سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

پادری بٹلر؍ٹیلر کے نام پر تحقیق

پادری ٹیلر سے مباحثہ

ریورنڈ جان ٹیلر ، سیالکوٹ کے ایک اورپادری جو کہ سکاچ مشن کی طرف سے نئے نئے مشنری کے طورپرمتعین ہوئے تھے۔اورگوہدپورمیں رہائش پذیرتھے۔ان سے بھی اکثرمذہبی گفتگورہتی اور وہ اس بحث مباحثہ کے لیے بعض اوقات حضورؑ کے گھربھی آجایاکرتے۔علامہ سیدمیرحسن اپنی روایت میں بیان کرتے ہیں کہ :’’پادری ٹیلر صاحب ایم۔اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا۔یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتےتھے۔ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سرّ تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے۔اور آدم کی شرکت سے جو گناہگار تھا بری رہے۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے۔پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے۔اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی۔جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا۔پس چاہیئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے۔اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ93،سیرت المہدی جلداول روایت نمبر150)

حضرت معراج دین عمرصاحب جو حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی تھے اورخودبھی ادیبانہ مزاج رکھتے تھے،حضرت اقدسؑ کی مختصر سوانح بھی لکھ چکے تھے، لکھتے ہیں:’’ان دنوں سیالکوٹ سکاچ مشن کے ایک پادری صاحب تھے جو بڑے جہاندیدہ اور فاضل تھے اوراپنے لوگوں میں بڑے معزز وممتاز شمارہوتے تھے ایک دفعہ اتفاق سے کہیں ان کی آپ سے ملاقات ہوگئی۔اثنائے ملاقات میں بہت کچھ مذہبی گفتگوہوتی رہی۔آپ کی تقریر اوردلایل نے پادری صاحب کے دل میں ایساگھرکرلیا کہ ان کے دل میں آپ کی باتیں سننے کابہت شوق جم گیا۔اسی شوق میں اکثر ہوتاکہ دفترسے رخصت کے وقت پادری صاحب آپ کے دفترمیں جاتے اورپھرآپ سے باتیں کرتے کرتے آپ کے فرودگاہ تک پہنچ جاتے اوربڑی خوشی کے ساتھ اسی چھوٹے سے مکان میں جوعیسائیوں کے خوش منظر اورپرتکلف مساکن کے مقابلہ میں ایک جھونپڑا تھا بیٹھے رہتے اوربڑی توجہ اورمحویت اورایک قسم کی عقیدت سے باتیں سنا کرتے اور اپنی طرز معاشرت کے تکلفات کو بھی اس جگہ بھول جاتے۔بعض تنگ ظرف عیسائیوں نے پادری صاحب کواس سے روکا اورکہا کہ اس میں آپ کی اور مشن کی خفت ہے آپ وہاں نہ جایاکریں۔لیکن پادری صاحب نے بڑے حلم اور لطف سے جواب دیا کہ یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتا تم اسکو نہیں سمجھتے اورمیں خوب سمجھتاہوں۔‘‘(’’ براہین احمدیہ‘‘(حضرت مسیح موعودمرزاغلام احمد قادیان مختصرحالات)شائع کردہ معراج الدین عمرصاحبؓ صفحہ66)

پادری بٹلریا ٹیلر

سیالکوٹ میں جوپادری آپؑ سے بحث مباحثہ کرتے ان میں ایک نام بٹلرکا آتاہے۔علامہ میرحسن صاحب کی روایت میں بھی یہ نام آیاہے۔اس ضمن میں یہ قابل تحقیق امرہے کہ یہ نام کیاتھا۔سب سے پہلے محترم برادرم مرزاخلیل احمدقمرصاحب نے اس کی طرف توجہ دلائی کہ یہ نام اغلباًٹیلرہے اورسہوکتابت سے بٹلربن گیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ریسرچ سیل کوارشاد ملاکہ اس پرتحقیق کی جائے۔لہٰذا خاکسارنے ریسرچ سیل کے اپنے دیگرساتھیوں کے ساتھ مل کراس کے متعلق کچھ تحقیق کی تو اسی نتیجے پر پہنچے کہ واقعی اس پادری کانام ٹیلرہی تھا۔ ریورنڈ جان ٹیلر! REV.JOHN TAYLOR

