آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ بچپن کی بابت ایمان افروز روایات
محمدؐ ہی نام اور محمدؐ ہی کام
علیک الصلاة علیک السلام
خداتعالیٰ خالق الکل ہے۔ انسانی عقل جتنی بھی ترقی کرلے اس قادر ِمطلق ذات کے عشر عشیر تک بھی رسائی ممکن نہیں۔ جس طرح وہ ذات حیی اور قیوم ہے اسی طرح اس کی تمام صفات بھی ازلی اور ابدی ہیں۔ انہی صفات میں سے ایک صفت الہادیہے۔ یعنی وہ ذات جو اپنے بندوں کو اپنی معرفت اور پہچان کے طریق دکھائے یہاں تک کہ وہ اس کی ربوبیت کا اقرار کرنے لگیں۔
پس خداتعالیٰ نے اس دنیا کی راہنمائی کے لیے مختلف وجود منتخب کیے جن کو انبیاء کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان انبیاء کو دنیا کے ہر خطے میں بھیجا اور ان کے ذریعہ عوام کو جہاں اپنے معبودِ برحق کا راستہ بتایا وہاں اخلاقی اور معاشرتی تعلیم سے بھی نوازا۔ پھر ان انبیاء کی تعلیم میں متواتر بتایا کہ جب آئندہ حالات خراب ہوں گے تو پھر خدا کا ایک اور برگزیدہ آ کر ان بیڑیوں سے قوم کو آزاد کر کے معبودِ برحق کے سامنے سر بسجود کروائے گا۔
یہ تعلیم ’’ننگے نہ رہو اور بھوکے نہ رہو‘‘سے شروع ہوئی اور اَلْيَوْمَ أَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدہ:4) پر ختم ہوئی۔ پس آج کا مضمون بھی اسی ذات کے بارے میں ہے جو رحمة للعالمین بن کر اس دنیا میں آئی اور دنیا کو واحد خدا کا راستہ بتا کر دین کو کامل کر گئی۔
آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے
برسے ہے شرق و غرب پہ یکساں ترا کرم
تو مشرقی نہ مغربی اے نورِ شش جہات
تیرا وطن عرب ہے، نہ تیرا وطن عجم
ظہورِ سرور کائنات صلی اللہ عليہ وسلم کےمتعلق سابقہ کتب میں پیشگوئیاں
آنحضرتﷺ کی ذات کے بارے میں کچھ بھی لکھنے سے قبل اس ذات کے اعلیٰ مقام و مرتبہ کا ادراک انتہائی ضروری ہے اور آنحضرتﷺ کی ذات تو وہ کامل ذات تھی جس کی آمد کا تو ہر کوئی منتظر تھا۔ اس کی مختلف مثالیں ہمیں سیرت و سوانح کی کتب میں ملتی ہیں۔
اب پہلے مذہبی کتب کو دیکھیں تو وہاں توارت کی پہلی کتاب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑکے بارے فرمایا:’’دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور برو مند کروں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا‘‘( پیدائش باب 17 آیت 20)
پھر حضرت عیسیٰ ؑکی آمد ہوئی اور انہوں نے بھی اپنے بعد آنے والے وجود کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا:’’جب باغ کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا۔ انہوں نے اس سے کہا ان برے آدمیوں کو بری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اور آدمیوں کو دے گا۔جو موسم پر اس کو پھل دیں۔ یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خدا وند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔ اورجو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے، مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔‘‘(متی: 21۔40تا41)
پھر قدیم ایران کے مذہب زرتشت مت میں بھی آپ کی آمد کی پیشگوئی تھی۔ اس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:’’جب ایسے کام ایرانی کریں گے۔(یعنی شریعت پر عمل چھوڑ دیں گے۔ اور ان میں ہر قسم کی بدیاں پھیل جائیں گی) تو عربوں میں ایک مرد خدا پیدا ہو گا۔ جس کے ماننے والوں کے ہاتھوں سے ایران کا تاج و تخت سلطنت اور قانون سب کا سب درہم برہم ہو جائےگا۔ (اور جن کے سامنے) سرکش اور جابر لوگ مغلوب ہو جائیں گے۔ اور وہ بت کدہ یا آتش کدہ کی بجائے خانۂ آباد یعنی حضرت ابراہیمؑ کے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کر کے اس کی طرف نماز پڑھیں گے اور اس کو اپنا قبلہ بنائیں گے۔ یعنی ریگ زارِ عرب میں حضرت ابراہیم ؑکا تعمیر کردہ جو عبادت خانہ ہے جس میں ستاروں کے بت رکھ دیے گئے۔ اس کی طرف منہ کر کے وہ نماز پڑھیں گے۔ اور اس سے بت اٹھا دیں گے…اور وہ (نبی عربی کے پیرو) آتش کدوں کی جگہیں لے لیں گے۔ یعنی ایران پر قابض ہو جائیں گے۔ مدائن اور اس کے نواحی علاقے و توس و بلخ اور مقامات مقدسہ پر قبضہ کر لیں گے اور ان کا شارع (نبی ) کلام والا ہو گا اور اس کا کلام بلیغ ہو گا۔‘‘(دساتیر، صفحہ188۔ بحوالہ الفضل7؍جنوری 1942ء)
