احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
سکاچ مشن کے وہ پادری جو اس زمانہ میں متعین تھے اورجنہیں یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا دیدار کرسکیں اوران کے مبارک ہونٹوں سے اسلام اوربانئ اسلام حضرت محمدﷺ کی صداقت کے لاجواب دلائل سن سکیں یہ پادری مسٹرجان ٹیلرایم اے Mr.John Taylor M.A. Rev ہی تھے
پادری بٹلریا ٹیلر
(گزشتہ سے پیوستہ)حضرت اقدس مسیح کے قیام سیالکوٹ کے زمانہ میں وہاں متعین اس سکاٹش پادری جس کانام بٹلریاٹیلرتھا۔ ریسرچ سیل کی ایک ٹیم نے اس پادری کے نام کی تعیین کے لیےمختلف آرا کاتجزیہ کرتے ہوئے نیزانٹرنیٹ اوراس کے علاوہ جہاں جہاں سے بھی اس بارے میں معلومات مل سکتی تھیں وہ جمع کیں۔ پاکستان میں موجودمختلف کرسچین اداروں اورلائبریریوں کاوزٹ کیا۔ سکاٹ لینڈمیں موجود سکاچ مشن کے ہیڈکوارٹرزاور لائبریری سے رابطے کیے گئے۔ اورتمام ریکارڈ کی روشنی میں جودلائل اورشواہدسامنے آئےان کانتیجہ یہی نکلتاتھاکہ سکاچ مشن کے وہ پادری جو اس زمانہ میں متعین تھے اورجنہیں یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا دیدار کرسکیں اوران کے مبارک ہونٹوں سے اسلام اوربانئ اسلام حضرت محمدﷺ کی صداقت کے لاجواب دلائل سن سکیں یہ پادری مسٹرجان ٹیلرایم اے Mr.John Taylor M.A. Rev ہی تھے۔ذیل میں اس تحقیق کی تفصیلات ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں۔
جیساکہ بیان ہوچکاہےکہ ہرممکنہ ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔اس ضمن میں پاکستان میں موجودایسے ذرائع میں سے لاہور،گوجرانوالہ سیالکوٹ،راولپنڈی اوراسلام آبادسے معلومات اکٹھی کی گئیں۔ عام لائبریریوں اوریہاں کے چرچزکی لائبریریوں سے پرانا ریکارڈ دیکھا گیااور عیسائیت اورمشنری سرگرمیوں کی رپورٹس اور ان پرلکھی جانے والی کتب اوررسائل کا مطالعہ کیاگیااورانٹرنیٹ سے متعلقہ کتب اورریکارڈاوراخبارات ورسائل کوتلاش کیاگیا۔اور سکاٹ لینڈ میں موجودسکاچ مشن کی لائبریری سے بھی رابطہ ای میلز اورلندن میں موجودبعض احباب کے ذریعہ معلومات بھی حاصل کی گئیں۔ ان تمام معلومات کوحاصل کرتے ہوئے خاص طورپران امورکومدنظررکھاگیاکہ
1۔پادری بٹلریاٹیلر کاسب سے پہلی مرتبہ جماعتی لٹریچرمیں کب ذکرہوااورمضمون نگارکاماخذکیاتھا؟
2۔ دیگرکتب سلسلہ میں اس پادری بٹلر/ٹیلرکاذکر
3۔بٹلرنام کاپادری نہ سہی کوئی اورعہدیداراس معین عرصہ (1860ء تا1867ء ) کامذکورہو؟
4۔سکاچ مشن کے ریکارڈکے مطابق کوئی بٹلریاٹیلر نام کامشنری ہندوستان میں آیاہو؟
5۔-70ء1860ءکے عرصہ میں سیالکوٹ کے مقامی اخبارات ورسائل کاجائزہ؟
7۔ٹیلریابٹلرکے بارے میں آمدورفت کااصل ماخذسے مطالعہ؟
8۔سیالکوٹ کے گرجاگھروں اورپرانی یادگاروں کاخودمعائنہ ومشاہدہ کہ شایدکہیں کسی کاذکرہو؟
’’ٹیلر/بٹلر‘‘ کاذکرسلسلہ کے ابتدائی لٹریچرمیں
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پادری بٹلرکاسب سے پہلی مرتبہ جماعتی لٹریچرمیں کب ذکر ہوااورمضمون نگارکاماخذکیاتھا؟
I۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑکے ایک صحابی حضرت معراج الدین عمرصاحب ؓنے حضرت مسیح موعودؑکی زندگی میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے 1906ء میں براہین احمدیہ کاایک ایڈیشن شائع کیا۔ براہین احمدیہ حصہ اول جوکہ جلی حروف پرمشتمل ہے وہ 52صفحات پرمشتمل ہے۔اس کے بعد’’حضرت مسیح موعود مرزاغلام احمد قادیانیؑ مؤلف براہین احمدیہ کے مختصر حالات‘‘کے عنوان سےایک قدرے تفصیلی مضمون شامل کیاگیاہے۔یہ کتاب کے صفحہ 53سے شروع ہوکر82تک ہے اور 21صفحات مزیدالف،ب،ج نمبرشمارکے ساتھ ہیں یوں 52 صفحات پرمشتمل یہ سوانح اورسیرت پرمشتمل باب ہے۔ جوحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃو السلام کی سوانح اورسیرت پرشائع ہونے والی اوّلین کتاب کہی جاسکتی ہے۔گوکہ سیرت حضرت اقدس مسیح کی اوّلین کتاب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ کی ہے جو قریباً 1900ء میں شائع ہوئی تھی۔البتہ جوباقاعدہ سوانح اورابتدائی حالات اورسیرت کے واقعات پر مشتمل ہے اس پہلوسے یہ پہلی کتاب ہوگی۔بہرحال اس کے صفحہ66پرحضرت معراج الدین عمرصاحب ؓلکھتے ہیں: ’’سیالکوٹ کی زندگی میں بھی آپ گوشہ پسندہی رہے تھے۔جب سرکاری کام سے فرصت پاتے سیدھے اپنے مکان پرآکرتنہامطالعہ میں مصروف ہوجاتے تھے۔آپ ایک مختصرسے مکان میں رہتے تھے جوسیالکوٹ کے ایک محلہ میں واقعہ ہے اورجسے راقم نے بھی 1904ء میں جاکردیکھاتھا۔ان دنوں سیالکوٹ سکاچ مشن کے ایک پادری صاحب تھے جوبڑے جہاندیدہ اورفاضل تھے اوراپنے لوگوں میں بڑے معززوممتازشمارہوتے تھے۔ایک دفعہ اتفاق سے کہیں ان کی آپ سے ملاقات ہوگئی۔اثنائے ملاقات میں بہت کچھ مذہبی گفتگوہوتی رہی۔آپ کی تقریراوردلائل نے پادری صاحب کے دل میں ایساگھرکرلیاکہ ان کے دل میں آپ کی باتیں سننے کابہت شوق جم گیا۔اسی شوق میں اکثرہوتاکہ دفترسے رخصت کے وقت پادری صاحب آپ کے دفترمیں جاتے اورپھرآپ سے باتیں کرتے کرتے آپ کے فرودگاہ تک پہنچ جاتے اوربڑی خوشی کے ساتھ اسی چھوٹے سے مکان میں جوعیسائیوں کے خوش منظراورپرتکلف مساکن کے مقابلہ میں ایک جھونپڑاتھابیٹھے رہتے اوربڑی توجہ اورمحویت اورایک قسم کی عقیدت سے باتیں سناکرتے۔اوراپنی طرزمعاشرت کے تکلفات کوبھی اس جگہ بھول جاتے۔بعض تنگ ظرف عیسائیوں نے پادری صاحب کواس سے روکااورکہاکہ اس میں آپ کی اورمشن کی خفت ہے آپ وہاں نہ جایاکریں۔لیکن پادری صاحب نے بڑے حلم اورلطف سے جواب دیاکہ یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے کہ اپنی نظیرنہیں رکھتا۔تم اس کونہیں سمجھتے اورمیں خوب سمجھتاہوں۔(حضرت مسیح موعودمرزاغلام احمدقادیانیؑ مؤلف براہین کے مختصرحالات شائع کردہ معراج الدین عمرصاحبؓ : صفحہ66)
سلسلہ احمدیہ کے لٹریچرمیں ہمیں ملنے والی ابھی تک یہ پہلی تحریرہے جس میں سیالکوٹ کے ایک ایسے پادری کاذکرہے جوسکاچ مشن سے تعلق رکھتاتھا اورجس کی حضورؑسے اس زمانہ میں گفتگوہوتی تھی جب حضرت اقدسؑ کاقیام سیالکوٹ میں تھا۔اور یہ اوّلین تذکرہ ہے جوحضورؑ کی زندگی میں شائع ہوا۔ البتہ مضمون نگار نے نہ تواس کی مزیدتفصیلات لکھی ہیں اورنہ ہی ان تفصیلات کاکوئی ماخذدیاہے۔اورنہ ہی سکاچ مشن کے اس پادری کانام کہیں مذکورہوا۔
II۔ اس کے بعد ہمیں جس کتاب میں یہ ذکرملتاہے وہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓکی کتاب ہے۔’’حیات النبی۔یعنی سیرت حضرت مسیح موعودؑ‘‘ جوکہ بعدمیں ’’حیات احمد‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔اس کی پہلی جلد7؍اکتوبر1915ء میں شائع ہوئی۔(مصنف نے اس کے ٹائٹل پیج پریہ بھی لکھاہے کہ اس کتاب کو ستمبر1915ء میں مرتب کرناشروع کیاتھا)یہ کتاب یعنی جلداوّل(ایڈیشن اوّل) کل 96 صفحات پرمشتمل ہے۔ حضرت عرفانی صاحب ؓکی اس کتاب میں پہلی بارحضرت اقدس کے سیالکوٹ کے قیام کے سلسلہ میں ایک تفصیلی روایت درج کی گئی ہے۔ اوراس روایت میں سکاچ مشن کے اس پادری کاذکربھی کیاگیاہے اور اس کانام بھی لکھاہواہے۔
جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ یہ اوّلین روایت ہے جو تفصیل کے ساتھ سلسلہ کی کسی کتاب میں شائع ہوئی ہے۔ لیکن قابل غورامریہ ہے کہ یہ روایت حضرت عرفانی صاحبؓ کی اپنی نہیں ہے اورنہ ہی کسی اور صحابیؓ کی ہے اورنہ ہی کسی راوی کی ابھی تک کوئی روایت ہمیں مل سکی جس میں کسی نے یہ کہاہوکہ اس نے خودحضرتؑ سے سکاچ مشن کے اس پادری کایہ نام سناہے یا حضورؑ نے یہ نام بتایاتھا۔اس کتاب میں درج یہ ساری تفصیلی روایت علامہ اقبال کے استادسیدمیرحسن کی تحریرپر مبنی ہے۔جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑکوسیالکوٹ کے زمانہ میں اچھی طرح دیکھا۔ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اوراس زمانے کے بہت سارے واقعات کے یہ چشم دیدراوی تھے بلکہ ایک بیان کے مطابق تو حضرت مسیح موعودؑ کے اس زمانہ میں جو سیالکوٹ میں مباحثے ہواکرتے تھے تویہی علامہ میرحسن ہی اس کے صدرمجلس مقررہواکرتے تھے۔چنانچہ لکھاہے:’’(حضرت)مرزاغلام احمد(صاحب) جب ہندوؤں اورعیسائیوں سے سیالکوٹ میں مناظرےکرتے تھےتو میرصاحب کومنصف مقررکیاجاتاتھا۔‘‘( علامہ اقبال ؒ کے استاد شمس العلماء مولوی سیدمیرحسن۔حیات وافکار،مصنفہ ڈاکٹرسیدسلطان محمودحسین صفحہ 73) بہرحال علامہ میرحسن صاحب کی یہ روایت حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓنے اپنی تصنیف ’’حیات النبی جلداوّل‘‘صفحات 59-62میں درج فرمائی ہے۔اوراس روایت کودرج کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’سیالکوٹ کے مفصل حالات میرے ایک معزز مخدوم سید میر حسن صاحب قبلہ نے لکھے ہیں۔ جن کی علمی قابلیت اور فیض نے بہت لوگوں کو نفع پہنچایا ہے۔سید صاحب نے میری درخواست پر مختصر اً جو کچھ لکھا ہے۔اس میں بہت کچھ بیان کر دیا ہے…اورحضرت سید میر حسن صاحب کی اس مہربانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں کے الفاظ میں لکھ دینا چاہتا ہوں …حضرت مرزا صاحب1864ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول اور لغو سے مجتنب اور محترز تھے۔اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے۔آپ پسند نہیں فرماتے تھے…مرزا صاحب کو اس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا۔چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا۔ایک دفعہ پادری الایشہ صاحب جو دیسی عیسائی پادری تھے۔اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے۔مباحثہ ہوا۔پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی۔مرزا صاحب نے فرمایا۔نجات کی تعریف کیا ہے؟اور نجات سےآپ کیا مراد رکھتے ہیں ؟ مفصل بیان کیجئے۔پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے اور کہا میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا…
پادری بٹلر صاحب ایم اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے۔ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سرّ تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے۔اور آدم کی شرکت سے جو گناہگار تھا بری رہے۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے۔ پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے۔اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی۔جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا۔پس چاہیئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے۔اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے۔…راقم میر حسن۔‘‘ یہ ہے وہ روایت جس میں پہلی باراس سکاچ پادری کانام بھی مذکورہے اوروہ اس جگہ بٹلرلکھاہواہے۔واضح رہے کہ عرفانی صاحب ؓکی یہ تصنیف اکتوبر1915ء کی ہے۔اورسلسلہ کے لٹریچرمیں یہ اوّلین کتاب ہے جس میں اتنی تفصیل سے پادری بٹلرکاذکرآتاہے۔اس کےبعدجماعتی لٹریچرمیں جہاں جہاں بھی بٹلرکاذکرموجودہے اس کے بارے میں قیاس کیاجاسکتاہے کہ اس کااوّلین ماخذیہی روایت ہوگی۔
٭…٭…٭