شاہِ حبشہ سے شاہِ برطانیہ تک(قسط دوم۔آخری)
عیسائی تخت و تاج سے وفاداری کا مسئلہ
جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی مہمات و خدمات کے لیے قائم مرکز کو جگہ دینے اور حفاظت فراہم کرنے کے لیے دلی شکر گزاری کا اظہارکرتے ہیں یادرہے کہ سلطنت برطانیہ کا یہ وہ احسان اور اس کی کمال کشادہ دلی کا وہ استعارہ ہے کہ تاحال کوئی ایک بھی مسلمان سربراہ مملکت اپنے ہم مذہب مسلمان فرقے کے لیے ایسا ظرف اور حوصلہ نہیں دکھا سکا۔
ونڈسر گھرانے کے آغازپر دنیا کی حالت
شاہ جارج پنجم کے سوانح نگار John Buchan نے اس وقت کے معاشرے کا خوب نقشہ کھینچا ہے جب ونڈسر گھرانے کا دَور شروع ہوا تھا:’’عہد وکٹوریہ کے اعتقادات پر تیزی سے ترقی کرتے سائنسی علوم کا زبردست حملہ جاری تھا…مشہور ومعروف عقائد اور روایتی عقائد سب عوامی رجحانات کے سامنے یکساں متزلزل تھے۔…معاشرے میں فکری بنیادوں کے کمزور ہونے کے ساتھ تہذیب وثقافت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، جس کا براہ راست اثر معاشرے میں باہمی امن و امان کی صورت حال اور لوگوں کی عمومی بہبود پر بھی ہورہا تھا۔ …معاشرے سے خدا خوفی کا مزاج ختم ہورہا تھا۔…تب لوگوں کی دنیاوی زندگی ایک مضبوط اورمشترک عقیدہ اور مقصد کے بغیرچل رہی تھی جو غلط فہمیوں اور طرح طرح کے نئے رجحانات سے بھرتی جارہی تھی…الغرض ایسی سخت مشکلات اوراختلاف آراء کے ماحول میں اس نئے دور کا آغاز ہوا۔‘‘
(John Buchan, The People’s King: George V: A Narrative of Twenty-Five Years, Houghton Mifflin Company, Boston, USA, 1935)
بلاشبہ یہ مذہبی دیوالیہ پن کا آغاز تھا۔ ایمانیات کے اس نقصان اور خرابی کے نتیجے میں معاشرے میں اخلاقی تنزلی نے جنم لیاجوپہلے لوگوں کو باہمی تنازعات کی طرف لے جاتی رہی اور یہی امر جنگوں کا پیش خیمہ بنا۔ تب تک، انگلستان لوگوں کو مسیحی عقیدے کی طرف بلانے کے لیے اپنے لوگوں کو منّاد بنا کر ’’کفار‘‘کے ملکوں کی طرف بھیجاکرتا تھا۔ لیکن جب پیچھے اپنے گھر میں ایمان کے انحطاط اور یقین کے زوال کا سفر جاری ہو، وہاں بھلا تبلیغی کوششیں کچھ معتبر ہو سکتی ہیں ؟
پہلی جنگ عظیم کے بعد نوآبادیات کے مقامی لوگوں میں قومی تشخص کا جذبہ بیدار ہوچکا تھا۔ اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ سخت لہجے میں آزادی کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ اور لہجے کی یہ ترشی سامراجی آقاؤں کے لیے بالکل نئی تھی۔ یوں مذہبی اور سیاسی مشکلات کے اس امتزاج نے تاج برطانیہ کو ایک مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے کی راہ دکھائی جہاں اس کی رعایا کے سیاسی نظریات اور مذہبی عقائد کا احترام کیا جائے۔
آزادیٔ مذہب اور ونڈسر گھرانہ
یہ حقیقت واضح طور پر باور ہوچکی تھی کہ اب وقت آگیا ہے کہ نہ صرف سلطنت کے جغرافیائی اورسیاسی مقبوضات کو واپس کیا جائے بلکہ نوآبادیاتی ملکوں میں سرگرم مشنری سوسائٹیوں کے جال کو بھی واپس سمیٹ لیا جائے۔
