متفرق مضامین

اسلامی انقلاب

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفات الٰہیہ کے مظہر اتم کی حیثیت سے اپنی قوت قدسی سے وحشیوں کو انسان بنایا، انسان سے بااخلاق انسان بنایا اور پھر بااخلاق انسان سے با خدا انسان بنایا کہ وہ بھی الٰہی رنگ سے رنگین ہوگئے، اس کے نتیجے میں ایسا انقلاب رونما ہوا جو تاریخ انسانی میں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات الٰہی کے مظہر اتم تھے جس کی شہادت اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دی۔

وَ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى۔(الانفال:18)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے افعال، اعمال اور پاک قویٰ سے دنیا کو اس کا کامل نمونہ دکھلایا کہ ’’کوئی انسانی حالت ایسی نہیں جس میں آپؐ نمونہ نہ ہوں‘‘۔(حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ، انسان کامل،1986، صفحہ 27)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفات الٰہیہ کے مظہر اتم کی حیثیت سے اپنی قوت قدسی سے وحشیوں کو انسان بنایا، انسان سے بااخلاق انسان بنایا اور پھر بااخلاق انسان سے با خدا انسان بنایا کہ وہ بھی الٰہی رنگ سے رنگین ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں ایسا انقلاب رونما ہوا جو تاریخ انسانی میں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا۔

آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور اسلامی انقلاب کے ذریعہ کیا حیات آفریں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

ظہور اسلام سے قبل دنیا کی حالت قرآن پاک میں بیان ہوئی ہے۔ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ۔(الروم:42)جب دنیا سے سچی توحید گم ہوجاتی ہے تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں کیا تباہ کن تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔مثلاً:

عدم مساوات

اسلام سے قبل کئی معاشروں میں عدم مساوات کا تصور پایا جاتا تھا۔مثلاً اگر کوئی شودر اتفاقاً کسی برہمن کو منتر پڑھتے ہوئے سن لیتا اس کے لیے یہ سزا مقرر تھی کہ اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا۔شودروں اور تین اونچی جاتیوں کے لوگوں کی آپس میں شادیاں انتہائی بے رحمانہ سزاؤں کی مستوجب اور قطعاً ممنوع تھیں۔(سید امیر علی، روح اسلام، ترجمہ محمد ہادی حسین۔ ناشر کشمیر کتاب گھر جموں،1996ء، صفحہ 13)

ایک ہندو مصنف تسلیم کرتا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ملک کے زیادہ تر حصوں میں برہمن سب سے اوپر اور اچھوت سب سے نیچے سمجھے جاتے تھے۔(ایم۔ این۔ سری نواس۔ جدید ہندوستان میں ذات پات، مترجم شہباز حسین، نئی دہلی ترقی اردو بیورو نئی دہلی 1974ء صفحہ 95)

البیرونی نے لکھا ہے کہ شودر برہمن کے خدمت گار کی طرح ہیں جو ان کے کام تجارت کی دیکھ بھال اور ان کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ ہر کام کے لیے جو برہمن کے لیے مخصوص ہیں مثلاً خدا کی عبادت کرنا، وید پڑھنا …ان لوگوں کے لیے حرام ہے۔ اگر وہ ایسا کریں تو برہمن بادشاہ کے رُوبرو ان پر الزام لگاتا ہے اور بادشاہ ان کی جیو(زبان) کاٹ دینے کا حکم دیتا ہے۔ شودروں کو کھیتی کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ یہ کام ان کے لیے گناہ ہے اور چوری کے جرم سے کم نہیں۔(ڈاکٹر عابدہ خاتون۔ عربوں کی نظر میں قدیم ہندوستانی مذاہب و معاشرہ۔ مرکز ادب اردو لکھنؤ 1989ء صفحہ 160)

عرب سیاحوں نے انیتجبہ نام کی ذات کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ طبقہ شہر اور گاؤں کے باہر رہتا تھا اپنے کام کی وجہ سے حقیراور ناپاک سمجھا جاتا ہے۔

