خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 28؍اکتوبر2022ء
ابوبکر سب لوگوں سے افضل اور بہتر ہے سوائے اس کے کہ کوئی نبی ہو
حضرت ابوبکر صدیق ؓکو یہ سعادت اور فضیلت حاصل ہے کہ مکی دَور میں حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ایک دو دفعہ تشریف لے جاتے تھے
لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال کے مجھ پر ابوبکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو۔ اگر مَیں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرور ابوبکر کو ہی خلیل بناتا
ابوبکر مجھ سے ہیں اور مَیں ان سے ہوں۔ ابوبکر دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو دیکھا اور فرمایا یہ دونوں کان اور آنکھیں ہیں یعنی میرے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں
اے ابوبکر! تم میری اُمّت میں سے سب سے پہلے ہو جو جنت میں داخل ہو گے
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےمناقبِ عالیہ کا احادیث کی روشنی میں ایمان افروز بیان
چار مرحومین مکرم عبد الباسط صاحب(امیر جماعت انڈونیشیا)مکرمہ زینب رمضان سیف صاحبہ اہلیہ مکرم یوسف عثمان کامبالایہ صاحب(مربی سلسلہ تنزانیہ)،
مکرمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ عبدالقدیرصاحب درویش قادیان اور مکرمہ میلے انیسا اپیسائی صاحبہ (کیریباس) کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 28؍اکتوبر2022ءبمطابق 28؍اخاء 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
بدری صحابہ کے ضمن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر
ہو رہا تھا اور آپؓ کے مناقب کا ذکر چل رہا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا مقام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کے بارے میں کیا سمجھتے تھے یا آپؓ کو کیا مقام دیتے تھے اس بارے میں بعض روایات ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کو یہ سعادت اور فضیلت حاصل ہے کہ مکی دَور میں حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ایک دو دفعہ تشریف لے جاتے تھے۔
(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبیﷺواصحابہ الی المدینۃ، روایت نمبر 3905)
حضرت عمرو بن عاصؓ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ذات السلاسل کی فوج پر سپہ سالار مقرر کر کے بھیجا اور کہتے ہیں مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ مَیں نے کہا لوگوں میں سے کون آپؐ کو زیادہ پیارا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہؓ۔ میں نے کہا مردوں میں سے؟ آپؐ نے فرمایا ان کا باپ۔ میں نے کہا پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا پھر عمر بن خطابؓ اور آپؐ نے اسی طرح چند مَردوں کو شمار کیا۔
(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب قول النبی ﷺ لو کنت متخذًا خلیلًا حدیث 3662)
حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ابوبکر سب لوگوں سے افضل اور بہتر ہے سوائے اس کے کہ کوئی نبی ہو۔
(کنزالعمال جلد6 جزء11 صفحہ248 فضائل ابوبکر الصدیقؓ روایت نمبر 32548دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اُمّت میں سے میری اُمّت پر سب سے زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا ابوبکر ہے۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب معاذ بن جبل … روایت نمبر 3790)
حضرت ابوسعیدؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلند درجات والے جو اُن کے نیچے والے ہیں وہ ان کو دیکھیں گے جس طرح تم طلوع ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو یعنی بلند درجات والے ایسے بلند درجہ پر ہوں گے کہ جو نیچے درجے کے ہوں گے وہ ان کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم طلوع ہونے والے ستارے کو آسمان کی طرف دیکھتے ہو،آسمان کے افق میں دیکھتے ہو۔ اور ابوبکر و عمر اُن میں سے ہیں۔ یعنی وہ بلند ہیں۔ ان کو لوگ اس طرح دیکھیں گے جس طرح بلند ستارے کو دیکھا جاتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اور وہ دونوں کیا ہی خوب ہیں۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیقؓ…روایت نمبر 3658)
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔کسی کا ہم پر کوئی احسان نہیں مگر ہم نے اس کا بدلہ چکا دیا سوائے ابوبکرؓ کے۔ اس کا ہم پر احسان ہے اور اس کو اس کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دے گا۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر، روایت نمبر 3661)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا
لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال سے مجھ پرابوبکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو۔ اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرور ابوبکر کو ہی خلیل بناتا
لیکن اسلام کی دوستی سب سے افضل ہے۔ اس مسجد میں تمام کھڑکیوں کو میری طرف سے بند کر دو سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔(صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الخوخۃ والممر فی المسجد، روایت نمبر 467) یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ابوبکر مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔
ابوبکر دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہیں۔
(کنزالعمال جلد6 جزء 11 صفحہ 248فضل أبو بكر الصديق رضي اللّٰه عنہ حدیث نمبر 32547 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