وقت کا دھارا بدل چکا تھا، ایک بالکل نوزائیدہ مسلم فرقہ اپنے کم وسائل کے باوجود اب اپنے مبلغین کو لندن بھیجنے والا تھا جو وسیع و عریض برطانوی سلطنت کا مرکز تھا۔
شاہ انگلستان جارج پنجم کے دَور حکومت کے ابھی صرف دو ہی سال ہوئے تھے کہ سنہ 1912ء میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا پہلا مبلغ ’’ووکنگ‘‘ میں اترا،اور پوری تیاری کے ساتھ برطانوی عوام کو دعوت اسلام دینے لگا۔ابھی ایک اور سال گزرا ہوگا کہ احمدیہ مشن،شہر لندن کے مرکز میں واقع Edgware Road سے متصل ایک گلی میں قائم ہوگیا۔ یہ مقام بکنگھم پیلس اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانوں سےمحض چند گھڑیوں کی مسافت پر تھا۔یوں برطانوی سلطنت کے مرکز میں احمدیہ مشن نے تبلیغ اسلام کاکام شروع کردیا۔
پروفیسر Ron Geaves کی تحقیق میں درج ہے کہ ’’برطانیہ میں اسلام کی تبلیغ اور یہاں مشن کے قیام کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کی پہلی منظم کوشش بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اوائل میں احمدیہ مشنریوں کی آمد کے ساتھ ہوئی۔ ‘‘
(Ron Geaves, Islam and Britain: Muslim mission in an age of empire, p67, Bloomsbury, London, 2018)
شاہ برطانیہ جارج پنجم کے عہد میں ایک بالکل چھوٹے سے مسلمان فرقے کی یہ جرأت مندانہ کوشش کہ وہ مالی وسائل کے لحاظ سے قریباً تہی دامن ہوتے ہوئے لندن میں مسلمانوں کا تبلیغی مرکز قائم کردیں یقیناً ایک حیرت انگیز امر ہے۔
برطانوی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ احمدی مبلغین برطانیہ کے تقریباً ہر حصے میں اسلام کی تبلیغ میں مصروف کار ہوگئے۔یہ مجاہد ایک دن، پلائی ماؤتھ میں لیکچر دیتے ملتے ہیں تو اگلے دن برائٹن میں مصروف کار ہوتے۔ ایک ہفتہ وہ پورٹ سمتھ میں وعظ کررہے تھے، جس کے بعد وہ لیورپول اور ملک کے دور دراز شمالی حصوں کے لوگوں سے خطاب کر تے پائے جاتے۔ اس انتھک کوشش کے نتائج بھی پوشیدہ نہیں تھے جیسا کہ برطانیہ میں اسلام کی تاریخ کے ماہرین نے مشاہدہ کیا ہےکہ
’’لندن میں اس نئے مذہب کو اختیار کرنے والے زیادہ تر متوسط اور اعلیٰ طبقے کے مرد اور خواتین تھے جو عیسائیت کے متوازی متبادل مذہبی اور روحانی سفر کی تلاش میں تھے۔‘‘(Ibid, p 68)
1920ء تک جماعت احمدیہ کے مبلغین لندن کے علاقہ ساؤتھ فیلڈز میں دو مکان خریدچکے تھے جن کے عقبی باغیچوں سے ملحق ایک وسیع باغ بھی تھا۔ سلطنت برطانیہ کی کرۂ ارض پر پھیلی اراضی میں سے اس ایک ایکڑ کے ٹکڑے کی خریداری کےدن سے یہ بالکل واضح تھا کہ یہ جگہ احمدیہ مسجد کی تعمیر کے لیے خریدی گئی ہے۔علاقے کے مقامی حکام کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت سےبھی اس مقصد کی تصدیق ہوتی ہےنیز 7؍ فروری 1921ء کے مشہور اخبار دی ٹائمز کی رپورٹ اور باقی برطانوی ملکی اور مقامی اخبارات ورسائل میں جماعت احمدیہ کی تعمیر مسجد کے لیے خریدی گئی زمین کا ذکر ہوتا رہا۔
(Details: Asif Basit, London’s First Mosque: A study in history and mystery, Review of Religions, London, July 2012)
