باخدا ہوشیار باشد!
خداشناسی کے جوہر سمجھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی نظم ونثر میں خوب موتی بکھیرے ہیں اور ہرطرح کا پس منظر اور متفرق فکری استعدادیں رکھنے والوں کے لیے کماحقہ مواد مہیا فرمایا ہے
پاکستان کے اخبارات و رسائل میں لکھنے والے کالم نگار جوعوام الناس کی فکری راہنمائی کے دعویداربھی ہیں، اکثر اپنی تحریرات کو درج ذیل فارسی جملہ سے سجاتے اورمذہبی جذبات سے کھیلتے ہوئے خوب داد سمیٹتے ہیں:
باخدا دیوانہ باشد و بامحمدﷺ ہوشیار!
یاد رہے کہ ان لوگوں کے استعمال کردہ یہ فارسی الفاظ کسی بھی اساسی مذہبی کتاب سے ماخوذنہ ہیں۔ اس فارسی جملہ کےاصل ماخذ کی کھوج میں بہت زیادہ کوشش کرنے والے زیادہ سے زیادہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ ایک قدرے غیر معروف کتاب ’’عین القضاة الھمدانی ‘‘ میں آیاہوا ہے۔ جہاں کفرو ایمان کی حقیقت بتاتے ہوئے ایک واعظ نے سائل کونصیحت کی تھی کہ خداتعالیٰ سے تعلق و محبت میں تو دیوانگی جائز ہے لیکن بانیٔ اسلام حضرت محمد ﷺ کے ادب و احترام میں بہت زیادہ احتیاط اور حزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
پاکستانی لکھاری جہاں اس مذکورہ بالا جملہ سے توہین ِ رسالت کی اپنی ناقص اور خود ساختہ تفہیم کے لیےقرینہ تلاش کرنے میں حق بجانب نہیں ہیں اسی طرح یہ لوگ خدا تعالیٰ کے متعلق واضح قرآنی انذاروَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهسے بھی لاپرواہی کرنے کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی ایک جامع شریعت کی کتاب ہےاور اس کے اندر دنیا کی خالق و مالک ہستی یعنی اللہ تعالیٰ کےلیےوہ صفاتی نام مذکور ہیں جو اپنی جامعیت اور کاملیت میں دیگر تمام مذاہب کی کتب میں استعمال شدہ استعاروں سے زیادہ کامل ہیں۔
خدا شناسی ایک وسیع اور دقیق مضمون ہے، جہاں محبت اور وارفتگی کے ساتھ ساتھ حزم و احتیاط کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن اگر ہم دوسری طرف دیکھیں تو دنیا کے دیگر مذاہب اور مکاتب فکر اللہ تعالیٰ کو پکارنے اوراسے یاد کرنے کے لیےاختیار کردہ ناموں میں بھی کماحقہ احتیاط نہیں کرسکے ہیں۔ مثلاً اگردنیا کا ایک مذہب اپنے مذہبی صحیفوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے باپ کی اصطلاح درج ہونے پر نازاں ہے تو برصغیر کا ایک مقامی مذہب اللہ تعالیٰ کے لیےاپنے صحائف میں ماں کا لفظ آنے پر خوش ہے۔ دراصل ان اقوام کی یہ صریح غلطی اور تمام صورت حال قرآنی آیت وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖکے ماتحت ہی سمجھی جاسکتی ہے۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ایک دفعہ خدا تعالیٰ کے بارے میں ایسی ہی ناقدری والی ایک بات دہلی سے شائع ہونے والے رسالہ ’’آریہ مسافر میگزین‘‘ نے بھی شائع کی تھی۔ جس کا کماحقہ جواب، سلسلہ احمدیہ کے عالم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے جماعتی اخبار الفضل قادیان دارالامان کے 8؍جون 1926ء کے شمارہ کے صفحہ 9 پر طبع کروایا تھا۔ اس میں آخر پر آپ نے لکھا کہ ’’بے شک اسلام نے یہ نہیں کہا کہ خدا تمہارا باپ ہے یا تمہاری ماں ہے۔ لیکن اس نے خدا کے لئے ایسا لفظ اختیارکیا ہے جو بیانِ محبت میں جامع و مانع ہے اور وہ لفظ ’’رب ‘‘ ہے۔ رب کے معنی ہیںایسی ذات جو ایک چیز کو بلامعاوضہ عدم سے وجود میں لائے اور اس کو تدریجاً کمال تک پہنچا کر اس پر برقرار رکھنے والی ہو۔اب غور کرو کہ کونسا لفظ جامع ہے۔ مانا کہ اَب اور اُم محبت کے اظہار کے لئے استعارے ہیں،مگر خدا کی محبت کے لئے محض ہیں۔ خداتعالیٰ کی محبت اور اس کا دائرہ تعلق غیر محدود ہے۔ اس کا زمانہ تعلق غیر محدود۔ پس اس کو اب ا ور ام کے محدود دائرے میں مقید بتلانا دراصل اس کی کسرشان ہے۔ اس لئے اللہ نے نہ چاہا کہ کامل مذہب میں یہ ناقص الفاظ رواج پائیں۔ لہٰذا اس نے اظہار محبت کے لئے اپنی صفت رب کو بتلایا جو کہ بلحاظ دائرہ، زمانہ اور تعلق کے غیر محدود ہے۔‘‘