سنن ترمذی کی روایت یہ ہے کہ حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا یہ دونوں سردار ہیں اہلِ جنت کے۔ اہلِ جنت کے بڑی عمر والوں کے پہلوں میں سے اور آخرین میں سے سوائے نبیوں اور رسولوں کے۔ اے علی! ان دونوں کو نہ بتانا۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر، روایت نمبر 3664)
راوی کہتے ہیں کہ جب آپؐ نے یہ روایت کی تو حضرت علی ؓکو بتانے سے روک دیا۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین اور انصار میں سے اپنے صحابہؓ کے پاس باہر تشریف لاتے اور بیٹھے ہوتے اور ان میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ہوتے۔ تو ان میں سے کوئی بھی اپنی نظر آپؐ کی طرف نہ اٹھاتا سوائے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے۔ وہ دونوں آپؐ کی طرف دیکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھتے اور وہ آپؐ کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور آپؐ ان دونوں کو دیکھ کر مسکراتے۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر، روایت نمبر 3668)
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا
تم حوض پر میرے ساتھی ہو اور غار میں میرے ساتھی ہو۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر ، روایت نمبر3670)
حضرت جبیر بن مطعمؓ نے بیان کیا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپؐ سے کسی چیز کے بارے میں بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی ارشاد فرمایا۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپؐ کا کیا خیال ہے اگر میں آپؐ کو نہ پاؤں یعنی آپؐ کے بعد، وفات کے بعد اگر مجھے ضرورت ہو تو آپؐ نے فرمایا اگر مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے پاس آنا۔(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر، روایت نمبر3676)وہ تمہاری ضرورت پوری کر دے گا۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ان دونوں میں سے ایک آپؐ کے دائیں جانب تھا اور دوسرا آپؐ کے بائیں جانب اور آپؐ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور فرمایا۔ اس طرح ہم قیامت کے روز اٹھائے جائیں گے۔
(سنن الترمذی کتاب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرؓ حدیث نمبر 3669)
حضرت عبداللہ بن حَنْطَبؓ سے مروی ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو دیکھا اور فرمایا یہ دونوں کان اور آنکھیں ہیں یعنی میرے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔
(سنن الترمذی کتاب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرؓ حدیث نمبر 3671)
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے آسمان والوں میں سے دو وزیر ہوتے ہیں اور زمین والوں میں سے بھی دو وزیر ہوتے ہیں۔ آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر جبرئیل اور میکائیل ہیں اور
زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر ہیں۔
(سنن الترمذی کتاب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ حدیث نمبر 3680)
پھر آپؓ کو جنت کی بشارت بھی دی۔سعیدبن مُسَیِّبْنے کہا حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا۔ پھر باہر نکلے اور کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لگا رہوںگا اور آج سارا دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہوں گا۔ یعنی وہ دن انہوں نے آپؐ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسجد میں آئے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر نکلے ہیں اور اس طرف گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پوچھتا پچھاتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بئر اَرِیْس ( مسجد قبا کے قریب ایک کنواں تھا)میں داخل ہو گئے۔ میں دروازے کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں کا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور میں اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا تو کیا دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بئر اَرِیْس پر بیٹھے ہیں اور اس کی منڈیر کے وسط میں تھے اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھائے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کو کنویں میں لٹکائے ہوئے تھے یعنی اپنے دونوں پاؤں لٹکائے ہوئے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ پھر واپس مڑا اور دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا آج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان بنوں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے دروازے کو دھکیلا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوبکر۔ میں نے کہا ٹھہریے ۔ پھر میں نے جا کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابوبکر ہیں جو اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اجازت دو اور ان کو جنت کی بشارت دو۔ میں آیا یہاں تک کہ میں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا اندر آ جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اندر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منڈیر پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے بھی اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا دیے جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا۔ پھر میں واپس آیا اور بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی کو چھوڑ کر آیا تھا کہ وضو کر کے مجھ سے آ ملے۔ میں نے دل میں کہا کہ اگر اللہ فلاں کے بارے میں بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے، ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی۔تو وہ اس کو لے آئے گا۔ کیا دیکھا کہ کوئی انسان دروازے کو ہلا رہا ہے۔ میں نے کہا یہ کون ہے؟ اس نے کہا عمر بن خطاب۔ میں نے کہا ٹھہریے۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور میں نے کہا عمر بن خطاب ہیں۔ وہ اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اجازت دواور ان کو جنت کی بشارت دو۔ میں آیا۔ میں نے کہا اندر آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ وہ اندر آئے اور منڈیر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا دیے۔ پھر میں لوٹ آیا اور بیٹھ گیا۔ میں نے کہا اگر اللہ نے فلاں کی بہتری چاہی تو اس کو لے آئے گا۔ دوبارہ اپنے بھائی کے بارے میں سوچا۔ اتنے میں ایک آدمی آیا۔ وہ دروازے کو ہلانے لگا۔ میں نے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا عثمان بن عفان۔ میں نے کہا ٹھہریے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو اجازت دو اور ان کو جنت کی بشارت دو۔ اورحضرت عثمانؓ کے بارے میں ساتھ یہ بھی فرمایا کہ باوجود اس ایک بڑی مصیبت کے جو انہیں پہنچے گی ان کو جنت کی بشارت دو۔ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا اندر آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو جنت کی بشارت دی ہے باوجود ایک بڑی مصیبت کے جو آپؓ کو پہنچے گی۔ وہ اندر آئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک کنارہ بھر گیا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوسری طرف بیٹھ گئے۔
(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّﷺ ’’ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا ‘‘ حدیث نمبر3674)
(فرہنگ سیرت صفحہ70 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم احد پر چڑھے اور آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ تھے تو وہ ہلنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا
احد! ٹھہر جا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں بھی مارا کیونکہ تم پر اَور کوئی نہیں صرف ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب عثمان بن عفانؓ حدیث3699)
حضرت سعید بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نو۹ لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر دسویں کے بارے میں بھی یہی کہوں تو گنہگار نہیں ہوں گا۔ انہوں نے کہا کیسے؟ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا۔ پہلی روایت بخاری کی تھی یہ ترمذی کی ہے اور اس میں حرا کا ذکر ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہرا رہ اے حرا! یقیناً تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید ہیں۔ کسی نے پوچھا : وہ دس جنتی لوگ کون ہیں۔ حضرت سعید بن زیدؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحؓہ، زبیرؓ ، سعدؓ اور عبد الرحمٰن بن عوفؓ ہیں اور کہا گیا کہ دسواں کون ہے تو سعید بن زید نے کہا وہ میں ہوں۔
(سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب سعید بن زید حدیث 3757)
(اسد الغابہ جلد2 صفحہ 478دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس روایت میں ان دس عظیم المرتبت صحابہ کا ذکر ہے جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب بھی تھے اور مشیر بھی تھے جن کو سیرت کی اصطلاح میں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں یعنی دس وہ لوگ جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی لیکن
یہ مدنظر رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دس کے بارے میں ہی جنت کی بشارت نہیں دی تھی بلکہ اس کے علاوہ بھی متعدد ایسے صحابہ اور صحابیات ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشخبری دی تھی۔
چنانچہ ان دس کے علاوہ کم و بیش پچاس کے قریب صحابہ و صحابیات کے ناموں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگِ بدر میں شامل ہونے والوں جو کہ تین سو تیرہ کے قریب تھے اور جنگِ احد میں شامل ہونے والوں اور بیعتِ رضوان صلح حدیبیہ کے موقع پر شامل ہونے والوں کے متعلق بھی جنت کی خوشخبری دی گئی تھی۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے آج کون روزہ دار ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون تم میں سے آج جنازے کے ساتھ گیا؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کس نے آج کسی مسکین کو کھانا کھلایا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کس نے آج کسی مریض کی عیادت کی؟ حضرت ابوبکرؓنے عرض کیا کہ میں نے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
جس آدمی میں یہ سب باتیں جمع ہو گئیں وہ جنت میں داخل ہو گیا۔(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ بَاب من فضائل ابی بکرؓ، حدیث نمبر 4386 مترجم اردو شائع کردہ نور فاؤنڈیشن جلد13 صفحہ 7) یہ صحیح مسلم کا حوالہ ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جبریل میرے پاس آیا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہو گی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کاش! میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا تاکہ میں بھی اسے دیکھتا تو آپؐ نے فرمایا
اے ابوبکر! تم میری اُمّت میں سے سب سے پہلے ہو جو جنت میں داخل ہو گے۔