ان کی تفصیل یہ ہے کہ دھوبی، موچی (چمار)، مداری، ٹوکری بنانے والا، ڈھال بنانے والے،مانجھی (ملاح) مچھوا(مچھلی مارنے والا) جانور چرانے والا، اور جلاہے، ہاڈی، ڈوم، چنڈال اورجگھنو گھٹیا طبقے کے لوگ ہیں۔ یہ لوگ گندے کام، صفائی اور دوسرے کام انجام دیتے ہیں۔ انہیں ناجائز اولاد تصور کیا جاتا ہے۔(ڈاکٹر عابدہ خاتون، عربوں کی نظر میں قدیم ہندوستانی مذاہب و معاشرہ۔ مرکز ادب اردو لکھنؤ 1989ء۔ صفحہ 163)

یہ وہ تناظر تھا جب عربی عجمیوں کو اور عجمی عربیوں کو اپنے برابر نہیں سمجھتے تھے۔ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے تھے۔

ظلم و ناانصافی کی اس اندھیری رات میں اسلام کا حیات آفریں پیغام انسانیت کو ذات پات کی زنجیروں سے رہائی دیتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر فرماتے ہیں:’’سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی پیدائش مٹی سے ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّاُنۡثٰی وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔ترجمہ:’’اے لوگو ہم نے تم کو نَر اور مادہ سے پیدا کیا ہے اور تمہارے اندر شاخیں اورقبیلے بنائے ہیں تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو شناخت کرو (اور) بے شک خدا کے نزدیک تم میں بزرگ مرتبہ وہ ہے جو بڑا متقی ہے۔‘‘(محمد عبدالملک ابن ہشام، سیرت النبیؐ ابن ہشام حصہ سوم۔ اسلامی کتب خانہ لاہور۔ صفحہ 151)

یہی اسلامی انقلاب کی روشنی تھی جس نے دنیا سے جہالت اور اندھیرے دور کردیے اور وہ علاقے اور معاشرہ جو ذات پات کی زنجیروں میں جکڑے کراہ رہے تھے، ان کو رہائی دلا کر رفعتوں سے ہمکنار کر دیا۔ ہندوستان جہاں نچلی ذاتوں کے باشندوں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی جب وہاں مسلم اقتدار قائم ہوا اور ان پابندیوں کا خاتمہ ہوگیا تو آپس کے میل جو ل اور تعلق کے نتیجے میں معیشت کو فروغ حاصل ہوا اور لاہور اور دہلی جو چھوٹے چھوٹے شہر تھے بڑے بڑے شہروں میں بدل گئے اور دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن گئے۔یہ اسلامی تعلیمات کی تاثیر تھی جس نے خطّوں کی تقدیر بدل دی۔

تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے

عقل غیّاب و جستجو عشق حضور و اضطراب

اسلامی انقلاب کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ یہ ایک جامع انقلاب ہے۔اس نے نہ صرف ایک روحانی انقلاب برپا کر کے انسان کو باخدا انسان بنا دیا بلکہ عقل کو بھی توہمات کی زنجیروں سے رہائی دلائی۔ اور اسے شرف و مرتبہ عطا کیا۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ۔(الملک:11)ترجمہ:اور وہ کہیں گے اگر ہم (غور سے) سنتے یا عقل سے کام لیتے تو ہم آگ میں پڑنے والوں میں شامل نہ ہوتے۔

گویا قرآن کے مطابق ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تدبر کے سوا ایمان صحیح نہیں ہوتا ‘‘(اخبار بدر جلد 7 نمبر 3 مورخہ 23؍جنوری 1908ء صفحہ 3)

گویا فکر و تدبر کو جو اسلام میں اہمیت دی گئی اس کے نتیجے میں سائنسی دنیا میں اور عقلی علوم میں بھی ایک انقلاب برپا ہوا اور انسان اس قابل ہوگیا کہ وہ ستاروں کی گذر گاہیں ڈھونڈ سکے۔ اگر اسلام کا یہ انقلاب نہ آتا تو دنیا کبھی بھی سائنسی علوم میں ترقی و عروج کی منازل طے نہ کرتی۔

