متفرق مضامین

سر زمینِ عرب کا عہد نامہ قدیم میں ذکر

(ڈاکٹر عبد الرحمٰن بھٹہ۔جرمنی)

عجب شان ہے اس خطے کی کہ قدیم زمانے میں جب بھی انبیاء اور ان کی جماعتوں کو ہجرت کرنی پڑی ہے تو انہوں نے اسی ماں کی گود میں ہی آ کر پناہ لی ہے

دنیا کی ہدایت کے لیے خداتعالیٰ نے انبیاء کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور پھر مختلف بستیوں میں اپنے رسول بھیجتا رہا۔ ان انبیاء میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انہوں نے خداتعالیٰ کی خاطر بہت دکھ اٹھائے اور وہ بہت سی آزمائشوں میں سے گزرے۔ ان کی قربانیوں کے صلے میں خداتعالیٰ نے ان کو بہت سے انعامات سے نوازا۔ انہوں نے خداتعالیٰ کے حکم پر اپنا وطن چھوڑا اور ہجرت کرکے کنعان گئے تو خداتعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی نسل کو کنعان کی بادشاہت عطا کرے گا۔ اور جب انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی پیش کی تو خداتعالیٰ نے وعدہ کیا کہ وہ ان کی نسل کو آسمان کے ستاروں کی طرح دنیا میں پھیلا دے گا۔ خداتعالیٰ نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ان کو برکت پر برکت دے گا حتیٰ کہ دنیا کی سب قومیں ان کے وسیلہ سے برکت پائیں گی (پیدائش۔ باب 13 اور 22)واضح رہے کہ ان کے وسیلہ سے جن برکات کا وعدہ کیا گیا تھا وہ برکات نبوت ہیں۔ کسی قوم کے لیے سب سے بڑا انعام دنیاوی لحاظ سے بادشاہت ہے اور روحانی لحاظ سے نبوت۔

کنعان کی بادشاہت باری باری

حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹے تھے۔ حضرات اسماعیل اور اسحاق علیہم السلام۔ دونوں کو خداتعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی۔ تاہم دونوں بھائیوں کی نسل کو کنعان کی بادشاہت بیک وقت تو نہیں دی جا سکتی تھی۔ انہوں نے یہ حکومت باری باری کرنی تھی۔ چونکہ خدائی پلان میں حضرت اسماعیل کی باری دو ہزار سال دور تھی۔ لہٰذاخداتعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ وہ بچپن میں ہی اپنی والدہ کے ساتھ عرب کے علاقے فاران میں منتقل کر دیے گئے۔ اور پھر وہ وہاں بیابان میں پھولے پھلے اور ایک بڑی قوم بن کر گویا اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اسحاق ؑجب قحط کی وجہ سے کنعان سے مصر جانے لگے تو خداتعالیٰ نے ان کو یہ کہہ کر روک دیا کہ …مصر کو نہ جا…اس ملک میں قیام رکھ …کیونکہ میں تجھے اور تیری نسل کو یہ ملک دونگا۔(پیدائش۔ باب 26 آیات 2۔ 3)گویا حضرت اسحاق کی باری تو اسی وقت شروع ہو چکی تھی۔ اور اس کے بعد ان کی نسل پھولی پھلی اور بڑی قوم بن کر بنی اسرائیل کہلائی۔ پھر خداتعالیٰ نے اس قوم کی اخلاقی اور روحانی اصلاح اور ترقی کے لیےان کو اپنے رسول موسیٰ کے ذریعے اپنی شریعت عطا کی۔ اور اس شریعت کی برکت سے یہ قوم کنعان پر حکومت کے قابل بنی۔ اس کے بعد اس قوم نے کنعان پر صدیوں حکومت کی۔ لیکن جب یہ قوم عدل وانصاف اور شریعت کے احکامات کو نظر انداز کرنے لگی تو ان کی باری آہستہ آہستہ ختم ہو گئی۔ اور پھر حضرت ابراہیمؑ کے بڑے بیٹے کی نسل بنی اسماعیل کی باری کا آغاز ہونے لگا۔

ایک دفعہ پھر وہی تاریخ دہرائی گئی اور عرب میں آباد بنی اسماعیل بھی انہی مراحل میں سے گزرے۔ وہ بھی خداتعالیٰ کے وعدے کے مطابق ایک بڑی قوم بنے۔ اور ان کی اصلاح اور ترقی کے لیے ان کو بھی خداتعالیٰ نے ایک موسیٰ جیسے نبی کے ذریعے اپنی شریعت عطا کی اور اس طرح ان کو اس قابل بنایا کہ وہ کنعان پر حکومت کر سکیں۔ اور پھر انہوں نے بھی خداتعالیٰ کے وعدے کے مطابق کنعان پر حکومت کی۔ واضح رہےکہ جو شریعت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی اس کی برکات صرف قوم بنی اسرائیل تک ہی محدود تھیں۔ غیربنی اسرائیلی قوموں کو وہ مخاطب نہیں کرتی تھی۔ لیکن جو شریعت عرب میں آباد بنی اسماعیل کو عطا کی گئی وہ عالمگیر تھی اور وہ دنیا کی سب قوموں کو مخاطب کرتی ہے۔ لہٰذاخداتعالیٰ کا یہ وعدہ کہ دنیا کی سب قومیں ابراہیمؑ کی نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گی۔ اس موسیٰ جیسے نبی کے ذریعے پورا ہوا جو عرب میں آباد بنی اسماعیل میں سے ظاہر ہوا اور جس کو دنیا بانئ اسلام کے طور پر جانتی ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