(کنزالعمال جلد6 جزء 11 صفحہ 544 فضل ابوبكر صديقؓ حدیث نمبر32551دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی بات کو بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور آپؐ کے ارد گرد صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐ نے یہ ذکر کرنا شروع کر دیا کہ جنت میں یوں ہو گا، یوں ہو گا اور پھر ان انعامات کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے لئے مقدر فرمائے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو فرمانے لگے یا رسول اللہؐ! دعا کیجئے کہ جنت میں مَیں بھی آپؐ کے ساتھ ہوں۔ (بعض روایتوں میں ایک اَور صحابی کا نام آتا ہے اور بعض روایتوں میں حضرت ابوبکرؓ کا نام آتا ہے۔) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم میرے ساتھ ہو گے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتا ہوں کہ ایسا ہی ہو۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تو قدرتی طور پر باقی صحابہ کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں کہ ہمارے لئے بھی یہی دعا کی جائے۔ پہلے تو وہ اس خیال میں تھے کہ ہمارے یہ کہاں نصیب ہیں کہ ہم جنت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں مگر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا بعض روایتوں کے مطابق کسی اَور صحابی نے یہ بات کہہ دی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا بھی فرمائی تھی تو اب انہیں نمونہ مل گیا اور انہیں پتہ لگ گیا کہ یہ عمل ناممکن نہیں بلکہ ممکن ہے۔ چنانچہ ایک اَور صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! میرے لئے بھی دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ جنت میں مجھے آپؐ کے ساتھ رکھے۔ آپؐ نے فرمایا: خدا تعالیٰ تم پر بھی فضل کرے مگر جس نے پہلے کہا تھا اب تو وہ دعا لے گیا۔‘‘
(خطبات محمود جلد 19 صفحہ 428،427)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص فلاں عبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ جنت کے فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا اور جو فلاں عبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا۔ اسی طرح آپؐ نے مختلف عبادات کا نام لیا اور فرمایا: جنت کے سات دروازوں سے مختلف اعمال حسنہ پر زیادہ زور دینے والے لوگ گزارے جائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی اس مجلس میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مختلف دروازوں سے تو وہ اس لئے گزارے جائیں گے کہ انہوں نے ایک ایک عبادت پر زور دیا ہو گا لیکن یا رسول اللہؐ! اگر کوئی شخص ساری عبادتوں پر ہی زور دے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔
آپؐ نے فرمایا: وہ جنت کے ساتوں دروازوں سے گزارا جائے گا اوراے ابوبکرؓ! میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی انہی میں سے ہو گے۔‘‘
(خطبات محمود جلد 18 صفحہ 624)
یہ ذکر تو ان شاء اللہ آئندہ چلے گا۔ اس وقت میں
بعض مرحومین کا ذکر
کرنا چاہتا ہوں اور ان کے جنازے بھی بعد میں پڑھاؤں گا۔
پہلا ذکر ہے
مکرم عبد الباسط صاحب جو امیر جماعت انڈونیشیا
تھے۔ 8؍اکتوبر کو اکہتر سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
یہ مولوی عبدالواحد سماٹری صاحب کے بیٹے تھے اور ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکیس سال کی عمر میں 20؍ستمبر 1972ء کو جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے۔ 1981ء کے آغاز میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے شاہد کا امتحان پاس کیا۔ 1981ء کو بطور مبلغ اپنے ملک انڈونیشیا واپس تشریف لے گئے۔ 87ء میں مجلس عاملہ انڈونیشیا کے مشورہ سے تجویز ہوا کہ تھائی لینڈ میں تبلیغ کے پیش نظر ایک انڈونیشین مبلغ کو کوالا لمپور ملائیشیا کی نیشنیلٹی حاصل کر کے تھائی لینڈ میں تبلیغ کے لیے بھیجا جائے تو ان کا نام پیش ہوا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے منظوری فرمائی اور یہ وہاں تھائی لینڈ چلے گئے۔ بعد میں پھر ان کا تقرر انڈونیشیا میں ہو گیا اور تادمِ آخر یہ انڈونیشیا میں ہی رہے اور ایک لمبا عرصہ امیر کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ چالیس سال تک ان کا خدمت کا عرصہ ہے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
ان کی اہلیہ موسلی واتی (Musliwati) صاحبہ کہتی ہیں کہ مرحوم سلسلہ کا بہت درد رکھتے تھے اور جماعت کو ہر چیز پر ہمیشہ ترجیح دیتے تھے۔ بحیثیت بیوی میں ان کی جماعت کی لگن اور خدمات کا اعتراف کرتی ہوں۔ ان کے ایک بھتیجے طاہر صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں مرحوم مرکز سے آنے والی ہدایت کی مکمل طور پر اطاعت کرتے۔ ایک دفعہ مرحوم نے بتایا کہ فیملی سے ملنے کے لیے ملائیشیا جانے کا پروگرام تھا، اس کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی خریدا ہوا تھا لیکن کہتے ہیں تقریباً ایک ہفتہ کے بعد جب میں دوبارہ ملا تو پوچھا آپ ملائیشیا کیوں نہیں گئے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مرکز کی طرف سے جو خط موصول ہوا ہے اس میں جانے کی اجازت نہیں ملی۔ اس لیے میں نے ملائیشیا جانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے اور ٹکٹ کی بھی کوئی پروا نہیں کی۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک عہدے دار ہیں، وہ کہتے ہیں بڑے پیار سے، محبت سے ہمیں سکھاتے اور سمجھاتے۔ امیرجماعت ہونے کے باوجود جماعت سے سہولتیں نہیں مانگتے تھے۔ جماعت کی طرف سے جو بھی ملتا بخوشی استعمال کرتے۔ سادگی کو ترجیح دیتے۔ دفتری اوقات میں کئی دفعہ خود ہمارے پاس آکر بیٹھ جاتے اور خطوط کو ملاحظہ کر کے نوٹ لکھواتے تھے۔ مبلغین کا بہت احترام کرتے تھے۔ بہت گہرا اور وسیع علم رکھنے والے تھے۔ ہمیشہ جب بھی کوئی فیصلہ کرتے تو عاملہ ممبران سے ہمیشہ مشورہ طلب کیا کرتے۔ باوقار مگر عاجزی سے بھرے ہوئے وجود تھے۔ نہایت ملنسار اور ہر ایک بڑے چھوٹے سے خوش خلقی سے پیش آتے تھے۔ خلافت سے بے انتہا محبت تھی۔ ہمیں تلقین کرتے تھے کہ خلیفۂ وقت کے حکم پر اپنی سب آراء کو چھوڑ کر فوراً عمل کرنا چاہیے۔ جماعتی نظام کو فوقیت دیتے تھے۔ جماعتی اموال پر گہری نظر اور بھرپور حفاظت کرنےو الے تھے۔ کسی بھی خلاف ورزی پر آپ سختی سے پیش آتے تھے۔ اکثر دوسرے کارکنوں سے پہلے دفتر آتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے دفتر نہ آ سکتے یا دیر سے آتے تو سٹاف کو ضرور اطلاع دیتے تھے بلکہ جب آپ دفتر سے کسی معاملے کے لیے باہر جاتے خواہ تھوڑی دیر کے لیے جائیں تو پھر بھی دفتر کے عملے کو اطلاع ضرور دے کے جاتے تھے۔ رپورٹس یا خطوط کو چیک کرتے وقت مرحوم نہایت محتاط تھے۔ مکمل طور پر ہر ایک چیز کو دیکھتے تھے اور اگر فوری کام کی ضرورت ہوتی تو رات دیر تک کام میں مصروف رہتے۔ احمدیوں سے ملنے کے لیے جاتے تو احمدی کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے لیے ہمیشہ تحفے ساتھ لے کر جایا کرتے تھے۔ ہمیشہ پیارو محبت کا سلوک کرتے۔ ایک ایسے راہنما تھے جو ہمیشہ دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ امیر صاحب ہمارے لیے اور انڈونیشیا کے احمدیوں کے لیے گویا روحانی باپ تھے۔ جماعتی نظام اور روایات کو ہمیشہ ترجیح دیتے تھے۔ اور یہی خصوصیات ہیں جو ایک امیر میں ہونی چاہئیں۔ جب ناراض ہو جاتے تو ہر ایک کی عزت کا بھی خیال رکھتے۔ یہ نہیں کہ ناراضگی میں جو چاہا کہہ دیا۔ سزا دیتے وقت اصلاح کا پہلو ہمیشہ مدنظر ہوتا تھا۔ کوئی دشمنی نہیں ہوتی تھی، کینہ نہیں ہوتا تھا بلکہ اصلاح مقصد تھا۔ پھر کہتے ہیں بہت سارے احمدی یہاں اپنے جماعتی یا ذاتی کام میں آپ سے راہنمائی طلب کرتے تھے۔ آپ نے غیر معمولی محنت اور محبت کے ساتھ احباب جماعت انڈونیشیا کا خیال رکھا۔ گذشتہ ایک سال سے بیمار تھے۔ اپنی بیماری کے ایام میں بھی حسب معمول مختلف میٹنگز اور رابطہ اور دورہ جات میں جماعتی خدمات ادا کرتے رہے۔ اس میں کمی نہیں آنے دی۔
محمود وردی صاحب جو انڈونیشین ڈیسک میں یہیں لندن میں رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مزاج کے بعض پہلو بہت نمایاں ہیں جن میں سے سب سے نمایاں ان کا تبحر علمی ہے۔ بڑے علم دوست آدمی تھے۔ ہر آن حصولِ علم کا شوق تھا۔ مختلف موضوعات کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے تھے۔ جس ٹاپک پر بھی بات ہوتی وہ اس پر سیر حاصل گفتگو کرنے پر عبور رکھتے تھے۔ جماعتی کتب پر مبنی علوم کے علاوہ باقی جنرل نالج پر بھی ان کو عبورتھا۔ باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے۔ نیشنل اور انٹرنیشنل ہر قسم کی خبریں پڑھتے۔ چاہے وہ انڈونیشین میں ہوں یا انگلش میں ہوں۔ تقریر کرتے ہوئے زیادہ لمبی چوڑی تقریر نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ مختصر اور جامع خطاب کرتے اور تقریر میں لوگوں کو اپنی بات سادہ الفاظ میں سمجھا دیا کرتے۔ ہر طبقہ کے لوگ آرام سے ان کی کہی ہوئی بات سمجھ سکتے تھے۔ پھر کہتے ہیں روزمرہ لباس بڑا سادہ تھا لیکن باوقار انسان تھے۔ کسی قسم کا تکلف یا بناوٹ بالکل نہیں تھا۔ ہر طبقے کے لوگ ان کے ساتھ بیٹھ کر بے تکلفی سے بات کر لیا کرتے تھے لیکن ہمیشہ سب ان کی عزت وتکریم اور حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے ان کے ساتھ بات کیا کرتے تھے۔
فضلِ عمر فاروق صاحب وہاں مربیٔ سلسلہ ہیں، جامعہ میں استاد بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ میںطفل کے ایام سے امیر صاحب کے قریب رہا۔ جب جماعت انڈونیشیا نہایت مشکل دور میں تھی تو آپ محنت اور صبر اور تحمل سے تمام احباب جماعت کی حوصلہ افزائی کرتے۔ انہیں صبر اور دعا کی تلقین کرتے رہے۔ جب بھی دعا کرتے تو بڑی رقت اور خشوع سے کرتے تھے۔ ہمیشہ وقت پر نماز کے لیے مسجد میں آتے۔ واقفین زندگی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ جب کوئی مربی میدان عمل میں جانے لگتا تو آپ اپنی طرف سے اس کو کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور دیتے۔
سیف اللہ مبارک صاحب ہیں، یہ بھی جامعہ کے استاد ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مولانا عبدالباسط صاحب واقفین زندگی کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔ جماعت کے ہر پروگرام میں ہمیشہ شامل ہوتے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ نرمی اور احترام سے بات کرتے تھے۔ کسی بھی مجلس میں جاتے تو آپ کے آنے سے رونق ہو جاتی تھی۔ مسکراتے رہتے۔ کہتے ہیں جب جامعہ انڈونیشیا میں پڑھتا تھا تو مغرب کے بعد ہمارے ساتھ بیٹھتے اور حال چال پوچھتے اور ہلکی پھلکی باتیں ہوتیں۔