لیکن یادرہے کہ قرآن مجید نے علاوہ دیگر بہت سی وجوہات کے ’’اَبْ ‘‘اور ’’ام ‘‘کے الفاظ خدا کے لیے استعمال نہیں فرمائے۔ بطور مثال صرف ایک وجہ درج کی جاتی ہے:’’گو قرآن مجید کے نزدیک اسلامی خدا باپ کی تربیت اور ماں کی شفقت و محبت کا جامع ہے۔ مگر ان الفاظ کے استعمال سے وہی غلط فہمی پیدا ہوسکتی تھی جس غلط فہمی نے کروڑوں عیسائیوں کو شرک جیسی گندی دلدل میں پھنسا کر تباہ کردیا کہ وہ ابن اور اَبٔ کے الفاظ سے بجائے مجاز کے حقیقت کی طرف اور بجائے بائبل کے تمثیلی مفہوم کے اصلی مفہوم کی طرف جھک کر خدا کی پاک ذات کو توالد و تناسل اور ابوت و ابنیت کے نقص میں مبتلا ماننے لگے… پس قرآن مجید نے اَبٔ کی تربیت کا تو خدا کے حق میں اقرار کیا۔ مگر لفظ اَبٔ سے اس کو بالا قرار دیا۔ اور ماں کی محبت و شفقت تو اس ذات بابرکات کے حق میں تسلیم کی۔ مگر لفظ ام کے استعمال سے احتراز کیا تاکہ مسلمانوں کو وہی ٹھوکر نہ لگے جو عیسائیوںکو لگی۔ چنانچہ واقعات پرنظر ڈالو۔ تو دیکھو گے کہ قرآن مجید کی یہ تدبیر کیسی کارگر نکلی کہ باوجود اس کے کہ بہت سے مسلمان بہت سے شرکوں میں مبتلاہیں۔ مگر اتخاذ ولد سے گمراہ سے گمراہ فرقہ کا دامن بھی پاک ہے۔ ‘‘(اخبار الفضل قادیان دارالامان۔ 18؍جون 1926ءصفحہ7۔ میر محمد اسحاق صاحب کا مضمون ’’اب۔ ام اور رب‘‘)
گو یہ ایک مسلمہ حقیقت و صداقت ہے کہ انسان اور خدا کا باہمی تعلق محبت پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب کے پیرو کھینچ تان کر بھی اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کسی طرح یہ ثابت کرسکیں کہ ان کے مذہب میں خدا کو محبت کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو ماں اور باپ کہنے کے بعد عصر جدید میں ایک اور غلط فہمی نوجوانوں میں عام ہے جو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ خدا تو محبت ہے۔ لیکن یہ سوچ جہاں محبت کے لفظ سے لاعلمی کا نتیجہ ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے کماحقہ آشنائی نہ ہونے کا اثر ہے۔ غالباً اس غلط فہمی کی بنیاد وہ باتیں ہیں جو سادہ لوح لوگوں کے سامنے عہد نامہ جدید میں درج یوحنا عارف کے پہلے خط کے مضمون کو بنیاد بنا کر کہی جاتی ہیں۔’’جومحبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔‘‘ (باب4آیت8)
تاریخ میں ملتا ہے کہ ایف سی کالج لاہور میں ایک مسلمان سراج الدین صاحب پروفیسر تھےجو عیسائیوں کی صحبت کے باعث ان کے زیر اثر چلے گئے اور معتقدات اسلام سے دور ہوتے گئے۔ یوں انہوں نے مذہب اسلام ترک کرکے عیسائیت اختیار کرلی۔ لیکن جب یہ صاحب 1897ءمیں کسی طرح قادیان پہنچے توامام الزمان حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی پاکیزہ صحبت، کلمات طیبہ اور قوت قدسی کے زیر اثر واپس اسلام کی حقانیت کے قائل ہونے لگے۔ حتی کہ نمازوں کی ادائیگی بھی شروع کردی۔ لیکن جب واپس لاہور پہنچے تووہاں کی خراب صحبت کے زیر اثر دوبارہ اسلام سے برگشتہ ہوگئے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طرف جو اپنے چار سوال بھجوائے، ان میں ’’سوال3:قرآن میں انسان ا ور خدا کے ساتھ محبت کرنے کے بارے میں اور خدا کی انسان کے ساتھ محبت کرنے کے بارے میں کونسی آیتیں ہیں جن میں خاص محبت یا حبّ کا فعل استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ تھا ۔غالباً یہ شخص بھی عیسائی واعظوں کی اس مذکورہ بالا چالاکی کو نہ سمجھ سکا تھا۔
