اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربانی کے اعلیٰ معیار
بعض زمیندار ہیں وہ اپنا چندہ عام بھی دیتے ہیں اور پوری شرح سے بلکہ شاید زائد دے دیتے ہیں کیونکہ پہلے بجٹ لکھوا دیتے ہیں، تحریک جدید وغیرہ میں بھی اس امید پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کہ فصل یا باغ کی آمد ہو جائے گی اور بظاہر ایسی آمد والی فصل نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ وہ اپنے وعدے بڑھا کر لکھوا رہے ہوتے ہیں …اسی طرح کاروبار میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ جو چندہ دینے والے ہیں ان کے کاروباروں میں بہت برکت ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جو یہ نمونے ہمیں دکھاتا ہے تو یہ دکھا کر اپنے بندوں کے ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے …۔
آج پرانے احمدی خاندانوں میں سے بہت سے اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے باپ دادا نے جو قربانیاں دی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اولادوں کو کتنا نوازا ہے بعض بزرگوں کی قربانیاں تو پھلوں سے اس قدر لدی ہوئی ہیں کہ اولادوں کے لئے انہیں سنبھالنا مشکل ہے۔ جن کو اس بات کا پتہ ہے یا ادراک ہے کہ یہ فضل ان قربانیوں کا نتیجہ ہیں وہ پھر اللہ سے سودا کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر مالی قربانی پیش کرتے ہیں۔ تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودے کہ وہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپؐ کی قوت قدسیہ سے جو انقلاب آیا اور صحابہ ؓ نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جان، مال کی جوقربانیاں کیں وہ ہمیں آپؐ کے غلام صادق کی جماعت میں بھی نظر آتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی جب ضرورت پڑی، کسی نے اپنے بیٹے کے کفن کی رقم چندے میں بھیج دی، کسی نے اپنی پس انداز کی ہوئی تمام رقم دینی ضروریات کے لئے چندہ میں دے دی، کسی نے اپنی تمام آمد اللہ تعالیٰ کے مسیح کے قدموں میں لا کر ڈال دی …۔پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد خلفاء کی طرف سے جب بھی کوئی تحریک ہوئی افراد جماعت نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مالی قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍نومبر ۲۰۰۶ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۴؍نومبر۲۰۰۶ءصفحہ۶)