اسی طرح ہندوؤں کی مقدس کتاب وید میں بھی پیشگوئی تھی :’’اے وے لوگو!غور سے سنو۔ بہت معزز اور تعریف کیا گیا وجود لوگوں کے درمیان آنے کو ہے۔ میں اس کو ساٹھ ہزار نوے دشمنوں کے درمیان قبول کرو ں گا۔ اس کی سواری بیس اونٹ ہوں گے جن میں نراور مادہ دونوں شامل ہوں گے۔ اس کی عظمت، مقام اورجلال آسمان تک پہنچے گا اور آسمان پرغالب آ جائے گا۔ اس کو ماما رشی(بزرگ) کی طرف سے سونے کے 10ہار، سونے کے 100سکے ہوں گے اور 300عربی گھوڑے دیے جائیں گے۔ اوردس ہزار گائیں دی جائیں گی‘‘(اتھر وید کنڈا صفحہ203)
اس جگہ وید میں ایک بہت تعریف کیے جانے والے رشی کی آمد کی خبر موجود ہے۔وید میں اس کے لیےNarashansaکے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جس کا مطلب ہے بہت معزز یا بہت تعریف کیا گیا۔ گویا یہ رسول اللہﷺ کے اسم مبارک محمدﷺ کاہی ترجمہ ہے۔
پھر مذکور ہے کہ خدا اسے ساٹھ ہزار سے زائد دشمنوں میں سے قبول کرے گایعنی اس کو بچائے گا۔ ہزاروں کی تعداد میں دشمن اس کی جان کے درپے ہوں گے مگر خدا اس کو بچائے گا اور اس کی مقبولیت پھیلا دے گا۔ پھر آنے والے کے بلند مقام کی طرف اشارہ ہے جو آسمان تک بلند ہو گا او ر اس پر چھا جائے گا۔ یہ بھی رسول اللہﷺ کے عظیم الشان اور سیدالرسل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اسی لیے بائبل میں بھی آپ کی آمد کو خدا کی آمد قرار دیا گیا ہے۔(الفضل 6؍نومبر 2020ء)
پس یہ ان کی پیشگوئیوں میں سے چند ایک ہیں جن کا حوالہ اب میسر ہے، حالانکہ اس کے علاوہ اس دور میں کئی اور پیشگوئیاں بھی یقیناً تھیں جس کے اشارے ہمیں دیگر واقعات سے ملتے ہیں۔ مثلاً
٭جب قیصر نے حضورﷺ کا خط ملنے کے بعد ابوسفیان سے سوالات کیے تو اس کے آخر پر کہا :’’میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والا ہے۔ لیکن مجھے گمان نہ تھا کہ وہ تم (عرب لوگوں ) میں سے ہو گا اور اگر مجھے علم ہو کہ میں اس تک صحیح سلامت پہنچ جاؤں گا تو میں ضرور اس کی ملاقات کے لیے مشقت برداشت کرتا اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ ‘‘(بخاری کتاب بدء الوحی روایت نمبر 7)
٭…بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقع پر بھی جب مدینہ کے افراد نے بیعت کی تو وہاں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ مدینہ کے یہود کہتے تھے کہ ایک نبی آنے ولا ہے جس کے آنے سے ہماری بادشاہت دوبارہ قائم ہو گی۔ تو مہاجرین نے کہا کہ کیوں نہ ہم ان سے پہلے اس نبی کی بیعت میں شامل ہو جائیں۔
٭…طبقات ابن سعد میں مختلف یہودی علماء کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے مختلف الفاظ میں پیشگوئی کی کہ وہ نجات دہندہ نبی پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً جس رات حضورﷺ کی پیدائش ہوئی اس رات ایک یہودی تاجر نے قریش کی محفل میں کہا کہ آج رات تمہارے درمیان نبی پیدا ہوا ہے۔اس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک علامت ہے جس پر کثرت سے بال ہوں گے گویا کہ وہ گھوڑے کا عیال ہے۔(خصائص الکبریٰ جلد 1صفحہ108)
اگر ہم بالفرض ان روایات کو مستند نہ بھی سمجھیں تو بھی حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ کا و ہ قول ہمارے لیے گواہی کا باعث ہے جب انہوں نے اپنے والد اور چچا کو باتیں کرتے سنا کہ یہ (یعنی نبیﷺ ) ہیں تو وہی جس میں نبوت کی تمام پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں، مگر ہم نے اس کو ماننا نہیں۔
٭…حضرت سلمان فارسی ؓکے قبولیت اسلام کے واقعہ کو دیکھ لیں، آپ کو بھی عموریہ کے راہب نے یہی بتایا تھا کہ عرب کے ریگستان میں ایک نبی آنے والا ہے اور وہ کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرے گا اس کی علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کرےگالیکن صدقہ کواپنے لیے حرام سمجھے گا۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِنبوت ہوگی۔ اگرتم اس سے مل سکوتوضرور ملنا۔