توہمات سے رہائی اور شرف انسانیت

اسلامی انقلاب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کی بدولت انسان کو توہمات سے رہائی ملی۔ظہور اسلام سے قبل ’’کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر‘‘ایرانی آسمانی بروج، سیاروں، ستاروں کو معبود سمجھتے تھے، تمام دکھوں اورسکھوں کو آسمانی گردش سے منسوب کرتے تھے قرآن اس تناظر میں ایک انقلابی اعلان کرتا ہے۔

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ۔(لقمان:21)

چنانچہ انسان کو یہ شرف و مرتبہ صرف اسلام عطا کرتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ تسخیر کائنات کی طرف بھی راہنمائی کی تاکہ ان قوتوں کو خدمت انسانیت میں لگایا جاسکے گویا یہ اسلام کا ترقی یافتہ انقلابی تصور تھا جس نے انسان کو بجائے ان مظاہر کو سجدہ کرنے کے، ان کو انسان کے ماتحت قرار دے دیا۔

قیدیوں سے حسن سلوک

قیدیوں کے ساتھ اُس وقت بے رحمانہ سلوک ہوتا تھا۔ اس کاتو کیاذکر، آج بھی جو کہ ترقی یافتہ دور کہلاتا ہے جو کچھ قیدیوں یہاں تک کہ قیدی بچوں کے ساتھ گزرتی ہے اس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔عراق جنگ میں جو کچھ قیدیوں اور معصوم بچوں کے ساتھ گذری وہ ایک خاتون محقق بیان کرتی ہیں:

Even the innocent children were not spared, Michael Hass has documented a number of instances in which war crime were committed against children by the U.S forces, including in placing of children in the same prison alongside adults at Abu Gharib where rapes were reported of both male and female children.

(Henry A. Giroux, Heart of Darkness, Taylors Francis, 2010, Page 66)

عراق جنگ تو 2003ء کا واقعہ ہے اور 2022ء میں جو کچھ روسی جیلوں میں یوکرائن میں قیدیوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ان سابق قیدیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور جیل کے حالات کافی بُرے تھے۔ ان کے مطابق کھانے میں آدھا گلاس پانی، ڈبل روٹی کا ٹکڑا اور سیریل کے کچھ چمچ دیے جاتے تھے اور یوں خوراک کو بچایا جاتا تھا۔(بی بی سی اردو نیوز 2022-09-01)

اس کے مقابلہ میں جو اسلامی انقلاب سرورِ کائنات مولائے کل ،فخر رسل کی قوت قدسی کے نتیجے میں رونما ہوا وہاں قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ایک قیدی ابوعزیز بیان کرتا ہے:’’جب بدر سے مجھے لے کر آرہے تھے تو میں انصار کی ایک جماعت میں تھا ان کی یہ حالت تھی کہ جب وہ اپنا ناشتہ اور شام کا کھانا لاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو انہیں ہماری نسبت نصیحت تھی۔ اس کی وجہ سے وہ لوگ خاص طور پر مجھے روٹی دیتے اور خود کھجور کھاتے۔ ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا نہ پڑا جو مجھ کو نہ دیا ہو۔ کہا۔ تو مجھے شرم دامن گیر ہوتی اور اس کو واپس کر دیتا تو وہ پھر مجھے واپس دے دیتے ۔‘‘(ابو محمد عبدالملک بن ہشام: سیرت النبیؐ، ابن ہشام، مترجمہ۔ مولانا قطب الدین صاحب محمود حصہ دوم، اسلامی کتب خانہ صفحہ 302)

یہ تھا اسلامی انقلاب۔ گویا صحابہ کرامؓ نے بھی خوراک بچائی لیکن اپنے لیے نہیں بلکہ قیدیوں کی خدمت کے لیے۔

