تعارف کتاب

القول الجمیل فی تصدیق المثیل (قسط24)

(اواب سعد حیات)

(مصنفہ حضرت مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی سیالکوٹی )

46 صفحات پر مشتمل اس رسالہ میں مولف نے نظم و نثر کی مدد سے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور رفع و نزول جیسے موضوعات پر معاصر مولویوں کی راہنمائی کی ہے۔

جناب مولوی محمدمبارک علی صاحب امام مسجد چھاؤنی سیالکوٹ نے بالکل اوائل میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت پائی۔ آپ حضرت مولوی فضل احمد صاحب کے فرزند تھے جو ایک بزرگ اور عالم باعمل تھے اورحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے والد محترم حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے حکم پر بچپن کے زمانہ میں حضور علیہ السلام کوپڑھایا کرتے تھے۔کتاب 313 اصحاب صدق و صفا مرتبہ : نصر اللہ خاں ناصر اور عاصم جمالی کے مطابق رجسٹر بیعت میں مولوی مبارک علی صاحب کا نام 226 نمبر پر درج ہے۔آپ نے 28؍مئی 1891ء میں بیعت کی اور آپ کے نام کے آگے پتہ میں غوث گڑھ، تحصیل سرہند ، ریاست پٹیالہ درج ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ازالہ اوہام میں ان مخلصین کے ذکر میں جو دینی مہمات میں حضور علیہ السلام کی مدد کی صلاحیت رکھتے تھے، 38 نمبر پر لکھا ہے کہ ’’حبّی فی اللہ مولوی محمد مبارک علی صاحب۔ یہ مولوی صاحب اس عاجز کے اُستاد زادہ ہیں۔ ان کے والد صاحب حضرت مولوی فضل احمد صاحب مرحوم ایک بزرگوار عالم باعمل تھے مجھ کو اُن سے از حد محبت تھی۔ کیونکہ علاوہ اُستاد ہونے کے وہ ایک باخدا اور صاف باطن اور زندہ دل اور متّقی اور پرہیزگار تھے۔ عین نماز کی حالت میں ہی اپنے محبوب حقیقی کو جاملے۔ اور چونکہ نماز کی حالت میں ایک تبتّل اور انقطاع کا وقت ہوتا ہے اس لئے اُن کا واقعہ ایک قابل رشک واقعہ ہے۔ خدائے تعالیٰ ایسی موت سب مومنوں کے لئے نصیب کرے۔ مولوی مبارک علی صاحب اُن کے خلف رشید اور فرزند کلاں ہیں۔ سیرت اور صورت میں حضرت مولوی صاحب مرحومؔ سے بہت مشابہ ہیں۔اس عاجز کے یکرنگ اور پُر جوش دوست ہیں اور اس راہ میں ہر یک قسم کے ابتلاء کی برداشت کر رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑکی وفات کے بارے میں ایک رسالہ انہوں نے تالیف کیا ہے جو چھپ کر شائع ہوگیا ہے جس کا نام قول جمیل ہے۔ اس عاجز کا ذکر بھی اس میں کئی جگہ کیا گیا ہے۔

