اختتامی خطاب سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ، یوکے ، فرمودہ 18؍ستمبر 2022ء
’’ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
ہراحمدی ہر بات کا جو خلیفۂ وقت کی طرف سے جماعت کی بہتری کے لیے کہی جا رہی ہے اپنے آپ کو مخاطب سمجھے اوراس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو ایک انقلاب ہے جو ہم اپنی حالتوں میں لا سکتے ہیں
اپنے جائزے لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مان کر ہم نے اپنے اندر کیا تبدیلی پیدا کی ہے اور دوسروں کو اس سے کیا فائدہ پہنچا رہے ہیں
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو انسان کی حیثیت ہی کیا ہے کہ یہ دعویٰ کرے کہ میں انصار اللہ ہوں، اللہ تعالیٰ کا مددگار ہوں
’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصا ًاس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلۂ بیعت میں شامل ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔ ‘‘
اب مامور زمانہ کے ساتھ جڑ کر انصار اللہ کا اصل کام یہ ہے کہ دنیا کو خدائے واحد کے آگے جھکانا اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا
اگر ہم اپنی حالتوں میں حقیقت میں ایسی تبدیلی پیدا کر لیں، جب دین دنیا پر مقدم ہو جائے تو یہی حقیقی تقویٰ ہے اور یہی وہ مقام ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی ہو جاتا ہے
اختتامی خطاب امیر المومنین سیدناحضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ، یوکے ، فرمودہ 18؍ستمبر 2022ء
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
ابھی کچھ دیر پہلے میں نے لجنہ سے خطاب کیا تھا اور انہیں بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ یہ باتیں صرف عورتوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں ان باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کر کے یہ نیکیاں اپنانے اور ان کی طرف توجہ کرنے کا کہا ہے۔ ہاں میں نے بعض مثالیں عورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے ماحول کے مطابق دی ہیں لیکن
اکثر مثالیں مردوں اور عورتوں دونوں پر لاگو ہوتی ہیں۔
مثلاً سچائی کے اعلیٰ معیار یا عبادتوں کی طرف توجہ ہے تو مردوں کو بھی یہی معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جہاں اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بنیں وہاں اپنی اولاد کی تربیت کے لیے بھی نمونہ بن کر ان کی دنیاوعاقبت سنوارنے کا بھی ذریعہ بنیں۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ نصائح کا مخاطب اپنے آپ کو نہیں سمجھتے اور دوسرے کے بارے میں سمجھ کر پھر کہہ دیتے ہیں کہ دیکھا خلیفۂ وقت نے فلاں جماعت کو یا جماعت کے فلاں طبقے کو کس طرح سختی سے کہا ہے۔ وہ لوگ پھر یہ بھی آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ تو ہیں ہی ایسے، ان کی اصلاح ہونی چاہیے تھی۔ اپنے گریبان میں یہ لوگ نہیں جھانکتے۔ حالانکہ
چاہیے تو یہ کہ ہر ایک اپنے آپ کو اس کا مخاطب سمجھے اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے، اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا ہوں۔
اور یہ دیکھنا چاہیے کہ جو باتیں دوسروں کو کہی جا رہی ہیں ،کسی بھی طبقے کو خلیفۂ وقت مخاطب ہے اور وہ اسلامی تعلیم کے مطابق بعض امور کی طرف توجہ دلا رہا ہے تو ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم اس معیار پر پورا اتر رہے ہیں جو مختلف نیکیوں کے قائم کرنے اور انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کے معیار ہیں۔ پس اگر یہ بات سمجھ آ جائے کہ خلیفۂ وقت کسی بھی ملک کے احمدیوں کو بعض امور کی طرف توجہ دلا رہا ہے یا جماعت کے کسی بھی طبقے کو مختلف نیکی کی باتوں کی طرف توجہ دلا رہا ہے تو ہم بھی بحیثیت احمدی اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم میں یہ نیکیاں موجود ہیں جن کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے یا ہم میں یہ کمزوریاں تو نہیں ہیںجن کے چھوڑنے کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ پس اب جبکہ ٹی وی کے ذریعہ تمام دنیا رابطوں کے لحاظ سے ایک ہو گئی ہے،