سیالکوٹ میں اس قیام کے دوران عیسائی مشنریوں کوتبلیغ اور ان کے ساتھ اسلام کی سچائی پربحث ومباحثہ کی تفصیلات بھی ملتی ہیں۔گفتگومیں شریک ہونے والے ایک مشنری عیسائی پادری جوآپؑ کی سادگی اور اخلاص سے متأثررہے، ان کانام سلسلہ احمدیہ کی کتب وتاریخ میں بٹلر اور ٹیلر ملتا ہے۔یعنی کہیں ٹیلر مذکورہے اورکہیں بٹلر۔البتہ بٹلرنام غالب اوراکثرلکھاہواملتاہے۔معلوم ہوتاہے کہ کتابت کی غلطی کی وجہ سے یااصل خط کوجہاں سے یہ نام پہلی بارلیاگیاتھا وہ تحریردرست نہ پڑھنے کی وجہ سے ٹیلرکی جگہ بٹلرلکھاگیاہوگا۔اورغلطی کمپیوٹر کی ہو یا کاتب کی یہ ایک عام سی بات ہے۔ایساہوتارہتاہے۔کوئی انہونی بات نہیں ہواکرتی۔اورپھرایسابھی ہوتاہے کہ کتاب یارسالے میں کتابت کی ایسی غلطیوں کی درستی اورتصحیح بھی کردی جاتی ہے لیکن وہ توکسی اورایڈیشن اورشمارے میں ہوئی ہوتی ہے یاکسی اوررنگ میں لیکن ایک بارشائع ہونے والی چیزتوشائع ہوہی جاتی ہے۔اوربعض اوقات قاری کے سامنے تصحیح شدہ ایڈیشن نہیں ہوتااوروہ غلطی ایک رنگ میں چلتی چلی جاتی ہے۔اورجس نام کی بابت بات ہورہی ہے اس میں توایک اورمسئلہ بھی ہے کہ یہ انگریزی نام ہے۔ہندوستان اورہندوستان میں رہنے والوں کے لیےیہ نام اجنبی تھے۔زبانوں پربھی اورتحریرمیں بھی۔پھراس میں ایک دقت یہ ہوئی کہ انگریزی الفاظ اورناموں کواردو اور فارسی رسم الخط میں لکھاجاتاتھا۔مثلاً کانشنس [Conscience]،این لائٹن منٹEnlightenment، چیرز Cheers، ٹرینس فیوژن آف بلڈTransfusion of Blood،اوریہ بھی ہوتاکہ اسی لفظ کی اگرجمع کی ضرورت پڑتی تولفظ انگریزی کابھی ہوتوجمع اردوفارسی کے طریق پرہوتی جیسے جج منٹ سے جج منٹوں، اور اگر کوئی ولایتی انگریزی وغیرہ نام ہوتاتواس کوبھی اسی طرح اردوکی قلم تلے ہی رکھا جاتا۔ وہ نام جرمن ہو،فرنچ ہو،اطالوی ہو،انگریزی ہویاہسپانوی ان کی اپنی زبان میں اس کاکیاتلفظ ہوگا عام طورپرکاتب اس کالحاظ نہیں رکھاکرتے تھے۔کہ کون اتنی باریکی میں جائے۔اورحق کاتب اس کے سوا!توجب صورت حال اس زمانے میں یہ ہوتو ناموں کے متعلق تحدی کرنااورمشکل ہوجایاکرتاہے۔اورتحقیق وتاریخ میں توویسے بھی جانچ پرکھ کے معیاربدلتے ہیں اور ایک مؤرخ اورمحقق کو ہمیشہ تیاررہناچاہیے کہ اگرتاریخی اعتبارسے کوئی ایساموادسامنے لایاجائے جوتحقیق اور سند اور روایت و درایت کے معیاروں پرپورااترتاہوتواس کوتسلیم کرنے میں کوئی باک اورہچکچاہٹ محسوس نہ ہو۔اب مثال کے طورپراسی نام کودیکھ لیاجائے۔’’بٹلر‘‘نام کاایک واحدراوی ہے اوروہ میرحسن صاحب ہیں، اپنے بڑھاپے میں جاکر،جبکہ ان کی اپنی عمراٹھہترسال تھی یہ روایت بیان کررہے ہیں اوروہ خود یہ بیان کرتے ہیں کہ’’چونکہ عرصہ درازگزرگیاہے اوراس وقت یہ باتیں چنداں قابل توجہ اورالتفات نہیں خیال کی جاتی تھیں اس واسطے اکثرفراموش ہو گئیں جویادکرنے میں بھی یادنہیں آتیں۔‘‘انہوں نے ایک خط کے ذریعہ یہ تفصیلی روایت ارسال کی۔اورپھرجوخط انہوں نے لکھاوہ بھی ہمارے سامنے نہیں ہے۔کہ اس خط میں نام انہوں نے لکھاکیاتھا؟ کیااس سکاچ پادری کانام انگریزی میں تھا یااردورسم الخط میں وغیرہ اورجیساکہ عرض کیاہے کہ ہمیں یہ بھی مدنظررکھناہوگا کہ اس وقت تو انگریزی نام کوویسے بھی اردورسم الخط میں لکھنے کاعام رواج تھااورکبھی سپیلنگ یعنی ہجوں کے مطابق لفظ لکھاجاتاتوکبھی تلفظ یعنی بول چال کے مطابق نام لکھاجاتاتوکبھی کاتب کی مہربانی سے کچھ کاکچھ ہوجاتا۔مثال کے طورپر ہمارے اس زمانے کے لٹریچرمیں ’’پادری الائشہ ‘‘کانام ملتاہے۔اتفاق سے یہ بھی حضرت مسیح موعودؑکے سیالکوٹ کے زمانہ میں وہاں تبدیل ہو کر آ گیا تھا۔ اور حضرت اقدس ؑ سے اس کی گفتگوبھی ہوتی رہتی تھی۔اب اس کے نام کایہ تلفظ یاتحریری اندازبھی اس کے اصل نام کے مطابق نہیں،بٹلروالامعاملہ ہی نظرآتاہے کیونکہ اس کااصل نام الیشع۔پی۔سوفٹ ELISHA P.SWIFTتھا۔ (اور یہ پادری تھابھی دیسی یعنی ہندوستانی تھا اورعیسائی ہونے کے بعدیہ نام رکھاگیا۔)اَلْیَسَعَ یا اَلْیَشَع اس کوبائبل میں ELISHAکے سپیلنگ سے ہی لکھاگیاہے۔

