مکرم میاں محمدیحییٰ صاحب آف نیلا گنبد لاہور
-57 1956ء میں جب مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ لاہور کی تشکیل و منظوری ہوئی تو اس میں دیگر ممبران کے علاوہ جو تین نام اَور شامل تھے ان میں مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب معتمد مجلس، مکرم عبد القیوم صاحب ناگی ناظم مال اور مکرم محمد صدیق شاکر صاحب نائب قائد دوم بھی شامل تھے،اس وقت قائد مجلس مکرم میاں محمد یحییٰ صاحب تھے۔
یہ سب لوگ مکرم میاں یحییٰ صاحب کے ساتھ تادم وفات کام کرتے رہے۔ پہلے مجلس خدام الاحمدیہ شہر لاہور اور ڈویژن میں اور پھر جماعت احمدیہ لاہور کے رکن کی حیثیت سےان چاروں بزرگان کی ایک ساتھ خدمت دین کا سلسلہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے متعدد بار آپ سب کے کاموں پر اظہار خوشنودی فرمایا تھا جس کا ذکر تاریخ احمدیت لاہور میں ملتا ہے۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دور خدام الاحمدیہ کے وقت بھی انہی چاروں بزرگوں کو صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب(حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ) کے ساتھ خدمت دین کی توفیق ملی تھی اور لاہور کے دوروں میں آپ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مبارک محمود پانی پتی صاحب کی وفات پر خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لاہور کے دیگر جن چار مخلصین کا ذکر فرمایا تھا ان میں مکرم میاں محمد یحییٰ صاحب بھی شامل تھے۔(خطبہ جمعہ 4؍اکتوبر1996ء الفضل انٹرنیشنل22؍ نومبر1996ءصفحہ9)مکرم میاں محمد یحییٰ صاحب، حضرت میاں محمد موسیٰ صاحبؓ آف نیلا گنبد صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند تھے۔آپ ایک سنجیدہ،متین اور صائب الرائے بزرگ تھے۔ تمام عمر خدمت دین کرتے کرتے گزری۔آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ بڑھاپے کی کمزوری کوپہنچنے تک آپ نیلا گنبد سے دارالذکر تک سائیکل پر آیا اور جایا کرتے تھے۔ اس بات کا خاکساربھی گواہ ہے،ان کو سالہا سال سرپرٹوپی پہنے سائیکل پر آتےجاتے دیکھا۔آپ جماعت احمدیہ لاہور کے امین اور سیکرٹری تحریکِ جدید تا دم وفات رہے ۔مجلس خدام الاحمدیہ لاہور میں بطور قائد خود بھی مثالی کام کیا اور اپنی ٹیم سے بھی لیا۔ تاریخ احمدیت لاہور میں بھی آپ کی مساعی کا ذکر ملتا ہے۔آپ نے 56 – 1955ء ، 58 – 1957ء اور پھر 61 – 1960ء تین سال بطور قائد مجلس لاہور شہر گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔بطور قائد چیدہ چیدہ کاموں میں 1955ء میں سیلاب کے دنوں میں بنی نوع انسان کی غیر معمولی خدمت،فضل عمر ہسپتال،جامعہ احمدیہ، اور مسجدیادگار کی تعمیرات کے لیے مالی عطیہ جات کی فراہمی قابل ذکر ہے۔ (تاریخ احمدیت لاہور)گوجرانوالہ اور لاہور دہلی دروازہ میں کئی کئی دن کی کامیاب ترین تربیتی کلاسز کا انعقاد ہوتا رہا۔اس میں گوجرانوالہ میں منعقدہ سات روزہ تربیتی کلاسز بھی شامل ہیں جن میں جید علمائے سلسلہ حضرت مسیح موعودؑ کے خزائن لٹاتے تھے۔ اسی طرح وائی ایم سی لاہور میں 1961ء میں دو تبلیغی جلسے منعقد کرائے۔ اس دور میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خوشنودی و تعریف آپ کے حصے میں آئی تھی۔ایک ایسی ہی تحریر تاریخ احمدیت لاہور میں پڑھنے کو ملتی ہے جس کے مطابق ’’عزیزم میاں محمد یحییٰ ،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ مبارک محمود صاحب مجھے مل گئے ہیں۔ ان کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدام الاحمدیہ لاہور نہایت اعلیٰ کام کر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جب ہم بیماری اور بڑھاپے کا شکار ہوئے ہیں تو اس نے نوجوانوں کو ہمت بخش دی اور انہوں نے نہایت ضروری بوجھ اٹھالیا۔بہرحال میں خدام الاحمدیہ لاہور سے خوش ہوں۔ بہت خوش، اتنا کہ آپ اس وقت اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے…جب میں ربوہ آؤں تو آپ مجھ سے ملیں…(خلیفۃ المسیح الثانی) تاریخ احمدیت لاہور صفحہ619)۔مکرم میاں یحییٰ صاحب کے ایک ہم عصر مکرم شیخ ریاض محمود صاحب(حال مقیم کینیڈا) ان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’محترم میاں محمد یحییٰ صاحب مرحوم کی گزری زندگی سادگی اور درویش صفت ہونے کی شاندار مثال ہے۔لباس صرف سادہ شلوار قمیص اور سائیکل کا استعمال اپنی دکان نیلا گنبد سے دارالذکر تک معمول رہا۔ موقع ملنے پر اتنی دور سے دارالذکر سائیکل پر آمد پر،میںان کو فوری ٹھنڈا پانی پیش کرتا جس پر وہ عاجزی سے شکریہ ادا کرتے۔مکرم امیر صاحب لاہور کو علم ہوا تو انہوں نے گرمی میں ٹھنڈے شربت اور سردی میں چائے دینے کی ہدایت فرمائی، میاں صاحب نے معذرت کی لیکن اطاعت امیر میں خاموش ہوگئے۔اسی طرح سائیکل پر آنے کی بجائے رکشہ پر آنے کی بھی بار بار پیشکش کی گئی لیکن جماعتی پیسے کو اپنی ذات پر خرچ کرنے سے ہمیشہ انکار کیا اور سائیکل پر آنا جانا جاری رکھا۔مکرم میاں یحییٰ صاحب دکان پر اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ شعبہ مال کا کام بھی جاری رکھتے۔ مال کا ریکارڈ رجسٹروں میں مرتب کرتے رہتے جو ایک بہت مشکل کام ہوتا تھا۔اسی طرح نماز جمعہ کے بعد دارالذکر میں چند دیگر احباب کے ساتھ مل کر چادر لےکر کھڑے ہوتے اور عطیات اکٹھےکرتے۔اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
مکرم میاں یحییٰ صاحب کے ایک صاحبزادے مکرم ڈاکٹر محمود احمد ناگی صاحب اپنے والد کے بارے میں ایک واقعہ کا ذکر اپنے مضمون میں کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ1945ءمیں جب والد صاحب سالانہ اجتماع پر قادیان گئے تو میری والدہ اور میں (عمرایک سال) بھی ہمراہ تھے۔قادیان پہنچنے کے بعد والد محترم سیدھے مقام اجتماع پنڈال میں چلے گئے۔آپ کو پان کھانے کی عادت تھی۔سامان وغیرہ رکھنے کے بعد انہوں نے چاہا کہ تین دن کے پان ایک ساتھ لے آؤں لیکن ڈیوٹی پر موجود خدام نے باہر جانے سے منع کردیا اور بتایا کہ صدر مجلس کا حکم ہے کہ جو خادم یہاں پہنچے وہ تین دن تک باہر نہیں جائے گا۔اس وقت صدر مجلس صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب(حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تھے)۔