مضطر کی طرح اسے پکاریں
پس ہم خوش قسمت ہیں…کہ زمانے کے امام نے دعا کی فلاسفی کو کھول کر ہمار ے سامنے رکھا اور واضح فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمایا۔ پس آج ہم نے نہ صرف اپنی بقا کے لئے، اپنی ذات کی بقا کے لئے، اپنے خاندان کی بقا کے لئے، جماعت احمدیہ کی ترقیات کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ امت مسلمہ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر پوری انسانیت کی بقا کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ کرنی ہے جس کی آج بہت ضرورت ہے۔ پس ہر احمدی کو ان دنوں میں (ان دنوں سے میری مراد ہے ہمیشہ ہی) اور آج کل خاص طور پر جب حالات بڑے بگڑ رہے ہیں، بہت زیادہ اپنے رب کے حضور جھک کر دعائیں کرنی چاہئیں۔ مضطر کی طرح اسے پکاریں۔ بے قرار ہوکر اسے پکاریں۔ آج امت مسلمہ جس دور سے گزر رہی ہے اور مسلمان ممالک جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اس کا حل سوائے دعا کے اور کچھ نہیں۔ اور دعا کے اس محفوظ قلعے میں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا آج احمدی کے سوا اور کوئی نہیں۔ پس امت مسلمہ کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اندرونی اور بیرونی فتنوں سے نجات دے۔ ان کو اس پیغام کو سمجھنے کی توفیق دے جو آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم امت کو دیا تھا۔ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا سے ظلم ختم کرے۔ انسان اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف رجوع کرے۔ اسے پہچان کر اپنی ضدوں اور اناؤں کے جال سے باہر نکلے۔ خداتعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کو آواز نہ دے بلکہ اس کی طرف جھکے۔ اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے والاہو، اس بات کو سمجھنے والا ہو کہ میری طرف آؤ، خالص ہو کر مجھے پکارو تاکہ میں تمہاری دعاؤں کو سن کر اس دنیا کو جس کو تم سب کچھ سمجھتے ہو، جو کہ حقیقت میں عارضی اور چند روزہ ہے، تمہارے لئے امن کا گہوارہ بنا دوں تاکہ پھر نیک اعمال کی وجہ سے تم لوگ میری دائمی جنت کے وارث بنو۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍ اگست ۲۰۰۶ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم ستمبر ۲۰۰۶ء)