پس یقیناً اور بہت سی ایسی باتیں اس عہد میں زبان زد عام تھیں جو بعد کے مؤرخین نے ذکر نہیں کیں، جن کو دیکھ کر اس وقت کے لوگ نبی کو پہچان رہے تھے۔ مضمون کو طوالت سے بچاتے ہوئے اگلے پہلو کی طرف چلتے ہیں اور دیکھتے ہيں کہ وہ ذاتِ بابرکات ، جس کی آمدکا نقارہ ازل سے بج رہا تھا ،اس کا بچپن کیسا گزرا۔
رسول اللہﷺ کی پیدائش کے وقت رو نما ہونے والے بعض واقعات
حضورﷺ کی پیدائش کے وقت بھی ایسے واقعات ہوئے جو اس بات کا اظہار تھے کہ ایک ایسا وجود دنیا میں آنے والا ہے جس سے دنیا میں ایک تغیر واقع ہو گا۔
اس کا پہلا واقعہ تو حضرت عبد اللہ اور حضرت بی بی آمنہ ( حضورﷺ کے والدین) سے متعلق ہے۔ سیرت النبی (ابن ہشام ) اور نقوش رسول نمبر 11 میں یہ واقعہ تفصیل سے درج ہے۔ مختصرا ً ہم یہاں بھی قارئین کے لیے درج کر دیتے ہیں۔ جب عبد المطلب نےاپنے بیٹے عبد اللہ (حضورﷺ کے والد ماجد) کی جگہ 100 اونٹ ذبح کیے تو واپسی پر بنی اسد بن عبد العزیٰ کی ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ورقہ بن نوفل کی بہن تھی اور کعبہ کے پاس رہتی تھی۔اس عورت نے جب عبد اللہ کے چہرہ کو دیکھا تو ان سے کہا کہ اے عبد اللہ کہاں جاتے ہو ؟ میں تمہیں اتنے ہی اونٹ دوں گی جتنے تمہارے دفیہ میں ذبح کیے گئے ہیں اگر تم میرے ساتھ تعلق قائم کرو۔ مگر حضرت عبد اللہ نے انکار کیا اور اپنے والد کے ساتھ چلے گئے۔ وہ انہیں وہب بن عبد مناف کے پاس لے گئے۔ وہب ( جو کہ اپنے قبیلے کے سردار تھے) نے حضرت عبداللہ کی شادی اپنی بیٹی آمنہ سے کر دی۔ حضرت آمنہ کے حمل کے بعد حضرت عبد اللہ کا گزر اس ورقہ بن نوفل کی بہن کے پاس سے ہوا تو اس نے کہا آج وہ نور تمہارے پاس نہیں ہے جو کل تھا اس لیے اب مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔ اس عورت کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنے بھائی ورقہ بن نوفل سے سن چکی تھی کہ اس قوم میں ایک نبی آنے والا ہے۔(سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 161)
آپﷺ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ جب آپ پیدا ہوئے تو میرے بدن سے ایک نور طلوع ہوا جس سے شام کے محل روشن ہو گئے۔ (خصائص الکبریٰ جلد اول صفحہ94) جبکہ سیرت ابن ہشام میں یہ واقعہ یوں لکھا ہے کہ آپﷺ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ جب مجھے اس لڑکے کا حمل ہوا تو میں نے دیکھا کہ مجھ میں سے ایک نور نکلا جس کی روشنی سے سر زمین شام کی بصریٰ نامی بستی کے محل مجھ پر روشن ہو گئے۔(سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ167)
اس واقعہ کا ذکر ایک حدیث مبارکہ میں بھی آتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’میں اپنے باپ(حضرت ) ابراہیم ؑکی دعا ہوں (حضرت) عیسیٰ ابن مریم کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کا وہ رؤیا ہوں جو انہوں نے دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا۔ جس میں انہیں شام کے محلات نظر آئے اور انبیاء کی ماؤں کو اسی طرح دکھایا جاتا ہے۔(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 128)
نیز یہ بھی آتا ہے کہ حضرت آمنہ کو آپﷺ کی پیدائش سے قبل خواب میں کہا گیا کہ اس کا نام محمد رکھنا۔(نقوش رسول نمبر 11 صفحہ37)
مؤرخین نے کچھ اور واقعات بھی لکھے ہیں جیسا کہ آپﷺ کی ولادت کے زمانے میں آسمان پر غیر معمولی کثرت کے ساتھ ستارے ٹوٹتے نظر آتے تھے۔ اسی طرح ایک روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرتﷺ قدرتی طور پر مختون پیدا ہوئے۔(زرقانی جلد اول صفحہ 122)
ولادت با سعادت
آپﷺ کی ولادت با سعادت واقعہ اصحاب الفیل کے 25 روز بعد 12؍ربیع الاول مطابق 20؍اگست 570ء کو، یا ایک جدید اور غالباً صحیح تحقیق کی رو سے 9؍ربیع الاول مطابق 20؍اپریل 571ءبروز پیر بوقت صبح ہوئی۔(سیرت خاتم النبیین صفحہ93)