ہر احمدی ہر بات کا جو خلیفۂ وقت کی طرف سے جماعت کی بہتری کے لیے کہی جا رہی ہے اپنے آپ کو مخاطب سمجھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو ایک انقلاب ہے جو ہم اپنی حالتوں میں لا سکتے ہیں۔
پس پہلی بات تو یہ ہے کہ
جو باتیں میں نے لجنہ میں کی ہیں ان کا انصار اپنے آپ کو بھی مخاطب سمجھیں۔
اور جب مرد اور عورت ایک ہو کر نیکیوں کو اختیار کرنے اور بدیوں کو ترک کرنے کے لیے کوشش کریں گے تو پھر ایک انقلاب ہو گا جو ہم اپنے گھروں میں بھی لا سکیں گے، اپنی حالتوں میں بھی لا سکیں گے، اپنے بچوں میں بھی لا سکیں گے اور اپنے معاشرے میں بھی لا سکیں گے۔
پس انصار اللہ کی عمر کو پہنچے ہوئے مرد جو اپنی عمر کے لحاظ سے اپنی سوچ کی بلوغت کو بھی پہنچ چکے ہیں انہیں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر نیکی کی بات جوجماعت کے کسی بھی طبقے کو مخاطب کر کے کی جا رہی ہے اسے ہم نے نہ صرف اپنے پر لاگو کرنا ہے بلکہ دوسروں کے سامنے نمونہ بن کر حقیقی اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جو دنیا کی اصلاح کے لیے اور اسلام کی حقیقی تعلیم کے پھیلانے کے لیے آئے تھے، جن کو ہم نے مانا ،اس لیے کہ اپنی بھی اصلاح کریں اور دنیا کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کریں تو پھر اس کے لیے ہر نیکی کو اختیار کرنے اور ہر بدی کو بیزار ہو کر ترک کرنے کی ہمیں خاص کوشش کرنی ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جماعت کو جو مختلف مواقع پر نصائح فرمائیں اس کے حوالے سے بھی چند باتیں آپ سے کرنا چاہوں گا۔ جیساکہ میں نے کہا کہ انصار اللہ کی عمر کے لوگ اپنی عقل اور تجربے کے لحاظ سے انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، پس یہ بات ان سے یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنی دینی، روحانی اور اخلاقی حالتوں کے بھی اعلیٰ نمونے دکھائیں۔
اپنے جائزے لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مان کر ہم نے اپنے اندر کیا تبدیلی پیدا کی ہے اور دوسروں کو اس سے کیا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
ایک موقع پر
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ
’’ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ9 ایڈیشن 1984ء)
پس جماعت کا عقل و حکمت اور تجربے کے لحاظ سے جو بہتر حصہ کہلا سکتا ہے جیساکہ میں نے کہا وہ آپ لوگ ہیں جو انصار کی عمر کے ہیں۔ پس
عبادتوں کے معیار کے لحاظ سے بھی اور اعلیٰ اخلاق اور دوسری نیکیوں کے لحاظ سے بھی انصار اللہ ہی وہ تنظیم ہونی چاہیے جو نمونے قائم کرنے والی ہو
اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب انسان کے دل میں تقویٰ ہو، تبھی انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے، تبھی انسان کی عبادتوں کے اور اعلیٰ اخلاق کے معیار قائم ہوتے ہیں، تبھی ایک انسان حقیقی انصار میں شمار ہو سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس وجہ سے اپنے ماننے والوں کو بےشمار جگہ بڑے درد کے ساتھ تقویٰ پر چلنے کے بارے میں بار بار نصیحت فرماتے رہے کیونکہ تقویٰ ایک بنیادی چیز ہے۔ چنانچہ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں ’’بجز تقویٰ کے اَور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل:129)‘‘(ملفوظات جلد1 صفحہ10 ایڈیشن 1984ء)یقینا ًاللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں۔
پس ہر ایک ہم میں سے جائزہ لے کہ کس حد تک ہم میں تقویٰ ہے اور ہمارے احسان کرنے کے کیا معیار ہیں۔ تبھی ہم حقیقی انصار کہلا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ محسنون میں شمار ہوتے ہیں۔ پس جب ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم انصار اللہ ہیں، اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں، اس کے دین کے مددگار ہیں تو پھریہ خصوصیت بھی پیدا کرنی ہو گی کہ تقویٰ بھی ہو اور محسن بھی ہم ہوں۔
اللہ تعالیٰ کو ہماری کسی مدد کی ضرورت نہیں۔ وہ سب طاقتوں کا مالک ہے۔ یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے ایک نظام قائم فرمایا اور یہ نظام بنا کر فرمایا کہ تم اس نظام کا حصہ بن جاؤ اور میرے دین کے مددگار بن جاؤ تو میں تمہیں اس طرح سمجھوں گا جس طرح تم اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار ہو لیکن یہ یاد رہے کہ مَیں یعنی اللہ تعالیٰ صرف انہیں دین کے مددگار سمجھوں گا جو تقویٰ کو اختیار کرنے والے ہیں اور احسان کرنے والے ہیں۔