یہ قطعہ زمین اگرچہ بہت چھوٹا تھا،لیکن ایک ایسے شہنشاہ کی سرزمین میں واقع تھا جس نے حال ہی میں نہ صرف اپنی جرمن وابستگی کی باقیات اور خطابات کو ترک کر دیا تھا،بلکہ اپنے شاہی خانوادے کوونڈسر گھرانے کے طور پر ازسرِ نو متعارف کروایا تھا۔ یہ وہ شہنشاہ تھا جس کاایک لقب،علاوہ دیگر بہت سے القابات کے’’والیٔ دین‘‘(Defender of Faith)بھی تھا، جہاں ’’دین‘‘ اس کے ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘کے سربراہ ہونے کے ناطے عیسائیت تھا۔ وہ شہنشاہ معظم دوسرے ادیان کے ’’والیوں‘‘کو بھی اپنے ملک میں ایک قطعہ زمین دینے پر رضامند تھا۔
بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے آغاز پر ہی شاہ جارج پنجم نے 1924ء میں لندن میں British Empire Exhibitionکے منصوبے کی منظوری دی۔اور اس نمائش کا اوّلین اور بڑا مقصد تویہ تھا کہ برطانوی سلطنت کے جاہ وجلال کو عوام کے دلوں میں مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر اس نمائش میںبرطانوی سلطنت میں موجود مذاہب کو بھی نظر انداز نہ کیا گیا، کہ مذہبی آزادی کو ونڈسر گھرانہ اپنی کامیابی خیال کرتا تھا۔
شاہ جارج پنجم کی سرپرستی میں سلطنت کے مذاہب کی کانفرنس امپیریل انسٹی ٹیوٹ لندن میں منعقد ہوئی۔ برطانوی ہندوستان سے طویل سفر کرکےآنے والے ایک مقرر کو مدعو کیا گیا۔ یعنی جماعت احمدیہ مسلمہ کے دوسرےسربراہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ۔ آپؓ نے وسیع سلطنت کے دارالحکومت کے دانشور طبقے اور سلطنت کے مختلف حصوں سے سفر کرنے والے بہت سے دوسرے لوگوں کو دین اسلام کی تعلیم اور پیغام سے متعارف کروایا۔ آپ کی تشریف آوری اور کانفرنس میں شرکت نے برطانوی پریس کو بہت زیادہ متوجہ کیا، جس نے آپؓ کے دو ماہ کے قیام کے دوران آپ کی مصروفیات کی زبردست اور تفصیلی رپورٹنگ کی۔ یہاں تک کہ کانفرنس کے منتظم اعلیٰ Sir Denison Ross نے بھی یہ تسلیم کیا کہ اس عالمی کانفرنس کو حضرت مصلح موعود ؓکی تشریف آوری سے کس قدر فائدہ ہوا:’’ہمیں اس بات پر خاص خوشی ہے کہ احمدیہ تحریک کے سربراہ خلیفۃ المسیح نے فوری طور پر کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے متعدد پیروکاروں کے ساتھ لندن آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔آپ کی اس قابل قدر محنت و کاوش کی ذرائع ابلاغ میں زبردست تشہیر ہوئی اور یوں ہماری کانفرنس کے لیے لوگوں کی غیر معمولی دلچسپی کا سامان ہوگیا۔ ‘‘
(Denison Ross, in Religions of the Empire, Ed William Loftus Hare, p 5, Macmillan, London, 1925 (Capitalisation as in original and not the author’s))
اس کانفرنس کا یہ وسیع انتظام و اہتمام شاہ جارج پنجم کی اپنے ملک کے اندر دیگر مذاہب کے لیے رواداری کو ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا تھاجب کہ سلطنت کے علاقوں میں دی گئی مذہبی آزادی کا احوال تو سب کے سامنے تھا۔