تب عرش معلیٰ سے وہ نور کا تخت اترا
اک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی
آپﷺ کی ولادت مکہ کے محلہ ’’سوق اللیل‘‘ میں ہوئی اور آپ کی دایہ کا نام ’’شفا‘‘ تھا جو مشہور صحابی رسول حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ کی والدہ تھیں۔ آپؐ کی پیدائش پر آپ کے دادا حضرت عبد المطلب کو خبر دی گئی جو کہ اس وقت خانہ کعبہ میں دعا کر رہے تھے۔ وہ آئے حضورﷺ کو گود میں اٹھایا اور خانہ کعبہ لے جا کر اللہ کا شکر ادا کیا اور اعلان کیا کہ عبد اللہ مرحوم کے بچے کا نام محمد رکھا گیا ہے۔ پھر واپس لے جا کر ماں کے سپرد کر دیا اور کہا کہ ’’اس کے باپ کی جگہ مجھے ہی سمجھو۔ لیکن اس کی پرورش تم ہی کرو، کوئی تکلیف ہو یا کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتاؤ۔ یہ نہ سمجھنا کہ اس کا باپ فوت ہو گیا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ216)
اب ہم جب تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ان تمام پیشگوئیوں کو پورا ہوتا ہواپاتے ہیں اور آپﷺ کی ذات کو ان تمام صفات کا حامل پاتے ہیں جن کا ذکر پہلوں نے کیا تھا۔ واقعاتی ترتیب کے لحاظ سے آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے پاکیزہ بچپن کا تذکرہ کرتے ہيں۔ سب سے پہلے تو آپﷺ کا رضاعی والدہ کے ساتھ سفر قابل ذکر ہے۔
رضاعت اور دائی حلیمہ
جس سال حضورﷺ کی پیدائش ہوئی اس سال دس عورتیں مکہ آئیں تا کہ مختلف گھرانوں کے بچوں کو ساتھ لے جائیں اور ان کی رضاعت کریں جس کے بدلے میں وہ معاوضہ لے سکیں۔ مگر ان میں سے کسی نے بھی اس یتیم بچے کو لینا قبول نہ کیا۔ دوسری طرف یہ حال تھا کہ ان دس عورتوں میں دائی حلیمہ سعدیہ بھی تھیں جو کہ ہوازن قبیلہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کے ساتھ مکہ اس امید سے آئی تھیں کہ شاید کسی امیر گھرانے کا بچہ مل جائے تو ان کی تنگی کے حالات بھی بدل جائیں۔ ان کی ذاتی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قحط سالی کی وجہ سے جانوروں کا دودھ بالکل خشک ہو چکا تھا۔ وہ خود ایک بھوری سبز مائل گدھی پر سوار تھیں جبکہ ان کے شوہر ایک بوڑھی اونٹنی پر سفر میں ساتھ تھے۔ وہ خود اس اونٹنی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس سے ایک قطرہ بھی دودھ نہ مل سکتا تھا۔ قحط سالی کی وجہ سے اپنا بچہ بھی پیٹ بھر کر دودھ نہ پی سکتا تھا جس کے رونے کے سبب ہم ساری رات نہ سو سکتے تھے۔ جبکہ گدھی کی یہ حالت تھی کہ وہ سفر سے تھک گئی اور قافلہ سے پیچھے رہ گئی۔
سارا دن جب کوئی امیر گھرانے کا بچہ نہ ملا تو خالی ہاتھ جانے کی بجائے انہوں نے اپنے شوہر کی اجازت سے حضرت محمدﷺ کو گود لے لیا۔ جب وہ آپ کو لے کر اپنے ٹھکانے پر پہنچے تو اس رات ان کی اونٹنی نے خوب دودھ دیا۔ اور دوسری طرف آپﷺ نے بھی اور آپ کے رضاعی بھائی نے بھی پیٹ بھر کر دودھ پیا جس سے اس رات وہ میاں بیوی بھی چین کی نیند سوئے۔ دوسرے دن صبح ہی ان کے شوہر نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ بچہ بہت برکت والا ہے کیونکہ یہ پہلی رات تھی جب ہم چین کی نیند سو پائے تھے۔
واپسی کا سفر
پھر تو انعامات کا لا متناہی سمندر تھا جو آپﷺ کی ذات کے ساتھ بی بی حلیمہ کے آنگن میں امڈ آیا تھا اور آنا بھی تھا کیونکہ رحمة للعالمین جس گھر میں اترا تھا تو رحمت کا حق دار بھی سب سے پہلے وہی گھرانا ہونا تھا۔ آپ نے واپسی کا سفر شروع کیا تو وہی گدھی جو لاغر تھی سب قافلہ والوں سے آگے تھی۔ اور باقی عورتیں بار بار کہتیں کہ آہستہ چلو ،کیا یہ وہی گدھی نہیں جس پر تم آئی تھی ؟ اور آپ جواب دیتیں کہ ہے تو وہی۔
جب بی بی حلیمہ آپ کو اپنے قبیلہ میں لے آئیں تو وہاں بھی یہ برکت سب کے سامنے عیاں تھی۔ لوگوں کے جانور خالی پیٹ واپس آتے اور آپ کے گھر کی بکریاں دودھ سے بھری ہوئی واپس آتیں، حتیٰ کے دیگر لوگ اپنے چرواہوں کو کہتے کہ وہاں چراؤ جہاں ان کی بکریاں چرتی ہیں۔
