تاریخ احمدیت

ستمبر1938ء : ترکستان کے پہلے احمدی حاجی جنود اللہ صاحب اور ان کے خاندان کی برف پر چل کر دشوار گزار رستوں سے ہجرتِ قادیان کا احوال

برف بہت گہری تھی راستہ میں حاجی صاحب کی والدہ کئی دفعہ برف سے پھسل کر گر پڑیں

1938ء تک ترکستان کے علاقے میں احمدیت کی آواز نہ پہنچی تھی۔مگر مجاہد تحریک جدید محمد رفیق صاحب کی تبلیغ سے 1938ء میں احمدیت کا بیج بویا گیا اور سب سے پہلے کاشغر کے ایک نوجوان حاجی جنود اللہ صاحب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جو اپنے وطن سے چل کر چینی ترکستان اور کشمیر کے برفانی اور دشوارگزار کوہستانی علاقے طے کرتے ہوئے ستمبر 1938ء میں وارد قادیان ہوئے اور حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ حاجی صاحب موصوف کی اپنے وطن سے روانگی ایسے موسم میں ہوئی۔جب برف پگھلنی شروع ہوگئی تھی۔ آپ پیدل چلتے ہوئے کئی بار گلے تک برف میں دھنس گئے۔ ان خطرات اور مصائب کے علاوہ کئی ماہ کے اس لمبے سفر کے اخراجات اور راہداری اور پاسپورٹ کے ملنے میں تکالیف کو برداشت کرکے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے آخر منزل مقصود تک پہنچ گئے۔

[حاجی جنود اللہ صاحب کاشغر کے ایک ایسے مقتدر خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کا شمار وہاں کے چوٹی کے سربرآوردہ اور معزز خاندانوں میں ہوتا تھا۔ مگر کمیونزم کے اثر و اقتدار کی وجہ سے جہاں دوسرے مسلمان تباہ حال ہوئے۔ وہاں اس خاندان کی ظاہری شان و شوکت بھی خاک میں مل گئی۔ (الفضل 30؍اکتوبر 1959ء)]

حاجی صاحب کے ساتھ ان کی معمر والدہ اور ہمشیرہ بھی آنا چاہتی تھیں۔ لیکن پاسپورٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے رک گئیں۔ حاجی صاحب کے وارد قادیان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور حضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں کی برکت سے ان کو بھی پاسپورٹ مل گیا اور وہ بھی 18؍ اکتوبر 1938ء کو ایک دوسرے قافلہ کے ہمراہ قادیان کے لیے روانہ ہوگئیں اور بذریعہ تار اپنی روانگی کی اطلاع حاجی صاحب کو دی۔اس پر حاجی صاحب قادیان سے براہ کشمیر گلگت کی طرف روانہ ہوگئے۔

حاجی صاحب قادیان سے گلگت تک چودہ پندرہ روز کا سفر آٹھ نو روز میں طے کرکے پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی والدہ و ہمشیرہ کرایہ کشوں کی سستی اور غفلت کے باعث ترکستان سے آنے والے پہلے قافلہ سے رہ گئی ہیں۔ اس بات کے معلوم ہونے پر آپ گلگت سے روانہ ہوگئے۔ تیسری منزل طے کررہے تھے کہ راستہ میں آپ کو وہ دوسرا قافلہ ملا۔ جس میں آپ کی والدہ اور ہمشیرہ سفر کررہی تھیں۔حاجی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس وقت اس قافلہ کو میں نے دیکھا تو خیال کیا کہ ممکن ہے یہ وہی قافلہ ہو جس کے ہمراہ میری والدہ اور ہمشیرہ آرہی ہیں اور جب آپ نے قافلہ کے افراد پر نگاہ ڈالی تو پہاڑ کی چوٹی پر دو سیاہ برقعہ پوش سوار نظر آئے۔ جن کے گھوڑوں کی لگامیں دو کرایہ کشوں نے تھامی ہوئی تھیں۔قافلے کے نزدیک پہنچنے پر جب انہوں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی ان کی والدہ اور ہمشیرہ ہی ہیں۔ یہ 24؍نومبر 1938ء کی تاریخ اور عیدالفطر کا مبارک دن تھا۔ مگر جب آپ گلگت پہنچے تو معلوم ہوا کہ کشمیر کی طرف جانے کا راستہ برف باری کی وجہ سے بند ہوچکا ہے۔ آپ نے گلگت میں دس روز قیام کیا اس کے بعد اپنی والدہ و ہمشیرہ کو لے کر گیارہ دن میں چترال پہنچے یہ تمام سفر بھی گھوڑوں پر کیا گیا۔

چترال میں پانچ چھ روز ٹھہرنے کے بعد بذریعہ لاری مالاکنڈ اور درگئی کی طرف چل پڑے اور جب اشرت نام ایک پڑاؤ تک پہنچے تو پشاور کی طرف سے آنے والے ایک سرکاری افسر سے معلوم ہوا کہ برف باری کی وجہ سے دیر اور درگئی کا راستہ سخت خطرناک اور ناقابل عبور ہے۔ نیز اس افسر نے کہا کہ میں ایک سو قلی کے ساتھ بڑی مشکل سے پہنچا ہوں۔ آپ کے قافلہ میں تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں راستہ میں پچیس پچیس فٹ برف پڑی ہے اور پیدل چلنے کے سوا چارہ نہیں۔ اس لئے آپ واپس دروش چلیں۔ وہاں سے آپ کے جانے کے لیے جلال آباد والے راستہ سے انتظام کر دیا جائے گا۔