چونکہ مولوی صاحب موصوف کی حدیث اور تفسیرپر نظر وسیع ہے اس لئے انہوں نے محدثین کی طرز پر نہایت خوبی اور متانت سے اس رسالہ کو انجام دیا ہے۔ مخالف الرائے مولوی صاحبان جن کو غور اور فکر کرنے کی عادت نہیں اور جو آنکھ بند کر کے فتوے پر فتوے لکھ رہے ہیں انہیں مناسب ہے کہ علاوہ اس عاجز کی کتاب ازالہ اوہام کے میرے دوست عزیز مولوی محمد مبارک علی صاحب کے رسالہ کو بھی دیکھیں اور نیز میرے دوست رفیق مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کے رسالہ اعلام الناس کو بھی ذرہ غور سے پڑھیں اور خدائے تعالیٰ کی ہدایت سے نومید نہ ہوں گو ان کی حالت بہت خطرناک اور قریب قریب یا س کے ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر یک چیز پر قادر ہے۔ مولویوں کا حجاب کفار کے حجاب سے کچھ زیادہ نہیں پھر کیوں اس سرچشمہ رحمت سے نومید ہوتے ہیں۔ وھو علٰی کلِّ شی ءٍ قدیر۔‘‘(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد سوم۔ صفحہ 542)اسی طرح ملتا ہے کہ 1904ء کے ایک مکتوب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمدمبارک علی صاحب کی بابت حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو لکھا کہ موصوف میرے استادزادہ ہیں اس لئے ان کی سفارش کی ہے۔(مکتوبات احمد۔ جلد دوم۔ صفحہ : 287، خط نمبر 77 ملفوف۔ ایڈیشن 2008ء)نیز تاریخ احمدیت میں ملتا ہے کہ مولوی مبارک علی صاحب کے احمدی ہو جانے کے چند سال بعد چھاؤنی سیالکوٹ کے بعض غیر احمدی اشخاص نے جامع مسجد چھاؤنی سیالکوٹ کی امامت اور تولیت سے مولوی محمدمبارک علی صاحب کو علیحدہ کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا اور جماعت احمد یہ سیالکوٹ نے حضرت چودھری نصر اللہ خان صاحب ایڈووکیٹ کو اس مقدمہ کی پیروی کرنے کے لیے وکیل مقرر کیا۔اس مقدمہ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوا۔آپ کی دینی خدمات میں ملتا ہے کہ آپ بلند پایہ فارسی اور اردو کے شاعر تھے۔ آپ کا منظوم کلام اخبار الحکم میں با قاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ آپ نے صداقت حضرت مسیح موعودؑ کے موضوعات پربعض کتب تحریر کیں۔ آپ کی تصنیف ’القول الجمیل ‘حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر ابتدائی کتب میں شامل ہے جس کا ذکر حضور علیہ السلام کے مذکورہ بالا حوالہ میں بھی آچکا ہے۔رپورٹ جلسہ سالانہ1897ء میں آپ کی فارسی نظم بھی شامل ہے۔حضرت اقدسؑ نے انجام آتھم کے صفحہ 313اور 325پر اشاعت دین کے لیےمصارف برداشت کر نے والے احباب میں آپ کا ذکر فر مایا ہے۔البتہ مولفین 313 اصحاب صدق و صفا نے لکھا ہے کہ آپ بعد میں نظام خلافت سے وابستہ نہ ر ہے اور بعد میں آپ کا تعلق انجمن اشاعت اسلام لاہور سے ہی رہا۔موصوف کی زیر نظر کتاب جون 1891ء میں پنجاب پریس سیالکوٹ سے طبع ہوکر سامنے آئی ہے، یوں یہ مولف کے بیعت کے بالکل ہی قریب کا وقت بنتا ہے، جس سے ان کے شوق، وارفتگی اور ان کی نظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل کی عظمت و گہرائی کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ کتاب کے بالکل آغاز میں ہی مصنف نے اپنے بیان کردہ امور اور نکات کی سادگی اور ان کے محض للہ ہونے کا بتایا ہے۔ اور کہا کہ یہ باتیں مجھے اللہ نے بذریعہ القاء سمجھائی ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت پر متفرق دلائل سے بات شروع کی ہے اور نثر کے ساتھ ساتھ اردو و فارسی اشعار و مصرعے بھی لائے ہیں۔

مولف اپنی کتاب کے صفحہ 9 پر قرآن و حدیث کے دلائل کے ضمن میں حاشیہ لائے ہیں کہ ’’چونکہ ہمارے مرشد حضرت اقدس (سلمہ الرحمان)نے اپنے رسالہ ازالہ الاوہام میں اس امر میں کافی و وافی بحث کی ہے۔ اور آیات و احادیث کی توجیہات و توضیحات عمدہ طور پر لکھی ہیں۔ اس لئے ہم نے استلزام دلائل کو کسی قدر ضروری نہ سمجھ کر چھوڑ دیا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ عنقریب مطالعہ میں آجاویں گے۔ ‘‘ آگے چل کر صفحہ 12 پر لکھتے ہیں کہ ’’مجھے اس وقت اپنے بزرگوار والد مرحوم کا ایک تذکرہ یاد آگیا ہے جسے میں اس موقع پر بیان کرنا واجبات سے خیال کرتا ہوں۔ میرے والد ایک زمانہ میں جناب ممدوح اور آپ کے بڑے بھائی مرزا قادر مرحوم کی تعلیم کی غرض سے آپ کے پدر بزرگوار مرحوم کے پاس قادیاں میں رہتے تھے۔ اور عرصہ دراز تک رہے۔ میرے والدمرحوم کی عمر اسی سال کے قریب تھی۔ نہایت درویش مزاج، حلیم الطبع، راست گو آدمی تھے۔ ان کا کلام ہمیشہ بلامبالغہ ہوتا تھا۔ اتفاقاً ایک روز میرے روبرو جناب ممدوح کا ذکر شروع ہوا۔ والد سے بھی کسی نے استفسار حالات زمانہ طفولیت جناب ممدوح کیا۔ والد مرحوم نے الفاظ مذکور الذیل بولے۔

میرزا غلام احمد اپنی طفولیت کے زمانہ میں خلوت پسند ، باحیا، صاحب دیانت، کم گو، پارسا اور سچا آدمی تھا۔ ‘‘

الغرض 46 صفحات پر مشتمل اس رسالہ میں مولف نے نظم و نثر کی مدد سے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور رفع و نزول جیسے موضوعات پر معاصر مولویوں کی راہنمائی کی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button