نظامِ شوریٰ
سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں
خلافت کے مقام کے بعد اگر کسی ادارے کا تقدس ہے تو وہ مجلس شوریٰ کاہے
’’یہ اعزازجوآپ کوبحیثیت ممبر مجلس شوریٰ کے ملا ہے۔یہ بہت بڑا اعزاز ہے اس کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں۔آپ ایک انتہائی مقدس ادارہ کے نمائندہ بن کر یہاں آئے ہیں۔یاد رکھیں کہ خلافت کے مقام کے بعد اگر کسی ادارے کا تقدس ہے تو وہ مجلس شوریٰ کاہے۔اس لئے آپ کو اپنی ذمہ داریوں کونہایت نیک نیتی سے اورتقویٰ پرقدم مارتے ہوئے نبھانا چاہیے۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2004ء،روزنامہ الفضل5؍اپریل2004ء صفحہ1)
توجہ صرف اورصرف مجلس کی کارروائی پر ہو
’’اجلاس کے دوران آپ کی مکمل توجہ صرف اورصرف مجلس کی کارروائی پر ہوتاکہ جماعت کی معاشرتی اور روحانی ترقی کے لئے معاملات کو گہری سوچ،تدبراورغورکرکے پھر اپنی تجویز دے سکیں۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2004ء،روزنامہ الفضل5؍اپریل2004ء صفحہ:1)
رائے دیتے وقت خیال رکھنے کے قابل امور
’’رائے اس نیّت سے دیں کہ اگر یہ منظورہوجاتی ہے توآپ بھی اُسی طرح اس فیصلہ پرعمل درآمد کروانے کے ذمہ دارہیں جس طرح باقی عہدیداران۔بعض دفعہ بعض افراد سے یہ تأثر ملتاہے کہ وہ صرف تقریر کرنے کے لئے آئے ہیں، اس لئے صرف تقریر کاشوق پوراکرنے کے لئے سٹیج پرنہ آئیں بلکہ ٹھوس اورمعین رائے کے ساتھ اظہارخیال کریں۔
پھرقرآنی آیات کاجب حوالہ دیں تومعین طورپرپڑھ کربتائیں،اصل متن یاترجمہ میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔اسی طرح احادیث،حضرت مسیح موعودعلیہ السلام یاخلفاء کے حوالے دیں تووہ بھی معین طورپر پیش کریں اوراگر آپ کو معین حوالہ میسر نہیں توایسی صورت میں پھر صرف اپنی بات ہی کریں۔اسی طرح وہ نمائندگان جو سٹیج پرآکر رائے نہیں دیتے انہیں جب معاملہ زیر غورپر رائے دینے کے لئے کھڑا کیاجائے تووہ واضح ذہن کے ساتھ اپنی رائے دیں کیونکہ آپ کی رائے خلیفۂ وقت کے سامنے پیش ہورہی ہے۔اس لئے اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2004ء،روزنامہ الفضل5؍اپریل2004ء صفحہ1)
منظور شدہ فیصلہ جات کی تعمیل کے بارے میں ممبرانِ شوریٰ کا جماعت کی مجلسِ عاملہ سے مکمل تعاون ہونا چاہیے
’’یہ بات بھی یاد رکھیں کہ جو مشورے آپ برائے منظوری یافیصلہ خلیفۂ وقت کوبھیجتے ہیں اوروہ منظورہوجاتے ہیں توان پر عمل درآمد کروانے کے لئے آپ کاجماعت کی مجلس عاملہ سے مکمل تعاون ہوناچاہیے۔بعض فیصلوں کی طرف جماعت کی کوئی توجہ نہیں ہوتی یاجس طرح توجہ کاحق ہے وہ پوری طرح ادانہیں کیاجاتا۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2004ء،روزنامہ الفضل5؍اپریل2004ء صفحہ1)
خوب غور کر کے مشورہ دیں
