حضرت مسیح موعود ؑکے ذریعہ بیعت کرنے والوں میں ایک عظیم انقلاب
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ جنوری 2006ء)
ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور اللہ تعالیٰ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وعدے کے مطابق کہ رہتی دنیا تک اب تیرا نام ہی روشن رہنا ہے، تیرے ذریعے سے ہی بندوں نے مجھ تک پہنچنا ہے، اگر زمین میں ایسا دور بھی آیا کہ ایمان دنیا سے بالکل مفقود ہو گیا تو تب بھی مَیں تیرے عاشق صادق کے ذریعہ سے اسے دوبارہ دنیا میں قائم کروں گا۔ اس مسیح محمدی کے ذریعہ سے ایک انقلاب برپا کروں گا جس پر تیری قوت قدسی کا اثر ہو گا اور وہ اس کے ذریعہ پھر وہ مثالیں قائم کروائے گا جو تُو نے صحابہ میں پیدا کیں۔ حضرت امام مہدی کا ظہور ہوا۔
اس وقت جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ ان مثالوں کے چندنمونے پیش کروں گا جن سے پتہ چلتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس نور سے فیض پا کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عطا فرمایا تھا، اپنے صحابہ میں، اپنے ماننے والوں میں، اپنے بیعت کرنے والوں میں کیا انقلاب عظیم پیدا کیا تھا۔ اس بارے میں میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بیان کرتا ہوں کہ آپؑ نے اپنے صحابہ کو کیسا پایا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے۔ اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیاہے۔ مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں ناپاک دل کے لوگ انکو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں ۔ ‘‘(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 315)
اب مَیں ان پاک نمونوں کی چند مثالیں دیتا ہوں۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب جو مالیر کوٹلہ کے نواب خاندان سے تھے، رئیس خاندان کے تھے، نوجوان تھے، ان میں گونیکی تو پہلے بھی تھی۔ لہو و لعب کی بجائے، اوٹ پٹانگ مشغلوں کی بجائے جو نوجوانوں میں پائے جاتے ہیں، اُن میں اللہ کی طرف رغبت تھی، اچھی عادتیں تھیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت نے اس کو مزید صیقل کیا اور چمکایا۔ انہوں نے خود ذکر کیا ہے کہ پہلے میں کئی دفعہ نمازیں چھوڑ دیا کرتا تھا۔ اور دنیاداری میں پڑا ہوا تھا۔ لیکن بیعت کے بعد ایک تبدیلی پیدا ہوگئی۔…
پھر حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کا نمونہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ’’ہر شخص اپنی بعض کمزوریوں یا ہم عصری کی وجہ سے کم از کم اپنے علاقے اور نواح میں خاص عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ حافظ صاحب ایک زمیندار خاندان کے فرد تھے اور دولت و مال کے لحاظ سے آپ کا مرتبہ بلند نہ تھا بلکہ وہ غریب تھے۔ مگر اس کے باوجود اپنی نیکی اور دینداری کی وجہ سے اپنے گاؤں اور نواح میں ہمیشہ عزت و محبت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ اور آج ہم جو فیض اللہ چک اور تھہ غلام نبی وغیرہ دیہات میں احمدیت کی رونق اور اثر کو دیکھتے ہیں اس میں حافظ صاحب کی عملی زندگی کا بہت بڑا دخل ہے۔ وہ ایک خاموش واعظ تھے اور مجسم تبلیغ تھے۔ انہیں دیکھ کر خواہ مخواہ حضور کی صداقت کا یقین ہوتا تھا اور اندر ہی اندر محبت کا جذبہ بڑھتا تھا۔ آپ نہایت ملنسار اور وفادار اور ہمدرد طبع تھے، دوسروں کی بھلائی چاہتے تھے۔ حضرت کی صحبت اور قرب نے آپ میں ایک خاص رنگ پیدا کر دیا تھا۔ آپ دعاؤں کی قوت کو جانتے اور دعائیں کرنے کے عادی اور آداب دعا سے واقف تھے۔ آپ کی زندگی ایک مخلص مومن اور خدا رسیدہ انسان کی زندگی تھی۔ حق کی اشاعت کے لئے آپ میں جوش اور غیرت تھی۔ دینی معاملے میں کبھی کسی سے نہ دبتے تھے۔ حق کہنے میں ہمیشہ دلیر تھے۔ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عامل تھے۔ غرض بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اور یہ جو کچھ تھا حضرت اقدسؑ کی پاک صحبت کا اثر تھا۔ مرحوم اپنی زندگی کے بے شمار حالات و واقعات سے واقف تھے۔ مگر آپ کی عادت میں تھا کہ بہت کم روایت کرتے اور جب حضرت اقدسؑ کے حالات کے متعلق کوئی سوال ہوتا تو چشم پُرآب ہو جاتے اور فرماتے کہ سراسر نور کی میں کیا حقیقت بیان کروں، کوئی ایک بات ہو توکہوں ‘‘۔(اصحاب احمد جلد نمبر13صفحہ72)
