امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ بیلجیم کی (آن لائن) ملاقات
٭…یہ بھی ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی نمازوں کی بھی نگرانی کریں چاہے وہ لڑکے ہیں یا لڑکیاں ہیں
٭…عہدے داروں کو اپنا دینی علم بھی بڑھانا چاہیے
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ۶؍نومبر ۲۰۲۲ء کو نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ بیلجیم کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ لجنہ اماء اللہ بیلجیم نے مسجد بیت المجیب،برسلزسے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز اجتماعی دعا سے ہوا۔ ممبرات نیشنل عاملہ کو حضور انور کی خدمت میں اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرنے اور متفرق امور کی بابت حضور انور سے راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔
سیکرٹری صاحبہ تبلیغ کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا ٹارگٹ۳۴۰سے کم نہیں ہونا چاہیے۔اگر آپ ہر عاملہ ممبر کو ایک بیعت کا ٹارگٹ دیں تو آپ کاکم از کم آدھا ٹارگٹ تو حاصل ہو جائےگا۔
سیکرٹری صاحبہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ امسال ہماری کوشش ہے کہ ہم یونیورسٹیز میں نمائشوں اور لیکچرز کے ذریعہ تبلیغ کریں۔نیز ہم بیعتوںکے ٹارگٹ کے حصول کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے رہی ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ عام طور پر پڑھے لکھے لوگ مذہب سے لا تعلق ہوتے ہیں۔وہ مذہب میں دلچسپی نہیں لیتے۔گو کہ وہ آپ سے بہت سی چیزوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ انہیں مذہب سے بہت دلچسپی ہے مگرحقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔چنانچہ آپ کو رابطے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اورعام عوام کی طرف توجہ دینی چاہیے۔عربوں میں سے اور لوکل بیلجینز میں سے لوگوں کو تلاش کریں۔اسی طرح ایشینز میں سے جویہاں ہجرت کر کے آئے ہیں۔مختلف اقوام پر توجہ دینے کی کوشش کریں۔مختلف گروپس کے لیے اپنی ٹیمیں بنائیں۔عربوں کے لیے ایک ٹیم ہو، ایشینز کے لیے علیحدہ ٹیم ہو اور لوکل لوگوں کے لیے علیحدہ ٹیم ہو۔اس طرح آپ اپنا ٹارگٹ حاصل کرسکتی ہیں۔ یا آپ کم از کم پیغام کو پھیلا سکتی ہیں۔
سیکرٹری صاحبہ تربیت سے تربیت کے حوالے سے لائحہ عمل دریافت کر کے ان کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ بچوں کو نمازیں پڑھانے کی تربیت کا بھی پروگرام بنائیں۔ یہ بھی ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی نمازوں کی بھی نگرانی کریں چاہے وہ لڑکے ہیں یا لڑکیاں ہیں۔یہ بھی پروگرام میں شامل کریں۔
بچوں سے دینی باتیں بھی کیا کریں تا کہ ان کو دین کا پتا لگے۔ماؤں سے کہیں گھروں میں بچوں کے ساتھ ڈسکشن (Discussion)کیا کریں۔ باپ اگر نہیں کرتے تو کم از کم مائیں تو کریں۔شاید اس بہانےباپوں کو بھی شرم آ جائے۔
