امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ اٹلی کی (آن لائن) ملاقات
آپ لوگوں نے تو دنیا کو گائیڈ کرنا ہے
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 04؍ستمبر 2022ء کو نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ اٹلی سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ اٹلی نے مسجد بیت التوحید Bolognaسے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز اجتماعی دعا کے ساتھ ہوا۔ ممبرات نیشنل عاملہ کو حضور انور کی خدمت میں اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرنے اور متفرق امور کی بابت حضور انور سے راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔
حضور انور نے سیکرٹری صاحبہ تبلیغ کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ باقاعدہ جامع پروگرام بنائیں کہ کس طرح ہم نے تبلیغ کرنی ہے، کیا کیا چیز چاہیے، لٹریچر کتنا چاہیے، کس طرح لٹریچر تقسیم کرناہے ،کن لوگوں کو مذہب سے دلچسپی ہے،ان تک کس طرح پہنچنا ہے اور کس طرح ان کو بلانا ہے۔ اپنی واقف کار عورتوں کےساتھ سیمینار کریں۔ ان سےذاتی تعلق پیدا کریں۔ گھر میں بیٹھ کر صرف کھانے پکانے میں یا مردوں کی باتیں سننے میں نہ لگی رہا کریں خود بھی باہرنکلیں۔ مردوں کو کہیں ہمارا بھی کام ہے وہی کام کرناجو تم لوگ کرتے ہو۔ تمہاری روٹی پانی کا انتظام ہم کر دیتے ہیں وہ تو کریں گے ہی۔ بچے بھی پالنا ہمارا کام ہے بچوں کی تربیت کرنا بھی ہمارا کام ہے لیکن ساتھ یہ تبلیغ کرنا بھی ہمارا کام ہے۔ بہت بڑے کام ہیں۔ دیکھیں آجکل میں مثالیں دے دیتا ہوں بعض دفعہ عورتوںکی ،صحابیات کی۔ کیسے کیسے کام کر رہی تھیں تو بس اسی لیے دیتا ہوں تا کہ آپ لوگوں کے سامنے نمونے قائم ہوجائیں۔
حضور انور نے سیکرٹری صاحبہ تربیت کو نماز کی اہمیت کے بارہ میں ارشاد فرمایا کہ نماز کی عادت ڈالیں۔ ہر ایک میں یہ تصور پیدا ہوجانا چاہیے کہ جس طرح انسان کی جسمانی زندگی ہے، ہوا کے بغیر آپ زندہ نہیں رہ سکتے اسی طرح روحانی زندگی میں نماز کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ جتنی مرضی نیکیاں کرنے والے ہوں وہ نیکیاں عارضی ہوتی ہیں موسمی نیکیاں ہوتی ہیں کبھی ٹھنڈی ہوا چل گئی کبھی ٹھنڈا موسم آگیا کبھی فرحت بخش موسم آگیاپھر وہی دوبارہ گرمی وہی ہوا بند وہی حبس تو اس کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا۔ پھر انسان بے چین ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ فائدہ تبھی ہے جب مستقل مزاجی سے آپ کی جو بھی لجنہ ہے وہ نمازیں پڑھنے والی ہوں اور اپنے بچوں کی تربیت کریں ان کو نمازیں پڑھانے والی ہوں۔ صرف خود نمازیں لجنہ نے پڑھ لیں تو وہ کافی نہیں ہیں جب تک کہ اپنی نسل کو بھی نمازوں کی عادی نہ بنا دیں۔