پھر نورالدین صاحب مربیٔ سلسلہ ہیں، انہوں نے بھی یہ لکھا ہے کہ ایسے امیر تھے جو اپنا نمونہ پیش کیا کرتے تھے۔ موصوف یہ کہتے ہیں کہ 2018ء میں ہماری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس وقت ہمارے پاس چھ کروڑ روپے کی رقم تھی۔ انڈونیشین روپیہ کی قیمت بہت کم ہے تو کروڑوں اور بلینز میں باتیں ہوتی ہیں وہاں۔ اس لحاظ سے کہتے ہیں چھ کروڑ کی رقم تھی جبکہ مسجد کے لیے تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کی ضرورت تھی۔ موصوف نے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کی تعمیر کرنے کے لیے جتنا بھی بجٹ مہیا ہوتا ہے اسی سے تعمیر شروع کرتے ہیں لیکن اس کے بعد ہم اللہ تعالیٰ کی مدد کا نظارہ دیکھیں گے۔ اگر ڈیڑھ ارب انڈونیشین روپیہ ہے تو کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ چھ کروڑ تمہارے پاس ہے۔ شروع کر دو۔10/1 بھی نہیں تھا۔ تین فیصد بلکہ چار فیصد تھا۔ یہ نصیحت کرنے کے بعد کہتے ہیں موصوف نے اپنی جیب سے بٹوا نکال کر ہمیں مسجد کے لیے کچھ رقم دی۔ یہیں سے احباب جماعت نے بھی بڑھ چڑھ کر اپنی بہترین قربانی پیش کرنی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ دو سال کے اندر مسجد کی تعمیر اسّی فیصد مکمل ہو گئی۔ پھر یہ pandemicکا زمانہ آ گیا۔ لوگوں کی آمدنی کم ہو گئی پھر مسجد کی تعمیر رک گئی۔ کہتے ہیں پھر ہم ان کے پاس گئے اور بتایا کہ مسجد کی تعمیر مکمل کرنا چاہتے ہیں لیکن تقریباً پندرہ کروڑ روپے کی، ڈیڑھ سو ملین کی ضرورت ہے۔ ہمیں امید تھی کہ مرکز ہماری مدد کر دے گا لیکن امیر صاحب نے کہا مرکز مدد نہیں کرے گا۔ آپ لوگ کسی سے مانگے بغیر یہ رقم پوری کر سکتے ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا کتنے احمدی ہیں۔ میں نے کہا 160؍احمدی ہیں۔ یہ سن کر موصوف نے بڑے آرام سے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہر ایک شخص سے کہیں کہ دس ملین یہ تقریباً سو پاؤنڈ سوا سو پاؤنڈ بنتے ہوں گے دے دیں تو یہ رقم پوری ہو سکتی ہے۔ کہتے ہیں شروع میں ہمیں یقین نہیں تھا کہ یہ کام اتنی آسانی سے ہو سکتا ہے لیکن جب ہم نے اس نصیحت پر عمل کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے احبابِ جماعت کے دلوں میں ایک محبت اور جذبہ ڈال دیا وہ اپنے بہترین مال مسجد کی تعمیر کے لیے پیش کریں۔ اس کے علاوہ موصوف نے پھر بھی خود اپنی طرف سے کافی رقم پیش فرمائی۔ چنانچہ تین سال کے اندر فروری میں مسجد مکمل ہو گئی۔
پھر اپنے نہیں غیروں کے ساتھ بھی ان کے تعلقات تھے۔ لقمان حکیم سیف الدین صاحب سابق وزیر مذہبی امور (یہ احمدی نہیں ہیں) کہتے ہیں کہ مرحوم کو نیشنل سطح پر ایک شخصیت سمجھتا ہوں جو ہمیشہ انسانیت کو مقدم رکھتے تھے۔ آپ کہیں بھی جاتے ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ کس طرح ہم انسانیت کی عزت، باہمی برداشت اور ہر ایک کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ سب باتیں ہم سب کی ذمہ داری ہیں۔ نہ کہ صرف احمدیوں کی بلکہ سب انڈونیشین کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں اور جو بھی نصائح انہوں نے ہمیں کی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ جتنے بھی اختلافات اور فرق ہمارے درمیان ہیں وہ سب آپس میں نفرت پھیلانے اور انسانیت کی عزت کو گرانے کا باعث بنتے ہیں انہیں دور کریں۔
انڈونیشیا میں تیونس کے سفیر زہیری (Zuhairi) صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے امیر صاحب سے یہ بات سیکھی کہ کس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہلِ بیت اور علماء سے محبت کریں اور ان کی اعلیٰ تعلیمات پر عمل کریں۔ اگرچہ احمدیوں پر ظلم کیا گیا، گالیاں دی گئیں۔ انڈونیشیا میں بہت ظلم ہوا اور بڑی ہمت سے انہوں نے وہ جو دَور تھا وہ وہاں گزارا ہے اور بڑے طریقے سے سب احمدیوں کو سنبھالا۔ بہرحال یہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ احمدیوں پر ظلم کیا گیا، گالیاں دی گئیں اور ناانصافی کا سلوک کیا گیا پھر بھی امیر صاحب نے ہمیں یہ سکھایا کہ کسی بھی حالت میں ہمیں اخلاص و وفا کے ساتھ دین، ملک اور انسانیت کی خدمت کرنی چاہیے کیونکہ پوری دنیا کے احمدیوں کا اعتقاد یہ ہے کہ Love for all, Hatred for none۔مَیں گواہی دیتا ہوں کہ امیرصاحب اللہ تعالیٰ کے محبوب، عالم ،سادہ مزاج اور بااخلاق شخصیت تھے۔
پھر نیشنل سطح پر ایک تنظیم کی راہنما نیا (Nia) شریف الدین صاحبہ لکھتی ہیں کہ امیر صاحب کی بات کرنے کا انداز بہت ہی گہرا اثر کرنے والا تھا۔ اگرچہ نرمی اور ادب کے ساتھ بات کرتے تھے۔ پھر بھی اس میں حُبِّ وطن کے جذبات نمایاں تھے۔ گویا ان کی باتوں سے Love for all, Hatred for noneظاہر ہے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ مرحوم اچھے آدمی تھے اور ایسے لیڈر تھے جو ہمیشہ ایمان اور ہرایک سے محبت کے جذبات کے ساتھ بات کرتے تھے۔
معراج الدین شاہد صاحب لکھتے ہیں کہ امیر کی حیثیت سے ان کی قیادت کے دوران جماعتِ احمدیہ انڈونیشیا کو بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور انڈونیشیا میں کئی مقامات پر احمدیوں پر حملے ہوئے۔ انہوں نے بڑی بہادری اور سکون کے ساتھ ان کا سامنا کیا۔ سرکاری افسران بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ یہ ان کے اچھے روابط کی بدولت ہے۔
پرنسپل جامعہ احمدیہ انڈونیشیا معصوم صاحب لکھتے ہیں کہ امیر صاحب خلافت کے فدائی تھے۔ ہمسایہ ہونے کے ناطے اکثر اوقات نماز کے لیے میرے ساتھ مسجد جاتے تھے۔ وہ جب بھی دَورے کے لیے جاتے تو ضرور بتاتے کہ فلاں جماعتوں کے دَورے پر جا رہا ہوں اور مجھے بھی کہا کرتے تھے کہ جایا کرو ۔ جامعہ احمدیہ کا خاص خیال کرتے تھے۔ جامعہ احمدیہ بورڈ ممبر کی حیثیت سے طلبہ کا انٹرویو لیتے وقت ہمیشہ تلقین کرتے تھے کہ آپ لوگوں نے مبلغ بننا ہے اس لیے جماعتوں کے لیے ہر لحاظ سے نمونہ بننے کی کوشش کریں اور کہتے ہیں مجھے بھی ہدایت کرتے تھے اور ہر ایک کے بارہ میں انفرادی طور پر بھی بتاتے تھے کہ فلاں طالبعلم میں یہ کمی ہے۔ اس کو پورا کروانے کی پوری کوشش کریں۔ جامعہ کے طلبہ سے دلچسپی تھی۔