والد صاحب کے شدید اصرار کے باوجود باہر جانے کی اجازت نہ ملی، بالآخر آپ صدر صاحب مجلس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی مجبوری بتائی،محترم صدر صاحب مجلس نے فرمایا قانون سب کے لیے یکساں ہے، میں بھی بحیثیت صدر مجلس تین دن پنڈال سے باہر نہیں جاسکتا۔ صدر صاحب مجلس نے مزید فرمایا کہ ان کے پاس کچھ پان ہیں،جب ضرورت محسوس ہو مجھ سے لے جایا کریں۔اور یوں حسب ضرورت ابا جان ان سے پان لے لیتے اور صدر صاحب مجلس کے پانوں کا تین دن کا کوٹہ،دو دن میں ختم ہوگیا اور اس کے بعد تیسرے دن تک نہ صدر مجلس نے پان کھایا اور نہ میرے ابو نے۔اس طرح اطاعت اور قانون کی پاسداری کی(روزنامہ الفضل آن لائن21؍ اگست2021ء)مکرم محمد یحییٰ صاحب کو قائد مجلس بننے سے پہلے دو سابق قائدین کے ساتھ بطور ناظم مال خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم مقصود احمد ناگی صاحب (مقیم جرمنی) نے اپنے والد صاحب کے بارے میں بتایا کہ میرے والد صاحب انتہائی کم گو تھے، وہ سائیکل پر جایا کرتے تھے۔ امین اور سیکرٹری تحریک جدید کی ذمہ داریاں ان کے پاس تھیں، ان کی دکان پر صدران اور سیکرٹریان جماعتی چندے جمع کرادیا کرتے تھے جس کو آپ پھر قریبی بینک میں جمع کرادیتے۔لاہور کے امیر مکرم حمید نصراللہ خان صاحب نے متعدد بار آپ سے کہا کہ جماعتی گاڑی لے دیتے ہیں،لیکن آپ نے انکار کیا کہ جماعت کے پیسے کیوں خرچ کیے جائیں۔ پھر آپ کو بس ویگن ٹرانسپورٹ کے خرچ کا بھی کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کیا اور سائیکل کا استعمال جاری رکھا۔ ایک واقعہ سنایا جو خود مکرم میاں یحییٰ صاحب نے ان کو(بیٹے کو) سنایا تھا کہ کس طرح اللہ اپنے پیسوں کی حفاظت کرتا ہے۔اس زمانہ میں لاکھوں کی رقم بہت بڑی رقم ہوتی تھی جب پیسے دارالذکر لے جانے کی ضرورت پڑتی تو وہ بوقت ضرورت کپڑے کی تھیلی استعمال کرتے۔ایک بار امیر صاحب نے تین لاکھ روپے منگوائے۔ان پیسوں کو ایک تھیلے میں بند کرکے سلائی مشین کے ساتھ سائیکل پر پیچھے رکھا اور دارالذکر چل پڑا، شملہ پہاڑی کے قریب وہ تھیلا پیچھے سے کہیں گرپڑا اور مجھے علم نہ ہوا۔ میں سائیکل چلاتا رہا، اچانک پیچھے سے کسی نےآکر مجھے کہا کہ چاچا جی پیچھے آپ کا تھیلا گر پڑا تھا، لے لیں۔ میں نے فورا ًسائیکل روکی اور اپنا تھیلا پکڑ لیا۔ یوں اللہ نے اپنے پیسے کی حفاظت فرمائی۔
مکرم میاں محمد یحییٰ صاحب نے 29؍نومبر2002ء کو82؍سال کی عمر میں وفات پائی،وہ جمعہ کا دن تھا، نماز جمعہ کے بعد مکرم چودھری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے نماز جنازہ پڑھائی۔اسی دن ربوہ میں مسجد مبارک میں حافظ مظفر احمد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اوربہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد مکرم چودھری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے دعا کروائی۔آپ نے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں سوگوار چھوڑے۔ آپ کو نصف صدی تک مختلف شعبوں میں خدمت دین کی توفیق ملتی رہی۔(روزنامہ الفضل 9؍دسمبر2002ء،صفحہ7)آپ کے پانچ بیٹوں کے نام درج ذیل ہیں، مکرم محمود احمد ناگی، مکرم مقصود احمد ناگی، مکرم بشیر احمد ناگی، مکرم منظور احمد ناگی اور مکرم خالد منصور احمد ناگی۔چھ بیٹیوں میں سےپانچ حیات ہیں۔
٭…٭…٭