احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی جو عبادت تو میری کرےاور استعانت بت سے طلب کرےتواس نےدرحقیقت بت کی پوجا کی
حضرت اقدس علیہ السلام کے اس فارسی مکتوب مبارک کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے
(گذشتہ سے پیوستہ) میں کہتا ہوں کہ دل کی دوحرکتیں ہیں۔ایک بیرونی حرکت ہے جو مبدء ِشہواتِ جسمانی ہےاور دل کی پراگندگی کا باعث ہے۔منجملہ ان شہوات میں سے ایک بت پرستی ہے۔ دوسری اندرونی حرکت ہے جو مبدء قرب و معرفت اور اطمینان و آرام کا باعث ہے۔اور نفس کی تقسیم،نفس امّارہ،نفس لوّامہ اور نفس مطمئنّہ کی اسی بنیاد پر ہے اور دل کی پراگندگی پر مخلوق نہیں ہے ورنہ انسان عبادت کے لیے مکلّف نہ ٹھہرتا۔
اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بت پرستی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دل دید کی خواہش کرتا ہے او ر ہم اس خواہش کی تکمیل بت پرستی سے کرتے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ دل تو وصال خدا کا طالب ہے پس وہ شوق بجز وصال خداکے کہاں تسکین پائے گا۔ یہ تو اسی مثل کے مصداق ہے کہ کسی کو پانی کی احتیاج ہو اور اس کو آگ میں پھینک دیا جائے۔
صفحہ ۲کی سطر ۲۔ہندو کہتے ہیں کہ ہم بتدریج اجسام پرستی سے دریائے حقیقت کےطرف جاتے ہیں اور ہمارے بت پرستش کےوقت عینک کی مانند ہیں اس سے زیادہ ہمارے نزدیک وقعت نہیں رکھتے یعنی عینک جو آنکھ کی مددگار ہے اسی طرح بت بھی دل کے مددگار ہیں جو دل کو جلد تر عرفان کے درجہ پر پہنچا دینے کا موجب ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ اس درجہ معرفت سے کیا مراد ہے ؟اگر یہ اسماء صفات باری جاننے سے تعبیر ہیں تو اس کا اجمال تو خود دل کے اندر ہی نقش ہے جس کی تفصیل کلامِ ربّانی کی پیروی سے حاصل ہوتی ہے اور اگر درجہ معرفت سے مراد دراصل فانی فی اللہ ہونا ہے جو ابنیاء واولیاء کا وصف ہے تو جاننا چاہیے کہ وہ مقام انسان کے اختیار سے بلند تر ہے اور اس میں حکمت وتدبیر پیش نہیں جاتی۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ تلاوت کلام ربانی سے حق تعالیٰ کا ارادہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ وحدت باری پر ایمان لانے اور اس کی تمام صفات کے اقرارکے لیے دست تقدیر نے ایک قوت انسان کے دل میں تحریر کر دی ہے اور وہی قوت ایمان لانے کا باعث ہے ایک پہلو سے یہ قوت عبادت بجا لانے کے لیے دی گئی ہے اور وہی فریضہ عبادت بجا لانے کا مکلف بناتی ہے جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ بذات خود قرب ووصال حق کے لیے طاقت نہیں رکھتا اور انسان کو انوار الٰہی کے حقائق کا علم حاصل کرنے کی (ذاتی طورپر)طاقت ومقدرت نہیں ہے کیونکہ خدا محکوم نہیں ہے کہ انسان کے ارادہ کے تابع ہو اور انسان حاکم خدا نہیں کہ انوارایزدی کے خزانہ میں دخل اندازی کر سکے۔ پس ایک ذرہ امکان محیط العالمین کی ذات والا پر کس طرح محیط ہو اور ایک حقیر مخلوق ہر چیز کے پیدا کرنے والے کو کس طرح دریافت کرے سوائے اس کے کہ وہ خود اپنی ذات کا جلوہ کسی کو دکھلائے اور دوسرے یہ کہ وہ خوداس کے دل کو منور کردے۔لہٰذا تقاضائے رحمتِ ایزدی نے خداوند متعال کی طرف سے خود استعانت کی اجازت بخشی۔ یہی مضمون ہےکہ جب بھی ہم نماز قائم کریں تو چاہیے کہ اسماء وصفات حق تعالیٰ کے تصور سے ہر چیز کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے دل کو ظلمات حیرت میں ڈالیں اور اس وقت اپنے خدا سے استعانت کے طلبگار بنیں کہ اے خدایا! ہم نے محسوسات کے نشیب گاہ سے حتی المقدور اپنے آپ کو باہر نکال کر خود کو تیرے جلال کے تصور کی طرف کھینچا ہے لیکن اپنی طاقت کے بل بوتے پر ہم اس درگاہ عالی تک نہیں پہنچ سکتے اب تیری مدد کے منتظر ہیں۔لیکن جاننا چاہیے کہ یہ تصور استعانت اس طرح روح و دل کیساتھ ظلمات حیرت میں یکجا ہو جائے کہ گویا روح ودل ہی صورت تصور ہے۔یہ ہم بنی آدم کی انتہا درجہ کی کوشش ہے اس کے بعد معرفت کے درجہ پر پہنچانا اور اپنی طرف کھینچنا خدا کا کام ہے۔چنانچہ آیت اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں اسی استعانت کی جانب اشارہ ہے اور کفار بتوں کو اس استعانت کا مظہر جانتے ہوئے آرام واطمینان دل اور معرفت کے درجہ تک پہنچنے کا وسیلہ ان بتوں کو بناتے ہیں۔چنانچہ ان کا یہ کہنا کہ ہمارے بت عبادت کرتے وقت عینک کی طرح ہوتے ہیں،انہی معنی پر دلالت کرتے ہیں یعنی جس طرح عینک بصارت کی مددگار ہے اور نگاہ کو ہدف حقیقی تک پہنچاتی ہے اسی طرح ہمارے بت بھی دل کے مددگار ہیں جو دل کو پراگندگی سے بچاتے ہیں اور قرب ومعرفت کے درجہ تک پہنچا دیتے ہیں۔یہ معلوم نہیں کہ حق تعالیٰ نے ازل سے روئے دل کو اپنی طرف جذب کر رکھا ہے پس پراگندگی کہاں ہے جبکہ معرفت تک پہنچنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
پس مومن اور بت پرست میں فرق اسی استعانت کا ہے۔بت پرست کشف انوار حقیقت کے لئے استعانت بتوں سے مانگتا ہے اور مدد اپنے ہاتھوں تراشیدہ بتوں سے طلب کرتا ہے اور بت پرست کا دعویٰ ہے کہ بتوں کے توسط سے میں دریائے حقیقت سے مل جاؤں گا۔ہم پوچھتے ہیں کہ وہ دریائے حقیقت کتنا زیادہ ہے کیا انسان کا دل محیط العالمین کی ذات پر محیط ہو سکتا ہے ؟
اے دانائے بصیر! ذرا قیاس تو کر کہ انسانی ذرات کو قدیم الصفات (خدا) کی ذات سے کیا مطابقت اور محدود کو غیر محدود سے کیا برابری اور نہایت پذیر کو بے نہایت ذات سے کیا نسبت؟ انسا ن کی سعی کا منتہا یہ ہے کہ اپنے دل کو تمام محسوسات ومرئیات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے تمام اشکال واجسام کو زیر لائے نافیہ لاتے ہوئے اس رب العالمین کے جلال کے تصور سے اپنے دل کو ظلمات حیرت میں ڈال دے اور اس وقت ایسا بھوکا اور پیاسا اور سخت تکلیف میں ہو کہ جان بلب ہو رہا ہو اور اس کو پانی،غذا اور علاج کی ضرورت ہو اس طرح کشف انوار حقایق کے لیے درگاہ حق میں طلب گار ہو اور اپنی طرف سے کوئی چیز نہ تراشے۔چنانچہ کفار ہنود جن کی ظاہری عبادت بت پرستی ہے اور جب وہ بت پرستی سے ہٹ کر اسے اپنے طور پر تصور کرتے ہیں اور تو اپنے ہی وہم سے انگشت برابر شعلہ کا خیال باندھ کر اپنے تصور میں رکھتے ہیں تو یہ بھی بت پرستی کی ایک قسم ہے۔(مذکورہ عقیدہ میں) یہ نہ جانتے ہوئے کہ خدا انسان کا محکوم ہے یا نہیں جو انسان کے تصور کا تابع ہو۔کیا وہ جو محیط العالمین ہے (وہ ) انسان کے تصور میں سما سکتا ہے ؟تیرا قیاس اس پر ہرگز محیط نہیں ہو گا۔ دروغ وکذب کو راستی کے محل پر لانا اور اپنے مفروضہ کو رونق حقیقت بخشنا تو بت پرستوں کا شیوہ ہے۔ مولانا مولوی رومی فرماتے ہیں:
میں عبادت میں توبہ قبول کرنے والے جہاں کے ربّ سے ویسی ہی استعانت کا طلبگا ر ہوں جیسی کفار بتوں سے مانگتے ہیں۔