ایک اورمشہورپادری کانام ہے عبداللہ آتھم،یہ شخص جب عیسائی ہواہے تو اس نے اپنے نام عبداللہ کے ساتھ آثم یعنی گناہ گارکااضافہ کیااورنام بنا عبداللہ آثم۔اب انگریزی میں یہ نام یوں تھا۔Abdullah Athim،کیونکہ ث کی آواز انگریزی کے thسے اداکی جاتی ہے جیسے حدیث کوHadith اس لیے انگریزی میں تو Athimلکھاگیا۔لیکن اردومیں اسی نہج پرجب لکھناشروع کیاتوآتھم لکھاجانے لگا۔ اوریہ تلفظ توعیسائی لٹریچرنے بھی اپنالیااس لیے ناموں کا اس طرح سے بگڑجانا یارواج پاجانا ایسامسئلہ نہیں ہے۔ ایک اَورنام ہمارے سلسلہ کے لٹریچرخصوصاً روحانی خزائن کی کتابوں میں کثرت سے ملتاہے وہ ہے جان ڈیون پورٹ JOHN DAVENPORT۔خاکسارنے باقاعدہ گنتی تونہیں کی لیکن وقتاً فوقتاً جو حوالے سامنے آئے وہ روحانی خزائن میں ابھی تک تعدادمیں 9 ہیں جہاں یہ نام آیاہے اوریہ نام کہیں ’بورٹ‘ہے،کہیں ’یوت‘ہے،’یوٹ‘اورکہیں’پورت‘ہےاورجون ڈیون پورٹ بھی لکھاہواہے۔اسی طرح کچھ یہی معاملہ پادری فنڈرکے نام کابھی ہے جوکہ کہیں فنڈل ہے اورکہیں فنڈرہے۔اس کاپورانامRev.C.G.Pfanderکارل جی فانڈر/فنڈر تھا۔تواس طرح کے کئی امورہمارے سامنے آئیں گے۔اورجب تحقیق کی نظرسے ان کودیکھاجائے گا،تلاشاجائےگا تو جوحقائق ہمارے سامنے آئیں ان کے مطابق کرلیاجاناچاہیے۔