جزیرہ نما عرب خصوصی قطعہ زمین

یہ کوئی اتفاق کی بات نہ تھی کہ ساری دنیا کے نجات دہندہ اور برکات کے وسیلے کا ظہور سر زمین عرب میں ہوا۔ دنیا کا یہ خطہ شروع سے ہی بہت سی دینی اور دنیاوی برکات کا حامل رہا ہے۔ یہاں خداتعالیٰ کے انبیاء مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ اور اس ملک کے باشندوں کو قدرتی طور پر بعض مراعات حاصل ہیں۔ اس ملک کے باسی کبھی کسی غیر قوم کی غلامی میں نہیں رہے۔ نہ ہی کسی بیرونی طاقت نے حملہ کرکے ان کو محکوم بنایا ہے۔ کبھی ایسا بھی نہیں ہوا کہ کوئی غیر قوم ان کے درمیان آکر بس گئی ہو اور پھر آہستہ آہستہ ان پر غالب آ گئی ہو ( جیسے انگریزوں نے افریقہ اور ایشیا میں کالونیاں بنائیں)۔ عرب کے یہ باشندے ہمیشہ سے ہی ایک آزاد،خود مختار اور غیور قوم کے طور پر آباد رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ اس ملک کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ اس کے تین طرف سمندر ہے اور چوتھی طرف صحرا ہے۔ اس قدرتی حصار کی بدولت اس ملک کے باشندے، خصوصاً بنی اسماعیل کے وہ بارہ قبائل جو عرب کے طول و عرض میں آباد ہو گئے تھے۔ بیرونی اقوام کے تسلط اور ان کے سماجی اور معاشرتی اثرات سے بہت حد تک محفوظ رہے ہیں۔مزید برآں اس جغرافیائی تنہائی نے بنی اسماعیل کے ان قبائل کو اس قابل بھی بنایا کہ وہ اپنی سامی نسل کی اصل اقدار، روایات، زبان اور طرزِ زندگی کو محفوظ رکھ سکیں۔ یوں تو سامی نسل کی بہت سی اقوام عرب کے ارد گرد کے علاقوں میں بھی پھیلی ہیں۔ لیکن عرب کے یہ باشندے اپنی اصل سامی نسل کے بہترین نمائندہ سمجھے جاتے ہیں۔ اور ان کی عربی زبان دیگر سامی زبانوں کی ماں مانی جاتی ہے۔

(P. K. Hitti: History of Arabs. London, Ed. 1960, p. 8 – 11)

عربی صرف سامی زبانوں کی ماں نہیں

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا کی اکثر قومیں ان کے تین بیٹوں سام،حام،اور یافث۔ کی اولاد مانی جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سام کی اولاد زیادہ تر ایشیائی ممالک میں پھیلی ہے۔ اور حام کی اولاد زیادہ تر شمالی افریقہ اور ملحقہ ایشیائی اور یورپی ممالک میں پھیلی ہے۔ یافث کی اولاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سینٹرل ایشیا،چین اور شمالی یورپ کی طرف پھیل گئی تھی۔ ہسٹری آف عرب نامی جس کتاب کا حوالہ اوپر درج ہے اس میں بڑے مدلل انداز سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سام کی نسل سے پیدا ہونے والے بنی اسماعیلی قبائل میں جو عربی بولی جاتی ہے وہ ان سب زبانوں کی ماں ہے جو دیگر سامی اقوام میں بولی جاتی ہیں۔ گویا حضرت نوحؑ کے بیٹے سام کی زبان عربی تھی۔ اب اگر سام کی زبان عربی تھی تو اس کے دوسرے دو بھائیوں کی زبان مختلف نہ ہو سکتی تھی۔ اور اگر ان تینوں بھائیوں کی زبان عربی تھی تو خود بخود یہ ثابت ہو گیا کہ عرب میں بولی جانے والی عربی صرف دیگر سامی زبانوں کی ہی ماں نہیں بلکہ ان سب زبانوں کی بھی ماں ہے جو حام اور یافث سے نکلنے والی قوموں میں بولی جاتی ہیں۔ اس طرح عرب میں بولی جانے والی یہ عربی دنیا کی اکثر زبانوں کی ماں ثابت ہوتی ہے۔ اور یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے سوا سو سال پہلے اپنی کتاب منن الرحمٰن میں تحریر فرمائی تھی۔

جزیرہ نما عرب نسل انسانی کا گہوارہ

جزیرہ نما عرب کا اکثر حصہ بنجر،بیابان اور صحرا ہے۔ تاہم ساحل ِسمندر کے ساتھ ساتھ اس کا مغربی،جنوبی اور مشرقی حصہ نسبتاً سر سبز اور شاداب ہے۔ عرب کے اس ساحلی علاقے نے انسانی نسل کی افزائش اور نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ قدیم زمانے میں عرب کے اس حصے میں قومیں بنتی اور پلتی رہی ہیں۔ لیکن پھیلنے کے لیے ان قوموں کے پاس جگہ نہ تھی کیونکہ ان کے ایک طرف سمندر تھا تو دوسری طرف صحرا تھا۔ لہٰذاجب ان کی آبادی بہت بڑھ جاتی تھی تو وہ مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف نقل مکانی کرتے ہوئےدریائے دجلہ،فرات اور نیل کی وادیوں میں پھیل جاتے رہے۔ اور پھر وہاں سے یہ لوگ آہستہ آہستہ دنیا کے مختلف علاقوں میں منتقل ہوتے رہے ہیں۔ گویا عرب کا یہ خطہ انسانوں کا سٹور ہاؤس ہے جو دنیا کے مختلف حصوں کو آبادی مہیا کرتا رہا ہے۔ یوں تو عرب کے اس مغربی علاقے سے شمال کے زرخیز علاقوں کی طرف تھوڑی بہت نقل مکانی ہمیشہ ہوتی رہی ہو گی۔ لیکن ماہرین کے مطابق تقریباً ہر ہزار سال بعد یہ پیمانہ لبریز ہو کر چھلکتا رہا ہے۔ اور انسانی لہریں عرب سے نکل کر دنیا کے دوسرے علاقوں کو سیراب کرتی رہی ہیں۔

(History of Arabs, by Philip K. Hitti, ed.7, 1960, ch.1, p. 10 -13)

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ عرب کا یہ خطہ نسل انسانی کا گہوارہ ہے جہاں قومیں بنتی اور پلتی رہی ہیں۔ اور اگر اس خطے کی زبان دنیا کی زبانوں کی ماں ہے۔ تو خود یہ خطہ دنیا کے لیے ام القرا ہے۔ اور عجب شان ہے اس خطے کی کہ قدیم زمانے میں جب بھی انبیاء اور ان کی جماعتوں کو ہجرت کرنی پڑی ہے تو انہوں نے اسی ماں کی گود میں ہی آ کر پناہ لی ہے۔

حضرت آدم اور ان کی نسل عرب میں

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے جزیرہ نما عرب شروع سے ہی مذہبی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جب عراق کے علاقے میں واقع اپنی جنت سے نکلنا پڑا تو وہ اپنے اہل و عیال اور جماعت کے ساتھ عرب میں ہی پناہ گزین ہوئے۔یہاں آ کر انہوں نے خداتعالیٰ کی عبادت کے لیے وہ پہلا گھربنایا تھا جو اب بیت العتیق اور کعبہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے قریب ہی حضرت آدم اور حضرت حوا کی قبریں بتائی جاتی ہیں۔

