متفرق مضامین

’’در سنہ غاشی ہجری دو قَران خواہد بود‘‘

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

حدیث میں بیان شدہ پیشگوئی کسوف و خسوف کے متعلق علامہ عبدالعزیز پرہارویؒ کی حیرت انگیزخبر

ایک بزرگ نے مدّت دراز سے ایک شعر اپنے کشف کے متعلق شائع کیا ہوا ہے جس کو لاکھوں انسان جانتے ہیں

بستی پرہاراں ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہےجو کوٹ ادو شہر سے 10 کلو میٹر کے فاصلہ پر دریائے سندھ کے قریب آباد ہے، اس کا موجودہ نام پرہار غربی ہے۔ اس گاؤںمیں علامہ محمد عبدالعزیز پرہارویؒ (عربی میں الفرھاری) ایک عالم اور خاندان چشتیہ کے ایک نامور بزرگ گزرے ہیں جو 1792ء میں پیدا ہوئے اور 1824ء میں محض 32 سال کی عمر میں وفات پاگئے، ان کی قبر آج بھی پرہار غربی میں معروف ہے۔ علامہ پرہاروی صاحب نے اتنی سی عمر میں بھی ’’النبراس شرح العقائد‘‘سمیت متعدد کتب تصنیف کیں۔آپ کی ایک کتاب ’’سرّ مکتوم ما اخفاہ المتقدمون‘‘(اس کا اردو ترجمہ ’’روحانی خزانہ‘‘کے نام سے اجمیری کتب خانہ پیر پٹھان روڈ ملتان نے شائع کیا ہے) بھی ہے جس میں حروف ابجد کے اعداد کے حساب سے اذکار و وظائف کا بیان ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حروف ابجد کے اعداد کے علم کے بھی ماہر تھے۔

علامہ پرہاروی کے متعلق متین کاشمیری صاحب نے ایک کتاب ’’احوال و آثار علامہ عبدالعزیز پرہارویؒ‘‘مرتب کی ہے جس کی دوسری اشاعت نومبر 2013ء میں بہار اسلامی پبلی کیشنز گجر پورہ سکیم لاہور نے کی۔ اس کتاب کے صفحہ 133 پر علامہ پرہاروی کی پیش گوئیوں کے ضمن میں ان کا ایک فارسی شعر درج کیا ہے

در سنہ غاشی ہجری دو قران خواہد بود

از پئے مہدی و دجال نشاں خواہد بود

جس کا اردو ترجمہ نیچے یوں درج کیا ہے: دو صدیوں کے درمیان سورج و چاند گرہن ہوگا جو مہدی و دجال کے ظہور کی علامت ہوگا۔اس ترجمے میں’’در سنہ غاشی ہجری‘‘کاترجمہ نہیں کیا گیا۔ باقی حصہ ’’دو قران خواہد بود‘‘کا ترجمہ ’’دو صدیوں کے درمیان سورج و چاند گرہن ہوگا ‘‘بھی درست نہیں کیونکہ قرن کا لفظ صدی کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور گرہن کے لیے بھی لیکن یہاں صرف دو قران کہا گیا ہے جس سے مراد یا دو صدیاں ہوسکتی ہیں یا دو گرہن۔ دونوں ترجمے اس صورت میں درست ہوتے اگر’’دو قران‘‘کا لفظ بھی دو مرتبہ بیان ہوتا۔ ویسے بھی ’’دو صدیوں کا درمیان‘‘کوئی معقولیت نہیں رکھتا کیونکہ نہیں معلوم کہ دو صدیوں کا درمیان کیاہے! وہ کون سا عرصہ ہے جسے دو صدیوں کا درمیان کہا جاسکتاہے؟