سیکرٹر ی صاحبہ تربیت نے حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ اس سال پردہ اور شادی بیاہ کے موقع پر بدرسومات کے حوالے سے ٹاسک شامل کیے گئے ہیں نیز اس سال شوریٰ کی تجاویز میں ماؤں کو تربیتِ اولاد کے حوالے سے در پیش مسائل سےآگاہ کرنا شامل ہے۔دونوں امور کے متعلق انہوں نے حضورانور سےراہنمائی کی درخواست کی کہ اس کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پہلے ایک لسٹ بنا لیںکہ کس قسم کے مسائل ہیں۔مختلف حوالوں سے، مختلف خطبوں سے، مختلف تقریروں سے،مختلف اقتباسات سے، حدیثوں سے، قرآن سے،تقریباً سارے مسائل بیان ہو چکے ہیں۔وہ لے کے اس کا جواب دیں۔ماؤں کو پتا ہونا چاہیے کہ کس طرح انہوں نے بچوں کو جواب دینے ہیں۔
ایک تو یہ کہ ماؤں اور بچوں کی، اور باپوں اور بچوں کی آپس میں دوستی ہونی چاہیے تا کہ ایک دوسرے سے اپنے مسائل شیئر کریں۔ جب تک یہ شیئر کرنے کی عادت نہیں آئے گی اور interaction نہیں ہو گا اس وقت تک مشکل ہو گا۔
پہلے بچوں سے پوچھیں کہ کیا کیا مسائل ہیں؟ پھر ان کے جواب تیار کریں۔ ماؤں سے بعد میں پوچھیں۔پہلے لڑکیوں سے، ناصرات سے، لڑکوں سے، پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکوں سے پوچھیں۔ پھر خدام الاحمدیہ کے تعاون سے پندرہ سال سے اوپر کے لڑکوں سے پوچھیں۔
سیکرٹری نو مبائعات نے ذکر کیا کہ وہ لجنات جنہوں نے حال ہی میں احمدیت قبول کی اور وہ غیر پاکستانی ہیں وہ ان میٹنگز میں شامل نہیں ہوتیں جن کا اکثر حصہ اردو زبان میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حضور انور سےپوچھا کہ ان کو کس طرح ترغیب دلائی جا سکتی ہے کہ وہ ان پروگرامز میں شامل ہوا کریں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب آپ اپنی میٹنگ کا انعقاد کر رہی ہیںتو ایک جنرل میٹنگ ہونی چاہیے جس کے متعلق میں نے لجنہ کو بتایا ہے کہ ان کو ایسا پروگرام بنانا چاہیے جس میںآدھا پروگرام اردو زبان میں ہو اور بقیہ آدھا مقامی زبان میں ہو۔ یا اگر لجنہ کی ممبرات میں سے آدھی سے زیادہ ایسی خواتین ہوں جنہیں اردو نہ آتی ہو تو ستّر فیصد مقامی زبان میں ہو اور تیس فیصد اردو میں ہو۔اس کے علاوہ آپ کو نومبائعات کے ساتھ علیحدہ میٹنگ بھی رکھنی چاہیے تاکہ آپ ان کی تربیت کر سکیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ نومبائعات کے ساتھ ذاتی رابطہ ہونا چاہیے۔اسی طرح مواخات کا پلان بنائیں جس میں ہر نو مبائعہ کو ایک پیدائشی احمدی لجنہ ممبر کے سپرد کر دیں۔ یہ خیال رکھیں کہ جس پیدائشی احمدی کے سپرد کر رہی ہیں اس کا دینی علم بھی اچھا ہو۔
مجلس عاملہ کی ایک ممبر نے حضور انور سے پوچھا کہ جب بچی بارہ سال کی ہوتی ہے توعموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کی جماعتی کاموں میں دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کم اس لیے ہو جاتی ہے کہ ماؤں کی دلچسپی کم ہے۔یہ بھی میں کہہ چکا ہوں کہ مائیں اپنی بچیوں کو دوست بنائیں اور ان سے باتیں کیا کریں۔اسی طرح آپ لوگ ایسے پروگرام رکھیں جو ان کی دلچسپی کے ہوں۔ قرآن حدیث تو بےشک پڑھائیں لیکن ان سے پوچھیں کہ اجلاسات میں تم لوگ آتے ہو تم لوگ بتاؤ کہ تمہارے دلچسپی کے کیا پروگرام ہیں جو ہم کریں جس میں تم لوگ انٹرسٹ(Interest) لو گے اور آیا کرو گے۔اسی کو دینی پروگرام میں تبدیل کر کے یا اس میں شامل کر کے اس کو تربیتی اور دینی پروگرام بنایا جا سکتا ہے۔