خصائص الکبریٰ میں اس موقع پر مختلف یہودیوں کے واقعات لکھے ہیں جنہوں نے آپﷺ کو بعض نشانیوں سے پہچانا اور بعض نے اس بات کا اظہار کیا کہ اب نبوت بنی اسرائیل سے ختم ہو گئی ہے۔
مکہ واپسی
جب آپ کی عمر دو سال ہوئی اور رضاعت کی مدت پوری ہوئی تو آپ کی دائیہ حلیمہ آپؐ کو واپس آپ کی والدہ کے پاس لے آئیں مگر مکہ کی آب و ہوا کی خرابی کے باعث انہوں نے دوبارہ آپﷺ کو انہی کے ساتھ واپس روانہ کر دیا۔
بکریوں کی حفاظت
آپﷺ بھی اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جاتے تھے۔اس دوران دو واقعات ہوئے۔ پہلا واقعہ تو یہ ہوا کہ ایک دفعہ وہاں ڈاکو آ گئے اور بکریاں لے جانی چاہیں۔ان کے خوف سے تمام بچے اپنے گھروں کو بھاگ گئے۔ مگر آنحضرتﷺ اپنی جگہ پر کھڑے رہے اور فرمایا کہ میں تمہیں بکریاں ہرگز لے جانے نہ دوں گا۔ تب ڈاکوؤں کے سردار نے آکر پوچھا کہ اے لڑکے تم کون ہو اور تمہارے باپ کا نام کیا ہے۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں محمد ہوں اور عبد المطلب کا بیٹا (شاید بچپن کی وجہ سے دادا کو ہی والد سمجھ کر نام بتایا)۔ وہ ڈاکو چونکہ قریش کو جانتے تھے اس لیے انہوں نے بکریاں چھوڑ دیں اور بےساختہ کہا کہ سردار قریش کے بیٹے کو ایسا ہی بہادر ہونا چاہیے۔(ولادت سے نبوت صفحہ18)
شقِ صدر
اسی دوران ایک اور واقعہ بھی رونما ہوا جس نے بی بی حلیمہ اور ان کے اہل میں خوف پیدا کر دیا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک دفعہ آپﷺ اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ مل کر کھیل رہے تھے اور کوئی بڑا آدمی پاس نہ تھا کہ اچانک دو سفید پوش آدمی نظر آئے اور انہوں نے آپﷺ کو پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور آپﷺ کا سینہ چاک کر دیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر آپ کا رضاعی بھائی عبد اللہ بن حارث بھاگا ہوا گیا اور اپنے ماں باپ کو اطلاع دی کہ میرے قریشی بھائی کو دو آدمیوں نے پکڑ لیا ہے اور اس کا سینہ چاک کر رہے ہیں۔ وہ دونوں یہ سنتے ہی بھاگے ہوئے آئے تو دیکھا کہ کوئی آدمی تو وہاں نہیں ہے، مگر آنحضرتﷺ ایک خوفزدہ حالت میں کھڑے ہیں اور چہرہ کا رنگ متغیر ہو رہا ہے۔ حلیمہ نے آگے بڑھ کر آپﷺ کو گلے سے لگا لیا اور پوچھا:بیٹا کیا بات ہوئی؟آنحضرتﷺ نے سارا ماجرا بتایا اور کہا کہ وہ کوئی چیز میرے سینہ میں تلاش کرتے تھے، جسے انہوں نے نکال کر پھینک دیا۔ پھر حلیمہ اور حارث آپ کو واپس اپنے خیمہ میں لے گئے۔ اور حارث نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ اس لڑکے کو کچھ ہو گیا ہے۔ پس مناسب ہے کہ اسے واپس اس کی والدہ کے سپرد کر دیں۔(سیرت خاتم النبیین صفحہ95)
اس موقع پر صحیح مسلم کی روایت ملتی ہے جس میں ہے کہ حضرت جبرئیلؑ آئے انہوں نے آپﷺ کو زمین پر لٹا کر آپ کا سینہ چاک کیا اور دل نکالا اور اس میں سے کوئی چیز باہر نکال کر پھینک دی اور ساتھ ہی کہا کہ یہ کمزوریوں کی آلائش تھی جو اب تم سے جدا کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد دل کو مصفیٰ پانی سے دھویا اور سینہ میں واپس رکھ کر جوڑ دیا۔ پس جب لوگ آئے تو فرشتہ تو غائب تھا اور آپﷺ خوفزدہ حالت میں کھڑے تھے۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول اللّٰہﷺ)
سفرِ یثرب اور والدہ کی وفات
جب حضرت حلیمہ آپؐ کو واپس مکہ چھوڑ گئیں تو آپ کی عمر چار برس تھی۔ اس کے بعد آپﷺ اپنی والدہ کے ساتھ اپنے ننھیال، یثرب میں آئے۔ ہجرت مدینہ کے وقت جب آپﷺ بنو عدی کے مکانوں کے پاس سے گزرے تو وہ مکان دکھایا جس میں وہ اپنی والدہ کے ساتھ ٹھہرے تھے۔(سیرت النبی از شبلی نعمانی صفحہ 175)اور وہ تالاب بھی دکھایا جس میں آپ نے تیرنا سیکھا تھا۔ آپﷺ کو وہ لڑکی بھی یاد تھی جو آپ کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔اس کا نام انیسہ تھا۔(طبقات ابن سعد جلد 1 صفحہ 76)اسی سفر میں ایک ماہ قیام کے بعد واپسی پر ابواء مقام پر آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور آپ کی لونڈی ام ایمن آپ کو واپس آپ کے دادا کے پاس چھوڑ گئیں۔
