ ہے۔ اس جلسے کے دوران ایک آریہ نے آ کر دوران نماز احمدی احباب کو گندی اور غلیظ گالیاں دینی شروع کر دیں اور بار بار کنجر کے لفظ کو دہرایا۔ جس پر حاضرین نے صبر دکھایا مگر ان کے دل صدموں سے چور تھے۔ اس پر حضور نے 35 برس پرانی ایک پیشگوئی کے الفاظ ان کےسامنے رکھے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگرچہ تو اکیلا ہے اور تیرے ساتھ کوئی نہیں مگر وہ وقت آتا ہے کہ میں ہزاروں انسانوں کو تیری طرف رجوع دوں گا …میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں اپنا الہام ڈالوں گا کہ اپنے مالوں سے تیری مدد کریں۔ فوج در فوج لوگ آئیں گے اور مال دیں گے اور اس قدر آئیں گے کہ قریب ہے کہ تو تھک جائے۔ یہ بھی فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ فرمایا قریباً ہم دو گھنٹہ تک نماز پڑھتے رہے اور وہ آریہ قوم کا برہمن برابر سخت اور گندے الفاظ کے ساتھ گالیاں دیتا رہا۔ فرمایا اسے ایسے پلید اور گندے الفاظ اختیار کرنے کے وقت شاید اپنے مذہب کا نیوگ یاد آیا ہوگا۔

نیوگ( آریوں کا قابل شرم عقیدہ)

یہ آریہ مذہب کا ایک مذہبی حکم ہے کہ ایک آریہ کی پاک دامن عورت باوجود زندہ ہونے خاوند کے اور باوجود اس کے کہ اُس کو طلاق بھی نہ دی گئی ہو ایک دوسرے آدمی سے محض اولاد لینے کی غرض سے ہم بستر ہو سکتی ہے اور گیارہ لڑکے پیدا ہونے تک اس کام میں مشغول رہ سکتی ہے۔ ایسی عورت بڑی مقدس کہلاتی ہے اور ایسا لڑکا ماں اور اپنے فرضی باپ دونوں کو دوزخ سے نجات دلانے والا کہلاتا ہے۔ پھر فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ قادیان کے ہندو سب سے زیادہ خدا کے غضب کے نیچے ہیں کیونکہ خدا کے بڑے بڑے نشان دیکھتے ہیں اور پھر ایسی گندی گالیاں دیتے اور دکھ پہنچاتے ہیں۔ آج سے چھبیس ستائیس برس پہلے جب میں گمنامی کے گوشہ میں پڑا ہوا تھا تو اس وقت یہ رجوع خلائق کہاں موجود تھا۔ ایک انسان بھی میری جماعت میں داخل نہ تھا، نہ کوئی ملنے آتا تھا اور کوئی آمدنی بھی بجز اپنی ملکیت کی قلیل آمدنی کے نہ تھی۔ تب خدا نے خبر دی کہ ہزاروں لاکھوں انسان ہر ایک راہ سے تیرے پاس آئیں گے یہاں تک کہ سڑکیں گھس جائیں گی۔ پھر کچھ مدت کے بعد اس پیشگوئی کا آہستہ آہستہ ظہور شروع ہوا چنانچہ اب (1907ء) میں میری جماعت میں تین لاکھ سے زائد آدمی ہیں۔ فتوحات مال کا یہ حال ہے کہ اب تک کئی لاکھ روپیہ آ چکا ہے اور قریباً پندرہ سو سے دو ہزار ماہوار لنگر خانہ پر خرچ ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا نشان ہے کہ جس سے قادیان کے ہندوؤں کو فائدہ اٹھانا چاہیے تھا کیونکہ معلوم تھا کہ میں اس پیشگوئی کے زمانہ میں کس قدر گمنام اور پوشیدہ تھا۔