جیسا میں نے سیکرٹری تربیت کو کہا تھاماؤں کو بھی تیز کریں۔مائیں اگر صحیح رول (Role)ادا کر رہی ہیں تو لڑکیاں پھر ایکٹو (Active)رہیں گی۔مائیں پوچھتی کوئی نہیں کیونکہ ان کو اپنے گھروں سے فرصت نہیں ملتی اور بچیوں کو کوئی پوچھتا نہیں۔ وہ سکول جاتی ہیں،واپس آجاتی ہیں۔دنیا کے ماحول میں پڑ رہی ہیں۔دنیا کے ماحول میں پڑنے سے تو کچھ نہیں ہو گا۔آپ لوگوں کو زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔لجنہ کو بھی اور ماؤں کو بھی۔
سیکرٹری تحریک جدید ووقف جدید کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ جماعت بیلجیم کی کُل وصولی میں سے تیسرا حصہ لجنہ اماء اللہ بیلجیم کا ہونا چاہیے۔
صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیاکہ لجنہ اماء اللہ کی تربیتی کلاسز کے لیے کس حد تک مربیان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مربیان لجنہ اماء اللہ کو سکرین کے پیچھے سے پڑھا سکتے ہیں لیکن آمنے سامنے نہیں۔
ایک لجنہ ممبرنے عرض کیا کہ لجنات تحریک وقف عارضی میں کس طرح شامل ہو سکتی ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جس طرح اپنے کاموں کے لیے سارا دن باہر پھر سکتی ہیں اسی طرح جا کےوقف عارضی کر لیا کریں۔ اگر شہر سے باہر نہیں جانا تو شہر میں ہی لٹریچر تقسیم کرتی رہیں۔ اپنی بیٹیوں ،بیٹوں یا کسی چھوٹے کو ساتھ لے گئے۔ پمفلٹ تقسیم کیا۔ لٹریچر تقسیم کیا۔ بروشر تقسیم کیا۔ اسلام کے بارے میں بتایا کہ میں پردے میں ہوں لیکن پردے کا مطلب کیا ہے۔ میں آزاد ہوں۔حالات کے مطابق کریں کہیں ایسی جگہ نہ چلی جائیں جہاں مار پڑنے لگ جائے۔
اسی طرح ذاتی رابطے رکھیں۔اپنے تعلقات وسیع کریں۔ تعلقات بڑھائیں۔ان کو تبلیغ کریں۔ اسی طرح وقف عارضی میں قرآن شریف پڑھانا ،تربیت کی باتیں بتانے کے لیے اپنے آپ کو اپنے حلقے میں پیش کر سکتی ہیں۔بتائیں کہ میں دو ہفتے دے رہی ہوں تو میں قرآن شریف بھی پڑھا سکتی ہوں اور باقی تربیتی کام بھی کر سکتی ہوں۔پھر صدر لجنہ اور جو بھی وقف عارضی کی انچارج ہے وہ آپ کو بتا دے گی کہاں جاکرکیا پڑھانا ہے۔اب تو آن لائن بھی پڑھایا جا سکتا ہے۔بہت سارے ذریعے ہیں کام کرنے کے۔ وقف عارضی میںتبلیغ کا بھی کام کیا جا سکتا ہے، تربیت کا بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ مرد جس طرح کرتے ہیں اس طرح ہی عورتیں کریں۔ عورتوں مردوں میںفرق کیا ہے؟مرد بھی کرتے ہیں۔ مرد سے پوچھیں وہ کس طرح کرتے ہیں۔ جس طرح مرد کرتے ہیں اسی طرح عورتیں کر لیں۔ ایک طرف تو ویمن رائٹس (Women’s Right)کہتی ہیں کہ عورتیں مردوں کے برابر ہیںتو پھر مردوں والےکام بھی کریں۔پھرڈرتی کیوں ہیں۔