ارشاد ملہی صاحب امریکہ میں مربی سلسلہ ہیں۔ کہتے ہیں مَیں باسط صاحب کاجامعہ میں کلاس فیلو تھا اور روم میٹ بھی تھا۔ مجھے ان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بہت زیرک اور کمال درجہ کے ذہین، خوش مزاج، ملنسار، ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے۔ بیڈ منٹن کے بہت اعلیٰ کھلاڑی تھے۔ ہمیشہ ربوہ میں جیتا کرتے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ انڈونیشیا سے ربوہ جامعہ کے لیے آنےو الے تھے تو انہی دنوں میں انہیں کسی کمپنی کی طرف سے بطور کھلاڑی ایک بہت بڑی آفر ملی تھی جس پر ان کے والد مکرم مولانا عبدالواحد صاحب کو بڑی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں عبدالباسط اس بڑی آفر کی لالچ میں جامعہ جانے کا ارادہ تبدیل نہ کر لے۔ موصوف نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے والد کی یہ پریشانی دیکھی تو والد کو یقین دلایا اور یہ عہد کیا کہ میں کبھی دنیوی فائدے کے لیے دین کو نہیں چھوڑوں گا اور اس طرح بہت بڑے مالی فائدے کی آفر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پوری زندگی موصوف کی شاہد ہے کہ آپ نے دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھا اور اس عہد کو نبھایا۔ خلافت سے بہت پیار کرنے والے تھے۔ فدائی اور جاںنثار وجود تھے۔ طالب علمی کے دَور سے ہی حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بہت قریب تھے۔ کہتے ہیں ہم ان کو چھیڑا کرتے تھے کہ آپ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے بہت چہیتے ہیں۔ اسی طرح ہر خلافت کے دَور میں انہوں نے بہت اخلاص و وفا کا نمونہ دکھایا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان جیسے مبلغین اور کارکنان اللہ تعالیٰ جماعت کو عطا فرماتا رہے۔
میں نے بھی ہمیشہ ان کو جیساکہ میں نے کہا کامل اطاعت کرنے والا اور بڑا بے نفس انسان دیکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ جانے والوں کی کمیاں بھی پوری فرماتا رہے۔ انڈونیشیا کے مربیان و مبلغین کو ان کے نمونے خاص طور پر سامنے رکھنے چاہئیں اور باقی دنیا کے مبلغین کو بھی۔ یہ پرانی باتیں نہیں ہیں۔ آج کل کے زمانے میں یہ لوگ تھے جنہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کیا اور وقف کا حق ادا کیا۔
اگلا ذکر ہے
زینب رمضان صاحبہ کا۔
یوسف عثمان کامبالایہ صاحب مربی سلسلہ تنزانیہ کی اہلیہ تھیں۔ یہ ستر سال کی عمر میں گذشتہ دنوں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ان کے میاں یوسف عثمان کامبالایہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کی اہلیہ بہت نیک ،مخلص اور جماعت کے ہر کام میں شریک ہوتی تھیں۔ ہمسایوں سے بہت اچھے تعلقات رکھتی تھیں۔ غریبوں اور یتیموں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ مربیان کی بہت خدمت اور عزت کرتی تھیں۔ چندوں میں ہمیشہ آگے ہوتی تھیں۔ جہاں بھی ہم رہے جماعتی کام کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہتی تھیں۔ تمام احمدیوں سے بہت اخلاص کے ساتھ پیش آتی تھیں۔ دو اڑھائی سال سے کینسر کی مریضہ تھیں۔ علاج بھی بڑا کرایا۔ بہترین ڈاکٹروں سے بھی علاج بھی کروایا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور گذشتہ دنوں ان کی وفات ہو گئی۔ لکھتے ہیں کہ جنازے میں شمولیت کے لیے ٹبورا اور مختلف علاقوں سے ایک ہزار کے قریب افراد موجود تھے جن میں غیر از جماعت رشتہ داروں نے بھی شرکت کی۔ تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں جو اب شادی شدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر
حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ عبدالقدیر صاحب درویش قادیان
کا ہے۔ گذشتہ ماہ ان کا انتقال ہوا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحومہ صوم و صلوٰة کی پابند، صابرہ شاکرہ، منکسرالمزاج اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔ بچوں کو بھی نماز اور تلاوت قرآن کریم کا پابند بنانے کے لیے محنت کرتی تھیں۔ جب تک صحت نے اجازت دی قادیان کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی رہیں۔ خلافت کے ساتھ بہت محبت اور خلیفۂ وقت کی طرف سے کی گئی ہر تحریک پر لبیک کہتی تھیں۔ درویشی کے دَور کو بڑے صبر اور شکر سے انہوں نے گزارا اور غربت کے باجود کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتیں۔ مرحومہ کا گھر دارالمسیح کے قریب ہونے کی وجہ سے جلسہ سالانہ کے دنوں میں مہمانوں سے بھرا رہتا۔ مہمانوں کانہایت خوش اخلاقی سے استقبال کر کے ان کی بھر پور رنگ میں مہمان نوازی کرتی تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ ان کے بیٹے شیخ ناصر وحید صاحب بطور قائمقام ایڈمنسٹریٹر نور ہسپتال قادیان میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ ان کی تین بیٹیاں ہیں جو باہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر
مکرمہ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ (کیریباس)
کا ہے۔ ان کی زندگی کے حالات بھی عجیب ہیں اور قبول احمدیت کا واقعہ بھی عجیب ہے۔
بڑی مخلص وفا شعار خاتون تھیں۔