(M. G. Farid. Holy Quran with English translation and short commentary, London, 2006, Sura Al-Haj, v. 30, comment no. 1948. And Adam (by R. Tottoli) in : Encyclopedia of Islam. Vol.1 Leyden, 1913, page 127)

عرب میں آنے کے بعد حضرت آدمؑ اور ان کی جماعت کی نسل عرب کے سر سبز جنوب مغربی علاقے میں پھیلی اور آئندہ کئی سو سال میں یہ لوگ پھیل کر پھر واپس اسی دجلہ و فرات کی وادیوں میں جا آباد ہوئے جہاں ان کی طرف حضرت نوحؑ مبعوث کیےگئے۔

حضرت نوحؑ اور ان کی نسل عرب میں

حضرت آدم ؑ کے تقریباً ہزار سال بعد عراق کے ہی ایک علاقے میں حضرت نوحؑ مبعوث ہوئے۔ ان کی قوم سخت نا فرمان اور سر کش تھی۔ لہٰذاوہ طوفان میں غرق کر دی گئی۔ تاہم حضرت نوحؑ،ان کے خاندان اور متبعین کو خداتعالیٰ نے ایک کشتی کے ذریعے بچا لیا۔ بعد میں یہ سب لوگ آہستہ آہستہ نقل مکانی کرتے ہوئےعرب میں پناہ گزین ہوئے اور مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے۔ حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کی ہجرت اور آباد کاری کے متعلق بائبل کی ایک کومنٹری لکھتی ہے :

Arabia eventually became the home of many of the post- flood families listed at Genesis chapter ten. In Semitic branch, Joktan (Arabic Qahtan) fathered the heads of some thirteen Arabian tribes; while three of Arams descendants, Us, Tether and Mash appear to have settled in the North of Arabia and Syrian desert. . . . . . . From the Hamitic branch several descendants of Cush, including Havilah, Sabtah, Raamah and his sons Sheba, Dedan and Sebteca, seem to have occupied mainly the southern part of the Arabian Peninsula

  • Gen. 10:7 (Arabia, in : Aid to Bible Understanding, New York, Ed. 1971, p. 100 – 101) ترجمہ: طوفان سے بچ جانے والے جن خاندانوں کا ذکر پیدائش کے باب دس میں ہے۔ ان میں سے اکثرکا ٹھکانہ بالآخر عرب بنا۔ سام کی شاخ میں سے جکطان جسے عربی میں قحطان کہتے ہیں۔ عرب کے تیرہ مختلف قبائل کے سرداروں کا باپ بنا۔ جبکہ آرام کی نسل میں سے تین قبائل،عوز،گیدر،اور ماش شمالی عرب اور شام کے صحرا میں آباد ہو گئے… حام کی شاخ میں سے کش سے نکلنے والے کئی قبائل جن میں حویلہ،سبتھ، راماہ اور اس کے بیٹے شیبا،ڈیڈان اور سبٹیکا شامل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں آباد ہوئے۔ (پیدائش باب 10 آیت 7)

مندرجہ بالا حوالے سے ظاہر ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی نسل عرب کے مختلف علاقوں میں پھیل گئی تھی۔ ان میں سے کچھ قبائل نے اچھی حکومتیں قائم کی تھیں۔ عاد اور ثمود نامی قومیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ انہی میں سے تھیں۔ لیکن انبیاء کی مخالفت کی وجہ سےیہ قومیں تباہ کر دی گئیں۔ لہٰذاان کو بایدہ عرب کہتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹوں کی وہ نسل جو قائم اور دائم رہی اور عرب میں پھیلی وہ عرب عاربہ کہلاتی ہے۔ اور یہی لوگ عرب کے اصل باشندے سمجھے جاتے ہیں۔ چونکہ ان عاربہ عربوں میں سے اکثر سام کے پڑپوتے قحطان کی نسل میں سے تھے۔ لہٰذاان عاربہ قبائل کو قحطانی عرب بھی کہا جاتا ہے۔ روایات میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے کعبہ کا طواف کیا تھا۔ اور ان کے بیٹے سام نے یمن کے پرانے دارالحکومت معرب کی بنیاد رکھی تھی۔

(Pre-Islamic Arabia, Kingdom of Saba, 9th century BCE – 275 CE. In: Wikipedia, the free encyclopedia)

حضرت ابراہیمؑ کی نسل عرب میں

حضرت نوح علیہ السلام کی نسل کے عرب میں آباد ہونے کے تقریباً ہزار سال بعد حضرت ابراہیمؑ کی نسل بھی عرب میں آباد ہوئی۔ لیکن اس دفعہ جس خاندان سے آباد کاری کا آغاز ہوا وہ صرف دو افراد پر مشتمل تھا۔ ایک ماں اور دوسرا اس کا شیرخوار بچہ۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بیوی حضرت ہاجرؑہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو لیا اور کنعان سے عرب تک کا سفر کیا اور ان ماں بیٹے کو حجاز کے بیابان علاقے میں خدا کے گھر کے قریب چھوڑ دیا۔ ( خدا کے اسی گھر کے پاس جسے آدمؑ نے بنایا تھا اور جو اس وقت خستہ حالت میں تھا۔ سورہ ابراہیمؑ۔ آیت 38)ننھا اسماعیل عرب کے بیابان میں پلا بڑھا اور اس نے شادی کی۔ اس کے ہاں بارہ بیٹے پیدا ہوئے۔ اور یہ بیٹے پھلے پھولے اور بارہ قبائل بن گئے۔ اور یہ سب قبائل جزیرہ نما عرب کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی نسل کی عرب میں آباد کاری کے متعلق وہی بائبل کی تفسیر لکھتی ہے:

ISHMAELITES. A descendant of Ishmael, the firstborn of Abraham by Hagar, the Egyptian handmaid of Sarah (Gen. 16:1 – 4,11). Ishmael in turn married an Egyptian by whom he had twelve sons ( Nebaioth, Kedar, Abdeel, Mibsam, Mishma, Duma, Massa, Hadad, Tema, Jetur, Nafish, Kedema), the chieftains of the various Ishmaelite clans (Gen. 21:21; 25:13 – 16) . . . . . As God had promised, the Ishmaelites grew to become a great nation that could not be numbered for multitude (Gen. 16:10; 17:20). But instead of settling down (they built few cities), they preferred the nomadic way of life. Ishmael himself was a Zebra of a man», that is a restless wanderer who roamed the wilderness of Paran and lived by his bow and arrows. His descendants were likewise tent dwelling Bedouines for the most part, a people who ranged over the Sinai peninsula from in front of the Egypt, that is to the East of Egypt and across North of Arabia as far as Assyria.

