نماز شیطان کے خلاف ہتھیار ہے
شیطان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جس ہتھیار کی ضرورت ہے وہ نماز ہے۔ اور شیطان ہمیشہ اس کوشش میں رہے گا کہ یہ ہتھیار مومن سے چھن جائے۔ پس جس طرح ایک اچھا سپاہی کبھی اپنا ہتھیار دشمن کے ہاتھ لگنے نہیں دیتا۔ ایک حقیقی مومن بھی کبھی اپنے اس ہتھیار کی حفاظت سے غافل نہیں ہوتا۔ انسانی فطرت ہے کہ برائیوں کی طرف بار بار توجہ جاتی ہے اس لئے اس کی حفاظت بھی ایک مستقل عمل چاہتی ہے اور اس کی مستقل حفاظت کے لئے، اس مستقل عمل کو جاری رکھنے کے لئے خداتعالیٰ نے فرمایا کہ نمازوں کی حفاظت کرو۔ فرمایا ہے حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی ٭ وَقُوۡمُوۡا لِلّٰہِ قٰنِتِیۡنَ۔(البقرۃ:239) کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص مرکزی نماز کی اور اللہ کے حضور فرمانبرداری کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔ تو یہ ایک اصولی بات بتا دی کہ نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص طور پر درمیانی نماز کا خیال کرو۔ مختلف مفسرین نے درمیانی نماز کی اپنے اپنے ذوق یا علم کے مطابق تفسیر کی ہے۔ کسی نے تہجد کی نماز، کسی نے فجر کی نماز، کسی نے ظہر و عصر کی نماز مراد لی ہے۔ بہرحال یہاں ایک اصولی ہدایت آ گئی کہ صَلٰوۃُ الْوُسطٰیکی حفاظت کرو اور ہر ایک کے حالات کے لحاظ سے درمیانی نماز وہ ہے جس میں دنیاداری یا سستی اسے نماز قائم کرنے سے روکتی ہے یا نماز سے غافل کرتی ہے، جب شیطان اس کی توجہ نماز کی بجائے اور دوسری چیزوں کی طرف کروا رہا ہوتا ہے۔ پس اس وقت اگر ہم شیطان سے بچ گئے اور اس کواپنے اوپرحاوی نہ ہونے دیا تو سمجھو کہ ہم نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جب یہ صورت ہو گی توجیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے پھر نماز ہماری حفاظت کرے گی۔ فرضوں کی حفاظت سنتیں کریں گی اور سنتوں کی حفاظت نوافل کریں گے اور یہی ایک مومن کی پہچان ہے۔ اور جب یہ حالت ہو گی تو پھر شیطان کا دور دور تک پتہ نہیں چلے گا۔ ایسے لوگوں کے قریب بھی شیطان پھٹکا نہیں کرتا۔ پس یہ ایک مسلسل عمل ہے اور یہی حالت ہے جو حقیقی فرمانبرداری کی حالت ہے اور یہی حالت ہے جو بیعت کرنے کے بعد پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والی حالت ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ فروری ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍مارچ ۲۰۰۸ء)