اورایساکرنے میں کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑتا۔بٹلرکی جگہ ٹیلرکردیاجائے توکیافرق پڑے گا۔سوائے اس کے کہ ایک تاریخی غلطی کی اصلاح ہوجائے گی۔اب اگربٹلرنام نہیں بھی ملتا توکونساجماعت کے بنیادی عقائد میں تبدیلی واقع ہوجائےگی!یہ سارے کاساراواقعہ ہی اگرخدانخواستہ من گھڑت بھی ثابت ہوجائے توکیاہوگا؟بٹلراورٹیلرکاسرے سے وجودبھی نہ ہو تو کیا ہوا ؟ گلابوں کاتذکرہ ہوتو،تذکرہ کرنے والے کوئی بھی ہوں یہ ایک ثانوی بات ہواکرتی ہے۔ گلاب کے پھول کی خوشبواورمہک تو پھیلتی چلی جاتی ہے۔اسی طرح بٹلریاٹیلرجوبھی تھااس کی خوش نصیبی تھی کہ اس نے وقت کے ایک امام کودیکھا۔مسیح ناصری کے اِس منادنے اُس مسیح کوتونہیں دیکھا تھا جوناصرہ بستی سے تعلق رکھتا تھاالبتہ اس مسیح محمدیؐ کا دیدار اسے نصیب ہوگیا جوکدعہ نامی بستی سے تعلق رکھتا تھا۔اورمبارک ہواُسے کہ اس نے گوبہت پہلے اس مقدس چہرے کودیکھا،لیکن عقیدت اورمحبت کی نظر سے دیکھا۔اسلیے اگروہ ٹیلرنہیں تھا،بٹلرنہیں تھا،کوئی بھی نہیں تھاتوہمیں اس افسانے کوحقیقت بنانے یاحقیقت کے افسانہ بن جانے کاکوئی خوف نہیں ہوناچاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں حضرت اقدس ؑ سیالکوٹ میں رہے اور سارا سیالکوٹ آپ کی نیکی اورتقویٰ اورراستبازی کاگواہ تھا۔کسی نے ذکرکیا،کسی نے نہیں کیا،کسی سے پوچھا گیا اور اکثر سے نہیں پوچھاگیا،کسی کانام محفوظ رہ گیااوربے شمارایسے گواہوں کانام بھی محفوظ نہیں۔

اوّل توجس زمانے کے یہ واقعات ہیں اس زمانے میں حضرت اقدس ؑ کانہ کوئی دعویٰ تھا نہ کوئی شہرت تھی۔ نوجوانی کازمانہ تھا۔اوربٹلر/ٹیلربھی پچیس چھبیس سالہ نوجوان تھا۔حضورؑ کی نیکی اورتقویٰ کی ایک اعجازی شان اورکشش تھی کہ ہرکوئی تب بھی کھنچاچلاآتاتھا۔

یہ قیاس بھی بعیدازعقل ہوگا کہ کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت بٹلرکے نام کوٹیلرمیں بدل دیاگیاہوگا تاکہ وہ نام ہی سامنے نہ رہے۔بھلاایساکرنے سے کیاحاصل ؟ اور اس وجہ سے کسی نام کوغائب کرنے کی ضرورت ہوسکتی ہے کہ اس کو حضرت اقدس سے عقیدت تھی؟؟کیونکہ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیابٹلر/ٹیلرکے علاوہ کسی اورکوکبھی حضورؑ سے عقیدت نہیں رہی؟یاکبھی انہوں نے اس کااظہارنہیں کیا؟سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں ہندو،سکھ اورعیسائی اورمسلمان بھی تھے جوبے پناہ عقیدت کااظہارکرتے۔ان میں ریاستوں کے نواب بھی تھے اورپڑھے لکھے عالم اورسیاستدان بھی تھے، صوفیاء اورپیراورگدی نشین بھی تھے۔ان میں کیپٹن ڈگلس جوکہ کٹرعیسائی تھاوہ بھی شامل ہے۔ اسی سیالکوٹ کچہری کاوہ ڈپٹی کمشنرتھاجس نے آپؑ کی ملازمت سے رخصتی کے وقت ساری کچہری میں چھٹی کردی۔

“Perkins ordered that the Courts should be closed as a mark of respect the day the Mirza left for Qadian.”

(The Ahmadiyya Movement British Jewish connections Page 14،تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 94،93)

جس روزمرزاصاحب نے قادیان کو روانگی اختیارکی اس دن احترام کے طورپر پرکنز نے کچہری میں تعطیل کردی۔

ان میں سے توکسی کانام چھپایاگیانہ غائب کیا گیا۔ خود شمس العلماء علامہ سیدمیرحسن بھی ہیں جوکہ اس روایت کےاوّلین اورواحدراوی ہیں۔ان کانام بھی توغائب نہیں کیا گیا۔ جو خودحضرت اقدسؑ سے بے پناہ عقیدت کارنگ رکھتے تھے۔

یہ ساری تمہیدوتفصیل بیان کرنے کامقصدیہ ہے کہ ناموں کی بحث ایک علمی اورتاریخی تحقیق وتفحص کی بات ہے۔تحقیق اورعلم کی بات جب سامنے آئے اس کواچھی طرح دیکھ بھال کراپنالیاجاناچاہیے۔اورتحقیق کایہ سفر جاری رہنے والاسفرہواکرتاہےجس میں ایسے موڑکبھی کبھی آجایاکرتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button