(ISHMAELITES. In: Aid to Bible Understanding, New York, Ed. 1971, page 850)

ترجمہ: اسماعیلی: اسماعیل کی اولاد جو ابراہیم کا پلوٹھا بیٹا تھا اور جسے سارہ کی مصری خادمہ ہاجرہ نے پیدا کیا تھا (پیدائش۔ باب 16 آیات 1۔ 4)اسماعیل نے بھی ایک مصری عورت سے شادی کی اور اس کے یہ بارہ بیٹے پیدا ہوئے نبایوتھ،قیدار، ،عبدیل،مبسام،مشما،ڈوما،ماسا،حاداد،تیما،جیٹور،نا فش،یڈ ما۔ یہ سب بنی اسماعیل کے قبائل کے سردار بنے۔ ( پیدائش۔ باب 21۔ آیت 21۔ اور باب 25 آیات 13 تا 16) جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا تھا بنی اسماعیل بڑھ کر ایک عظیم قوم بن گئے جو شمار نہ ہو سکتے تھے (پیدائش۔ باب 16 آیت 10۔ باب 17 آیت 20)لیکن انہوں نے کسی جگہ آباد ہو کر شہر نہیں بسائے بلکہ خانہ بدوش طرز زندگی کو ترجیح دی۔ خود اسماعیل بھی گورخر کی طرح آزاد مرد تھا۔ یعنی بے سکون صحرا نورد، جو فاران کے بیابان میں گھومتا پھرتا تھا اور اپنے تیر کمان کے سہارے جیتا تھا۔ اسی طرح اس کی نسل بھی زیادہ تر خیموں میں رہنے والی بدو تھی۔ اور یہ سب جزیرہ نما سینا کے پار مصر کے سامنے۔ یعنی مصر کے مشرق کی طرف عرب کے شمال میں شام تک پھیلے تھے۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مذکورہ بالا نسل سے تعلق رکھنے والے عرب کے یہ باشندے عرب مستعربہ کہلاتے ہیں۔ کیونکہ یہ نقل مکانی کر کے عرب میں آباد ہوئے تھے۔ چونکہ ان میں سے اکثر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پڑپوتے عدنان کی نسل سے تھے۔ لہٰذایہ عدنانی عرب بھی کہلاتے ہیں۔ ( بالکل اسی طرح جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے قحطان کی نسل سے تعلق رکھنے والے عرب قحطانی عرب بھی کہلاتے ہیں)۔(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ۔ ایڈیشن 2001۔ صفحہ 48۔ 50)

حضرت موسیٰ علیہ السلام عرب میں

حضرت ابراہیمؑ کے تقریباً پانچ سو سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف اس وقت مبعوث ہوئے جب یہ قوم مصر میں غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔ خود موسیٰ فرعون کے گھر میں پلے بڑھے تھے۔ جوانی میں جب ان کے ہاتھوں ایک شخص غیر ارادی طور پر مارا گیا تھا تو یہ سزا کے خوف سے مصر سے بھاگ کر عرب کی بستی مدین چلے گئے تھے۔ وہاں علاقے کے بڑے کاہن نے ان کو پناہ دی۔ اور اپنی ایک بیٹی کی شادی ان سے اس شرط پر کر دی کہ یہ آٹھ سے دس سال تک اس کے لیے گلہ بانی کریں گے۔ مدین کا یہ علاقہ عرب کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اور یہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے چھوٹے بھائی مدین کی نسل آباد تھی۔ دس سال تک اس علاقے میں گلہ بانی کرنے کے بعد جب حضرت موسیٰؑ اپنے بیوی بچوں کو لے کر مدین سے واپس مصر کے لیے روانہ ہوئےتو راستے میں جس پہاڑی پر انہوں نےآگ دیکھی تھی۔ وہ پہاڑی بھی عرب کے اسی علاقے میں تھی۔ اسی پہا ڑی کو حورب،کوہ طور،یا کوہ سینا کہا جاتا ہے۔ (خروج ابواب 3۔ 4۔ گلیتیوں۔ باب 4 آیت 25۔ قرآن سورۃ القصص آیات 10 سے 40) اس پہاڑی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ لینے گئے تو خداتعالیٰ ان سے ہمکلام ہوا۔ اور ان کو اپنا رسول مقرر کر کے حکم دیا کہ جاؤ مصر میں جا کر فرعون سے کہو کہ عبرانیوں کا خدا کہتا ہے کہ بنی اسرائیل کو رخصت دو تاکہ وہ تین دن کی منزل پر بیابان میں جا کر قربانی کر سکیں،عبادت کر سکیں، اور عید منا سکیں، چنانچہ واپس مصر پہنچ کر حضرت موسیٰؑ نے ایک طرف تو اپنی قوم کو اس مقدس سفر کی تیاری کا حکم دے دیا اور دوسری طرف وہ فرعون سے اس سفر کی اجازت طلب کرنے لگے۔ فرعون انکار کرتا رہا اور یہ بار بار اجازت مانگتے رہے۔ بالآخر بہت سے قہری نشان دیکھ کر فرعون نے اجازت دے دی۔ اور حضرت موسیٰؑ اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہو گئے۔(خروج،ابواب۔ تین۔ پانچ۔ آٹھ۔ بارہ)

حضرت موسیٰ مع بنی اسرائیل عرب میں

بعض علماء کا خیال ہے کہ چونکہ خداتعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو کنعان کی بادشاہت عطا کرے گا۔ لہٰذاحضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو مصر سے سیدھا کنعان کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ کنعان کی سر زمین کو تو بنی اسرائیل نے خداتعالیٰ کی مدد سے لڑ کر فتح کرنا تھا۔ لیکن جس برے حال میں اور جن مشکل حالات میں یہ ظلم وستم کی ماری قوم اپنی عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کو بیل گاڑیوں پر لاد کر اور اپنے مال مویشی لے کر مصر سے بھاگی تھی۔ ان حالات میں یہ قوم کنعان میں سیاسی پناہ تو لے سکتی تھی لیکن اس ملک کو فتح نہیں کر سکتی تھی۔ کنعان کو فتح کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ پہلے اس قوم کی مناسب تربیت،تنظیم سازی اور اخلاقی اصلاح کی جاتی تاکہ یہ اس ملک پر حکومت کرنے کے قابل ہو سکتی۔چنانچہ جب خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اپنا رسول مقرر کر کے فرعون کی طرف بھیجا تھا تو خدا نے یہ نہیں کہا تھا کہ جا کر فرعون سے کہو کہ بنی اسرائیل کو جانے دو کیونکہ انہوں نے جا کر کنعان فتح کرنا ہے۔ بلکہ خدا نے یہ کہا تھا کہ جا کر فرعون سے کہو کہ بنی اسرائیل کو جانے دو تاکہ یہ بیابان میں عبادت کر سکیں۔ قربانیاں دے سکیں اور عید منا سکیں۔ (خروج۔ باب 3 آیت 18۔ باب 4 آیت 23 اور باب 5 آیت 1)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب بالآخر فرعون نے بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دے دی تھی تو مدین کے آزاد ماحول میں برسوں کی تربیت،تنظیم سازی اور اخلاقی اصلاح کے باوجود یہ قوم اس قابل نہ بن سکی کہ کنعان پر حکومت کر سکے۔ چنانچہ اس نے لڑ کر کنعان فتح کرنے سے انکار کر دیا۔سزا کے طور پر چالیس سال تک بیابان میں بھٹکتی رہی۔ اور کنعان کی بادشاہت اس کی اگلی نسل کو ملی۔ (گنتی۔ ابواب 14۔ 32)مذکورہ بالا تاریخی اور تلخ حقیقت سے اس نظریے کی مزید تردید ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ارادہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر سیدھا کنعان کی طرف لے جانا تھا۔ حضرت موسیٰؑ کا پلان شروع سے ہی بنی اسرائیل کو عرب کے علاقے مدین میں لے کر جانا تھا جہاں انہوں نے دس سال گزارے تھے۔ جہاں خداتعالیٰ ان سے ہمکلام ہوا تھا۔ اور جہاں ان کو رسول مقرر کیا گیا تھا۔اور جہاں ان کا سسرال تھا اور جہاں ان کی بیوی پہلے ہی بچوں کو لے کر اپنے باپ کے پاس آئی ہوئی تھی۔ (خروج۔ باب 18 آیات 5۔ 6)چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر عرب کے علاقے مدین کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ وہ پہلے یہاں آ چکے تھے۔ یہاں انہوں نے شادی کی تھی اور دس سال گزارے تھے۔ وہ راستے سے بھی واقف تھے اور علاقے سے بھی۔ لیکن جب فرعون نے ان کا تعاقب کیا تو خدا کے حکم پر انہوں نے راستہ بدل کر خلیج عقبہ کو عبور کیا جبکہ فرعون اس میں غرق ہوا۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کو مدین کے علاقے میں لے کر آئے اور کوہ سینا کے پاس خیمہ زن ہوئے۔ وہاں ان کا خسر ان کے بیوی بچوں کو لے کر ان سے ملنے آتا ہے۔ اور ان کے پاس ٹھہر کر بنی اسرائیل کی تربیت اور تنظیم سازی کے سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور وہ ان کے پاس اس وقت تک ٹھہرتا ہے جب تک خداتعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں سے کوچ کرنے کا حکم نہیں دیتا۔ کوچ کے حکم کے بعد بنی اسرائیل کو مدین کے بیابان اور سینا کے صحرا میں سے گزر کر کنعان کی طرف جانا ہے۔ یہ سفر کٹھن بھی ہے اور خطرناک بھی۔ اس سفر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے خسر کی راہنمائی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ساتھ چلنے کی درخواست کرتے ہیں لیکن وہ معذرت کر کے واپس اپنے شہر مدین چلا جاتا ہے۔ (خروج۔ باب 18۔گنتی۔ باب 10۔۔تفسیرِ کبیر۔ سورہ القصص۔ جلد 7۔ صفحہ 511)

موسوی شریعت کا آغاز عرب میں

جب مدین کے میدان میں کوہ طور کے پاس بنی اسرائیل کی تربیت اور تنظیم سازی ہو رہی تھی تو اسی دوران خداتعالیٰ نے اس قوم کی اخلاقی اور روحانی اصلاح کا بھی انتظام فرمایا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بار بار پہاڑ پر بلایا جاتا رہا اور صفائی،دھلائی اور دیگر ضروری امور کے متعلق ہدایات دی جاتی رہیں۔ پھر شرعی احکام کی تختیاں بھی دی گئیں۔ اور جب موسیٰ علیہ السلام کی غیر موجودگی میں قوم نے شرک کیا تو سخت گرفت بھی ہوئی اور مجرموں کو سزا بھی دی گئی۔ (خروج۔ ابواب 20 تا 24)بنی اسرائیل نے برسوں عرب کے اس شمال مغربی علاقے مدین میں کوہ سینا کے پاس قیام کیا۔ خداتعالیٰ نے وہاں موسوی شریعت کا آغاز کیا اور اپنے اس عہد کی تجدید کی جو خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے باندھا تھا۔ پھر وہاں سے کنعان جانے کے لیے بنی اسرائیل نے شمال کی طرف کوچ کیا اور عرب کے بیابان سے نکل کر سینا کے بیابان میں داخل ہوئے۔ اور پھر وہ چالیس سال تک اس بیابان میں بھٹکتے رہے۔ اس سلسلے میں وہی فاضل عیسائی تاریخ دان لکھتا ہے کہ

On their way to Palestine from Egypt about 1225 B.C. the Hebrew (Rachel) tribes sojourned about forty years in Sinai and the Nafud. In Midian, the southern part of Sinai and the land east of it, the divine Covenant was made. Moses married an Arabian woman, the daughter of a Midianite priest, a worshipper of Jehova who instructed Moses in the new cult. (P.K. Hitti: History of Arabs. London 1960, page 40)

ترجمہ۔ تقریباً 1225 قبل مسیح میں عبرانی قبائل مصر سے فلسطین جاتے ہوئے چالیس سال تک سینائی اور نافود میں جگہ جگہ پڑاؤ کرتے رہے۔ مدین میں جو سیناکے جنوب میں مشرق کی طرف ہے۔ خدائی عہد باندھا گیا تھا۔ موسیٰ نے ایک عربی خاتون سے شادی کی جو مدین کے ایک کاہن کی بیٹی تھیں۔ وہ یہواکا پجاری تھا اور اس نے موسیٰ کو اپنے نئے فرقہ کے متعلق معلومات دیں۔

کچھ وضاحتیںنافود،شمالی صحرائے عرب

مندرجہ بالا حوالے میں کہا گیا ہے کہ بنی اسرائیل چالیس سال تک نافود میں گھومتے اور جگہ جگہ پڑاؤ کرتے رہے۔ نافود صحرائے عرب کے شمالی حصے کا نام ہے۔ یہ صحرا مغرب کی طرف مدین کے علاقے سے جا ملتا ہے۔ اور شمال کی طرف اس صحرا سے جا ملتا ہے جو دشت سینا کہلاتا ہے اور جو عرب سے شروع ہو کر شام کی طرف پھیلا ہوا ہے۔