مفتوحہ قوم سے حسن سلوک

سب سے بڑی آزمائش کسی فاتح قوم کے لیے یہ ہوتی ہے کہ مفتوح قوم کی غلطیوں اور اس کے ظلم و ستم سےدرگزر کیا جائے۔ اگر پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی پر انتہائی سخت شرائط نافذ نہ کی جاتیں تو ممکن تھا کہ دوسری جنگ عظیم نہ ہوتی لیکن لیگ آف نیشنز کے اربابِ بسط وکشاد نےحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل نہیں کیا جس کا نتیجہ دوسری جنگ عظیم کی شکل میں نکلا۔ لیکن آقا دو جہانؐ نے اُن لوگوں سے جو سلوک کیا۔بقول مولانا شبلی :’’جن کی زبانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گالیوں کے بادل برسایا کرتی تھیں۔وہ بھی تھے جن کے تیغ و سنان نے پیکر قدسی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، وہ بھی تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے چھپائے تھے۔ وہ بھی تھے جو وعظ کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیاں لہولہان کر دیا کرتے تھے وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی، خون نبوت کے سوا کسی چیز سے بھی نہیں بجھ سکتی تھی۔ وہ بھی تھے جن کے حملوں کا سیلاب مدینہ کی دیواروں سے آ آکر ٹکراتا تھا وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینوں پر آتشیں مہریں لگایا کرتے تھے۔(مولانا شبلی نعمانی، سیرة النبی ؐ۔ حصہ اول۔ ادارہ اسلامیات۔ صفحہ 315)

لیکن یہ تاریخ انسانی کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ جس کی مثال نہیں ملتی۔ آپؐ رحمة للعالمین ان لوگ کوجن کی تشنہ لبی خون نبوت کے سوا کسی چیز سے بھی نہیں بجھ سکتی تھی فرمایا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۔لاکھوں درود اورلاکھوں سلام اس پاک وجود پرہوں۔

لیا ظلم کا عفو سے انتقام

علیک الصلوٰة علیک السلام

غلاموں سے حسن سلوک

قدیم معاشروں میں غلاموں کی جو حالت تھی وہ جانوروں سے ابتر تھی۔ انہیں ایک ادنیٰ مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ افلاطون جیسا مفکر یہ سمجھتا تھا کہ ’’فقط چند لوگ اعلیٰ سیاسی کاموں کے اہل ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ قابلیتوں کو بھی موروثی تصور کرتا ہے۔‘‘(ڈاکٹر ولیم نیل، مختصر فلسفہ یونان۔ ترجمہ خلیفہ عبدالحکیم۔ دارالطبع جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن۔ صفحہ 134)

اور حد تو یہ ہے کہ افلاطون جیسا مفکر غلامی کو جائز سمجھتا ہے۔یہی وہ تصورات ہیں جو کہ جدید مغربی تہذیب میں بھی درآئے اور عیسائی پادری بھی غلامی کا جواز فراہم کرتے نظر آتے ہیں۔

Southern Churches largely dependent on the support of white slave owners, almost never questioned the morality of owning human being

(Equal Justice Initiative, Slavery in America, www.jstor.org)

غلامی کے حمایتی یہ نظریات پیش کر رہے تھے کہ مذہب اور سائنس گوروں کی برتری کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ وہ محنتی اور ذہین تھیں اور کالے لوگ سست اور نکمے ہیں۔ ان کو نگرانی کی ضرورت ہے۔ مغربی تہذیب کو غلامی کے ادارے کو جائز قرار دے کر استحصال کی اجازت دے دی گئی۔ اور اس طرح 10.7ملین افریقن مرد، عورتیں بچے مغربی افریقہ سے غلام بنا کر امریکہ لائے گئے جس میں دو ملین سفر کی صعوبتوں کی وجہ سے راستے میں ہلاک ہوگئے۔

چنانچہ نسلی برتری کا تصور آج تک بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ اس تناظر میں اسلام کے انقلاب آفرین پیغام کو دیکھتے ہیں جو کہ آج سے چودہ سو برس قبل مولائے کل ختم الرسلﷺنے ان مظلوم طبقات کو مژدہ جانفزا کی صورت عنایت فرمایا: کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ عظمت کا معیار تقویٰ ہے۔ یہ وہ تصوّر تھا جو اہل اسلام کی روحوں میں رچ گیا ’’شاخ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کانم‘‘حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو سیدنا بلال کہہ کر پکارتے ہیں اور اپنی وفات کے قریب فرماتے ہیںکہ اگر حضرت ابوحذیفہؓ کے غلام حضرت سالم رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلیفہ نامزد کرتا۔یہ وہ مرتبہ ہے جو کہ غلاموں کو اسلام نے عطا فرمایا۔