آخر پچیس میل واپس ہوکر دروش نامی پڑاؤ میں آٹھہرے لیکن پندرہ روز تک انتظار کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ کسی دوسرے راستہ سے جانے کا امکان نہیں اور بہرصورت واپسی والے راستہ ہی کو طے کرنا پڑے گا۔

آخر اسی راستے پر دوبارہ چل کھڑے ہوئے اور پہلے اسرات اور پھر چھ میل کا سفر پیدل برف پر طے کرکے شام زیارت نامی پڑاؤ پر پہنچے۔ اگلے دن کا سفر نہایت ہی مشکل تھا کیونکہ چھ سات میل کی چڑھائی تھی اور برف نے راستہ کو زیادہ دشوار گزار بنا دیا تھا لیکن سوائے اس کے کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ آخر علی الصبح تین قلیوں اور حاجی صاحب کی مدد سے ان کی والدہ اور ہمشیرہ نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ دوسرے افرادِ قافلہ کے ساتھ بھی بیس بائیس قلی تھے۔ برف بہت گہری تھی۔ بصد مشکل صبح سے لےکر ظہر تک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔ راستے میں حاجی صاحب کی والدہ کئی دفعہ برف سے پھسل کر گر پڑیں۔ ان کی ہمشیرہ بھی اور خود حاجی صاحب بھی لیکن اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں موسم زیادہ خراب نہ ہوجائے اور مزید برفباری نہ شروع ہو جائے۔ یہ مسافت طے کی۔

حاجی جنود اللہ صاحب کا بیان ہے کہ اس سے زیادہ سخت دن ہم پر کم آیا ہوگا۔ آخر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر کچھ دیر آرام کیا اور آگ جلا کر گرمی حاصل کی پھر تمام قافلہ نو میل کی اترائی کی طرف روانہ ہوا۔ جس طرح چڑھائی سخت مشکل تھی۔اسی طرح برف پر جو ڈھلوان تھی اس میں اترنا اس سے بھی زیادہ مشکل تھا۔حاجی صاحب کی والدہ صاحبہ اب چلنے سے بالکل عاجز آگئیں اس لیے قلیوں نے ان کو اٹھا اٹھا کر اتارنا شروع کیا۔ جوں جوں رات قریب ہوتی جاتی تھی۔ خطرہ بڑھتا جاتا تھا۔ آخر جوں توں کرکے بخیریت و عافیت رات کو اگلی منزل گوجر پڑاؤ پہنچ گئے لیکن رات کو حاجی صاحب کی والدہ کو سفر کی بے حد تکلیف کی وجہ سے بخار، سردی اور تمام بدن میں دردیں شروع ہوگئیں۔ اور بعد کا سفر مشکل نظر آنے لگا۔ حاجی صاحب رات بھر اپنی والدہ صاحبہ کی تیمارداری میں مصروف رہے۔صبح تک ان کی طبیعت قدرے بحال ہوگئی اور وہ تھوڑا بہت سفر کرنے کے قابل ہوگئیں۔

گوجر پڑاؤ سے چل کر دو تین میل کے فاصلہ پر گھوڑے کی سواری مل گئی۔ جس پر حاجی صاحب کی والدہ سوار ہوگئیں اور اس کے بعد تھوڑی دور جانے پر ہمشیرہ کے لیے بھی سواری کا انتظام ہوگیا۔ سامان وغیرہ قلیوں نے اٹھایا ہوا تھا۔ اس روز کا سفر نسبتاً آرام سے ہوا اور عصر کے وقت یہ قافلہ ریاست دیر میں پہنچا۔ یہاں رات آرام سے بسر کرکے صبح 12؍جنوری کو لاری پر درگئی پہنچ گئے۔ وہاں سے ریل پر سوار ہوکر 13؍جنوری کو امرتسر آپہنچے اور 14؍جنوری کی صبح قادیان دارالامان میں وارد ہوئے۔

اس کے بعد 27؍ستمبر 1939ء کو حاجی صاحب کے بڑے بھائی حکیم سید آل احمد صاحب اور حکیم صاحب کے بیٹے امان اللہ خاں بھی انہیں دشوار گزار رستوں سے گزرتے ہوئے قادیان آپہنچے اور حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی اور پھر یہ خاندان قادیان میں ہی رہائش پذیر ہوگیا۔ مگر 1947ء کے فسادات میں اسے دوسرے احمدیوں کے ساتھ ہی پاکستان میں پناہ گزین ہونا پڑا۔ پاکستان آکر حاجی جنوداللہ صاحب نے سرگودھا میں بودوباش اختیار کرلی اور حکیم سید آل احمد صاحب مسجد احمدیہ راولپنڈی (واقع مری روڈ) کے ایک کمرہ میں مقیم ہوگئے۔ جہاں آپ کا 17؍ دسمبر 1958ء کو انتقال ہوا۔ اور موصی نہ ہونے کے باوجود محض اپنے تقویٰ پرہیزگاری اور دین داری کے سبب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی اجازت سے بہشتی مقبرہ میں دفن کیے گئے۔(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 565 تا 568)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button