لیکن رعایا کو عقیدہ کی آزادی دینے کا ایک اور بڑا ثبوت تب واضح طور پر ظاہرہوا جب جماعت احمدیہ مسلمہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے لندن میں ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔
یہ تاریخی موقع 19؍ اکتوبر 1924ء کو آیا جب برطانوی ذرائع ابلاغ نے اس انوکھی تقریب کی دل کھول کر تشہیر کی۔ دی ٹائمز، ایوننگ سٹینڈرڈ، دی ٹیلی گراف، لندن ایلسٹریٹڈ نیوز، دی سی فیر سمیت سب مرکزی اخبارات نے صفحہ اول پر مسجد کے سنگ بنیاد کی شہ سرخی بنائی۔ کم و بیش سب اخبارات نے اپنی پیشائی ان الفاظ سے سجائی:
“London’s First Mosque”(Details: Asif Basit, Islamic Caliphate: The missing chapters, Domum Historia, London, 2019)
چشمِ تصور سے دیکھیں تو بادشاہ جارج پنجم، خزاں کی ایک صبح میں بکنگھم پیلس کی ایک بڑی کھڑکی کے پاس بیٹھے لندن میں ایک مسجد کی تعمیر کی خبر پڑھ رہے ہوں اور زیرِ لب مسکرا رہے ہوں کہ وقت کیسے بدل جاتا ہے اور اس کے دھارے کوکوئی بھی نہیں روک سکتا۔
یہ تخیل محض افسانوی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ سلطنت کے زندہ مذاہب کی کانفرنس کی رپورٹوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ بادشاہ نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے ’’اپنی نیک خواہشات پر مبنی مبارکباد ‘‘ کا پیغام بھیجا تھا، جسے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا تھا۔(Thomas Howard, The Faith of Others, p 149, Yale University Press, 2021)
الغرض بادشاہ نہ صرف اس سب پیش رفت سے آگاہ تھا بلکہ ایسا ہونے کی اجازت دے کر مسر ت اور اطمینان محسوس کرتا تھا۔ کیونکہ بادشاہ چاہتا تھا کہ مادیت کے تندو تیز طوفان کے ہاتھوں ایمان کی شمع بجھ ہی نہ جائے۔
اکتوبر 1926ء میں،لندن کی پہلی مسجد
مسجد فضل کی تعمیر مکمل ہونے پر اس کا افتتاح ہوا۔ یہ صرف ایک مسجد ہی نہیں تھی بلکہ ملک کے سماجی و سیاسی عمل میں برطانوی مسلمانوں کی شرکت کا مرکز تھی۔شاہِ برطانیہ جارج پنجم کی اجازت اور نگرانی میں ہونے والی گول میز کانفرنسوں کے ہندوستانی مندوبین مسجد فضل میں تشریف لاتے۔ امام مسجد فضل لندن، بطور نمائندہ جماعت احمدیہ باقاعدگی سے بادشاہ اور حکومت کے ساتھ اہم مسائل پر خط و کتابت اور ملاقات کیا کرتے اور انہیں امام جماعت احمدیہ، خلیفۃ المسیح کے پیغامات پہنچاتے۔ان مراسلوں کے جوابات بھی اسی توسط سے امام جماعت احمدیہ کو موصول ہوا کرتے۔
جماعت احمدیہ کا لندن مشن شاہ جارج پنجم کے دَور حکومت میں مکمل فعال رہا اور بعدازاں ان کے جانشین شاہ جارج ششم کے عہد میں بھی خدمت دین وانسانیت کا یہ سفر جاری رہا۔ ان دونوں شاہان معظم کے بعد نوجوان شہزادی الزبتھ دوم تخت نشین ہوئی اوراس کے عہدِ زرّیں میں جماعت احمدیہ کاتبلیغِ اسلام کاسفرجاری رہا، اس ملکہ معظمہ نے قریباً سات دہائیوں تک جہاں اپنے ملک پر حکمرانی کی وہاں اپنے اجداد کی مذہبی آزادی کی روایت کو بھی جاری رکھا۔