جامع انقلاب

اسلام سے قبل دین اور دنیا میں ایک تفریق تھی۔مذہب سے وابستہ لوگ نہ صرف دنیا کو بلکہ دنیاوی علوم کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اسلام نے دنیا کو یکجہتی عطا کی اور اس تقسیم کو ختم کر دیا۔ اسلام ایسے خدا کا تصور پیش کرتا ہے جس کی گواہی ’’انسان کا نورِ قلب اور انسان کا کانشس اور زمین و آسمان پیش کر رہا ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 12)

قرآن پاک اپنی صداقت کے لیے عالم انفس و آفاق سے شہادتیں پیش کرتا ہے۔

سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ۔(حم السجدۃ:54)پس ہم ضرور انہیں آفاق میں بھی اور اُن کے نفوس کے اندر بھی اپنے نشانات دکھائیں گے یہاں تک کہ اُن پر خوب کھل جائے کہ وہ حق ہے۔

قرآن کا تصور ہندو مذہب کے تصور کی تردید کرتا ہے جو دنیا کو ایک دھوکا سمجھتا ہے اور ترک دنیا کی ترغیب دیتا ہے اس کے برعکس قرآن پاک کائنات کے بارے میں بیان کرتا ہے۔

خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ(الجاثیۃ:23)اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

قرآن پاک بیان کرتا ہے کہ مذہبی اور روحانی صداقتیں خلاف عقل نہیں ہوتیں۔ اس انقلابی تصور نے کائنات کی تسخیر کے باب کھول دیے۔اور سائنس کی ترقی کی بنیاد اسلام کے بعد پڑی اور انسان ستاروں کی گذرگاہیں ڈھونڈنے کے قابل ہوگیا۔

روحانی ارتقاء

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ آپؐ نے ان لوگوں کو جو قرآن کے مطابق وَ يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ (محمد:13)اپنی قوت قدسی سے يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا۔(الفرقان:65)کا نمونہ بنا دیا۔ عرب معاشرےکی اس سے قبل جو حالت تھی کہ کسی آدمی کا اونٹ کسی کھیت میں چلا جاتا ہے۔ اس کھیت کی رکھوالی کرنے والی عورت اس اونٹ کو مار کے باہر نکالتی ہے تو اونٹ کا مالک اس عورت کو زدوکوب کرتا ہے۔اس کے نتیجے میں جنگ شروع ہوتی ہے جو کہ چالیس برس تک جاری رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں ستّر ہزار آدمی ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ایک گھوڑے کو بدکانے کے نتیجے میں جنگ شروع ہوتی ہے وہ 68 سال جاری رہتی ہے۔(شیخ اسماعیل پانی پتی۔ ہمارا آقا۔ صفحہ 112)

یہ وہ تناظر تھا جس میں ایک ایسا روحانی اور اخلاقی انقلاب آیا جس نے اس قوم کی تقدیر بدل دی بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام :’’ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔‘‘(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد6 صفحہ 10تا11)

اس انقلاب کے بعد کیا تبدیلی آئی۔ جو لوگ معمولی معمولی بات پر برسوں لڑائیاں لڑتے اور ہزاروں جانیں ضائع ہوتیں۔ اسلام لانے کے بعد ان میں کیا تبدیلی آتی ہے کہ ’’ابوحذیفہؓ کے باپ کو ناواقفیت میں مسلمانوں نے غزوہ احد کے موقع پر شہید کر دیا۔ حذیفہؓ نے (کہا) خدا تم کو معاف کرے وہ ارحم الراحمین ہے۔ پھر حضورؐ نے حذیفہؓ کو ان کے باپ کا خون بہا دینا چاہا۔ مگر حذیفہؓ نے نہ لیا۔ اور مسلمانوں کو معاف کر دیا۔‘‘(ابو عبدالملک بن ہشام۔ سیرت النبیؐ ابن ہشام۔ مترجم مولانا قطب الدین محمودی۔ اسلامی کتب خانہ صفحہ22)