ایک خاتون نے سوال کیا کہ ہم سٹوڈنٹ لجنہ تبلیغ احسن رنگ میں کیسے کر سکتی ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایااسی طرح جس طرح میں نے ابھی ان کوبتایا ہے کہ لٹریچر دیں،اپنے فیلو سٹوڈنٹس سےتعلقات بڑھائیں۔ ان کو یونیورسٹی میں بتائیں کہ میں احمدی ہوں۔اگر آپ کے اچھے اخلاق ہوں گے۔morallyآپ دوسروں سے بہتر ہوں گی۔ یونیورسٹی میں نماز کا وقت ہو گا توآپ نماز پڑھ رہی ہو گی ،اَور لڑکیاں آپ کو دیکھ کر سمجھیں گی کہ یہ دوسری لڑکیوں سے تھوڑی سی differentہے تو خود تعلق بھی رکھیں گی۔ اس طرح تعلق بڑھیں گے۔ اسی میں تبلیغ کریں۔
پھر وہاں یونیورسٹیوں میں اگر ممکن ہو تو سیمینار بھی منعقد کریں۔ بعض دفعہ تو دنیاوی ٹاپک (Topic)پہ سیمینار ہوتے ہیں بعض دفعہ کسی دینی ٹاپک پہ سیمینار ہو جائے۔Islam and extremism پہ سیمینار کر لیں یا اس طرح کوئی اور topicsلے کے کریں۔ تو اس سے پھر آہستہ آہستہ پتا لگ جائے گا کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ تبلیغ کے بھی رستے کھلیں گے اور آپ کے تعلقات بھی وسیع ہوں گے۔ پہلے تو یہ کہ اپنا دینی علم بڑھائیں۔ دعاؤں کی طرف توجہ کریں۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں کہ اللہ تعالیٰ مدد کرے کہ آپ کو مضبوط اور staunch احمدی بنائے۔ اس کے بعد پھر نمازوں میں،دعاؤں کے ساتھ قرآن شریف کا بھی علم حاصل کریں۔ترجمہ پڑھیں۔جماعتی لٹریچر پڑھیں۔پھر اپنے اچھے اخلاق پیدا کریں۔پھر سٹوڈنٹس میںاپنے تعلقات وسیع کریں۔پھرOne to oneتعلقات ہیں،ذاتی دوستی کے رابطے ہیں، اس میں بھی بڑھیں۔اس میں بھی تبلیغ ہو سکتی ہے۔پھر سیمینارکے ذریعہ تبلیغ ہو سکتی ہے۔پھر جو بہت قریبی دوست ہو جاتی ہیں انہیںاپنے لجنہ کے کسی فنکشن میں لے کرآئیں۔تو اس طرح پھرآہستہ آہستہ تعلقات وسیع ہوتے ہیں۔
ایک لجنہ ممبرنے امسال لجنہ کی جوبلی کے حوالے سے بتایا کہ وہ جوبلی کی مناسبت سے اپنے رسالہ ’’النصرت‘‘کا سپیشل ایڈیشن شائع کر رہی ہیں جس کے لیے وہ لجنہ کی تاریخ پرریسرچ بھی کر رہی ہیں۔اسی تسلسل میں انہوں نے حضور انور سے درخواست کی کہ اگر حضور کی کوئی ذاتی یادیں ہوں یا کوئی واقعہ ہو جو حضور کو اپنی والدہ محترمہ کے حوالے سے یاد ہو یاپھر حضور کی والدہ محترمہ نے کبھی بتایا ہو کہ کس طرح انہوں نے لجنہ کی تنظیم کے آغاز میں صدر کے طور پر کام کیا تھا؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میں نے تو ان لوگوں کو کام کرتے دیکھا ہے واقعات تو مجھے کوئی یاد نہیں۔ہاں اجلاسوں میں جاتے،کام کرتے ،وقت دیتے دیکھا ہے۔صبح ہمارے گھر میں ہماری والدہ کے پاس دو گھنٹے لجنہ کاکام کرنے کے لیے عورتیںآ جاتی تھیں جب آپ ربوہ کی صدر ہوتی تھیں۔اور شام کو مختلف دنوں میں ہفتہ میں دو تین دن وہ مختلف جگہوں پہ محلوں میںاجلاسوں میں چلی جایا کرتی تھیں۔تو یہی ہم نے دیکھا ہے،یہی واقعات ہیں، یہی محنت ہے جو پرانے لوگ کیا کرتے تھے۔اور خود ان کا دینی علم بھی ہوتا تھا۔ عہدے داروں کو اپنا دینی علم بھی بڑھانا چاہیے۔یہی ہم نے ان میں دیکھا۔ اسی سے پھر تاریخ سے تاریخ بنتی جاتی ہے۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ چلو پھر اللہ حافظ ہو السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
٭…٭…٭