مصر(سکندریہ) سے موصولہ ایک خط

فرمایا :کل 23؍جنوری 1907ءکو مصر (سکندریہ) سے ایک خط ملا۔ لکھنے والا ایک معزز بزرگ جس کا نام احمد زبیری بدرالدین ہے جو لکھتے ہیں کہ میں آپ کو یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ اس ملک میں آپ کے تابع اور پیروی کرنے والے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ جیسے بیابان کی ریت اور کنکریں۔

والد صاحب کی وفات کے متعلق مذکور دونوں ہندو گواہ ہیں:فرمایا جب خدا تعالیٰ نے مجھے میرے والد صاحب کے فوت ہونے کی خبر ان الفاظ سے دی کہ وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِق یعنی قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو غروب آفتاب کے بعد پڑے گا۔ جب یہ خبر سن کر تردد اور غم پیدا ہوا کہ ان کی وفات کے بعد ہماری اکثر وجوہ معاش نابود ہو جائیں گی تب یہ الہام ہوا الیس اللّٰہ بکاف عبدَہ یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟ پینتیس برس کا عرصہ گزر گیا ہے کہ میں نے اس الہام کو یعنی الیس اللّٰہ بکاف عبدَہ کو مہر میں کھدوانے کے لیے تجویز کی اور لالہ ملاوامل کو اس مہر کے کھدوانے کے لیے امرتسر بھیجا تاکہ یہ دونوں اس پیشگوئی کے گواہ ہو جائیں۔ چنانچہ وہ یہ مہر بنوا لایا جو اب تک موجود ہے۔

پھر یہ پیشگوئی تھی کہ دشمن بہت زور لگائیں گے کہ تا یہ عروج اور یہ نشان اور یہ رجوع خلائق ظہور میں نہ آئے اور لوگ مالی مدد نہ کریں۔ پھر جب ان پیشگوئیوں کے آثار شروع ہوئے تو مخالفوں میں روکنے کے لیے جوش پیدا ہوا۔ قادیان میں ملاوامل اور شر مپت کے مشورہ سے یہ اشتہار دیا گیا کہ یہ شخص محض مکار، فریبی ہے اور صرف دکاندار ہے، لوگ اس کا دھوکا نہ کھائیں اور مالی مدد نہ کریں۔ مگر اس اشتہار کے بعد گویا مالی امداد کا ایک دریا رواں ہو گیا اور آج تک کئی لاکھ لوگ بیعت میں داخل ہوئے ہیں۔ اور اب تک ہر مہینہ میں پانچ سو کے قریب بیعت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ انسان خدا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس قدر ترقی ہوئی کہ جیسا کہ قطرہ سے دریا بن جاتا ہے اور یہ ترقی بالکل غیر معمولی اور معجزانہ تھی۔ پھر لیکھرام نے بھی براہین احمدیہ کی ان پیشگوئیوں کو روکنے کے لیے پورا زور لگایا۔ مگر وہ بد نصیب خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے عین مطابق راکھ کا ڈھیر ہو گیا۔

پھر عیسائیوں اور مسلمانوں نے ان پیشگوئیوں کو ظہور میں آنے سے روکنے کے لیے ناخنوں تک زور لگایا۔ مجھے دجال، کافر، مکار، فریبی کہا مگر ہر میدان میں ان کو شکست نصیب ہوئی اور ہر ایک مقابلہ میں موت یا ذلت ان کے حصہ میں آئی۔

فرمایا پھر دیکھتا ہوں کہ باوجود دشمنوں کی سخت مزاحمت کے آخر وہ پیشگوئی ایسی پوری ہو گئی کہ اگر آج وہ تمام بیعت کرنے والے ایک وسیع میدان میں جمع کیے جائیں تو ایک بڑے بادشاہ کے لشکر سے بھی زیادہ ہوں گے تو اس موقع پر مجھے وجد سے رونا آتا ہے کہ ہمارا خدا کیسا قادر خدا ہے کہ جس کے منہ کی بات کبھی ٹل نہیں سکتی گو تمام جہان دشمن ہو جائے اور اس بات کو روکنا چاہے۔