(History of Arabs, P. K. Hitti. p. 15)

کیا بنی اسرائیل جزیرہ نما سینا میں گھومتے رہے؟

بعض عیسائی علماء جنہیں بنی اسرائیل کا عرب میں قیام ناگوار گزرتا ہے۔ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے سمندر کو خلیج سویز کے آخری سرے کے قریب سے پار کیا تھا اور جزیرہ نما سینا میں داخل ہو کر اسی جزیرہ نما میں ہی گھومتے رہے تھے۔ اور یہیں کسی جگہ پر وہ ٹھہرے تھے جہاں خدا نے ایک پہاڑی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا۔ اور پھر یہاں سے ہی وہ بنی اسرائیل کو لے کر شمال کی طرف کنعان چلے گئے تھے۔ حالانکہ جزیرہ نما سینا تو فرعون کے زیرِ تسلط تھا۔ وہاں وہ فرعون سے بچ کیسے سکتے تھے۔ اور وہاں ان کا خسر اور بیوی بچے کہاں سے آ گئے۔ اور وہاں ان کا خسر یہ کیسے کہہ سکتا تھا کہ خداوند مبارک ہو جس نے تم کو مصریوں اور فرعون کے ہاتھ سے نجات بخشی۔ ( خروج۔ باب 18 آیت 10)پس حقیقت یہ ہے کہ کوہ سینا کا عرب میں ہونا اور بنی اسرائیل کا عرب کے علاقے مدین میں کوہ سینا کے پاس قیام کرنا۔ اور موسیٰ علیہ السلام کے خسر کا ان کے بیوی بچوں سمیت اس میدان میں آ کر ان سے ملنا۔ واضح طور پر بائبل میں مذکور ہے۔( گلیتیوں باب 4 آیت 25۔۔ خروج باب 18)۔ اور جیسا کہ اوپر درج ہے۔ عیسائی تاریخ دان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے عرب کے شمالی صحرا نافود میں قیام کیا تھا۔ اور ان کے خدائی عہد کی تجدید مدین میں ہوئی تھی جو سینا کے جنوب مشرق میں عرب میں واقع ہے۔

بنی اسرائیل کے خروج کا راستہ

اس بات میں بھی اختلاف رہا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے خروج کے لیے کونسا راستہ اختیار کیا تھا اور سمندر کو کہاں سے پار کیا تھا۔ لیکن اب جدید تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انہوں نے وہی معروف شاہراہ اختیار کی تھی جس پر عرب اور مصر کے درمیان تجارتی قافلے آیا جایا کرتے تھے۔ یہ شاہراہ الحجکہلاتی ہے شاید اس لیے کہ مصری حاجیوں کے قافلے بھی اسی راہ سے کعبہ جایا کرتے تھے۔ جب موسیٰ ؑکے ہاتھوں ایک مصری شخص مارا گیا تھا تو وہ اسی راستے سے بھاگ کر مدین پہنچے تھے۔ اور پھر دس سال بعد اسی راستے سے اپنے بیوی بچوں ( اور نبوت ) کے ساتھ واپس مصر آئے تھے۔ وہ راستے سے بھی واقف تھے اور علاقے سے بھی۔یہ شاہراہ مصر سے شروع ہو کر اور جزیرہ نما سینا کو عبور کرنے کے بعد خلیج عقبہ کے اوپر سے ہو کر عرب کے علاقے مدین میں پہنچتی ہے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ کو بالآخر یہ اجازت تو دے دی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو عبادت اور قربانی کے لیے بیابان میں لے جائیں۔ لیکن ان کی روانگی کے بعد اس نے اپنے وزیروں اور مشیروں کے دباؤ میں آکر اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔ اور وہ ایک دو دن بعد اپنے تیز رفتار گھوڑوں اور رتھوں پر سوار لشکر کو لے کر ان کے تعاقب میں نکل پڑا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے قافلے کو جزیرہ نما سینا عبور کرنے سے پہلے پکڑ لے گا۔ ( خروج۔ باب 14 آیات 5 تا 12)ادھر خداتعالیٰ نے تیز گرد آلود ہواؤں اور بادلوں سے فرعون کے لشکر کی رفتار کو کم کیا اور ساتھ ہی حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ اس سینائی راستے (الحج روٹ) کو چھوڑ کر دائیں (جنوب) کی طرف پہاڑی علاقے میں گھس جائیں۔ بنی اسرائیل کے قافلے نے ابھی جزیرہ نما سینا کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہی طے کیا تھا کہ حضرت موسیٰ نے قافلے کا رخ موڑا اور مناسب راستہ دیکھ کر پہاڑی علاقے میں داخل ہو گئے۔ صاف اور سیدھے میدانی راستے کو چھوڑ کر پہاڑی راستہ اختیار کرنا ان کی قوم کے لیے سخت پریشان کن تھا اور وہ بہت ناراض ہوئی۔ تاہم خداتعالیٰ کی راہنمائی میں وہ اپنی قوم کو پہاڑوں کے بیچ میں سے گزار کر خلیج عقبہ کے کنارے پر لے آئے۔ (خروج۔ باب 13 آیت 18۔ باب 14 آیات 1۔ 13)

سمندر کہاں اور کیسے پار کیا

جہاں تک خلیج عقبہ کو عبور کرنے کا تعلق ہے تو ماہرین نے اس مقام کا تعین کر لیا ہے جہاں سے سمندر پار کیا گیا تھا۔ یہ مقام نووائبا کہلاتا ہے اور اب یہ سیاحت کی جگہ ہے۔ اس مقام کی نشاندہی کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام نے سمندر کی دونوں اطراف اونچے ستون تعمیر کروائے تھے جن میں سے مصر کی طرف کا ستون آج بھی موجود ہے۔ اس بارے میں ویڈیوز شواہد کے ساتھ یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ ان میں فرعون کے تباہ شدہ رتھوں کے پہیے اور دیگر حصے سمندر کی تہ میں دیکھےجا سکتے ہیں۔ مثلاً (The Exodus route, Red Sea crossing and Mount Sinai)

