نظامِ شوریٰ (قسط نمبر5)
سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں
ہر نمائندہ شوریٰ اپنے علاقے میں ذمہ دار ہے کہ اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کرے
’’نمائندگان یہ بھی یاد رکھیں کہ جب مجلس شوریٰ کسی رائے پر پہنچ جاتی ہے اور خلیفۂ وقت سے منظوری حاصل کرنے کے بعد اس فیصلے کو جماعتوں میں عملدر آمد کرنے کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے۔ تو یہ نمائندگان کا بھی فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں اور اس پر نظر رکھیں کہ اس فیصلے پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا اور اس طریق کے مطابق ہو رہا ہے جوطریق وضع کرکے خلیفۂ وقت سے اس کی منظوری حاصل کی گئی تھی۔ یا بعض جماعتوں میں جا کر بعض فیصلے عہدیداران کی سستیوں یا مصلحتوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اگر تو ایسی صورت ہے تو ہر نمائندہ شوریٰ اپنے علاقے میں ذمہ دار ہے کہ اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کرے اپنے عہدیداران کو توجہ دلائے، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ان کے معاون کی حیثیت سے کام کرے۔ ایک کافی بڑی تعداد عہدیداران کی نمائندہ شوریٰ بھی ہوتی ہے۔ وہ اگر کسی فیصلے پر عمل ہوتا نہیں دیکھتے تو اپنی عاملہ میں اس معاملے کو پیش کرکے اس پر توجہ دلائیں۔ نمائندگان شوریٰ چاہے وہ انتظامی عہدیدار ہیں یا عہدیدار نہیں ہیں اگر اس سوچ کے ساتھ کئے گئے فیصلوں کی نگرانی نہیں کرتے اور وقتاً فوقتاً مجلس عاملہ میں نتائج کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ نہیں لیتے تو ایسے نمائندگان اپنا حق امانت ادا نہیں کر رہے ہوتے…پس اس اعزاز کو کسی تفاخر کا ذریعہ نہ سمجھیں۔ بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر باوجود توجہ دلانے کے پھر بھی مجلس عاملہ یا عہدیداران توجہ نہیں د یتے اور اپنے دوسرے پر وگراموں کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اور شوریٰ کے فیصلوں کو درازوں میں بند کیا ہوا ہے، فائلوں میں رکھا ہوا ہے تو پھر نمائندگان شوریٰ کا یہ کام ہے کہ مجھے اطلاع دیں۔ اگر مجھے اطلاع نہیں دیتے تو پھر بھی امانت کا حق ادا کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ اس وجہ سے مجرم بھی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24مارچ2006ء،خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ161)
اگر گزشتہ فیصلوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے تو شوریٰ میں مخصوص وقت ہونا چاہیےتاکہ اپنا جائزہ لیا جائے
’’ملکی انتظامیہ کی طرف سے یا انجمنوں کی طرف سے اس بنا پر کہ تھوڑا عرصہ پہلے کوئی تجویز پیش ہو چکی ہے، پیش نہ کئے جانے کی سفارش آتی ہے۔ ٹھیک ہے شوریٰ میں پیش تو نہ ہو لیکن اپنے جائزے اور محاسبہ کے لئے کچھ وقت ان تجاویز کی جگالی کے لئے ضروری ہے۔یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ عملدرآمد نہیں ہوا۔ اگر تو 70-80 فیصد جماعتوں میں عمل ہو رہا ہے اور 20-30فیصد جماعتوں میں نہیں ہو رہا تو پھر تو جائزے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر70-80فیصد جماعتوں میں گزشتہ فیصلوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے تو لمحہ فکریہ ہے۔ اس طرح تو اعلیٰ مقاصد حاصل نہیں کئے جاتے۔ تو مَیں سمجھتا ہوں کہ شوریٰ میں اس کے لئے بھی مخصوص وقت ہونا چاہئے تاکہ دیکھا جائے اپنا جائزہ لیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کج بحثی ناپسندیدہ فعل ہے لیکن بحث سے بچنے کے لئے، اپنے جائزے لینے کے لئے، آنکھیں بند کر لینا بھی اس سے زیادہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس جائزہ میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جن جماعتوں نے خاص کوشش کی ہے زیادہ اچھا کام کیا ہے ان کا طریقہ کار کیا تھا۔ انہوں نے کس طرح اس پر عملدرآمد کروایا۔ اس طرح پھر جب ڈسکشن(Discussion) ہو گی تو پھر دوسری جماعتوں کو بھی اپنی کارکردگی بہتر کرنے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے اس کارروائی یا بحث میں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی ذات پر تبصرے شروع ہو جاتے ہیں۔ کسی کی ذات پر تبصرہ نہیں کرنا بلکہ صرف شعبے کا جائزہ ہو۔ اس فیصلے پر جس پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا، اس کا جائزہ لیا جائے کہ کہاں کمیاں ہیں اور کیوں کمیاں ہیں۔ بہرحال ہمیں کوئی ایسا طریق وضع کرنا ہو گا جس سے قدم آگے بڑھنے والے ہوں۔ یہ نہیں ہے کہ ایک فیصلہ کیا اور تین سال اس پر عمل نہ کیا یا اتنا کم عمل کیا کہ نہ ہونے کے برابر ہو، اکثر جماعتوں نے سستی دکھائی اور پھر تین سال کے بعد وہی معاملہ دوبارہ اس میں پیش کر دیا کہ شوریٰ اس کے لئے لائحہ عمل تجویز کرے۔ تو یہ تو ایک قدم آگے بڑھانے اور تین قدم پیچھے چلنے والی بات ہو گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24مارچ2006ء،خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ163،162)
نمائندگانِ شوریٰ کا معیار ہر لحاظ سے بہت اونچا ہونا چاہیے
’’شوریٰ کے نمائندگان اور عہدیداران کو چاہے وہ مقامی جماعتوں کے ہوں یا مرکزی انجمنوں کے ہوں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت کی نظر میں آپ جماعت کا ایک بہترین حصہ ہیں جن کے سپرد جماعت کی خدمت کا کام کیا گیا ہے۔ اور آپ لوگوں سے یہ امید اور توقع کی جاتی ہے کہ آپ کا معیار ہر لحاظ سے بہت اونچا ہو گا اور ہونا چاہیے۔ چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو، عبادت کرنے کی طرف توجہ دینے کے بارے میں ہو، یا بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو یا خلیفۂ وقت سے تعلق اور اطاعت کے بار ے میں ہو۔اس لیے نمائندگان اور عہدیداران کواس لحاظ سے بھی اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیےکہ وہ کس حد تک اپنی عبادتوں کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں….
ایک عام احمدی کے لئے جب نمازوں کی ادائیگی فرض ہے تو عہدیدار جو ہر لحاظ سے افراد جماعت کے لئے نمونہ ہونا چاہئیں ان کے لئے تو خا ص طور پر اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی کوئی نماز بغیر جماعت کے نہ ہو سوائے کسی اشد مجبوری کے۔پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ جو دو تین دن شوریٰ کے لئے آتے ہیں اور آئے ہیں، ان میں صرف یہی نہیں کہ ان دنوں میں ہی یہیں نمازیں پڑھنی ہیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ ہر نمائندے کو، ہر عہدیدار کو، باقاعدہ نماز باجماعت کا عادی ہونا چاہئے۔ خود اپنے جائزے لیں، اپنا محاسبہ کریں، دین کی سر بلندی کی خاطر آپ کے سپرد بعض ذمہ داریاں کی گئی ہیں۔ اگران میں دین کے بنیادی ستون کی طرف ہی توجہ نہیں ہے تو خدمت کیا کریں گے اور مشورے کیا دیں گے۔ جو دل عبادتوں سے خالی ہیں ان کے مشورے بھی تقویٰ کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24مارچ2006ء،خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ164،163)
نمائندگانِ شوریٰ اور حقوق العباد
’’پھر بندوں کے حقوق ہیں۔ نمائندگان اور عہدیداران کو اپنے دلوں کو ہر قسم کی برائیوں اور رنجشوں سے پاک کرنا ہو گا، لین دین کے معاملے میں بھی ان کے ہاتھ بالکل صاف ہونے چاہئیں۔ ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بھی ان کے ہاتھ بالکل صاف ہونے چاہئیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمسائے سے حسن سلوک کا خداتعالیٰ کا حکم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تواس کی یہاں تک تاکید فرمائی ہے کہ صحابہ کو خیال ہوا کہ شاید یہ ہمارے ورثہ میں حصہ دار بننے والے ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب الوصاۃبالجار حدیث 6015)تو جب اتنی تاکید ہے ہمسائے سے حسن سلوک کی تو یہ کس طرح برداشت کیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جن کے سپرد جماعتی ذمہ داریاں کی گئی ہیں وہ اپنے ہمسایوں کے لئے دکھ کا باعث ہوں اور ہمسائے ان کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہوں…جب ایک ذمہ دار جماعت کی خدمت کرنے والے سے کسی کو دکھ پہنچتا ہے یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ایک عام احمدی کو بعض اوقات دین سے دور لے جانے والی بھی بن جاتی ہے وہ اس کی ٹھوکر کا باعث بن رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سارے بنیادی اخلاق ہیں جو جماعتی خدمت گاروں کے لئے چاہے وہ نمائندگان شوریٰ ہوں یا عہدیدار ہوں یا واقفین زندگی ہوں، سب کو ان کے اعلیٰ نمونے دکھانے کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24مارچ2006ء،خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ164)
(جاری ہے )