لیکھرام کا نشان

فرمایا: خدا نے ان کو لیکھرام کا بڑا نشان دکھایا لیکن انہوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ یہ کس قدر صاف نشان تھا جس میں یہ خبر دی تھی کہ لیکھرام طبعی موت سے نہیں مرے گا بلکہ چھ سال کے اندر قتل کیا جاوے گا اور عید کے دن کے بعد جو دن ہوگا اس میں یہ واقعہ ہوگا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور جس نے اشتہار دیا تھا کہ اے آر یو! اگر تمہارےپرمیشر میں کچھ شکتی ہے تو اس کی جناب میں دعا اور پراتھنا کر کے لیکھرام کو بچا لو مگر تمہارا پرمیشر اس کو نہ بچا سکا اور ہمارا خدا غالب رہا۔

لیکھرام کی موت کا اصل باعث

فرمایا: لیکھرام کی موت کا اصل باعث قادیان کے ہندو ہیں۔ قادیان کے ہندوؤں نے میری نسبت اس کو کہا کہ یہ جھوٹا اور فریبی ہے۔ ان باتوں کو سن کر وہ سخت دلیر ہوگیا اور اپنی زبان کو بدگوئی میں چھری بنا لیا سو وہی چھری اس کا کام کر گئی۔

فرمایا: ہندوؤں کا مذہب عجیب مذہب ہے کہ جس قدر پیغمبر زمین پر گزرے ہیں سب کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور جھوٹا جانتے ہیں۔ مگر خدا نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک ملک میں اس کے پیغمبر آتے رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے بزرگوں کو مکار اور جھوٹا مت کہو مگر یہ کہو کہ ہزار ہا برسوں کے گزرنے کے بعد یہ لوگ اصل مذہب کو بھول گئے ہیں۔

سناتن دھرم کی خوبیاں اور نیک اخلاق

سناتن دھرم کے اکثر لوگ نیک اخلاق ہیں جو ہر ایک نبی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور فروتنی سے سر جھکاتے ہیں۔

ہستی باری تعالیٰ کی دلیل سلسلہ نبوت ہے

فرمایا: خدا جو غائب ہے اس کی ذات کا ثبوت صرف ایک گواہی سے کیونکر مل سکتا ہے؟ اس لیے خدا نے دنیا میں ہر ایک قوم میں ہر ایک ملک میں ہزاروں نبی پیدا کئے اور وہ ایسے وقتوں میں آئے جبکہ زمین لوگوں کے گناہوں سے پلید ہو چکی تھی۔ انہوں نے بڑے نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وجود کا ثبوت دیا۔ خدائے عز و جل کی قسم ہے کہ اگر یہ لوگ تلوار کے زخم سے ہمیں مجروح کرتے تو ہمیں ایسا ناگوار نہ ہوتا جیساکہ ان کی ان گالیوں سے جو ہمارے برگزیدہ نبیوں کو دیتے ہیں۔ ہمارے دل پاش پاش ہو گئے۔ ہم یہ گالیاں سن کر ان ناپاک طبع دنیا کے کیڑوں کی طرح مداہنہ نہیں کر سکتے جو کہتے ہیں کہ ہم ان تمام لوگوں کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر ان کے باپوں کو گالیاں دی جاتیں تو ایسا ہرگزنہ کہتے۔ خدا ان کا اور ہمارا فیصلہ کرے۔ یہ عجیب مذہب ہے۔