غیر متناہی شعوری ارتقاکا تصور

قدیم مذہب میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہماری روح جسم میں قیدہوگئی ہے اور دنیا میں مقید ہوگئی ہےاس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ اس قید خانے سے رہائی حاصل کرے۔یہاں تک کہ جدید فلسفہ بھی زندگی کی کوئی پُر امید تصویر پیش کرتا نظر نہیں آتا۔ سی۔ ایم جوڈ لکھتے ہیں:

If we consider our action from the point of view of biology, of anthropology, or of psychology, it is very difficult to resist the conclusion that they are determined

(C. M. Joad: Guide to Philosophy, London 1948, Page 389)

قرآن پاک مایوسی کے اندھیروں میں نور سحر کی نوید ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کی تفسیر میں حضرت مصلح موعوؓد تحریر فرماتے ہیں:’’مومن کا اصل مقام نجات حاصل کرنا نہیں بلکہ فلاح حاصل کرنا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 124)

قرآن پاک ایک مسلسل ارتقاکا تصور پیش کرتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَیُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَبِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ۔(التحریم:9)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر بیان فرماتے ہیں:’’اس آیت میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو کمال تک پہنچا۔ یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے…غرض اس طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا تنزل کبھی نہیں ہوگا اور نہ کبھی بہشت سے نکالے جائیں گے۔ بلکہ ہر روز آگے بڑھیں گے اور پیچھے نہ ہٹیں گے۔ ‘‘(تفسیر بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ہشتم صفحہ 20)

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ارتقا کا سفر اسی دنیا سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دنیا کوئی قید خانہ نہیں بلکہ غیر متناہی سلسلہ ترقیات کی بنیاد پر اسی دنیا میں رکھی جاتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’قرآن شریف کی رُو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثارہیں۔ کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے۔‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ہشتم صفحہ 21)

یہ وہ قرآن پاک کا انقلابی تصور ہے جو کہ دنیا کو مایوسی اور درماندگی کی فضاؤں سے نکال کرلامتناہی ترقی کی راہ پہ گامزن کر دیتا ہے۔

استحصال کا خاتمہ

اسلامی انقلاب کا ایک مقصد مظلوم طبقوں کو ظالم حکومتوں کے چنگل سے رہائی دلانا تھا جو کہ ان کا صدیوں سے استحصال کر رہی تھیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مظلوم رعایا کو قیصر و کسریٰ کے استبدادی شکنجے سے رہائی دلائی جائے۔ (افادات و ملفوظات مولانا عبید اللہ سندھی۔ پروفیسر محمد سرور صفحہ 221)

حضرت شاہ ولی اللہ کے خیال میں بعض حکومتیں اپنی رعایا پر اس قدر بوجھ ڈال دیتی ہیں کہ ان کے پاس عبادت کےلیے بھی وقت نہیں بچتا۔ چنانچہ اسلام کی حیرت انگیز فتوحات کے نتیجے میں عوام کو استحصالی طبقوں اور حکومتوں سے چھٹکارا ملا اور انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔ اور اسلام ان علاقوں میں تیزی سے پھیلا۔ اور بڑے بڑے علماء اور حکماء انہی طبقوں سے پروان چڑھے۔

تاریخی شہادت

برٹرینڈرسل قدیم دنیا میں دو تحریکوں کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے دنیا میں انتشار کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ایک رومی سلطنت اور دوسرا کلیسا۔ لیکن رومی سلطنت ایک غیر مہذب امر واقعہ تھا جس کی بنیاد کسی تصور پر نہ تھی اور کلیسا محض ایک تصور تھا جو کہ ایک امر واقعہ کا روپ نہ دھار سکا۔

(Bertrand Russell: History of Western Philosophy New York 1945, P. 495)

اسلامی انقلاب واحد انقلاب ہے جو ایک تصور بھی ہے اور حقیقت بھی۔ چنانچہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت ایسے وقت میں آئے تھے جس وقت ایک سچے اور کامل نبی کو آنا چاہیئے ‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ سورۃ النصر صفحہ 399)