تقویٰ کیا ہے؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ،اس کا خوف ،اس کی خشیت دل میں ہو اور ہر کام کرنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے
اور اسی طرح
محسن وہ ہیں جو نیک باتوں کا علم رکھنے والے اور نیکیاں کرنے والے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں اس وقت اپنا مددگار سمجھوں گا جب تم میں تقویٰ ہو گا اور تمہارا ہر عمل اور خیال نیکیوں پر منتج ہو اور پھر میں تمہارے کاموں میں برکت ڈالوں گا۔ میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔ تم دین کی خدمت کے لیے جو کام بھی کرو گے اس میں کامیابی بھی عطا کروں گا۔
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو انسان کی حیثیت ہی کیا ہے کہ یہ دعویٰ کرے کہ میں انصار اللہ ہوں، اللہ تعالیٰ کا مددگار ہوں۔
ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ایک کے بعد دوسرا سانس بھی نہیں لے سکتے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے دین کا مددگا رقبول کرتا ہوں اور میری مدد تمہارے ساتھ ہو گی بشرطیکہ تم تقویٰ پر چلو اور نیکیاں بجا لانے والے ہو۔ پھر ہمارے کاموں کے جو ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر کرتے ہیں ایسے بھرپور نتائج نکلیں گے کہ نظر آئے گا کہ واقعی یہ لوگ انصار اللہ ہیں اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی ان کے کاموں میں بے انتہا برکت عطا فرماتا ہے۔
پس یہ سوچ ہے جو ہم میں سے ہر ناصر کی ہونی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ہماری بیعت کا مقصد ہی کوئی نہیں رہتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر یہ نصیحت فرمائی کہ
’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصا ًاس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ ٔبیعت میں شامل ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں ،کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ10 ایڈیشن 1984ء)
پس اگر ہمارا نعرہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کا ہے تو اپنے نفس کو پہلے پاک صاف کرنا ہوگا تاکہ پھر اس مسیح موعودؑ کے مددگار بن کر دنیا کو برائیوں اور شرک سے پاک کریں اور خدائے واحد کے نور سے دلوں کو منور کریں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے مبعوث فرمایا ہے لیکن اگر ہمارے اپنے ہی دل دنیا کی گندگیوں اور غلاظتوں اور لالچوں میں پڑے ہوئے ہیں تو پھر ہم دنیا کی کس طرح اصلاح کر سکتے ہیں۔ پس
اب مامورِ زمانہ کے ساتھ جڑ کر انصار اللہ کا اصل کام یہ ہے کہ دنیا کو خدائے واحد کے آگے جھکانا اورحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا۔
پس اس کے لیے خود ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہو گا کہ کس قسم کے انصار اللہ ہم ہیں۔ اپنے اندرونی جائزے لینے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں :’’میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھلدار درخت ہو جاوے۔‘‘ پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے۔ فرمایا ’’……اگر ہماری جماعت بھی خدا نخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہو گا۔‘‘ اس عمر کو پہنچ کے خاتمہ بالخیر کی بھی فکر ہوتی ہے۔ فرمایا اگر زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو خاتمہ بالخیر نہ ہو گا۔ فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے۔ وہ غنی ہے وہ پرواہ نہیں کرتا۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ11 ایڈیشن 1984ء)
پس ہم حقیقی انصار اس وقت بن سکتے ہیں جب عمدہ بیج بنیں اور عمدہ بیج بننے کے لیے اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر چلنا اور زمانے کے امام اور مامور کی کامل پیروی اور اطاعت کرنا ضروری ہے اور جب یہ ہو گا تو پھر ہم اس بیج کے وہ پھل دار درخت ہوں گے جو دنیا کو نیکیوں کے پھل کھلانے والے ہوں گے۔ ہمارے قول و فعل کا ایک ہونا جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو گا وہاں ہماری نسل کی اصلاح کا بھی ذریعہ ہو گا اور ہمیں یہ تسلی ہو گی کہ ہم اپنی نسلوں میں بھی تقویٰ اور نیکی کی جڑ لگا کر جا رہے ہیں۔ وہ پیوند لگا کر جا رہے ہیں جس سے اگلی نسل بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ جڑ کر وہ پھل دار درخت بنیں گے جن پر نیکیوں کے پھل لگتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کو بھی خدائے واحد کی طرف لانے والے بنیں گے تا کہ مامور زمانہ کے حقیقی انصار بن سکیں۔