دادا حضرت عبد المطلب
والدہ کی وفات کے بعد آپؐ اپنے دادا کے زیرِکفالت رہے۔ وہ بھی آپ سے بے پناہ محبت کا سلوک رکھتے تھے۔ خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کندھے پر بٹھا لیتے۔ کعبہ کے سایہ میں قریش کے سرداروں کے لیے مسند بچھائی جاتی تھی۔ اس مسند پر آپﷺ اپنے دادا کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ اور اگر کوئی ان کو روکتا تو آپ کے دادا کہتے کہ اس کو کچھ نہ کہو اور اکثر کہتے :’’یہ میرا بیٹا ہونہار اور صاحبِ شان ہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیین جلد 1 صفحہ 127)
چچا حضرت ابو طالب
جب آپﷺ آٹھ برس کے ہوئے تو دادا کی وفات ہو گئی۔ انہوں نے اپنی وفات سے قبل آنحضرتﷺ کو ابوطالب کی کفالت میں دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابوطالب اور عبد اللہ آپس میں سگے بھائی (یعنی ایک ہی والدہ سے ) تھے۔چچا کے ساتھ زندگی کے مختلف واقعات ملتے ہیں۔ مختصراً ان سب کو دیکھتے ہیں۔
بارش کی دعا
آپؐ کے دادا کی وفات کے بعد مکہ میں شدید قحط پڑا۔ اور بارشوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو قریش نے حضرت ابو طالب کے پاس آ کر دعا کی درخواست کی ( شاید اس لیے کہ حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری ان کے پاس تھی )۔انہوں نے اپنے ننھےبھتیجے کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ خانہ کعبہ لے گئے اور کعبہ کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر کہا کہ بیٹا دعا کرو کہ بارش ہو جائے۔ آپﷺ نے چچا کی بات مانتے ہوئے دعا کی۔ اس دعا کے ساتھ ہی آسمان میں رحمت کے بادل چھا گئے اور بارش برسنے لگی۔(ولادت سے نبوت صفحہ28)
چچی کے ساتھ سلوک اور صبر و متانت
حضرت مصلح موعود ؓتفسیر کبیر میں فرماتے ہیں :’’تاریخوں میں لکھا ہے کہ آپؐ کے چچا کے گھر میں جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو آپؐ کبھی بڑھ کر مانگا نہیں کرتے تھے باقی بچے لڑ جھگڑ کر مانگتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف خاموش کھڑے رہتے اور جب آپؐ کی چچی آپؐ کو کچھ دیتی تو آپؐ لے لیتے۔ خود مانگ کر نہیں لیتے تھے۔… میری طبیعت تو یہ واقعہ پڑھ کر اس خیال سے بے تاب ہوجاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچپن کی عمر میں بوجہ اپنی ذہانت اور سمجھ کے( بعض بچے جو ذہین نہیں ہوتے وہ چچی اور ماں کا فرق کوئی زیادہ نہیں سمجھتے اوروہ اسی طرح چچی سے بھی لڑ جھگڑ کر چیزیں مانگ لیتے ہیں جس طرح ماں سے مانگی جاتی ہیں مگر یہ محبت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی عقل کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے ) یہ محسوس کرتے ہیں کہ میں اس گھر سے بطور حق کے کچھ نہیں مانگ سکتا۔ مجھ پر تو میرے چچا اور چچی کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے محبت اور پیا ر سے مجھے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ پس کبھی بھی اس واقعہ کو پڑھتے ہوئے میں بغیر اس کے کہ رقّت مجھ پر غلبہ نہ پالے آگے نہیں گزر سکتا۔ اور میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں کیا جذبات پیدا ہوتے ہوں گے۔بعض دفعہ آپؐ کے چچا بھی موجو دہوتے اور چچا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت تھی وہ ایسی تھی کہ باپ کی طرح ہی تھی۔اسی وجہ سے بعض دفعہ ابو طالب جب گھر میں آتے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام بچوں سے الگ ایک طرف کھڑے دیکھتے اور یہ بھی دیکھتے کہ باقی بچے شور کر رہے ہیں اور لڑ جھگڑ کر چیزیں لے رہے ہیں مثلاً مٹھائی تقسیم ہورہی ہے تو ایک کہتا ہے کہ میں مٹھائی کی ایک ڈلی نہیں دو ڈلیاں لوں گا۔دوسرا کہتا ہے۔ اماں مجھے تو تُو نے کچھ بھی نہیں دیا۔ اسی طرح ہر بچہ اپنا اپنا حق جتا کر چیز کا مطالبہ کر رہا ہے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونہ میں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں تو ابوطالب ان کو بازوسے پکڑ لیتے اورکہتے میرے بچے تو یہاں کیوں خاموش بیٹھا ہے پھر وہ آپ کولا کر اپنی بیوی کے پاس کھڑا کردیتے اور کہتے تو بھی اپنی چچی سے چمٹ جا اور اس سے مانگ۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ چمٹتے اور نہ کچھ مانگتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دراصل انہی جذبات کا نتیجہ تھی کہ آپؐ سمجھتے تھے،میرااس گھر پر کوئی حق نہیں۔ اور جو کچھ مجھے ملتا ہے بطور احسان ملتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ255)
سفر شام اور بحیرہ راہب
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سفرِشام کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :’’جب آپؐ کی عمر بارہ سال کی ہوئی تو ابو طالب کو ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام کا سفر پیش آگیا۔ چونکہ سفر لمبا اور کٹھن تھا اس لیے اُنہوں نے ارادہ کیا کہ آپؐ کو مکّہ ہی میں چھوڑ جائیں۔ مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابو طالب کی جدائی نہایت شاق تھی۔ چنانچہ روانگی کے وقت جوشِ محبت میں آپؐ ابو طالب سے لپٹ گئے اور رونے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر ابوطالب کا دل بھر آیا اور وُہ آپؐ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔شام کے جنوب میں بُصریٰ ایک مشہور مقام ہے، وہاں پہنچے تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہاں ایک عیسائی راہب رہتا تھا جس کا نام بحیرا تھا۔ جب قریش کا قافلہ اُس کی خانقاہ کے پاس پہنچا تو اس راہب نے دیکھا کہ تمام پتھر اور درخت وغیرہ یکلخت سجدہ میں گِر گئے۔ اُسے معلوم تھا کہ الٰہی نوشتوں کی رُو سے ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے اس لیے اُس نے اپنی فراست سے سمجھ لیا کہ اس قافلے میں وہی نبی موجود ہو گا۔ چنانچہ اُس نے اپنے قیافہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہچان لیا اور اس سے ابو طالب کو اطلاع دی اور ابو طالب کو نصیحت کی کہ آپؐ کو اہلِ کتاب کے شَر سے محفوظ رکھیں۔
علمِ روایت کی رُو سے اس واقعہ کی سند کمزور ہے لیکن اگر فی الحقیقت ایسا واقعہ گذرا ہو تو کچھ تعجب بھی نہیں۔ درختوں وغیرہ کا سجدہ کرنا راہب کا ایک کشفی نظارہ سمجھا جائے گا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقام کے لحاظ سے کوئی غیر معمولی بات نہیں۔‘‘(سیرت خاتم النبیین صفحہ100)
سیرت ابن ہشام میں اس واقعہ کو مزید تفصیلاً بیان کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ اس نے آپﷺ کی مہر نبوت دیکھی نیز آپﷺ سے لات و عزیٰ (بتوں ) کے بارہ میں پوچھا۔ وغیرہ وغیرہ الغرض اس نے نور فراست سے اور پیشگوئیوں کے علم کی بناپر آپﷺ کی ذات اقدس کو پہچانا اور آپ کے چچا کو شریر لوگوں کے شر سے آگاہ کیا۔
بکریاں چرانا
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں:’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب شام کے سفر سے واپس آئے تو بد ستور ابوطالب کے پاس ہی رہتے تھے مگر چونکہ عرب میں بچوں کو عموماً مویشی چرانے کے کام پر لگا دیتے تھے اس لئے اس زمانہ میں آپؐ نے بھی کبھی کبھی یہ کام کیا اور بکریاں چرائیں۔ زمانۂ نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ بکریاں چرانا بھی انبیاء کی سنت ہے۔ اور مَیں نے بھی بکریاں چرائی ہیں۔چنانچہ ایک موقع پر سفر میں آپؐ کے اصحاب جنگل میں پیلو جمع کر کے کھانے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔ کالے کالے پیلو تلاش کر کے کھاؤ۔ کیونکہ جب مَیں بکریاں چرایا کرتا تھا تو اس وقت کا میرا تجربہ ہے کہ کالے رنگ کے پیلو زیادہ عمدہ ہوتے ہیں۔‘‘(سیرت خاتم النبیین صفحہ103)
مجسم شرم و حیا