فرمایا: چونکہ میں نے کئی کتابوں میں لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل ساکنان قادیان کی نسبت لکھ دیا ہے کہ وہ میرے فلاں فلاں آسمانی نشانات کے گواہ ہیں بلکہ بیسیوں نشان دیکھے ہیں۔ پس اگر انہوں نے مجھ سے آسمانی نشان نہیں دیکھے تو اس صورت میں مجھ سے زیادہ دنیا میں کون جھوٹا ہوگا اور میرے جیسا کون ناپاک تباہ اور مفتری ہوگا۔ نیز اس سے خدا کے قائم کردہ سلسلہ پر بھی نہایت بد اثر ہے اس لیے میں اول تو لالہ شرمپت اور ملاوامل کو مخاطب کرتا ہوں کہ وہ خدا کی قسم کے ساتھ مجھ سے فیصلہ کر لیں۔ اور خواہ مقابل پر اور خواہ تحریر کے ذریعے، اس طرح پر خدا کی قسم کھائیں کہ فلاں فلاں نشان جو نیچے لکھے گئے ہیں ہم نے نہیں دیکھے اور ہم جھوٹ بولتے ہیںتو خدا ہم پر اور ہماری اولاد پر عذاب نازل کرے۔

1۔ لالہ شرمپت کے لیے یہ کافی ہے کہ اول تو اس نے میرا وہ زمانہ دیکھا کہ میں ایک گمنام آدمی تھا اور اس کو خوب معلوم ہے کہ براہین احمدیہ کے چھپنے کے زمانہ میں جبکہ یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ ایک دنیا میری طرف رجوع کرے گی، میں صرف اکیلا تھا۔ تو اب وہ قسم کھاوے کہ کیا یہ پیشگوئی اس نے پوری ہوتی دیکھ لی یا نہیں؟

2۔ دوسری قسم کھا کر یہ بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ اس کا بھائی بسمبرداس مع خوشحال برہمن کسی فوجداری مقدمہ میں سزایاب ہو کر دونوں قید ہو گئے تھے تو اس وقت مجھ سے دعا کی درخواست کی تھی اور میں نے خدا سے علم پا کر اسےیہ بتلایا تھا کہ میری دعا سے آدھی قید بسمبرداس کی تخفیف کی گئی۔ میں نے اس پیشگوئی کے بتلانے کے وقت یہ بھی کہا تھا کہ خدا نے مجھے اپنی وحی سے علم دیا ہے کہ چیف کورٹ سے مسل واپس آئے گی اور بسمبرداس کی آدھی قید تخفیف کی جائے گی اور آخر ایسا ہی ہوا۔ اور لالہ شرمپت نے میری طرف رقعہ لکھا کہ آپ کی نیک بختی کی وجہ سے خدا نے یہ غیب کی باتیں آپ پر کھول دیں اور دعا قبول کی۔

3۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک دفعہ چندہ سنگھ نام ایک سکھ پر بابت درختان تحصیل بٹالہ میں ہماری طرف سے یہ نالش کی گئی کہ اس نے بغیر ہماری اجازت کے کھیت سے درخت کاٹے ہیں۔ تب خدا نے میری دعا کرنے کے وقت میری دعا کو قبول فرما کر میرے پر ظاہر کیا کہ ڈگری ہو گئی ہے اور میں نے یہ پیشگوئی شرمپت کو بتا دی تھی۔ تب عصر کے قریب کا وقت تھا جب شرمپت نے ہماری مسجد میں آ کر بطور تمسخر مجھے کہا کہ مقدمہ خارج ہو گیا ہے۔ تب مجھ پر وہ غم گزرا جس کو میں بیان نہیں کر سکتا۔ اتنے میں غیب سے ایک آواز آئی اور وہ نہایت رعب ناک تھی کہ ڈگری ہو گئی ہے۔ مسلمان ہے؟ یعنی کیا تو خدا کے کلام کو باور نہیں کرتا۔