خلیج عقبہ کے دونوں طرف پہاڑی سلسلے ہیں۔ اور سمندر کی تہ بھی پہاڑی اور پتھریلی ہے۔ اس میں نشیب و فراز بہت ہیں اور گہرائی کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ۔ خداتعالیٰ کی راہنمائی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام جس جگہ پہنچے تھے وہاں گہرائی بہت کم تھی اور سمندر کی تہ بلند اور ہموار بھی۔ مدو جزر کی وجہ سے پانی پہلے ہی اتر رہا تھا اور ساتھ ہی حضرت موسیٰ کی لاٹھی کے اشارے پر سخت تیز اور تند ہوائیں چلنی شروع ہو گئیں جنہوں نے سمندر کے پانی کو تیزی سے اندر کی طرف دھکیل دیا۔ اور بنی اسرائیل کے سامنے سمندر کی بلند۔ پتھریلی اور ہموار تہ اس طرح نمایاں ہو گئی جیسے سمندر کا پانی اترنے سے جزیرہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ تیز ہواؤں سے یہ راستہ جلد خشک ہو گیا اور بنی اسرائیل بآسانی اس پر سے گزر گئے۔ لیکن دونوں اطراف میں سمندر بہت گہرا تھا۔ چنانچہ تیز ہواؤں کی وجہ سے سمندر کی چٹانوں کی طرح بلند وبالا لہریں دونوں طرف ٹھاٹھیں مارتی رہیں۔ ایک رات میں بنی اسرائیل نے یہ راستہ طے کر لیا ۔صبح کے وقت جب فرعون اپنے لشکر کے ساتھ پہنچا تو وہ بھی اسی خشک راستے پر چل پڑا۔ جب وہ درمیان میں پہنچا تو دوسرے کنارے پر کھڑے موسیٰ نے پھر لاٹھی گھمائی اور ہواؤں کا رخ بدل گیا۔ سمندر کی لہریں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی واپس لوٹیں اور فرعون کا لشکر غرق ہو گیا۔اس خدائی اعجاز کا نقشہ بائبل میں اس طرح کھینچا گیا ہے پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنا دیا۔ اور پانی دو حصے ہو گیا۔ اور بنی اسرائیل بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔ اور ان کے دائیں اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا۔ اور مصریوں نے تعاقب کیا….اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور صبح ہوتے ہوتے سمندر پھر اپنی اصلی قوت پر آ گیا۔ اور مصری الٹے بھاگنے لگے…. اور پانی پلٹ کر آیا۔ اور اس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو….غرق کر دیا۔ ( خروج۔ باب 14)

بیابان میں عبادت اور قربانی

بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کی جو تفصیل بائبل کی کتاب خروج میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے مطابق خداتعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ جاؤ اور فرعون سے کہو کہ وہ اسرائیل کو تین دن کی منزل پر بیابان میں قربانی کے لیے جانے دے۔ فرعون نے انکار کیا تو خداتعالیٰ نے بلائیں نازل کیں۔ اس پر وہ راضی تو ہو گیا لیکن بعد میں پھر سخت ہو گیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ بار بار فرعون سے یہ اجازت مانگتے رہے کہ وہ بنی اسرائیل کو بیابان میں عبادت اور قربانی کے لیے جانے دے۔ اور ہر بار فرعون پہلے انکار کرتا۔ پھر بلائیں دیکھ کرمان جاتا۔ لیکن پھر مکر جاتا رہا۔ (خروج۔ ابواب 3 تا 9)اسی کشمکش کے دوران فرعون نے حضرت موسیٰ ؑکو یہ مشورے بھی دیے کہ صرف مردوں کو لے جائیں یا مال مویشی کو ساتھ نہ لےکر جائیں۔ لیکن حضرت موسیٰؑ بضد رہے کہ ہم اپنے بال بچوں اور مال مویشی کو ساتھ لے کر جائیں گے کیونکہ وہاں بیابان میں ہم سب نے عبادت اور قربانی کرنی ہے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ اصل مسئلہ عبادت اور قربانی کا نہیں تھا بلکہ کسی خاص بیابان میں جانے کا تھا۔ بلاؤں سے تنگ آ کر جب فرعون نے بالآخر اجازت دی تو اس نے حضرت موسیٰ سے یہ بھی کہا تھا کہ جاؤ..اور جا کر عبادت کرو…اور میرے لیے بھی دعا کرنا۔ گویا فرعون جانتا تھا کہ کسی خاص بیابان میں جا کرلوگ عبادت اور دعائیں کرتے ہیں۔ اور قربانیاں کرتے ہیں۔ (خروج باب 10 آیات 11 تا 24۔ اور باب 12۔ آیت 32)

کعبہ دشت فاران کا قدیم ترین معبد

بائبل کہتی ہے کہ حضرت اسماعیلؑ فاران کے بیابان میں پلے بڑھے تھے اور ان کے بارہ بیٹے اس بیابان میں پھیل گئے تھے اور انہوں نے اپنی اپنی بستیاں آباد کر لی تھیں۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ فاران کے مغربی حصے میں مکہ نامی ایک بستی ہے جس میں ایک مکعب نما معبد قدیم زمانے سے قائم ہے جو کعبہ کے نام سے مشہور ہے۔ اور عرب کے طول و عرض اور اردگرد کے علاقوں سے لوگ یہاں آ کر عبادت اور قربانیاں پیش کرتے آئے ہیں۔ مدین کا علاقہ بھی عرب کے مغرب میں ہے اور کعبہ اس علاقے سے دور نہیں ہے۔ شمالی عرب اور مصر کی طرف سے آنے والے حاجیوں کے قافلے مدین سے گزر کر ہی کعبہ جاتے تھے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ مدین میں دس سال گزار کر واپس مصر گئے تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کو اس معبد کا علم نہ ہو۔ یا انہوں نےاس کعبہ کی زیارت نہ کی ہو۔ (پیدائش۔ ابواب 21 اور 25۔ تفسیرِ کبیر جلد دوم ایڈیشن۔1986 صفحہ 179خروج۔ باب 3 اور 4)بائبل کی کتاب خروج میں تو ذکر نہیں کہ وہ کونسا بیابان تھا جہاں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو عبادت کے لیے لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن کتاب گنتی میں یہ ذکر موجود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو مدین کے بیابان کے علاوہ فاران کے بیابان میں بھی لے کر گئے تھے اور وہاں قیام کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ فاران میں قیام کے دوران وہ مکہ گئے اور اس بیابان میں انہوں نے وہ عبادت کی اور قربانیاں دیں جن کا حکم خداتعالیٰ نے ان کو دیا تھا۔ بائبل میں سے تو مکہ اور کعبہ کا نام ہی غائب کر دیا گیا ہے۔ اس عبادت اور قربانیوں کا ذکر کیسے ہوتا۔ (گنتی۔ باب 13)

