حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کے لیے اپنی روحانی و اخلاقی حالتوں میں بہتری پیدا کرنے کی تلقین: خلاصہ خطبہ جمعہ حضورِ انور فرمودہ 14؍ اکتوبر 2022ء
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کے لیے اپنی روحانی و اخلاقی حالتوں میں بہتری پیدا کرنے کی تلقین
٭… اگر ہم نے حقِ بیعت ادا کرنا ہے،اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کےاحسانوں پر اس کا شکر گزار ہونا ہے تو ہمیں ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے
٭…آج کل دنیا کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ تباہی کے بہت ہی خوفناک بادل منڈلارہے ہیں اورجو تباہی ہوگی وہ دنیا کے خاتمے پر منتج ہوگی
٭…اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں
خلاصہ خطبہ جمعہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 14؍ اکتوبر 2022ء بمقام مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ، امریکہ
اميرالمومنين حضرت خليفۃ المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء کو مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ، امریکہ ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت بلال راجہ صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کاآپ پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے آپ کو اس ترقی یافتہ ملک میں آنے کی توفیق عطا فرمائی۔ پاکستان کے سخت ترین حالات کی وجہ سے ان ترقی یافتہ ملکوں نے بہت سے مظلوم پاکستانی احمدیوں کو یہاں رہنے کی اجازت دی، پس اس حوالے سے آپ کو ان حکومتوں کا بھی شکر گزارہونا چاہیے۔ سب سے بڑااحسان جو اللہ تعالیٰ نے ہم پرکیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ہمیں آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اس احسان پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے، اور حقیقی شکرگزاری یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کےحکموں پر چلیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کےلیے کوشاں رہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں حقیقی مسلمان بننےکےلیے حضرت مسیح موعودؑ کی طرف دیکھنا ہوگا، آپؑ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہوگا۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنے اوپر کامل یقین اور ایمان کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو شخص ایمان لاتاہے اسے اپنے ایمان سے یقین اور عرفان تک ترقی کرنی چاہیے نہ یہ کہ پھر وہ ظن میں گرفتار ہو۔ یاد رکھو ظن مفید نہیں ہوسکتا خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے یقیناً ظن ہرگز حق سے بےنیاز نہیں کرسکتا۔ فرمایا اب تم خود سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کرلوکہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود اور حکم اور عدل مانا ہے تو اس ماننےکے بعدمیرے کسی فیصلے یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کی فکر کرو۔ جس نے مجھے تسلیم کیا اور پھر بھی اعتراض رکھتا ہے تو وہ اور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر بھی اندھاہوا۔
حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ سے پیشتر آنحضرتﷺ نےآپؑ کے بعد خلافت کی خوش خبری دی تھی۔ خلافتِ احمدیہ حضرت مسیح موعودؑ کے طریق کو ہی جاری رکھنے والا نظام ہے۔ اپنے عہد میں ہر احمدی خلافتِ احمدیہ سے وابستگی اوراطاعت کاعہد کرتا ہے۔ اس لحاظ سے خلافت سے وابستگی کے عہد کو نبھانا ہر احمدی کا فرض ہے، ورنہ بیعت ادھوری ہے۔
قرآن کریم کو غور سے پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں کہ مَیں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کوجو میرے ساتھ تعلق رکھتےہیں نصیحت کرتاہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلے کو کشفِ حقائق کےلیے قائم کیا ہے۔ مَیں چاہتاہوں کہ عملی سچائی کے ذریعے اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیساکہ خدا نے مجھے اس کام کےلیے مامور کیا ہے۔ اس لیے قرآن کریم کو کثرت سے پڑھومگر نرا قصّہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر پڑھو۔
پس ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ اگر ہم ان ملکوں میں آکر اپنے اس مقصد کو بھول گئے اور دنیا کی مصروفیات میں غرق ہوگئے تو ہماری اولادیں اورنسلیں دین سے دُور ہوتی چلی جائیں گی۔ پس یہ بہت سوچنے کی باتیں ہیں۔