پس صبح ہوتے ہی میں بٹالہ گیا تو پتہ چلا کہ جب تحصیلدار نے فیصلہ لکھا تو فریق مخالف نے دھوکا دہی سے صاحب کمشنر کا ایک فیصلہ اس کے سامنے رکھ دیا کہ یہ مزارعہ موروثی ہے اور اپنے اپنے کھیت سے درخت کاٹ سکتا ہے مگر بعد ازاں اس پر حقیقت کھل گئی کہ صاحب فنانشل کے حکم سے وہ فیصلہ منسوخ ہو چکا ہے تب اس نے پہلا فیصلہ چاک کر دیا اور دوسرا فیصلہ ڈگری کا لکھا۔ جس پر مَیں نے واپس قادیان آ کر شرمپت کو آگاہی دی اور یوں فریق مخالف کو بھی اطلاع ہوئی۔ پس اگر لالہ شرمپت اس نشان سے بھی منکر ہے تو چاہیے کہ قسم کھا کر کہے کہ کوئی ایسا واقعہ ظہور میں نہیں آیا۔

4۔ بھلا لالہ شرمپت قسم کھا کر یہ کہے کہ یہ سچ نہیں ہے کہ جب نواب محمد حیات خان سی-ایس- آئی معطل ہو گیا تھا اور کوئی بریت کی امید نہ تھی تو اس نے مجھ سے دعا کی درخواست کی تو میرے پر خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا تھا کہ وہ بری کیا جائے گا اور یہ بات میں نے اس کو بتا دی تھی اور نہ صرف اس کو بلکہ بہتوں کو بتائی تھی۔ اگر یہ سچ نہیں تو قسم کھا وے۔

5۔ پھر لالہ شرمپت قسم کھا کر بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جب پنڈت دیانند نے پنجاب میں آ کر بہت شور کیا اور خدا کے برگزیدہ نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن شریف کی، اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں تحقیرکی۔ تب میں نے شرمپت کو کہا کہ خدا نے میرے پرظاہرکیا ہے کہ اب اس کی موت کا دن قریب ہے۔ چنانچہ وہ اس پیشگوئی کے بعد صرف چند دنوں میں ہی اجمیر میں مر گیا اور اپنی حسرتیں ساتھ لے گیا۔

6۔ شرمپت قسم کھا کر بتلاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک دفعہ اس کو اور ملاوامل کو صبح کے وقت یہ الہام بتایا گیا کہ آج ارباب سرور خان نام ایک شخص کا روپیہ آئے گا اور وہ ارباب محمد لشکر خان کا رشتہ دار ہوگا۔ تب ملاوامل وقت پر ڈاکخانہ میں گیا اور خبر لایا کہ سرور خان کا اس قدر روپیہ آیا۔ تب مردان میں بابو الٰہی بخش کی طرف خط لکھا گیا جو ان دنوں میں میرے سخت مخالف ہیں۔ ان کا جواب آیا کہ ارباب سرور خان، ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے۔

7۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک مرتبہ مجھے یہ الہام ہوا کہ’’ اے عمی بازیٔ خویش کردی و مرا افسوس بسیار داری ‘‘یعنی (اے میرے چچا تو نے اپنی کھیل کھیل لی(اپنی زندگی گزار لی) اور مجھے (اپنی وفات سے) بہت تکلیف پہنچائی)۔ اور اسی دن شرمپت کے گھر میں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی جس کا نام امین چندر رکھا اور ان دنوں میرا بھائی غلام قادر مرحوم بیمار تھا۔ میں نے لالہ شرمپت کو کہا کہ آج مجھے یہ الہام ہوا ہے اور یہ میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے اور الہامی طور پر میرے بیٹے سلطان احمد کی طرف سے یہ کلمہ ہے اور یا ممکن ہے کہ تیرے بیٹے امین چندر کی طرف اشارہ ہو۔ میرا کہنا ہی تھا کہ لالہ شرمپت نے گھر جا کر اپنے بیٹے کا نام بدل کر گوکل چندر رکھ دیا جو اب تک زندہ ہے مگر میرا بھائی چند روز بعد فوت ہو گیا۔