پس اس مضمون کو جتنا کھولتے جائیں اتنا ہی ہمیں احساس ہوتا جائے گا کہ انصار اللہ کی کیا اہمیت ہے اور ہم نے اپنے عہد کو کس طرح نبھانا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو اپنی تقاریر اور مجالس میں اس شدت سے بیان فرمایا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپؑ اپنے ماننے والوں کے کیا معیار دیکھنا چاہتے تھے اور یہی معیار ہیں جو جماعتی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا: ’’ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ وطہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔‘‘ یعنی قرآن کریم کی جو تعلیم ہے اس کو دیکھو، اس کو غور سے پڑھو، اس کو سمجھو، اس کے حکموں پر عمل کرو تب پتہ لگے گا کہ نیکی میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ جب ایک لائحہ عمل ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں سے ایک نشان یہ بھی رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے۔‘‘ پھر آپؑ نے فرمایا کہ متقی کی علامت کیا ہے۔ بہت ساری علامتیں ہیں پھر ایک علامت کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں ’’جیسے کہ فرمایا وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۔وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:3-4)‘‘
یعنی اور جو اللہ سے ڈرے اس کے لیے وہ نجات کی کوئی نہ کوئی راہ بنادیتا ہے اور وہ اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں۔ یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے۔‘‘ متقی کی علامتوں میں سے ایک نشانی آپؑ نے علامت یہ بھی بتائی ہے ’’کہ اللہ تعالیٰ متقی کونابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ12 ایڈیشن 1984ء)
پس بڑے سوچنے کی بات ہے، غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عموما ًہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں لوگ اس بڑی عمر کو جب پہنچتے ہیں جب ان کے بچے بھی بڑے ہو رہے ہوتے ہیں تو ان کی ضروریات کی انہیں زیادہ فکر شروع ہو جاتی ہے، ان کی تعلیم اور متفرق اخراجات کے لیے زیادہ سوچتے ہیں۔ چالیس سال کی عمر ایسی ہے جب یہ سوچیں زیادہ شروع ہو جاتی ہیں اور پھر بعض لوگ جو دنیا میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں یا جن کو خدا تعالیٰ پر توکل کم ہوتا ہے وہ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مختلف حیلے اور طریقے تلاش کرتے ہیں چاہے جائز ہوں یا ناجائز ہوں جو بسا اوقات ناجائز بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً یہاں ہم عام دیکھتے ہیں کہ اپنے اخراجات کے لیے، بچوں کے اخراجات کے لیے، مکان خریدنے کے لیے یا کسی اَور دنیاوی خواہش کو پورا کرنے کے لیے بہت سے لوگ اپنے ٹیکس بھی غلط طریقے سے بچاتے ہیں اور دوسری قسم کے دھوکے دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں حتی کہ بعض احمدی بھی یہ کام کرتے ہیں اور پھر دنیاوی معاملات میں ہی نہیں بلکہ چندوں کی ادائیگی میں بھی اپنی آمد غلط بتا دیتے ہیں حالانکہ چندوں کے بارے میں تو ان کے لیے واضح کر دیا گیا ہے کہ اگر شرح سے چندہ نہیں دے سکتے تو چھوٹ لے لیں۔کوئی مجبوری نہیں ہے ایسی کہ زبردستی چندہ لیا جائے گا اور کہہ دیں کہ اس سے زیادہ میں اپنے حالات کی وجہ سے چندہ نہیں دے سکتالیکن غلط بیانی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے اندر تقویٰ ہے تو اللہ تعالیٰ خود انتظام کر دے گا یا تھوڑے میں ایسی برکت عطا فرما دیتا ہے کہ غیر محسوس طریقے پر اخراجات پورے ہونے کے سامان ہوتے ہیں اور یہ صرف منہ سے کہنے کی بات نہیں ہے بلکہ
بےشمار احمدی ایسے ہیں جو مجھے یہ لکھتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اللہ تعالیٰ نے غیر متوقع طور پر ہمارے لیے ایسے سامان کر دیے کہ ہمارے اخراجات پورے ہو گئے، ہماری مالی ضرورت پوری ہو گئی۔