سیکرٹری صاحبہ نے عرض کی کہ اکثر مجالس کی رپورٹس آجاتی ہیں لیکن جو ہماری افریقن جماعت یا عرب جماعت ہے وہاں پر کمی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا تو ٹھیک ہے ان کو بھی confidence میں لیں ان کو اعتماد میں لیں وہ بھی کمی آپ لوگوں میں ہے آپ لوگوں سے صحیح طرح رابطہ نہیں رکھتے ۔ نہ آپ لوگ افریقنوں میں جا کر بیٹھتے ہیں نہ آپ عربوں میں جا کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے نان اور ان کی حمس وغیرہ کھاتی رہیں اور ان کے ساتھ بیٹھیں اور وہاں افریقنوں کے ساتھ بیٹھ کے ان کے بانکو اور کینکے اور سموک فش اور چیزیں کھائیں ان کے ساتھ بیٹھ کے تو ان کو پتا لگے گا یہ ہم میں سے ہی ہیں نہ کوئی پاکستانی ہے نہ عرب نہ گھانین نہ افریقن ساروں نے مل جل کر رہنا ہے ایک احمدی معاشرہ قائم کریں۔ یہ بھی تربیت کا بہت بڑا کام ہے۔ ایک احمدی معاشرہ قائم کر دیں ،ایک صحیح اسلامی معاشرہ قائم کر دیں جس میں کوئی قوم نہیں ہے سب ایک ہیں، مسلمان ہیں اور احمدی مسلمان ہیں۔ تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے یہ بہت بڑا کام ہے۔ نمازوں کے ساتھ یہ بھی ایک چیلنج ہے جو آپ نے تربیت کا کرنا ہے کہ سب کو اکٹھا کریں اور ایک بنائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا جو مقصد تھا دین واحد پہ جمع کرنا وہ ٹارگٹ اپنے سامنے رکھیں کہ ہم نے ایک بن کے رہنا ہے۔ اور جہاں کمی ہے وہاں جاکے پتاکریںکیوں کمی ہے اس کمی کی وجہ ہماری کمزوری ہے یا ان کی کمزوری ہے اور جس طرف بھی کمزوری ہے اس کو دور کرنا ہے۔ یہ بھی سیکرٹری تربیت کاکام ہے اور آپ کی متعلقہ سیکرٹری تربیت جو ہیں مجلس میں ان کا کام ہے۔
ایک ممبر نیشنل عاملہ نے عرض کیا کہ کچھ ایسی لجنہ اماءللہ ہیں جو جماعت سے تعلق نہیں رکھتیں اور جب ہم ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیںتو وہ ملنے سے بھی انکار کر دیتی ہیں۔ حضور انور سے اس سلسلہ میں راہنمائی کی درخواست ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ آپ صرف جماعتی کام کے لیے ان سے رابطہ کرتی ہیں اس لیے کرتی ہیں کہ آج جماعت کا اجلاس ہو رہا ہے آج جلسہ ہو رہا ہے اجتماع ہو رہا ہے تم آجاؤ یا تم چندہ دے دو یا فلاں تحریک میں حصہ لو۔ ان کو جماعتی کام کے لیے رابطے نہ کریں پہلے ان سے ذاتی تعلق کے لیے رابطہ کریں۔ جب آپ سے ذاتی تعلق پیدا ہو جائے گا تو ان کو پتا لگے گا کہ یہ صرف ہمارے سے چندہ لینے کے لیے نہیں آرہیں۔ آہستہ آہستہ پھر ان کو جماعتی تنظیم کا بتائیں۔ جو پاکستانی ہیں ان کو بھی آہستہ آہستہ جب ذاتی تعلق پیدا ہوگا ان کو بتائیںکہ تم لوگ یہاں آئے ہو تو تمہارے اندر کوئی کوالٹیز تو نہیں تھیں جس کی وجہ سے اٹلی کی حکومت نے تمہیں یہاں رہنے کی جگہ دے دی ۔ تم لوگ پاکستان سے یا باقی ملکوں سے بھی اسائیلم لے کے آئے ہو ۔ تم کمانے کے لیے آئے ہو تو اللہ نے جو فضل کیا ہے اس کا اظہار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنو اور جماعتی پروگراموں میں حصہ لیا کرو۔ تو آہستہ آہستہ ذاتی تعلق پیدا ہو گا۔ پھر باتیں سمجھانا بھی شروع کر دیں گی لیکن ایک دم اگر آپ ان کو سمجھائیںگی تو مختلف طبیعتیں ہوتی ہیں وہ پھر چِڑ بھی جاتی ہیں اور وہ چِڑ کے پھر آپ کوجواب دینے لگ جاتی ہیں۔ اپروچ (Approach)صحیح ہونی چاہیے۔
ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے عرض کیا کہ اکثر شوہر جماعتی کاموں میں یا تعلیمی کلاسز میں اپنی بیویوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا ان کی اصلاح کریں۔ مردوں کی اصلاح کرنا بھی آپ کا ہی کام ہے۔ اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ اچھے شوہر بن جائیں اور اچھے جماعت کے ممبر بنیں ۔ ایک تو یہ کریں تا کہ آئندہ نسل کو سنبھال سکیں۔ ایک تو لانگ ٹرم پلاننگ ہے لمبے عرصہ کی پلاننگ اگلی نسل کی تربیت کرنا عورتوں کا کام ہے تاکہ وہ صحیح تعاون کرنے والے ہوں۔ دوسرے جو نہیں کرتے ،عورتیں پھر دیکھیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں، ان سے پوچھیں۔ اگر ان کو یہ شکوہ ہے کہ تم سارا وقت جماعت کو دے دیتی ہو لجنہ کے کام کرتی رہتی ہو لجنہ کے نام پہ سارا دن باہر رہتی ہو اور میں گھر آؤں تو گھر خالی ہوتا ہے کھانے کا انتظام میرا صحیح نہیں ہوتا بچے صحیح نہیں تربیت حاصل کر رہے بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو پھر شوہرصحیح ہیں۔ اس لیے اپنے کام کو divide کریں،دیکھیں صحیح پلان کریں کہ کس طرح ہم نے بچوں کا بھی حق ادا کرنا ہے خاوند کا بھی حق ادا کرنا ہے، گھر کو سنبھالناہے اور پھر جو وقت ہے وہ لجنہ کو بھی دینا ہے جماعتی کاموں میں۔ تو پوری پلاننگ کر کے کریں، سوچیں، سکیم بنائیں پھر لجنہ کی ممبرات جن کے خاوند ان کو تعاون نہیں کرنے دیتے ان سے کہیںکہ تم اس پہ عمل کر کے دیکھو شایدکامیابی ہو جائے۔ یہ تو ہر ایک کیس کے اوپر individually فیصلہ کرنا ہوگا ۔لیکن یہ بہرحال یاد رکھیں کہ عورت پہ گھر کی ذمہ داری ہے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے اور خاوند کا خیال رکھنے کی بھی ذمہ داری ہے۔ یہ نہیںکہ خاوند کو کہہ دے کہ میں جا رہی ہوں لجنہ کے کام تم آج روٹی پکا لینا۔ یہ نہیں ہو گا۔ پھر تو لڑائیاں ہی ہوں گی گھر میں اور لڑائیوںکو ہم نے avoid کرنا ہے۔ میں بالکل یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ گھروں میں لڑائیاں کریں اور فتنے پیدا کریں۔ عورتوں کو بھی چاہیے حکمت سے کام کریں اور سمجھانا چاہیں توعورتیں سمجھا سکتی ہیں ۔
ایک ممبر لجنہ نے عرض کیا کہ بعض خواتین پیدائشی احمدی ہونے کے باوجود دینی تعلیم کی کمی کا شکار ہیں اور یہ کمی ان کی اولادوں میں منتقل ہو رہی ہے۔ اور تربیتی کوشش کے باوجود مثبت نتائج سامنے نہیں آ رہے۔ پیارے حضور ایسے احمدی احباب کے لیے آپ کیا نصیحت فرمائیں گے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ابھی میں نے سیکرٹری تربیت کو جوباتیں کہی ہیں اس پہ عمل کریں۔ ایسی عورتیں ہیں جن کی دینی تربیت کمزور ہے۔ ان کی خود تربیت کریں اور ان کی لڑکیاں اور بچے جو ہیں ان کو ذیلی تنظیمیں سنبھالیں۔ لڑکوں کو خدام الاحمدیہ سنبھالے ۔لڑکیوںکو لجنہ سنبھالے تربیت کرے اپنے گھروں میں تربیت کریں۔ تو یہ تو ایک مستقل کرنے والاکام ہے ۔ اس کی اہمیت بتائیں تو آہستہ آہستہ انشاء اللہ اگلی نسلیں کم از کم ٹھیک ہو جائیں گی۔ یہ اگر نہیں بھی تو اگلی نسلیں ٹھیک ہوں گی لیکن دنیا داری میں پڑ گئے تو ان سے کہہ دیں پھر دنیا داری میں پڑے تو دنیا داری میں تو پھر تباہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہونا۔ آخر میں پھر روؤگے۔ پیار سے محبت سے ذاتی تعلق پیدا کرکے ذاتی رابطے کر کے ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہیے۔ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں ذاتی رابطے کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کی لجنہ کی تھوڑی سی تو تعداد ہے ان کے ساتھ اگر ذاتی رابطے قائم کریں تو بڑے آرام سے ہوسکتے ہیں زیادہ مسئلہ ہی کوئی نہیں چھوٹی سی جماعت میں تو بہت کام ہوسکتے ہیں۔ بڑی جماعتیں ہوں جن کی ہزاروں کی تعداد ہو وہاں تو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ آپ تو چھوٹی سی جماعت ہیں آپ کے ہاں تو تربیت کے جو بھی مسائل اٹھتے ہیں ان کا فوری حل ہونا چاہیے۔ اگر آپس میں آپ میں ایکا ہے آپ میں محبت اور پیار ہے۔ جو عاملہ ممبرات ہیں یا دوسری پڑھی لکھی اور سمجھدار ہیں ان میں پیدا کریں تو باقیوں میں بھی آہستہ آہستہ یہ بات پیدا ہوتی جائے گی ۔ یہ سارے جماعتی کام جو ہیں ہمارے پاس فورس تو کوئی نہیں، فوج تو کوئی نہیں سختی سے نہیں ہوسکتے۔ پیار اور محبت سے ہی ہونے ہیں یہی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا تھا۔ قرآن کریم میں یہی حکم ہے کہ پیار اور محبت سے کام لو اور ان کو قریب لاؤ تو یہ تمہارے قریب آ جائیں گے ۔سختی کرو گے تو دور بھاگ جائیںگے۔
ایک اَور ممبر لجنہ نے عرض کیا کہ موجودہ مالی بحران کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے زیر اثر بہت سے لوگ مالی کمزوری کا شکار ہو رہے ہیں اور اقتصادی طور پر پریشانیاں اور بے چینیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ تو ایسے میں آپ ہمیں کیا نصیحت فرمائیں گے اور نوجوان نسل کو ان حالات سے نمٹنے کے لیے آپ کیا لائحہ عمل دیں گے؟
حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو دنیا کے سارے حالات ایسے ہو رہے ہیں۔ قناعت پیدا کرو اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے اپنے اندر قناعت پیدا کرو۔ اگر قناعت پیدا ہوجائے تو جو فضول خرچیاںہیں غلط قسم کی خواہشات ہیں ان میں کمی آجاتی ہے۔ اب ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے میک اپ کا سامان جو ہے فلاں جگہ کا مہنگا ترین ہی لینا ہے یا میں نے کپڑے پہننے ہیں تو فلاں ڈیزائنر کے ہی کپڑے پہننے ہیں اور اس پر خرچ کرنا ہے تو اس سے ظاہر ہے frustration پیداہو گی بے چینیاں پیدا ہوں گی لیکن اگر قناعت ہے تو جو بھی ہے میں نے اس پہ گزارہ کرنا ہے تو ان کو بھی احساس پیدا ہوجائے گا ۔دنیا میں ہر جگہ گیس کی کمی ہونے والی ہے اور فیول کی مہنگائی ہوگئی ہے اور مزید ہو گی اور اس میں shortage بھی ہوگی تو اس سے باقی چیزوں کی قیمتوںپر بھی اثر پڑے گا ۔ یہ صرف احمدی عورتوں کا سوال نہیں ہے یہ ساری دنیا کے ہر شخص کا سوال ہے تو اسی طرح اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔ جو دین سے تعلق رکھنے والے ہیں وہ پھردنیاوالی لالچ میں نہیں ڈوبتے ۔ آپ لوگوں نے تو دنیا کو گائیڈ کرنا ہے بجائے اس کے کہ دنیا کے لالچ کے پیچھے پڑ کے ایک دوسرے کے حقوق کو مارو اور حقوق غصب کرو چوریاں کرو اور ڈاکے ڈالو یا قتل و غارت کرو یا فساد پیدا کرو ملک میں حکومتوں کے خلاف جلوس نکالو۔ اپنے اندر قناعت پیدا کرو اور کم سے کم خرچے میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔ احمدی اس طرح اپنی تربیت کر لیں گے تو باقی بھی تربیت کر سکیں گے۔ یہ تو ایک مستقل کوشش ہے جس کے لیے اپنے وہاں کےحالات کے مطابق ایک لائحہ عمل بنائیں ایک عمومی لائحہ عمل تو میںکئی دفعہ دے چکا ہوں ۔ٹھیک ہے کہ قناعت پید اکریں اپنے دین سے تعلق پیدا کریں تو جو دنیاوی خواہشات ہیں وہ کم ہو جاتی ہے نہیں تو دنیاوی خواہشات تو کبھی کم ہو ہی نہیں سکتیں وہ بڑھتی چلی جائیں گی۔ یہ تو ایسی بیماری ہے جس طرح کھجلی کی بیماری ہوتی ہے skin کی کہ آدمی کھجلاتا رہتا ہے اور اس کو مزہ آتا رہتا ہے اور آخر اپنے آپ پہ زخم ڈال لیتا ہے ۔تو یہ توUltimatelyپھر اپنے آپ کو زخمی کرنے والی بات ہو گی ۔ اس لیے قناعت اور اللہ تعالیٰ کا ذکر۔ نمازوں کی طرف توجہ۔ تو ساری چیزیں خودٹھیک ہو جائیں گی۔ اللہ سے تعلق پیدا کر لیں باقی بیماریاں خود ہی دور ہو جائیں گی ۔
ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے عرض کیا کہ شادی کے بعد اکثر لڑکیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ حضور انور کی اس حوالہ سے کیا راہنمائی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پہلا کام تو لڑکیوں کا یہی ہے کہ گھر کو سنبھالیں۔ اگر خاوند کہتا ہے کہ تعلیم چھوڑ دو تو بہتر یہی ہے کہ گھر میں فساد سے بچنے کے لیے تعلیم چھوڑ دو اور اگر بچے پیدا ہو جاتے ہیں تو بچوں کی تربیت پہلا فرض ہے اور اگر کسی پروفیشنل تعلیم میں کوئی عورت پڑھ رہی ہے کوئی میڈیکل کر رہی ہے یا اور اس طرح جس کا فائدہ ہے دنیا کو تو بچوں کی پیدائش کے دوران میں خاوند سے اجازت لے کے اس تعلیم کو بعد میں جاری رکھ سکتی ہے یا شادی سے پہلے ایک معاہدہ کر لے کہ میں یہ تعلیم پڑھ رہی ہوںاس کو میں نے پڑھنا ہے اس پروفیشن میں میں نے جانا ہے تو مجھے شادی کے بعد پڑھنے کی اجازت ہوگی۔ تو پھر گھروں میں فساد نہیں ہوتا جھگڑے نہیں ہوتے لیکن پہلی بات یہی ہے کہ اگر بچے ہوں تو بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرو۔ میں نے کئی احمدی عورتیں دیکھی ہیں بچے بھی پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نےاپنی تعلیم بھی جاری رکھی ہے بچوںکی پیدائش کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی بن گئی ہیں۔ کچھ عرصہ ان کو بریک لینا پڑا پھر تعلیم جاری رکھی اور اگر خاوندبالکل ناپسند کریں اور پہلے معاہدہ بھی نہیں ہوا تو پھر یہی ہے گھروں کو سنبھالو اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرو۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے چلو پھر اللہ حافظ ہو السلام علیکم۔
٭…٭…٭