مولانا غلام یسین ابو نصر آہ (نمبر22)
(2؍مئی 1905ء)
میرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت فوری ہو تا ہے آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے طبیعت منکسر مگر حکومت خیز،مزاج ٹھنڈ امگر دلوں کو گرما دینے والا، بردباری کی شان نے انکساری کی کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے
مولانا غلام یسین مولانا ابوالکلام آزاد(آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم )کے بڑے بھائی تھے۔ مولانا غلام یسین نے لمبی عمر نہ پائی اوراپنے سفرعراق کے دوران بیمار ہوئے اور ہندوستان واپس پہنچ کر1907ء میں فوت ہوگئے۔ملتا ہے کہ مولانا غلام یسین کا بھی اپنے والد مولانا خیرالدین کی طرح پیری مریدی سے واسطہ تھا اور وہ بمبئی کے مشہور،’’ وائی ایم ایس‘‘ کے پریچنگ ہال میں ہر ہفتے جاتے اور غیر مسلموں سے نہایت سرگرم مباحثے کرتے تھے۔ ان مباحثات میں وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر سے استفادہ کرتے تھے، اور ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ قادیان جاکر کسی وقت حضور علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کریں۔ 2؍مئی 1905ء کو ایک خواب کی بنا پر آپ نے قادیان کا یہ سفر اختیار فرمایا۔ تب آپ بمبئی سے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں شرکت کےلیے لاہورآئے ہوئے تھےجہاں سے فارغ ہوکر قادیان پہنچے۔ آپ دوپہر کے وقت نہایت عقیدت سے حضور ؑکے پاس باغ میں حاضر ہوئے جہاں آپ ؑکانگڑہ کے زلزلہ کے بعد مع اہل خانہ و خدام مقیم تھے۔اس موقع پر حضرت اقدسؑ ان کاحال دریافت فرماتے رہے اور اس کے بعدان کو قیمتی نصائح سے نوازا۔
واپس جاکراس معزز مہمان نے امرتسر کے اخبار’’وکیل‘‘ میں درج ذیل تاثرات شائع کیے۔ جو تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 390اور 391 سے لےکر یہاں لکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے لکھا:’’میں نے اَور کیا دیکھا؟ قادیان دیکھا۔ مرزا صاحب سے ملاقات کی۔ مہمان رہا۔ مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے اور میں شور غذا ئیں نہیں کھا سکتا تھا مرزا صاحب نے ( جب کہ دفعتاًگھر سے باہر تشریف لے آئے) دودھ اور پاؤ روٹی تجویز فرمائی۔ آج کل مرزا صاحب قادیان سے با ہر ایک وسیع اور مناسب باغ میں (جو خود انہیں کی ملکیت ہے) قیام پذیر ہیں۔ بزرگان ملت بھی وہیں ہیں۔
قادیان کی آبادی تقریباً ۳ ہزار آدمیوں کی ہے مگر رونق اور چہل پہل بہت ہے۔ نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی شاندار اور بلند عمارت تمام بستی میں صرف ایک ہی عمارت ہے۔ راستے کچے اور ناہموار ہیں بالخصوص وہ سڑک جو بٹالہ سے قادیان آئی ہے اپنی نوعیت میں سب پر فوق لے گئی ہے۔ آتے ہوئے مجھے یکہ میں جس قدر تکلیف ہوئی تھی نواب صاحب کے رتھ نے لوٹتے وقت نصف کی تخفیف کر دی۔ اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہو تا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتا۔ اکرام الضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سلوک کیا۔ اور مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب جن کے اسم گرامی سے تمام انڈیا واقف ہے۔ اور مولانا عبد الکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھوم ہے۔ مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر جن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں۔ جناب میر ناصر نواب صاحب دہلوی مرزا صاحب کے خسر ہیں۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے ایل ایل بی ایڈیٹر ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ مولوی یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم۔ جناب شاہ سراج الحق صاحب و غیره و غیرہ پرلے درجہ کی شفقت اور نہایت محبت سے پیش آئے۔ افسوس مجھے اور اشخاص کا نام یاد نہیں ورنہ میں ان کی مہربانیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا۔ میرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت فوری ہو تا ہے۔ آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے۔ طبیعت منکسر مگر حکومت خیز۔ مزاج ٹھنڈ امگر دلوں کو گرما دینے والا۔ بردباری کی شان نے انکساری کی کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہو تا ہے کہ گویا متبسم ہیں۔ رنگ گورا ہے۔ بالوں کو حنا کا رنگ دیتے ہیں ۔جسم مضبوط اورمحنتی ہے۔ سر پر پنجابی وضع کی سپید پگڑی باندھتے ہیں۔ سیاہ یا خاکی لمبا کوٹ زیب تن فرماتے ہیں۔پاؤں میں جراب اور دیسی جوتی ہوتی ہے۔ عمر تقریباً 66سال کی ہے۔ مرزا صاحب کے مریدوں میں میں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں بہت خوش اعتقاد پایا۔ میری موجودگی میں بہت سے معزز مہمان آئے ہوئے تھے جن کی ارادت بڑے پایہ کی تھی اور بے حد عقیدت مند تھے۔ مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقعہ دیا ہم آپ کو اس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ ’’آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں۔‘‘ (اس وقت کا تبسم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے ) میں جس شوق کو لے کر گیا تھا ساتھ لایا۔ اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے۔ واقعی قادیان نے اس جملہ کو اچھی طرح سمجھا ہے کہ’’حَسِّنْ خُلْقَكَ وَلَوْ مَعَ الْكُفَّارِ‘‘۔ میں نے اَور کیادیکھا؟ مگر قلمبند کرنے کا موقع نہیں۔ سٹیشن پر جانے کاوقت سر پر آچلا ہے۔ پھرکبھی بتاؤں گا کہ میں نے کیا دیکھا۔ راقم۔‘‘