ان کا گذشتہ دنوں انتقال ہوا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔تہتر سال ان کی عمر تھی۔ خواجہ فہد صاحب مربی کیریباس کہتے ہیں کہ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ کیریباس جماعت کی پہلی مسلمان اور پہلی احمدی تھیں۔ کسی طرح قرآن مجید کی ایک کاپی دنیا کے اس کونے میں مل گئی۔ ایک ایسی جگہ جہاں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی مشکل سے نظر آتی تھیں۔ جب آپ کو قرآن مجید کا یہ نسخہ ملا تو خود پڑھنا شروع کر دیا۔ ترجمہ ساتھ ہوگا۔ اس کو پڑھنے کے بعد محترمہ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ پر قرآن مجید کا اتنا اثر ہوا کہ خود ہی دل میں ایمان لے آئیں اور اسی وقت سے پردہ شروع کر دیا۔ جب جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ سلسلہ حافظ جبرئیل سعید صاحب مرحوم کیریباس تشریف لائے تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں اس ملک میں کوئی مسلمان ہے تو سب نے محترمہ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ کی طرف اشارہ کیا کہ اس پورے ملک میں صرف ایک ہی ہے جو مسلمان ہے۔ خدا کا کیسا فضل ہے کہ محترمہ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ نے جب دل میں اسلام قبول کیا تو سال کے اندر اندر ہی حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر مبلغ سلسلہ وہاں پہنچ گئے۔ اس بہادر نوجوان عورت نے مبلغ کے پہنچنے سے پہلے ہی اس وقت اپنے خاندان اور دوستوں میں اسلام کی تبلیغ بھی شروع کر دی تھی اور اس وجہ سے اس چھوٹے سے ملک میں جس میں ایک لاکھ کی آبادی تھی مشہور ہو گیا کہ ایک عورت مسلمان ہو گئی ہے۔ اس لیے جب مبلغ سلسلہ حافظ جبرئیل سعید مرحوم کیریباس کے ملک میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی انہیں ایک سلطان نصیر عطا فرما دیا تھا جو جماعت کے لیے تیار ہوا ہوا تھا۔
ایک واحد مسلمان ہونے، پردہ کرنے اور لوگوں کو تبلیغ کرنے کی وجہ سے مشہور تھیں۔ جب پہلے مبلغ سلسلہ جبرئیل صاحب کیریباس آئے تو محترمہ میلے انیسا نے بیعت کر لی اور جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئیں۔ آپ نے مبلغ سلسلہ کے رہنے کا انتظام کیا،سہولیات کا انتظام کیا، پھر تبلیغ میں لگ گئیں۔ کئی لوگ آپ کی تبلیغ کے باعث جماعت میں داخل ہوئے۔ آپ کو جماعت سے بہت محبت تھی۔ مربیان کرام کی بہت عزت کرتی تھیں۔ لوگوں کی سخت مخالفت کے باوجود آپ کا ایمان کبھی کمزور نہیں ہوا۔ جہاں بھی جاتیں پردہ کر کے جاتیں اور ان کا مسلمان لباس بھی تبلیغ کا ذریعہ بن گیا۔ باوجود اس کے کہ لوگ آپ کا مذاق اڑاتے، بعض دفعہ گالیاں بھی دیتے تھے، بحث بھی کرتے، تنگ بھی کرتے۔ آپ نے کبھی بھی اپنے ایمان اور پردے کو گرنے نہیں دیا اور ایک عمدہ مثال چھوڑ دی کہ پردہ خدا کے لیے ہے تو پھر لوگوں کی مَیں کیوں فکر کروں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ شروع شروع میں جب آپ نے اپنے دل میں اسلام کوقبول کیا تو نماز پڑھنا نہیں جانتی تھیں تو سجدے کے بغیر اپنے طور پر عبادت شروع کر دی۔ جب ان کے والد نے انہیں نئے طریقے سے عبادت کرتے دیکھا تو شدید غصہ کا اظہار کیا اور قرآن مجید کو پھاڑنے کی دھمکی دی۔ انہوں نے جواب میں اپنے باپ کو کہا کہ پھر بائبل کے بھی وہ صفحات پھاڑ دینے چاہئیں جس میں حضرت عیسیٰ کے خدا کے آگے سجدہ کا ذکر ہے۔ وہ اپنے عقیدے پر بہت بہادری سے قائم رہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مبلغ سلسلہ کے آنے کی وجہ سے آپ نے خود بھی نماز سیکھی اور پھر لوگوں کو سکھائی۔ دنیا کے اس کونے میںجب سارے کے سارے لوگ اسلام کو بری نظر سے دیکھتے تھے اس وقت یہ مجاہدہ کھڑی ہو کر سب کا مقابلہ کرتی اور اسلام کی تعلیمات بغیر کسی ڈر کے پیش کرتی تھیں۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے آپ کسی سے نہیں ڈرتی تھیں۔ اس خوبی کی وجہ سے کافی لوگ اور کافی سیاستدانوں پر بھی آپ کا بہت رعب تھا اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ آپ کے اس رعب اور ایمان پر مضبوطی کی وجہ سے سیاستدانوں پر ایک دباؤ ایسا پڑا اور ان پر ایسا اثر ہوا کہ جماعت کی رجسٹریشن میں بھی انہوں نے تعاون کیا جو اس سے پہلے مخالفت کی وجہ سے منظور نہیں ہو رہی تھی۔ بہت سارے لوگ ایسے بھی تھے جو ان کو جانتے تھے اور ان کا رعب بھی ایسا تھا کہ وہ ان کی موجودگی میں اسلام کے خلاف کوئی منفی بات نہیں کر سکتے تھے۔
آپ اپنا گھر ہمیشہ کھلا رکھتیں کہ لوگ آئیں اور جو بھی سوال کرنا چاہیں وہ کریں۔ اپنے گھر میں سب کو نماز کی باقاعدگی کی تلقین کرتی تھیں۔ بہت عرصہ کے لیے اپنا گھر نماز سینٹر بھی بنایا ہوا تھا۔ ان کا بیٹا احمد ایپسائی جب جوانی کی عمر کو پہنچا تو آپ نے اس کو جماعت کے لیے وقف کر کے جامعہ احمدیہ گھانا بھجوا دیا۔ لوگوں نے آپ کو بہت روکنا چاہا کہ کیوں تُو اپنے بیٹے کو ادھر بھیج رہی ہے۔ وہ تیرے بیٹے کو ادھر مار دیں گے لیکن آپ نے فخر سے اپنے بیٹے کو بھیجا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی کہ افریقہ جا کے احمد اپیسائی ملیریا کی وجہ سے بیمار ہوا اور وہاں وفات پا گیا۔ اس وقت یہی لوگ آئے اور کہا کہ دیکھو! اسلام جھوٹا ہے اس لیے تیرا بیٹا فوت ہو گیا ہے لیکن میلے انیسا ایپسائی صاحبہ نے اس کی کوئی پروا نہیں کی ،کوئی توجہ نہیں دی اور اسلام پر مضبوطی سے قائم رہیں اور اسلام کی خاطر پہلے سے بھی بڑھ کے زورو شور سے کام کرنے لگیں۔ نہ ان کے ایمان پر کوئی فرق آیا اور نہ ہی ان کے پردے پر۔ آپ کے دوسرے بچے بھی اسلام پر ثابت قدم رہے۔ تبلیغ بھی جاری رہی۔
آپ نے اپنے پیچھے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر عطا فرمائے اور اپنی ماں کی طرح اسلام اور احمدیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ ان کے وہاں لگائے ہوئے بیج میں برکت ڈالے اور ان کی خواہش کے مطابق یہ چھوٹا سا جزیرہ احمدیت کی آغوش میں آ جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسی نڈر اور اپنا نمونہ قائم کرنے والی اور تبلیغ کا جوش رکھنے والی اور اپنے ایمان پر قائم رہنے والی خواتین اَور بھی جماعت کو عطا فرماتا رہے، ایسی مائیں اَور بھی عطا فرماتا رہے جنہوں نے مبلغین سے بڑھ کر تبلیغ کا حق ادا کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے۔
٭…٭…٭