بےشمار ایسے واقعات جیساکہ میں نے کہا میرے پاس موجود ہیں۔ اس وقت اتنا وقت نہیں ہے کہ میں وہ یہاں پیش کروں۔ وقتاً فوقتاً بیان کرتا رہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس کی وضاحت میں خود اس کی مثال دی ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ غلط بیانی کیے بغیر کام نہیں چل سکتا اس لیے جھوٹ بولتے ہیں اور پھر ڈھٹائی سے مجبوری کا دوسروں کے سامنے اظہار بھی کر دیتے ہیں کہ ہم نے اس لیے جھوٹ بولا تھا۔ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ12 ایڈیشن 1984ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ’’یہ امر ہرگز سچ نہیں۔‘‘ یہ امر ہرگز سچ نہیں۔ بالکل جھوٹ ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ متقی کے پریشانی سے نکلنے کے سامان عطا فرمانے کا وعدہ کرے اور دوسری طرف بعض لوگوں کو کہہ دے کہ تم غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لو اور خود ہی اس مشکل سے نکل جاؤ۔ یہ خدا تعالیٰ کی شان نہیں ہے۔ جس خدا پر ہم یقین رکھتے ہیں، ہم ایمان رکھتے ہیں اس کی تو یہ شان نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ’’…یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے وہ بڑا طاقت والا ہے۔ جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کرو گے تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق:4)‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ12 ایڈیشن 1984ء)
وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ۔ اور جو اللہ پر توکل کرے تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ پر توکل ضروری ہے اور یہ توکّل بغیر تقویٰ کے پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ زبانی جمع خرچ نہیں ہے کہ منہ سے کہہ دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہیں بلکہ تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اخلاق اعلیٰ سطح پر لے جانے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ضرورت ہے۔ پس
اگر ہم اپنی حالتوں میں حقیقت میں ایسی تبدیلی پیدا کر لیں،جب دین دنیا پر مقدم ہو جائے تو یہی حقیقی تقویٰ ہے اوریہی وہ مقام ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں ’’جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے وہ اہل دین تھے۔ ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لئے تھیں اور دنیاوی امور حوالہ بخدا تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد1 صفحہ12 ایڈیشن 1984ء)اللہ تعالیٰ متقی کے راستے کی تمام دنیاوی روکیں دُور فرما دیتا ہے جو اس کے دین کے کام میں حارج ہوں۔
پس اگر دنیاوی کاموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نمازوں کی وقت پر ادائیگی ہم کر رہے ہیں اور اسی طرح دوسرے دنیوی کاموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جماعتی کاموں اور دین کے کاموں کو ترجیح دے رہے ہیں تو وہ سب طاقتوں کا مالک خدا فرماتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں، تمہاری فکروں کو دُور کروں گا۔ پس انسان نے خدا تعالیٰ کی کیا مدد کرنی ہے ،اللہ تعالیٰ ہے جو ہمیں دین کی خدمت کا موقع دیتا ہے، ہماری نیکیوں کے ہمیں اجر دیتا ہے، ہماری ضروریات پوری فرماتا ہے اور پھر ان تمام نوازشوں کے بعد ہمیں اپنے دین کے مددگاروں میں شامل فرماتا ہے۔ یہ بھی اعلان فرما دیتا ہے۔ کتنا مہربان ہے ہمارا خدا۔ کس قدر دیالو ہے ہمارا خدا۔ اس کا ہم کبھی احاطہ ہی نہیں کر سکتے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار بندے بنتے ہوئے، اس کے حکموں پر چلتے ہوئے، تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے بنیں اور یہی ہمارے حقیقی انصار ہونے کی روح ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔ دعا
(دعا کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا) ایک منٹ ذرا ٹھہر جائیں۔ لجنہ کی حاضری جو دوبارہ لجنہ نے بھیجی ہے ان کی حاضری چھ ہزار آٹھ سو تیس ہے اور انصار اللہ کی حاضری یہ ابھی بتا ہی چکے ہیں۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
٭…٭…٭