موسیٰ جیسے نبی کا ظہور

مصر میں بنی اسرائیل چار سو سال تک نہ صرف غلامی میں پستے رہے بلکہ بت پرستی میں بھی بری طرح ملوث ہوئے۔ وہ خدائے واحد کو بھول کر ہر قسم کے شرک اور توہمات میں مبتلا ہو چکے تھے۔ تاہم وہ خداتعالیٰ کی چنیدہ قوم تھے اور خداتعالیٰ نے ان کو اس افسوسناک صورتحال سے حضرت موسیٰ کے ذریعے نجات دلائی۔ وہ اس قوم کو مصر سے نکال کر مدین کے بیابان میں کوہ طور کے دامن میں لے کر آئے۔ وہاں خداتعالیٰ نے ان کو اپنا تعارف کروایا۔ اپنے معجزات دکھائے۔ اپنا جلال اور جلوہ دکھایا۔ اپنا کلام سنایا اور ان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لیے احکامات نازل فرمائے۔ مدین کے اس تربیتی کیمپ میں برسوں کی صفائی، دھلائی اور روحانی اصلاح کے بعد وہ اس قابل ہوئے کہ وہ کعبہ کا طواف ،عبادت اور قربانیاں کر سکیں۔ چنانچہ خداتعالیٰ کی راہنمائی میں حضرت موسیٰؑ ان کو مدین سے فاران کے بیابان میں لے کر آئے اور وہاں انہوں نے یہ فریضے ادا کیےاور پھر انہوں نے کنعان کی طرف کوچ کا پروگرام بنایا۔ (گنتی۔ ابواب 10۔ 12۔ 13)

موسیٰ جیسے نبی کی پیشگوئی

اسی قیام کے دوران حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ خبر دی تھی کہ خدا تیرے بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی بپا کرے گا۔ تم اس کی سننا ۔ اور پھر اپنے آخری ایام میں انہوں نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ خدا سینا سے آیا۔ شعیر سے ان پر آشکار ہوا۔ وہ کوہ فاران سے ان پر آشکار ہوا اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اس کے داہنے ہاتھ میں ان کے لیے آتشیں شریعت ہے۔ (استثناء۔ ابواب 18 اور 33) اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ پیشگوئیاں بڑی شان کے ساتھ بانئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں پوری ہوئیں جب خداتعالیٰ نے ان کو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے مبعوث کیا۔ حضرت موسیٰؑ کی طرح ان کو شریعت دی۔ اور وہ دس ہزار صحابہ کے ساتھ مدینے سے روانہ ہو کر فاران کے بیابان سے گزر کر مکہ میں داخل ہوئے۔ اور وہاں کعبہ کا طواف کیا اور قربانیاں دیں۔ (بالکل اسی طرح حضرت موسیٰ ؑبھی ہزاروں صحابہ کے ساتھ مدین سے روانہ ہو کر فاران سے گزر کر مکہ میں داخل ہوئے تھے اور وہاں ان سب نےعبادت کی تھی۔ طواف کیا تھا اور قربانیاں دی تھیں۔ اور پھر کنعان کی طرف کوچ کیا تھا)۔

واپس مکہ چلویہودی عالم کا بیان

حال ہی میں ایک یہودی عالم نے ایک کتاب شائع کی ہے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس کا نام ہے:

Return to Mecca, by Dennis Avi Lipkin

اس میں بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں بت پرستی میں مبتلا تھے۔ اس زمانے میں صرف مکہ ہی وہ واحد جگہ تھی جہاں خدائے واحد کی پرستش ہوتی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے پیدا ہونے والی سب قومیں وہاں کعبہ کے طواف کے لیے جایا کرتی تھیں۔ سب لوگ دین ابراہیمؑی کے پیروکار تھے اور ان میں یہودی۔ عیسائی یا مسلمان کی تقسیم نہ ہوئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ بنی اسرائیل خلیج عقبہ کو پار کر کے مدین میں داخل ہوئے تھے۔ اور کوہ سینا اور دشت فاران کے حوالے سے جو واقعات بائبل میں درج ہیں وہ سارے عرب میں ہوئے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ دس سال مدین میں گزار چکے تھے۔ ان کا خسر کعبہ کا پجاری تھا اور وہ خود مکہ اور کعبہ کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ بنی اسرائیل کو پہلے مدین اور پھر مکہ لے کر گئے جہاں انہوں نے کعبہ کا طواف کیا اور قربانیاں دیں۔ اس وقت سے یہودی قوم کعبہ کا احترام کرتی آئی ہے۔ یہود کے علماء کعبہ کی شکل کا ایک مکعب نما سیاہ تعویذ اپنے بازو پر باندھا کرتے تھے۔ اس کو باندھنے کے لیے رسی کو سات چکر دیے جاتے تھے جو کعبہ کے طواف کے سات چکروں کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ یہ تعویذ علماء اپنی پیشانی پر بھی باندھتے تھے۔ اس تعویذ کے اندر تورات کی کچھ آیات لکھی ہوتی ہیں۔ اب بھی بعض مخلص یہود نماز کے وقت اس کو سامنے رکھتے ہیں۔

حضرت عیسیٰؑ کے زمانے میں بھی یہود کے علماء یہ تعویذ باندھتے تھے اور ان کی مذمت کرتے ہوئے حضرت عیسیٰؑ نے ان سے کہا تھا کہ تم دکھاوے کے لیے یہ تعویذ باندھتے ہو۔( متی۔باب 23 آیت 5)انگریزی میں اس تعویذ کو Phylactery کہتے ہیں)۔ یہ یہودی عالم مزید کہتے ہیں کہ عبرانی میں لفظ حج کا مطلب عید منانا اور طواف کرنا ہوتا ہے۔ اور اسی حج کے لیے حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو مصر سے مدین اور پھر مکہ لے کر گئے تھے۔ و ماعلینا الاالبلاغ۔

آخر میں قرآن کریم کی ان آیات کو پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے: ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی۔ بلکہ وہ حنیف اور مسلم تھا …ابراہیم کے دین کی پیروی کرو۔ وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ یقیناً پہلا گھر جو سب انسانوں کے لیے بنایا گیا وہ مکہ میں ہے۔ وہ برکتوں والا ہے اور سب انسانوں کی راہنمائی کا موجب ہے۔ ( اٰل عمران۔ آیات 68۔ 96۔ 97)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button