آپﷺ مجسم شرم و حیا تھے۔ نبوت کے بعد کے واقعات تو بکثرت احادیث مبارکہ میں ملتے ہیں، مگر ایک واقعہ قبل از نبوت کا بھی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میرے باپ حضرت عباسؓ نے بیان کیا کہ جب قریش نے کعبہ کی تعمیر نو شروع کی تو ہم پتھر ڈھو کر لاتے تھے۔ قریش نے دو دو آدمیوں کی ٹولیاں بنا دیں۔ عورتیں چونا اور مٹی لاتیں اور مرد پتھر لاتے تھے۔ میں اپنے بھتیجے ( حضرت محمدﷺ) کا ساتھی تھا۔ ہم لوگ اپنی اپنی ازاریں گلے میں باندھے ہوئے تھے اور ازاروں میں پتھر لاتے تھے۔ جب ہم لوگوں کے پاس آتے تو اپنی ازار باندھ لیتے۔ میں جا رہا تھا اور میرے آگے آگے محمد تھے۔ آپ یکا یک منہ کے بل گر پڑے۔ میں نے اپنا پتھر پھینک دیا اور جلدی سے آپ کو پاس پہنچا۔ آپ اس وقت آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کیا حال ہے۔آپﷺ نے اپنی ازار باندھی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔آپﷺ نے مجھے بھی برہنی حالت میں چلنے سے روکا۔‘‘( نقوش رسول نمبر 11 صفحہ75)
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ضمن میں فرماتے ہیں :’’ پھر آپ کی حیا ہے۔ وہ بھی آپؐ میں اس قدر تھی کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور آپؐ نے فرمایا کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ بچپن میں بھی آپؐ میں اتنی حیا تھی کہ ایک موقع پر آپؐ کا کپڑا اوپرہونے پر جب آپؐ کو ننگ کا احساس ہوا تو آپ کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ حالانکہ وہ کوئی ایسی بات نہیں تھی اور اس وقت آپؐ کی عمر بھی چھوٹی تھی لیکن آپؐ کی حیادار فطرت کو اتنا بھی گوارا نہیں ہوا۔ اور پھر جب آپؐ نے اپنے نمونے قائم کرنے تھے پھر تو اس حیا میں کوئی مقابلہ ہی نہیں کر سکتا۔چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پردہ دار کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ (بخاری- کتاب المناقب- باب صفۃ النبیﷺ)‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍فروری2005ء)
بدیوں سے خدائی حفاظت
اسی لڑکپن کے زمانےکا واقعہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک رات اپنے ساتھیوں سے کہا جو بکریاں چرانے میں شریک تھے کہ تم میری بکریوں کی دیکھ بھال کرو اور میں مکہ جا کر بوقتِ شب ان کی مجلس دیکھوں جس میں لوگ جمع ہوتے ہیں اور شعر و غزل کرتے ہیں۔ آپﷺ بھی بچپن کے شوق میں دیکھنے گئے مگر راستے میں ہی نیند غالب آ گئی اور سو گئے۔ اسی طرح ایک اور دفعہ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا اور اس رات بھی نیند کے غلبہ کے باعث آپ اس محفل سے دور رہے۔ پس یہ خداتعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اس نے آپ کی ذات کو ان سب برائیوں سے دور رکھا جو اس معاشرےکا حصہ تھیں۔ آپﷺ زمانۂ نبوت میں فرماتے تھے کہ میں نے ساری عمر میں صرف دو دفعہ اس قسم کی مجلس میں شرکت کا ارادہ کیا اور دونوں دفعہ ہی روک دیا گیا۔( تاریخ طبری)
پس یہ آنحضرتﷺ کی زندگی کے ابتدائی سالوں کے چند واقعات ہیں جس میں آپﷺ کی ذات کی عکاسی ہوتی ہے کہ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان تمام صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کے بارے میں تا قیامت کوئی بھی شخص سوال کر سکتا ہے۔
زہے خُلق کامل زہے حسن تام
عليك الصلوة عليك السلام
حضرت مسیح موعود ؑکے مبارک الفاظ کے ساتھ اس مضمون کو یوںاختتام پذیر کرتے ہیں :’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پر زور دریا سے کمالِ تام کا نمونہ علماً وعملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا… وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیّین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتدائِ دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونسؑ اور ایوبؑ اور مسیح بن مریم ؑ اور ملاکی ؑ اور یحییٰ ؑ اور زکریاؑ وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہہ اور خداتعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔ وَاٰخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ 308)
٭…٭…٭