اسی ملکہ کے دَور شاہی میں سال 1978ء کے موسم گرما میں جماعت احمدیہ مسلمہ نے لندن شہر میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا: “Deliverance of Jesus from the Cross”اس کانفرنس کے دوران جماعت احمدیہ کے عقیدہ وفات مسیح پر تحقیقی مقالے سنائے گئے جن کا مرکزی خیال یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے واقعہ صلیب میں وفات نہیں پائی تھی اور نہ ہی آپؑ جسمانی طور پر آسمان پر چلے گئے تھے، بلکہ آپؑ نے واقعہ صلیب کے بعد ارض مقدس سے ہجرت کی توفیق پائی اور ایک لمبی زندگی پائی، اپنے خداداد مشن میں مصروف رہے اور کشمیر میں وفات پاکر وہیں دفن ہوئے۔اس کانفرنس کا مرکزی خطاب امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب، خلیفة المسیح الثالثؒ نے فرمایاتھا۔
ایک عقیدے کے محافظ کی طرف سے ایک ایسے موضوع پر کانفرنس منعقد کرنے کی اجازت دیناکہ جس کانفرنس میں اس کے لازمی عقیدہ کے بنیادی ترین اصول پر ہی سوال اٹھائے گئے، ہر لحاظ سے قابل تعریف اور شکر گزار ہونے کے لائق ہے۔ پھر اس کانفرنس میں ادیان سابقہ خصوصاً عیسائیت پر اسلام کی بالادستی کےموضوع پر اظہار خیال کیا جانا شاہ برطانیہ اور حکومت برطانیہ کی وسعتِ قلبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تاریخ کا سفر جاری رہا،جب پاکستان میں جماعت احمدیہ کے افراد پر ظلم و ستم سفاکی کی حدوں کو چھونے لگا اور جہاں ان پر ہونے والے ہر ظلم و زیادتی کو آئین پاکستان کے ذریعے قانونی اور جائز قرار دے دیاگیا، تو جماعت کے مرکز کو پاکستان سے باہر منتقل کرنے کا موقع آگیا، کیونکہ اس نئی صورت حال میں خلیفہ وقت کی آواز کو یکسر دبادینے کا انتظام مکمل ہو چکا تھا اور نظام جماعت کو مفلوج کردینے کے عزائم تھے۔
تب جماعت احمدیہ کے اس وقت کے سربراہ حضرت مرزا طاہر احمدخلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے،ہجرت حبشہ کی اتباع میں انگلستان کے صدر مقام لندن کا انتخاب فرمایا۔یوں جماعت کا عالمی مرکز بھی آپ کے وجود کے ساتھ برطانیہ منتقل ہوگیا اور اس طرح آپ رحمہ اللہ 1984ء سے لے کر 2003ء میں اپنی وفات تک نہ صرف مکمل آزادی کے ساتھ اس سرزمین پر مقیم رہے، بلکہ اپنی تمام مذہبی ذمہ داریوں کی بھی بسہولت بجاآوری کی توفیق پاتے رہے، یہاں تک کہ جب آپ کا انتقال ہوگیا تو آپ اسی برطانوی سرزمین میں دفن ہوئے۔ یہ سب حقائق ایک بار پھر ہاؤس آف ونڈسر سے اظہار تشکر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
جماعتِ احمدیہ کے موجودہ سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد 2003ء میں اپنے پیش روحضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کی وفات کے بعد انگلستان تشریف لائے اور مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ یوں آپ تب سے جماعت احمدیہ عالمگیر کے افراد کی راہنمائی بھی کررہے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلارہےہیں۔مزیدبرآں آپ کی امن عالم کےلیے بےمثال کوششیں بھی مسلسل جاری ہیں، اور دینی ترقی و سماجی بہبود کی سب مہمات آپ بغیر کسی ظلم و ستم کے خوف کے اس سرزمین سے سرانجام دے رہے ہیں جہاں ونڈسر گھرانے کے دو معزز افراد کی حکومت ہے:پہلے ملکہ الزبتھ دوم اور اب حال ہی میں شاہ چارلس سوم تخت نشین ہوئے ہیں۔