پس ایک زبردست پیشگوئی پر مبنی علامہ پرہاروی کے اس شعر کے ترجمے میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا اور ترجمہ میں یہ ناانصافی اور غیر معقولیت اس لیے روا رکھی گئی ہے کیونکہ اس شعر کا درست ترجمہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے امام مہدی ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ علامہ پرہاروی حروف ابجد کے اعداد کے حساب کو بھی غیر معمولی طور پر استعمال کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے کئی وظائف اور اسماء الٰہیہ کے اذکار بھی صرف حروف ابجد کے اعداد پر ہی مبنی ہیں۔ پس یہاں اس شعر میں بھی علامہ صاحب نے لفظ ’’غاشی‘‘میں اپنے اسی انداز بیان کو اپنایا ہےاور سن کی طرف اشارہ کیا ہے اور آگے ہجری کہہ کر بتا دیا کہ یہ سال ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے ہوگا۔ چنانچہ حروف ابجد کے اعداد کے حساب سے لفظ غاشی کا عدد (غ کے 1000، الف کا 1، ش کے 300 اور ی کے 10) کل 1311 بنتا ہے۔ اردو لغت میں لفظ قرن کا ایک مطلب یہ بھی لکھا ہے ’’وہ روشن حلقہ جو سورج کے پورے گرہن کے وقت سورج کے گرد محیط ہوتا ہے۔‘‘(http://www.udb.gov.pk/) اس وضاحت کے بعد حضرت علامہ صاحب کے شعر کا درست ترجمہ یوں بنتا ہے: سن غاشی ہجری یعنی 1311ھ میں دو گرہن ظاہر ہوں گے جو مہدی و دجّال کے ظہور کی علامت ہوں گے۔

امام مہدی کے ظہور کی یہ علامت دراصل حدیث کی کتاب سنن دار قطنی میں روایت ہوئی ہے:

’’اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا اٰیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ۔‘‘(دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الصلوٰۃ الخسوف)ترجمہ: ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں۔ اور جب سے دنیا بنی ہے، یہ صداقت کے دونوں نشان کبھی کسی کے لیے ظاہر نہیں ہوئے۔ رمضان میں چاند کو (چاند گرہن کی راتوں میں سے) پہلی رات کو اور (سورج گرہن کے دنوں میں سے) درمیانے دن کو سورج کو گرہن لگے گا۔جیسےجیسے نبی اکرمﷺ کی بیان فرمودہ اس عظیم الشان پیشگوئی کے ظہور کا وقت قریب آ رہا تھا اللہ تعالیٰ نے علامہ پرہارویؒ کو بھی اس نشان کے وقوع پذیر ہونے کے متعلق الہام کیا جسے آپ نے اپنے مندرجہ بالا فارسی شعر میں بیان کیا چنانچہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا ظہور رمضان المبارک 1311ھ (1894ء) میں ہوا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے علامہ صاحب کی اس پیشگوئی کا ذکر اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں یوں فرمایا ہے:’’….. ایک بزرگ نے مدّت دراز سے ایک شعر اپنے کشف کے متعلق شائع کیا ہوا ہے جس کو لاکھوں انسان جانتے ہیں۔ اس کشف میں بھی یہی لکھا ہے کہ مہدیٔ معہود یعنی مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا اور وہ شعر یہ ہے

در سن غاشی ہجری دو قراں خواہد بود

از پئے مہدی و دجّال نشاں خواہد بود

اِس شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ جب چودھویں صدی میں سے گیارہ برس گذریں گے تو آسمان پر خسوف کسوف چاند اور سورج کا ہوگا اور وہ مہدی اور دجّال کے ظاہر ہوجانے کا نشان ہوگا۔ اس شعر میں مؤلف نے دجال کے مقابل پر مسیح نہیں لکھا بلکہ مہدی لکھا، اس میں یہ اشارہ ہے کہ مہدی اور مسیح دونوں ایک ہی ہیں۔ اب دیکھو کہ یہ پیشگوئی کیسی صفائی سے پوری ہوگئی اور میرے دعویٰ کے وقت رمضان کے مہینہ میں اسی صدی میں یعنی چودھویں صدی 1311ھ میں خسوف کسوف ہوگیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 132)

علامہ پرہاروی صاحبؒ کی اس پیش گوئی کی شہادت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ملتان کے رہنے والے ایک غیر احمدی دوست نے بھی تحریرًا دی تھی جو اخبار بدر میں شائع ہوئی، وہ لکھتے ہیں:

’’میں ملتان کا رہنے والا احمد خان نام افغان خاکوانی پسر عبدالخالق افغان مرحوم حلفًا خداوند کریم کی قسم کر کے یہ شہادت دیتا ہوں کہ میں 1290ھ سے بھی پہلے شیعہ صاحبان ساکنان ملتان سے سنا کرتا تھا جس کو شیعہ صاحبان بڑے شدّ ومدّ سے اپنے امام علیہ السلام مہدی موعود کے ظاہر ہونے کی تصدیق میں پڑھا کرتے تھے اور اس سے یہ مطلب نکالتے تھے کہ 1311ھ میں حضور علیہ السلام ظاہر ہوکر تمام ملک پر شیعہ مذہب کی تائید فرماویں گے۔ وہ بیت یہ ہے