کیونکہ زمانہ اس وقت ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الروم:42)کا منظر پیش کر رہا تھا لیکن’’جب ہم دوسرا پہلو دیکھتے ہیں کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کس وقت بلائے گئے تو قرآن صاف اور صریح ہمیں خبر دیتا ہے کہ ایسے وقت میں بلانے کا حکم ہوا جب اپنا کام کر چکے تھے۔‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ تفسیر سورۃ النصر صفحہ 399)

اوروَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا کا نظارہ نہ صرف آپؐ نے بلکہ لاکھوں لوگوں نے دیکھا گویا اسلامی انقلاب نہ صرف ایک تصور بلکہ ایک حقیقت بھی ہے۔ آپؐ کا خطبہ حجة الوداع ایک لاکھ حاضرین نے سُنا اور گیارہ ہزار صحابہؓ سے روایت ہوا۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسی تاریخی شہادت اپنے ساتھ نہیں رکھتا۔ یہ اعزاز صرف اسلام کو حاصل ہے۔ اس انقلاب کی حیات آفریں روشنی محض تیس سال کے مختصر عرصہ میں دنیا کے تین براعظموں تک پہنچ گئی۔

’’سورة النصر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ستر دن پہلے نازل ہوئی…رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام بخشا تھا اس لحاظ سے آپؐ کو اپنے جسمانی عزیزوں اور اقرباء کے متعلق تو کوئی فکر دامنگیر نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر خیال آسکتا تھا تویہی کہ کہیں آپؐ کے بعد آپؐ کی امت میں کوئی خلل تو پیدا نہ ہوگا…اللہ تعالیٰ نے سورة النصر میں ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ آپؐ متفکر نہ ہوں۔ یہ فتوحات جو آپؐ کے زمانے میں ہوئی تھیں یہ رُک نہیں جائیں گی بلکہ ان کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوجائے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے سورة النصر کو نازل کر کے ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی اور دوسری طرف آپؐ کے متبعین کو یہ ہدایت کی کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر گھبرا نہ جائیں۔ جس خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکامیاب و کامران کیا وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا خدا ہے اور وہ آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی امت کا محافظ ہوگا…چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت حضرت عمرؓ جیسے بہادراور مخلص لوگوں کےبھی قدم لڑکھڑا گئے اور ان پر گھبراہٹ طاری ہوگئی…اس فتنہ کو دیکھ کر مخالفین یہود اور دوسرے لوگ اس خیال سے خوش تھے کہ اسلام اب ختم ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فوراً گرتی ہوئی قوم کو سنبھال لیا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر دیا۔‘‘(تفسیر کبیرجلد دہم صفحہ 477)

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جن مشکلات کےطوفان کا سامنا تھا وہ اپنی شدت اور ہیبت میں اسی طوفان سے مشابہ تھا جس کا سامنا یوشع بن نون کو کرنا پڑا اور آپ اسی شان سے سلامت نکلے جس شان سے یوشع بن نون بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد لے کر نکلے تھے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ جس کامیابی کے ساتھ ان مشکلات کے طوفان سے سلامت نکلے اور ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی۔ وہ آج مؤرخین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے لیکن اس حیرت انگیز فتح و کامرانی کا راز قرآن پاک کی اس تعلیم میں پنہاں ہے۔

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔(آل عمران:32)

بقول محمد حسین ہیکل ’’حضرت ابوبکر صدیقؓ کی عظمت کلیةً رسول اللہ کی صحبت کے رہین منّت ہے۔ آپ ہی کے فیض کا نتیجہ تھا کہ ان کی رگ رگ میں اسلام کی محبت سرایت کر گئی۔ اور انہوں نے القا کے ذریعے اس حقیقی روح کو پالیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی دعوت میں پنہاں تھی۔‘‘(محمد حسین ہیکل۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ۔ترجمہ شیخ محمد احمد پانی پتی صفحہ 20)

گویا جب ایک انسان محبوب کی پیروی کرتا ہے تو وہ محبوب کا مثیل بن جاتا ہے۔اور جب محبوب کا مثیل بن جاتا ہےتو وَ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىکا مژدہ جانفزا ہر اس شخص کے لیے بھی ہے جس نے ’’بعد از خدا بعشق محمد مخمرم‘‘ کے کلمہ کو حرزِ جان بنا لیا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button