جو لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں وہ دنیا کی مخالفت سے تو بچ گئے ہیں لیکن اگر دین پر چلنے والے اور قرآن پر غور کرنے والے نہیں تو پھراللہ تعالیٰ کے فضلو ں کے وارث نہیں بن سکتے۔ اسی طرح جو نئے احمدی ہیں یا یہاں پرانے رہنے والے احمدی ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ صرف بیعت کرنے سے مقصد پورا نہیں ہوتا۔ مقصد تب ہی پورا ہوگا جب ہم خود کو اسلامی تعلیم کا حامل بنائیں گے اور وہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہم قرآن کریم کو پڑھیں اور اس پر عمل نہ کریں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمے کے قریب ترآپہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کےلیے پیدا کیا ہے۔ ہاں! پانی پینا ابھی باقی ہے، پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرےکیونکہ خداتعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمے سے پیے گا وہ ہلاک نہ ہوگاکیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے۔ اس چشمے سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے یہی کہ خدا تعالیٰ نے جودو حق تم پرقائم کیے ہیں ان کو بحال کرواورپورے طور پر ادا کرو۔ ان میں سے ایک خدا کا حق ہے اور دوسرا مخلوق کا۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ صرف بیعت کرنا کافی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ عمل چاہتا ہے۔ جو عمل کرے گا وہ کبھی ہلاک نہیں ہوگا اورہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرے گا۔ یہ عملی حالت اس وقت ہوگی جب لا الٰہ الا اللہ تمہارے ظاہر و باطن کی آواز بن جائےاورتمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ کسی چیز کی طلب نہ ہو،ا للہ تعالیٰ کے حکموں کی کامل اطاعت ہو۔ اب ہر ایک اس بات سے اپنے جائزے لے سکتا ہے کہ جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو کیا واقعی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہمارا مقصود ہے؟کیا ہم اُس کے حکموں کی اطاعت کررہے ہیں؟ اگر نمازوں کے وقت دنیاوی کام چھوڑ کر نماز پڑھنے کی طرف ہماری توجہ نہیں ہوتی تو ہم منہ سے تو کلمہ پڑھ رہے ہیں لیکن ایک وقتی شرک ہمارے دل میں ہے۔ ایک مومن تو اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ میرے کاروبار میں اور میرے کام میں برکت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پڑتی ہے تو پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میرے دنیاوی کام اللہ تعالیٰ کی آواز کے مقابل پر کھڑے ہوجائیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم نے کلمے کی رُوح کو سمجھا ہی نہیں، ہم منہ سے تو کلمے کا اقرار کررہے ہیں لیکن ہمارے عمل ہمارے اقرار کا ساتھ نہیں دے رہے۔اگر یہ صورتحال ہے تو پھر حقِ بیعت ادا نہیں ہورہا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جب یہ ادا ہوں گے تو پھر ایک حقیقی مومن بنتا ہے اور بیعت کا حق ادا کرتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر دنیاداروں کی طرح رہوگے تو کوئی فائدہ نہیں۔ میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تاکہ تم ایک اور نئی زندگی حاصل کرسکو۔ اگر تمہیں روحانی زندگی نہیں ملتی تو پھر ایسی بیعت کچھ فائدہ نہیں دے گی۔ میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے، جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا ہےاور اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو خدا اُسے بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہوجاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے۔ اگر ایک گاؤں میں ایک نیک آدمی ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کی خاطر اُس پورے گاؤں کو محفوظ کرلیتا ہے اور وہ اپنے بندوں کو کسی نہج سے بچا لیتا ہے کیونکہ سنت اللہ یہی ہےکہ اگر ایک بھی نیک ہو تو اُس کے لیے دوسرے بھی بچائے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے خالص بندوں کی دعاؤں کو سنتا اوراُن کے نیک عمل کو قبول کرتا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ ہماری عبادتیں خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہوں۔ ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔ آج کل دنیا کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ تباہی کے بہت ہی خوفناک بادل منڈلارہے ہیں اورجو تباہی ہوگی وہ دنیا کے خاتمے پر منتج ہوگی۔یہاں ہجرت کرکے آنے والے یہ خیال نہ کریں کہ وہ یہاں محفوظ ہیں۔ ان بڑی طاقتوں کےلیڈروں کے دماغ جب گھومتے ہیں تو یہ کچھ نہیں دیکھتے۔ پس اب احمدیوں کا کام ہے کہ دعاؤں سے کام لیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نیک لوگوں کی خاطر اللہ تعالیٰ دوسروں کو بھی بچا لیتا ہے۔ہم بہت خطرناک دور سےگزر رہے ہیں۔اگر ایسے حالات میں کوئی بچا سکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی اُس کے آگے جھکنے والا بنائیں تاکہ خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کرسکیں۔ اگر ہم لا الٰہ الا اللہ کلمے کا حق ادا کرنے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال سے دنیا کو بھی بچا لے گا۔ اس سے پہلے کہ دنیا کے حالات انتہا سے زیادہ بگڑ جائیں بہت دعائیں کریں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نیکی وہی ہے جو قبل از وقت کرے، اگر بعد میں کرے تو کچھ فائدہ نہیں۔کشتی ڈوبتی ہے تو سب روتے ہیں مگر رونا اور چلانا چونکہ تقاضا فطرت کا نتیجہ ہے اس لیے اُس وقت سُود مند نہیں ہوسکتا جب کشتی ڈوب رہی ہو۔ وہ صرف اُس وقت مفید ہے جب امن کی حالت ہو۔ خدا کو پانے کا یہی گُر ہے جب انسان قبل از وقت بیدار ہو ایسا گویا اُس پر بجلی گرنے والی ہے لیکن جو بجلی گو گرتے دیکھ کر چلّاتا ہے کہ اُس پر گِرے گی تو وہ بجلی سے ڈرتا ہے نہ کہ خدا سے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ آج احمدیوں کا ایمان اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور دعائیں ہی دنیا کو تباہی سے بچا سکتی ہیں۔دنیا والوں کی ہمدردی پیداکرکے دنیا کے لیے دعائیں کریں۔اگر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ نہیں دی تو یہ دنیا ویرانی میں بدل سکتی ہے۔ پس ہر احمدی اس سوچ کے ساتھ اپنے فرض ادا کرے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دیکھو تم لوگ کچھ محنت کرکے کھیت تیار کرتے ہو تو فائدے کی امید ہوتی ہے۔ اس طرح امن کے دن محنت کے لیے ہیں اب خدا کو یاد کرو گے تو فائدہ پاؤ گے۔ اب اگر دعائیں کرو گے تو وہ رحیم وکریم خدا فضل فرمائے گا۔ نمازوں میں، رکوع میں، سجدے میں دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو پھیر دے اور عذاب سے محفوظ کردے۔ جو دعا کرتا ہے وہ کبھی محروم نہیں رہتا۔ یہ ممکن نہیں کہ دعا کرنے والا مارا جائے۔ اگر ایسا ہوتو خدا کبھی پہچانا نہ جائے۔غرض ایسا ہی کرو کہ پورے طور پر تم میں سچا اخلاص پیدا ہوجائے۔گو کہ یہ باتیں آپؑ نے طاعون پھیلنے کے زمانے میں کی تھیں لیکن آج بھی ایسی ہی تباہی کے آثار نظر آرہے ہیں۔پس اس کے لیے ہم اللہ تعالیٰ کےحضور جھکیں کیونکہ یہی راستہ دنیا کو تباہی سے محفوظ رکھنے کا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اعلیٰ اخلاق دکھانا بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے۔جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے اصلاح نہیں ہوسکتی۔ یعنی جب تک اپنا جائزہ نہیں لوگے کہ دن بھر کیا کیا اس وقت تک اصلاح نہیں ہوسکتی۔فرمایا کہ زبان کی بد اخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں اس لیے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہیے۔ وہ شخص کیسا بیوقوف ہے جو اپنے نفس پر رحم نہیں کرتا، اپنے قویٰ سے عمدہ کام نہیں لیتا۔اپنی تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتا یعنی ذرا ذرا سی بات پر بد اخلاقی کا مظاہرہ کرو گے تو اپنی جان کو مشکل میں ڈالو گے۔اسلام جہاں اخلاقی دائرے میں رہنے کی تعلیم دیتا ہے وہاں قانونی حدود میں بھی رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ شخص جو اعلانیہ دین اسلام سے باہر ہوگیا ہے اور گالیاں نکالتا ہے تو اُس کامعاملہ اَور ہے لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کا ہو کہ وہ اپنے اعمال میں سست ہو تو وہ اس قابل ہے کہ در گزر کیا جائے اور اس کے تعلقات پر زَد نہ پڑے یعنی اگر کوئی مخالفت نہیں کرتا تو اس سے اچھے تعلقات رکھو لیکن جو کھل کر مخالفت کرتا ہے اور اسلام اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے تو پھر دینی غیرت دکھانی چاہیے۔ اسی طرح ہر احمدی کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے غیرت دکھانی چاہیے کہ جو شخص سمجھانے کے باوجود حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں دریدہ دہنی سے کام لیتا ہے تو پھر ایسے شخص سے دوستی نہیں کی جاسکتی اور کسی احمدی کی بھی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی اور نہ کرے گی۔
حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود السلام فرماتے ہیں کہ ایک اَور خوبی جو احمدیوں میں ہونی چاہیے کہ آپس میں محبت اور اخوت پیدا کرو۔ فرمایا کہ ہماری جماعت میں سرسبزی نہیں آئے گی جب تک وہ آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں۔ پوری طاقت سے کمزور سے محبت کرے۔ فرمایا کہ میں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو اُس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے یہ طریق درست نہیں۔ جماعت تب بنتی ہے جب ایک دوسرے کی پردہ پوشی کی جائے اور حقیقی بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے سلوک کرو۔ صحابہؓ نے بھی ایک دوسرے سے محبت اور اخوت کی اور ایک جماعت بن گئے۔پس آپؑ اپنی جماعت سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ صحابہؓ کی طرح آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور اخوت پیداکریں۔فرمایا کہ خدا پر مجھے بڑی امیدیں ہیں کہ وہ یہاں بھی اسی قسم کی محبت اور اخوت پیداکرے گا۔ پس یہ اعلیٰ اخلاق ہیں کہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھا جائے۔ جب یہ ہوگا تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امیدوں پر پورا اُتر سکتے ہیں اور تبھی ہم ان انعامات کے وارث بن سکتے ہیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اب تو اللہ تعالیٰ نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق دنیا کی مختلف قوموں، قبیلوں اور مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کو جماعت میں شامل کردیا ہے اور کررہا ہے۔پس یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے مکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور ایک قوم بنادیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی کہ تم آپس میں ایک بھائی کی طرح ہو گو باپ جدا جدا ہیں لیکن تم سب کا ایک روحانی باپ ہے اور تم سب ایک ہی درخت کی شاخیں ہو۔ پس قطع نظر اس کے ہم کس قوم کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جماعت احمدیہ میں شامل ہوکر ہم ایک روحانی باپ کی اولاد بن گئے ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے۔ پس کیا نمونہ صرف سطحی باتوں اور بغیر کسی گہرےعمل کے بن سکتاہے؟ اس کےلیے تو بڑا جہاد کرنا پڑتا ہے، بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور ہمیں بھی کرنی پڑے گی۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرتے ہوئے اور اپنی اخلاقی حالتوں کے معیار درست کرتے ہوئے بھی اور آپس میں محبت اور بھائی چارے کے معیار قائم کرتے ہوئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم وہ نمونے بن رہے ہیں یا نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو یاد کرکے سب ترساں رہو یعنی اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں پیدا کرو۔ یاد رکھو کہ سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔کسی پر ظلم نہ کرو۔کسی کو حقارت سے نہ دیکھو۔اگر ایک آدمی گندا ہوتا ہے تو وہ سب کو گندا کردیتا ہے۔اعلیٰ قدریں اور اعلیٰ اخلاق اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب تقویٰ کاا علیٰ معیار ہو۔ ہماری جماعت کے افراد ایسے بندے سے تعلق رکھتے ہیں جس کا وعدہ ماموریت کا ہے۔ہماری جماعت یہ غم دنیاوی کاموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقویٰ ہے کہ نہیں۔ پس اگر ہم نے حقِ بیعت ادا کرنا ہے،اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کےاحسانوں پر اس کا شکر گزار ہونا ہے تو ہمیں ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں۔ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت ہمارے اندر پیدا ہوجائےاور ہم حقیقت میں اشھدان لا الٰہ الَّا اللّٰہ کا حق ادا کرنے والے بنیں اور ہم آخرین کی اس جماعت میں شامل ہوجائیں جس کی خوشخبری اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی تھی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضورِانور نے آخر میں فرمایا کہ امیر صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ اٹھائیس سال قبل آج ہی کے دن اس مسجد کا افتتاح ہوا تھا یعنی اس مسجد کو آج اٹھائیس سال ہوگئے ہیں۔اس علاقے میں نئے پُرانے احمدی جائزہ لیں کہ ان اٹھائیس سالوں میں انہوں نے روحانیت میں کس قدر ترقی کی ہے؟کس حد تک اس مسجد کے حق کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے ؟ اصل حق اُس وقت ادا ہوگا جب ہم مسجد کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی بھی توفیق عطا فرمائے۔آمین