در سن غاشی ہجری دو قران خواہد بود

از پئے مہدی و دجّال نشان خواہد بود

اور نیز کہتے تھے کہ یہ بیت پچاس ساٹھ برس سے حضرت شیخ محمد عبدالعزیز پڑھاروی ملتانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو ولی کامل گذرے ہیں ازروئے الہام ربّانی فرمایا تھا، مشہور چلا آتا ہے۔ جوں جوں 1311ھ قریب آتا گیا، شیعہ صاحبان کا انتظار بڑھتا گیا۔ 1311ھ میں معلوم ہوا کہ قادیان ضلع گورداسپور میں میرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان نے مہدویت کا دعویٰ کیا ہوا ہے اور اس بیت کے مصداق وہ ثابت ہوئے ہیں کیونکہ اسی 1311ھ میں ایک حدیث شریف کی رو سے ماہ رمضان میں کسوف خسوف کا ہونا مراد تھا جو واقع ہوگیا اور اس بیت کا مطلب اب کھل گیا کہ دو قِران کے لفظ سے کسوف خسوف مراد تھا جو حاضر الوقت مدعی پر پورا صادق آتا ہے ….. میں پوچھتا ہوں کہ 1311ھ میں کون مہدی ظاہر ہوا؟ کس نے دعویٰ کیا ہوا تھا؟ کس کے حق میں یہ دو آسمانی نشان ظاہر ہوئے؟ حدیث میں تو کوئی سنہ بتایا ہوا نہ تھا اِس بیت الہام ربانی کی تصدیق لفظ بہ لفظ صادق نکلی اب کوئی شخص صحیح العقل انکار کر سکتا ہے کہ جو بیت ساٹھ ستر برس سے پہلے کا مشہور چلا آتا تھا وہ حاضر الوقت مدعی کے حق میں صادق نہیں آیا۔ میں مرزا صاحب قادیانی کا مرید نہیں اور نہ اب تک بیعت کی ہے … مگر سچ کی حمایت کرنا ہر ایک منصف کا کام ہے … یہ شہادت امام الزمان مہدی دوران کے حق میں لا ثانی اور بے نظیر شہادت ہے اس کو ایک دفعہ پھر بھی زور شور سے مشتہر کرنا ضروری ہے تاکہ قیامت کو وبال گردن پر نہ رہے۔ ولا تکتموا الشھادۃ۔ وما علینا الّا البلاغ۔ (اخبار بدر 14؍مارچ 1907ء صفحہ 8 )

اللہ تعالیٰ نےحضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے امام مہدی و مسیح موعود ہونے کے متعلق جہاں اور شہادات دیں وہاں حدیث نبویؐ میں بیان شدہ رمضان المبارک میں کسوف و خسوف کا ہونا بھی پورا کر دکھایا اور علامہ پرہارویؒ کی 1311ھ میں کسوف و خسوف والی پیشگوئی بھی سچی ثابت کر کے دکھائی۔ اُس زمانے میں جبکہ ماہ رمضان میں (حدیث مبارکہ میں مذکور تاریخوں کے مطابق) چاند گرہن اور سورج گرہن لگنے کا اعلان ہوا تو مسلمانوں میں ایک عجیب جوش و خروش پیدا ہوا چنانچہ مکۃ المکرمہ میں مقیم ایک صاحب نے ایڈیٹر پیسہ اخبار کے نام خط لکھ کر بتایا:’’مکرمی ایڈیٹر پیسہ اخبار زادہ عنایتہٗ

السلام علیکم آج کل مکہ معظّمہ میں ایک عجیب ہل چل مچی ہوئی ہے جو لوگ امام مہدی علیہ السلام کے منتظر ہیں اُن کے لیے عجیب دلچسپی کا موقع ہاتھ آیا ہے، کوئی جلسہ، کوئی محفل، کوئی گھر اس تذکرہ سے خالی نہیں جہاں امام مہدی کے ظہور کا اس رمضان میں ذکر نہ ہو۔ جب سے یہ بات محقق ہوگئی ہے کہ اسی سال رمضان میں کسوف و خسوف دونوں ایک ہی مہینے میں ہیں اُس وقت سے اُن کے خیال کو اور بھی زیادہ ترقی ہے اور ہر کس وناکس کی طبیعت میں ایک نیا جوش اور ولولہ ہے۔ بعض منچلوں نے تو اپنے ہتھیار جو برسوں سے پڑے پڑے بیکار اور زنگ آلود ہوگئے تھے، کار آمد کر لیے۔ میں نہایت حیرت کے ساتھ حالات دیکھ رہا ہوں….‘‘(ہفتہ وار ’’پیسہ اخبار‘‘لاہور 6؍اپریل 1894ء صفحہ 8)