8۔ یہ بات بھی لالہ شرمپت سے حلفاً دریافت کرنی چاہیے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب گورداسپور کے ایک شخص کرم دین نے میرے پر دعویٰ ازالہ حیثیت عرفی عدالت میں دائر کیا تو میں نے شرمپت کو کہا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ انجام کار میں اس مقدمہ میں بری کیا جاؤں گا۔ اور کرم دین سزا پائے گا۔ چنانچہ میرے حق میں فیصلہ ہوا مگر کرم دین پر پچاس روپیہ جرمانہ قائم رہا۔ فرمایا: یہ چند پیشگوئیاں بطور نمونہ ہیں جو اس وقت پیش کرتا ہوں اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سب بیان صحیح ہے اور کئی دفعہ لالہ شرمپت سن چکا ہے اور اگر میں نے جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میرے لڑکوں پر ایک سال کے اندر اس کی سزا نازل کرے آمین۔ و لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ ایسا ہی لالہ شرمپت کو بھی چاہیے کہ اس قسم کے مقابل پر قسم کھاوے اور یہ کہے کہ اگر میں نے اس قسم میں جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میری اولاد پر ایک سال کے اندر اس کی سزا وارد کرے۔ آمین۔ و لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

یہ تو شرمپت کی نسبت لکھا گیا اور ملاوامل اس کا دوست بھی اس میں شریک ہے۔ اس کو چاہیے کہ اس بات کی قسم کھاوے کہ کیا میرے والد صاحب کی وفات کے بعد الہام الیس اللّٰہ بکاف عبدہ کا مہر پر کھدوانے کے لیے اس کو امرتسر نہیں بھیجا تھا؟ دوسری یہ بتا وے کہ کیا وہ ایک مرتبہ مرض دق میں مبتلا نہیں ہوا؟ اور اس کو خواب بھی آ چکی تھی کہ ایک زہریلے سانپ نے اس کو کاٹا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ میرے پاس آ کر رویا تھا۔ تب میں نے اس کے حق میں دعا کی تھی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا کہ قُلْنَایا نار کونی بردًا وسلامًا یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہو جا۔ پھر بعد اس کے چند دنوں میں ہی وہ صحت یاب ہو گیا۔ فرمایا: میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں۔ اگر یہ جھوٹ ہیں تو خدا ایک سال کے اندر میرے پر اور میرے لڑکوں پر تباہی نازل کرے اور جھوٹ کی سزا دے۔ آمین۔ و لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

ایسا ہی ملاوامل کو چاہیے کہ اگر ان بیانات سے انکاری ہے تو میری طرح قسم کھاوے۔ یاد رہے کہ یہ لوگ اس طرح پر قسم نہ کھائیں گے بلکہ حق پوشی کا طریق اختیار کریں گے اورسچائی کا خون کرنا چاہیں گے۔ تب بھی میں امید رکھتا ہوں کہ حق پوشی کی حالت میں بھی خدا ان کو بے سزا نہیں چھوڑے گا۔

پنڈت دیانند کا پیش کردہ پرمیشر

فرمایا:پنڈت دیانند کا پیش کردہ پرمیشر ایسا ہے جس کا عدم اور وجود برابر ہے کیونکہ توبہ کے باوجود مکتی عنایت کرنے سے قاصر ہے۔ انسان کی فطرت میں کمزوری بھی رکھی ہے پھر گناہ معاف بھی نہیں کرتا بلکہ سخت چڑچڑا مزاج ہے کہ ایک ذراسے گناہ کو بھی نہیں بخش سکتا اور جب تک ایک گناہ کے لیے کروڑہا جونوں میں نہ ڈال لے خوش نہیں ہوتا۔ پس انسان جو سراسر کمزوری میں بھرا ہوا ہے بغیر خدا کی صفت مغفرت کے ہرگز نجات نہیں پا سکتا اور اگر خدا میں صفت مغفرت نہیں تو پھر انسان میں کہاں سے پیدا ہو گئی؟