’’مشورے بھی سوچ سمجھ کر غور کرکے اس کا اچھا اور برا دیکھ کر پھر دئیے جائیں تو تب ہی یہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ اس لئے جہاں بھی مشورے ہوں اس سوچ کے ساتھ ہوں کہ ہر پہلو کو انتہائی گہری نظر سے اور بغور دیکھ کر پھر رائے دی جائے۔… ہمیشہ یاد رکھیں کہ مومن کا یہ فرض ہے، ایک تو خوب غور کرکے مشورہ دیں جب بھی مشورہ مانگا جائے، جب بھی مشورے کے لئے بلایا جائے اور پھر مشورے کے بعد ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے جن کے بارے میں مشورہ دیا گیا تھا مکمل تعاون کریں بلکہ ممبران شوریٰ کا یہ بھی فرض ہے کہ اس کے ذمہ وار بنیں…اگر بغیر غور کے جس مسئلہ کے بارے میں مشورہ مانگا جا رہا ہے اس کی جزئیات میں جائے بغیر اگر مجلس میں بیٹھے ہوئے، یونہی سطحی سا مشورہ دے دیتے ہو کہ جان چھڑاؤ پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے خواہ مخواہ وقت کا ضیاع ہے، کوئی ضرورت نہیں اس کی۔ اگر اس سوچ کے ساتھ بیٹھے ہو کہ معاملے کو جلدی ختم کرنا چاہئے کیونکہ آخر کار یہ معاملہ خلیفۂ وقت کے سامنے پیش ہونا ہے خود ہی وہ غور کرکے فیصلہ کر لے گا تو یہ خیانت ہے۔ اور خائن کے بارے میں فرمایاکہ اس میں نفاق پایا جاتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍مارچ2004ء،خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ194،193)
خلیفۂ وقت یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ ممبران نے بڑے غور سے سوچ سمجھ کر کسی معاملے میں رائے قائم کی ہو گی
’’جب جماعتی معاملے میں خلیفۂ وقت کی طرف سے نظام کی طرف سے بلایا جائے کہ مشورہ دو تو اس میں دیکھیں کس قدر احتیاط کی ضرورت ہے۔ مجلس شوریٰ میں جب بھی مشورے کے لئے بلایا جاتا ہے تو ایک بہت بڑی ذمہ داری مجلس شوریٰ پر ڈالی جاتی ہے، ممبران شوریٰ پر ڈالی جاتی ہے اور ایک مقدس ادارے کا اسے ممبر بنایا جاتا ہے کیونکہ نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شوریٰ کا ادارہ ہی ہے۔ اور جب خلیفۂ وقت اس لئے بلارہا ہو اور احباب جماعت بھی لوگوں کو اپنے میں سے منتخب کرکے اس لئے بھیج رہے ہوں کہ جاؤ اللہ تعالیٰ کی تعلیم دنیا میں پھیلانے، احباب جماعت کی تربیت اور دوسرے مسائل حل کرنے اور خدمت انسانیت کرنے کے لئے خلیفۂ وقت نے مشوروں کے لئے بلایا ہے اس کو مشورے دو تو کس قدر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اگر یہ تصور لے کر مجلس شوریٰ میں بیٹھیں تو پوری طرح مجلس کی کارروائی سننے اور استغفار کرنے اور درود بھیجنے کے علاوہ کوئی دوسرا خیال ذہن میں آ ہی نہیں سکتا تاکہ جب بھی اس مجلس میں رائے دینے کے لئے کھڑا کیا جائے تو صحیح اور مکمل ذمہ داری کے ساتھ رائے دے سکیں کیونکہ یہ آراء خلیفۂ وقت کے پاس پہنچنی ہیں اور خلیفۂ وقت یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ ممبران نے بڑے غور سے سوچ سمجھ کر کسی معاملے میں رائے قائم کی ہو گی اور عموماً مجلس شوریٰ کی رائے کو اس وجہ سے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے، اسی صورت میں قبول کر لیا جاتا ہے۔ سوائے بعض ایسے معاملات کے جہاں خلیفۂ وقت کو معین علم ہو کہ شوریٰ کایہ فیصلہ ماننے پر جماعت کو نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍مارچ2004ء،خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ196،195)