لیکن افسوس کہ ان پیشگوئیوں کا علم رکھنے والوں نے جب یہ نشان آپؑ کے حق میں پورا ہوتے دیکھا تو مختلف بہانوں سے اس کو ماننے سے انکار کر دیا جس کی ایک جھلک پیسہ اخبار میں ماہ رمضان المبارک 1311 ہجری کے خسوف و کسوف عنوان کے تحت چھپنے والے اس خط میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے:

’’منجملہ علامات قیامت کے ایک علامت ظہور مہدی علیہ السلام کے لیے ماہ مبارک رمضان شریف میں چاند گرہن اور سورج گرہن دونوں واقع ہونا روایت کیا گیا ہے۔ یقینًا ابھی تک ایسا واقع ہونا کہیں سے ثابت نہیں ہوتا مگر امسال کے ماہ رمضان میں ہونے والا ہے۔ جن لوگوں نے آثار محشر وغیرہ کو کتب معتبر میں دیکھا ہے اُن کے ذہن میں یہ وہی دونوں گرہن علامت ظہور مہدی علیہ السلام کے ہیں کیونکہ اکثر ظہور علامات صغریٰ سے اُس وقت کو قریب گمان کرتے ہیں لیکن علماء کے مختلف اقوال سے جو اِس بارےمیں وارد ہیں بے خبری رکھتے ہیں جو ذیل میں درج ہوتے ہیں: (1) تمام روئے زمین پر نظر آنا۔ امسال قاعدہ کی رو سے یہ دونوں گرہن صرف آسٹریلیا اور چین و ہندوستان میں نظر آویں گے۔ عرب، روم، شام، افریقہ، امریکا، یورپ، ایران، افغانستان وغیرہ میں کہیں نہ ہوں گے، لہذا وہ نہیں ہیں۔ (2) غیر معمولی تاریخوں میں واقع ہونا (مثل 10 محرم سنہ ہجری کے) اور سورج گرہن چاند گرہن سے پہلے ہونا اور یہ معمولی ہوں گے۔ (3) کل علامات صغریٰ کا کامل طور پر ظاہر ہونا جن میں سے اکثر ظاہر ہیں مگر بعض آثار عظیمہ باقی ہیں …. اگرچہ اِن سب کی ابتدا ہے مگر ان توجیہوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی وہ زمانہ نہیں آیا ….‘‘(پیسہ اخبار لاہور 23؍مارچ 1894ء صفحہ 9)

اس بیان سے ظاہر ہے کہ یہ رویّہ دیدہ دانستہ فرمان رسول اکرمﷺ سے اعراض ہے اور حدیث نبویؐ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ، وَيَثْبُتَ الْجَھْلُ، یعنی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ علم اُٹھ جائے گا اور جہالت ٹھہر جائے گی۔ (صحيح البخاري كتاب العلم (21)باب رَفْعِ الْعِلْمِ وَظُھُوْرِ الْجَھْلِ) کا اِتمام ہے جس کو تھوڑی سی عقل رکھنے والا انسان بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے ذرا غور کریں رسول اکرمﷺ واضح طور پر رمضان کے مہینے میں گرہن لگنے کی پیشگوئی فرما رہے ہیں اور یہ صاحب لکھتے ہیں کہ 10؍محرم جیسی غیر معمولی تاریخوں میں گرہن لگے گا۔ جو باتیں لکھی ہیں پیشگوئی میں کہیں بھی اُن کا نام و نشان نہیں، ’’علماء کے مختلف اقوال سے جو اِس بارہ میں وارد ہیں بے خبری رکھتے ہیں‘‘تو لکھ دیا لیکن ایک بھی حوالہ نہیں دیا کہ کس عالم نے کس کتاب میں یہ باتیں کہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب باتیں خود ساختہ ہیں اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی صداقت کو نہ ماننے کی متعصبانہ کارروائیاں ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

پھر عجب یہ علم، یہ تنقیدِ آثار و حدیث

دیکھ کر سَو سَو نشاں پھر کر رہے ہو تم فرار

یا وہ دِن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں

مہدیٔ موعودِ حق اب جلد ہوگا آشکار

پھر وہ دِن جب آئے اور چودھویں آئی صدی

سب سے اوّل ہوگئے مُنکر یہی دیں کے مِنار

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button