توصحابہ جو واعظ تھے ان کے اپنے عمل تھے، وہ عملی نمونے قائم کرتے تھے۔ یہ نمونے ہیں جو آج ہمارے ہر واقف زندگی کے لئے، ہر مربی کے لئے، مبلغ کے لئے، معلّمین کے لئے مشعل راہ ہیں ان کو سامنے رکھنا چاہئے۔
پھربھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ؓ کا ذکر ہے۔ آپ ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے۔ قادیان آئے مگر آپ کے والد صاحب حضرت مسیح موعودؑ سے واپس بھیجنے کا وعدہ کرکے بھائی جی کو ساتھ لے گئے۔ گھر جا کر آپ پہ بہت سختیاں کی گئیں۔ اور ادائیگی نماز سے بھی روکا گیا۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ ایک زمانے میں مجھے فرائض کی ادائیگی تک سے محروم کرنے کی کوششیں کی جاتیں۔ اس زمانے میں بعض اوقات کئی کئی نمازیں ملاکر یا اشاروں سے پڑھتا تھا۔ ایک روز علی الصبح مَیں گھرسے باہر قضائے حاجت کے بہانے سے گیا۔ گیہوں کہ کھیتوں کے اندر وضو کرکے نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص کدال لئے میر ے سر پر کھڑا رہا۔ نماز کے اندر تو یہی خیال تھا کہ کوئی دشمن ہے جو جان لینے کے لئے آیا ہے لہٰذا مَیں نے نماز کو معمول سے لمبا کر دیا اور آخری نماز سمجھ کر دعاؤں میں لگا رہا۔ مگر سلام پھیرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک مسلمان مزدور تھا کشمیری قوم کا۔ جو مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور جب میں نماز سے فارغ ہوا تو نہایت محبت اور خوشی کے جوش میں مجھ سے پوچھا منشی جی! کیا یہی بات پکی ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام پر قائم ہوں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے لئے گواہ بنا کر بھیجا ہے کہ کم از کم تم میرے اسلام کے شاہد رہو گے۔ (اصحاب احمد۔ جلد نمبر9صفحہ63)مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کرکے بیعت کے فوائد بیان کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’قرآن کریم کی جو عظمت اب میرے دل میں ہے، خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جو میرے دل میں اب ہے پہلے نہ تھی۔ یہ سب حضرت مرزا صاحب کی بدولت ہے۔ ‘‘(اصحاب احمد جلد نمبر14 صفحہ56)
پھرمولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کا نمونہ ہے۔ آپ نے اپنے قصبہ مرالی میں پہنچ کر اپنی بیعت کا اعلان کیا۔ … اس پر قصبے میں شور برپا ہو گیا۔ اور شدید مخالفت کا آغاز ہو گیا۔ اہل حدیث مولویوں کی طرف سے مقاطعہ کرا دیا گیا۔ لوگ آپ کو کھلے بندوں گالی گلوچ دیتے تھے۔ ایسے کٹھن مرحلے پر مولانا صاحب آستانہ الٰہی پر جھکنے اور تہجد میں گریہ و زاری میں مصروف ہونے لگے اور خداتعالیٰ نے آپ پر رؤیا و کشوف کا دروازہ کھول دیا اور یہ امر آپ کے لئے بالکل نیا تھا۔ اس طرح آپ کے لئے تسلی کے سامان ہونے لگے۔ …سو اب آپ کے ایمان و عرفان میں ترقی ہونے لگی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ عشق و وفا بھی بڑھنے لگا اور آپ دیوانہ وار تبلیغ میں لگ گئے۔ جس پر آپ کے ماموں نے جو خسر بھی تھے آپ کو گھر سے نکل جانے پر مجبور کیا اور پولیس سے اس بارے میں استمداد کی بھی دھمکی دی۔ اس لئے آپ موضع بقاپور چلے آئے جہاں آپ کی زمینداری کے باعث مقاطعہ تو نہ ہوا لیکن مخالفت پورے زور سے رہی۔ عوام کے علاوہ آپ کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی زمرۂ مخالفین میں شامل تھے البتہ بڑے بھائی مخالف نہ ہوئے۔ ایک روز آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ آپ میرے بیٹے کو کیونکر بُراکہتے ہیں وہ پہلے سے زیادہ نمازی ہے۔ والد صاحب نے کہامرزا صاحب کو جن کا دعویٰ مہدی ہونے کا ہے مان لیا ہے۔ والدہ صاحبہ نے کہا امام مہدی کے معنی ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں۔ ان کے ماننے سے میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہو گئی ہے جس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے اور مولوی صاحب کو اپنی بیعت کا خط لکھنے کو کہا۔ آپ تبلیغ میں مصروف رہے اور ایک سال کے اندر پھروالد صاحب اور چھوٹے بھائی اور دونوں بھابھیوں نے بھی بیعت کر لی۔ اور بڑے بھائی صاحب نے خلافت احمدیہ اولیٰ میں بیعت کر لی۔ (اصحاب احمد۔ جلد نمبر10صفحہ 215)
٭…٭…٭