یہ شعر آیت اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا ترجمہ ہے۔حاجت کا اندازہ اور حاجتمند کا قیاس۔حاجتمند (مولانا مولوی رومی )تو خود اللہ تعالیٰ سے کشفِ انوارِ حقائق کی غرض سے اللہ تعالیٰ سے استعانت کےخواستگارہوتےہوئےبیت ثانی میں فرماتے ہیں۔
جو ہم پر غم سےگزری اگر اونٹ پرگزرتی تو کافر جَنَّۃُ الْمَأویٰ پر عَلم نصب کردیتے۔
ظاہر ہےکہ انسان تصور میں ایک شعلہ کی بجائےہزار شعلےقائم کرسکتا ہے کونسی مشکل آن پڑی ہے( کہ ایک پر ہی بس کرے۔ مترجم)۔ کیونکہ نہ روح کو احساس درد ہےنہ دل کو جلنے کی تکلیف۔جعل وفریب کے راستےکھلے ہیں ایک شعلہ تک محدود نہیں مگر اہل اسلام کی عبادات اپنے اوپر موت وارد کرلینا ہے۔ کہ عاشق صادق اورمتلاشی کو اس یار حقیقی کی تلاش میں اندر اور باہراپنے دل کو ظلمات کے دریاسے آشنا کرنا اور روح وتن کو دردو غم میں پگھلانااور آنکھوں سے نیند اڑادینا اورروح و دل کابےقراریوں میں مستغرق کرنااس راہ میں جلنا اور چارہ جوئی کرنا اور درحقیقت غموں کے پہاڑ اٹھانااور دل مہجور سے ہائےہائے کی آواز نکلنا اور مرنے سے پہلے مرنااور بیکراں غم و درد کا پیکر ہو جانا ہے۔ غرض یہ کہ میں کیونکران کیفیات کوتحریر کروں۔
پس اس عادل و مقدس نےدلوں کادلوں سےتعلق رکھاہےکیا وہ اپنےایسےطالب سےبیخبرہوگا؟ کیا وہ اپنےہاتھ کودراز کرکےاس طرح کےجانبازبندہ کو اپنی طرف نہیں کھینچےگا؟پس اب منصف مزاج از خود تأمل کرےکہ عشق و محبت و دردمندی کا یہ طریق کہ روح ودل کو جلوہ انوارِحقیقی کی آرزو میں جلانا اور خود کو رنج و تکلیف سےدوچارکرنا حق و راست ہےیا وہ طریق کہ اپنے دجل و فریب سےدل میں ایک شعلے کاتصورباندھناجس سےنہ روح میں احتراق ہے اور نہ ہی دل میں سوزوگداز۔ ظاہرہےکہ اس شعلہ کی اصل دروغ وباطل پرہے کیونکہ خداتعالیٰ ہمارے تصور کا تابع نہیں اور نہ ہی ذات محیط السماوات انسان کےتصور میں سما سکتی ہے۔ پس وہ قلبی عبادت جو ربُّ الْعَالَمِیْنَکو زیبا ہے اس میں شعلہ کاکام قراردیناکفرہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس مختصر جواب ِکلام کوختم کروں۔ سوال یہ ہے کہ بت پرستی کی تعریف کیا ہے؟ اب میرے نکتہ کلام کو غور سے سن کر سمجھنا چاہیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بتوں کو آنکھوں کےسامنےرکھناکفارکےزعم میں ایک مقصدکےحصول کے لئے ہے اورشریعت کی زبان میں اسی غرض کانام استعانت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پس ان آیات ربانی کا خلاصہ کچھ اس طرح ہےکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی جو عبادت تو میری کرےاور استعانت بت سے طلب کرےتواس نےدرحقیقت بت کی پوجا کی۔ کیونکہ میں تو محتاج عبادت نہیں ہوں یعنی وجوب عبادت انسان کی حاجت روائی کےلئےہے کیونکہ عبادت کےمعنےمددطلب کرنااور اس مدد کا شکربجالانا اور اگر انسان کو مدد منجانب اللہ نہ پہنچےتوہلاک ہوجائے۔لہٰذاکلام اللہ میں یہ تحریر ہےکہ عبادت باعثِ حیاتِ انسان اور موجبِ بقائے بنی آدم ہے۔
اگر غیب سےہردم مدد نہ پہنچےتوتُو ایک لمحہ کے لیےبھی ازخودقائم نہیں رہ سکتا۔اور انسان راستی،میانہ روی،استقامت ِدل اور وصال حق کے لیے زیادہ تر محتاج استعانت ہے۔ پس اگر انسان کہےکہ میری یہ حاجت بت کی دستگیری اور اعانت سے پوری ہوئی ہےتو اس انسان نے خود اپنی عبادت کی اور خدا کو ایک متاع کےطور پرفرض کیا جو وسیلہ بت سے دستیاب ہوگا۔ فقط (حیات احمد جلد اول صفحہ 262تا272)
٭…٭…٭