جماعت احمدیہ میں قائم خلافت بنیادی طور پر پیغمبر اسلامﷺکے اسوۂ حسنہ کو ہی مسلمانوں کے لیے طرز عمل کا بہترین نمونہ مانتی ہے اور اس کی پیروی کرتی ہے۔ اور خلفائے احمدیت برطانوی بادشاہت کے اسی لیے ممنون ہیں کہ تاج برطانیہ نے نہ صرف دین اسلام پر عمل کرنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ اسلام کے پیغام کوپھیلانے کےلیے بھی سازگار ماحول فراہم کیا ہوا ہے۔خلفائے احمدیت نے مذہبی اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا ہوا ہے جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرتِ حبشہ کے موقع پر کیا تھا۔ نیز جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی مہمات و خدمات کے لیے قائم مرکز کو جگہ دینے اور حفاظت فراہم کرنے کے لیے دلی شکر گزاری کا اظہارکرتے ہیں۔ یاد رہے کہ سلطنت برطانیہ کا یہ وہ احسان اور اس کی کمال کشادہ دلی کا وہ استعارہ ہے کہ تاحال کوئی ایک بھی مسلمان سربراہ مملکت اپنے ہم مذہب مسلمان فرقے کے لیے ایسا ظرف اور حوصلہ نہیں دکھا سکا۔
مختصراً ایک اور سوال کا جواب دے کر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ جب تمام قوانین پارلیمنٹ بنائے تو بادشاہت کی تعریف کیوں؟
اس کا جواب بہت سادہ اور سیدھا ہے۔ جب تک بادشاہ ریاست کا سربراہ رہے گا، بادشاہ جماعت احمدیہ کے خصوصی شکریہ کا مستحق رہے گا۔کیونکہ اس جماعت کے افراد بادشاہ کےملک میں اور اس کی حکومت کے تحت بطور شہری رہتے ہیں اور ان کو اس سرزمین سے اسلام کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلانے کی اجازت ہے۔
احمدی ہونے کے ناطے، ہم برطانوی حکومت کے بھی اسی طرح شکر گزار ہیں، جس کا باضابطہ نام ’’His Majesty’s Government‘‘ ہے۔ اس حکومت کی قائم کردہ مذہبی رواداری پر شکرگزاری اور معاشرے میں ایسی فضا کو برقرار رکھنے کی کوششوں پر شکرگزاری کے جذبات ہیںجہاں ہر شہری کے لیے عقیدہ اور اظہار کی آزادی میسر ہے۔ اسی طرح ہم دنیا کے تمام دوسرے ممالک کی حکومتوں کے بھی شکر گزار ہیں جہاں جماعت احمدیہ مسلمہ کے افراد اور دیگر تمام مذاہب و ملل کے لوگ ظلم و ستم کے خوف کے بغیر زندگیاں گزار رہے ہیں۔
یاد رہے کہ مذہبی اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح اختلافِ رائے کا اظہار نہیں فرماتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب اور جہاں کسی بھی حکومت، خواہ وہ حکومتِ برطانیہ ہی کیوں نہ ہو، کی کوئی ایسی پالیسی دیکھی یا فعل مشاہدہ فرمایا جو انسانی حقوق، انصاف یا قیامِ امن کی راہ میں روک بنتا ہو، آپ نے عمائدین حکومت کے سامنے برملا اظہار فرمایا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں حضور کے خطابات کے مجموعے World Crisis and the Pathway to Peace میں پڑھی جاسکتی ہیں۔
٭…٭…٭