آریوں اور عیسائیوں کے اعتقاد میں ایک جیسی غلطی

عیسائی انسان کے گناہ بخشوانے کے لیے ایک نبی کے خون کی حاجت سمجھتے ہیں اور اگر وہ نہ مارا جاتا تو گناہ نہ بخشا جاتا اور جیسا کہ ہم نے یہ امر بپایہ ثبوت پہنچایا ہے کہ حضرت عیسی اپنی طبعی موت سے فوت ہوا تو سب تانا بانا کفارہ کا بے کار ہو گیا۔

دوسری طرف آریہ صاحبان مطلقاً اپنے پرمیشر کو گناہوں کے بخشنے سے قاصر سمجھتے ہیں۔ دوسرا جس تعلیم پر ناز کیا جاتا ہے وہ نیوگ کا مسئلہ ہے۔ پھر پرمیشر کو ارواح کا خالق نہیں مانا جاتا جس کی وجہ سے وہ مجبور ہے کہ مکتی خانہ سے ارواح کو باہرنکال دیتا ہے۔ بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ انسان کے اعمال محدود ہیں اس لیے مکتی بھی محدود ہے مگر یہ دھوکا ہے کیونکہ انسان کی فطرت میں ہمیشہ کی اطاعت مرکوز ہے۔ نیک آدمی کب کہتے ہیں کہ اتنی مدت کے بعدہم خدا تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت چھوڑ دیں گے۔

سچی توبہ کی حقیقت

فرمایا:سچی توبہ درحقیقت ایک موت ہے جو انسان کے ناپاک جذبات پر آتی ہے اور ایک سچی قربانی ہے جو انسان اپنے پورے صدق سے حضرت احدیت میں ادا کرتا ہے اور تمام قربانیاں جو رسم کے طور پر ہیں اسی کا نمونہ ہیں۔ سو جو لوگ یہ سچی قربانی ادا کرتے ہیں جس کا نام دوسرے لفظوں میں توبہ ہے۔ درحقیقت وہ اپنی سفلی زندگی پر ایک موت وارد کرتے ہیں تب خدا تعالیٰ جو رحیم و کریم ہے اس موت کے عوض میں دوسرے جہان میں ان کو نجات کی زندگی بخشتا ہے۔

توبہ کے لطیف اور روحانی معنی

توبہ کہتے ہیں اس رجوع کو کہ جب انسان تمام نفسانی جذبات کا مقابلہ کرے اور اپنے پر ایک موت کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ کی طرف چلا آتا ہے۔ ایک انسان کو اسی وقت تائب کہا جاتا ہے جبکہ وہ بکلی نفس امارہ کی پیروی سے دستبردار ہو کر اور ہر ایک تلخی اور ہر ایک موت خدا کی راہ میں اپنے لئے گوارا کر کے آستانہ حضرت احدیت پر گر جاتا ہے۔ تب وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اس موت کی عوض میں خدا تعالیٰ اس کو زندگی بخشے۔

نیز فرمایا: انسان جب خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں پڑکر اپنی تمام ہستی کو جلا دیتا ہے تو وہی محبت کی موت اس کو ایک نئی زندگی بخشتی ہے۔ کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ محبت بھی ایک آگ ہے اور گناہ بھی ایک آگ ہے پس یہ آگ جو محبت الٰہی کی آگ ہے گناہ کی آگ کو معدوم کر دیتی ہے، یہی نجات کی جڑ ہے۔ نہایت افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آریہ لوگ اپنے مذہب کی خرابیوں کو نہیں دیکھتے اور اسلام پر بیہودہ اعتراض کرتے ہیں۔ اس کتاب کا اختتام اس منظوم کلام پر فرمایا کہ

اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے

اے سونے والوں جاگو شمس الضحیٰ یہی ہے

مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا

اب آسماں کے نیچے دین خدا یہی ہے

دنیا کی سب دکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں

آخر ہوا یہ ثابت دارالشفا یہی ہے

کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ

اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا

نام اس کا ہے محمدﷺ دلبر میرا یہی ہے

سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر

لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے

وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے

وہ طیب و امیں ہے اس کی ثنا یہی ہے

اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں

وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button