22؍جون1897ء کو سراج الدین عیسائی کے سوال نمبر تین کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا اور محبت کے پہلو پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعض حصے ذیل میں پیش کیے جاتے ہیںجو عصر حاضر میں بھی نوجوانوں کے لیے مفید ہیں جوخداشناسی کے متعلق غلط فہمیوں کا شکارہوکر اس طرح کی باتوں سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
حضور علیہ السلا م نے فرمایا کہ’’واضح ہو کہ قرآن کی تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ خدا جیسا کہ واحد لاشریک ہے ایسا ہی اپنی محبت کے رو سے بھی اس کو واحد لاشریک ٹھہراؤ۔ جیساکہ کلمہ لا الٰہ الَّا اللّٰہ جو ہر وقت مسلمانوں کو ورد زبان رہتا ہے اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیونکہ الٰہ۔ ولاہ سے مشتق ہے۔ اور اس کے معنے ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جائے۔ یہ کلمہ نہ توریت نے سکھلایا اور نہ انجیل نے۔ صرف قرآن نے سکھلایا۔ اور یہ کلمہ اسلام سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ گویا اسلام کا تمغہ ہے۔‘‘
مزید فرمایا : ’’پھر بعد اس کے لفظ اسلام کا مفہوم بھی محبّت پر ہی دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے آگے اپنا سر رکھ دینا اور صدق دل سے قربان ہونے کے لئے طیّار ہوجانا جو اسلام کا مفہوم ہے یہ وہ عملی حالت ہے جو محبت کے سرچشمہ سے نکلتی ہے۔ اسلام کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے صرف قولی طور پر محبت کو محدود نہیں رکھا بلکہ عملی طور پر بھی محبت اور جان فشانی کا طریق سکھایا ہے۔ دنیا میں اور کونسا دین ہے جس کے بانی نے اس کا نام اسلام رکھا ہے؟ اسلام نہایت پیارا لفظ ہے اور صدق اور اخلاص اور محبت کے معنے کوٹ کوٹ کر اس میں بھرے ہوئے ہیں۔ پس مبارک وہ مذہب جس کا نام اسلام ہے۔
ایسا ہی خدا کی محبت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ(البقرۃ :166) یعنی ایماندار وہ ہیں جو سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر ایک جگہ فرماتا ہے: فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا (البقرہ:201)یعنی خدا کو ایسا یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو…غرض قرآن شریف ایسی آیتوں سے بھرا پڑا ہے جہاں لکھا ہے کہ اپنے قول اور فعل کے رو سے خدا کی محبت دکھلاؤ اور سب سے زیادہ خدا سے محبت کرو لیکن اس سوال کی یہ دوسری جز کہ قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ خدا بھی انسانوں سے محبّت کرتا ہے؟ پس واضح ہو کہ قرآن شریف میں یہ آیات بکثرت موجود ہیں کہ خدا توبہ کرنےوالوں سے محبت کرتا ہے (حاشیہ: خدا کی محبت انسان کی محبت کی طرح نہیں جس میں یہ داخل ہے کہ جدائی سے درد اور تکلیف ہو بلکہ خدا کی محبت سے مراد یہ ہے کہ وہ نیکی کرنےوالوں کے ساتھ ایسا پیش آتا ہے جیسا کہ محب پیش آتا ہے۔ منہ)اور خدا نیکی کرنےوالوں سے محبت کرتا ہے اور خدا صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ہاں قرآن شریف میں یہ کہیں نہیں کہ جو شخص کفر اور بدکاری اور ظلم سے محبت کرتا ہے خدا اس سے بھی محبت کرتا ہے بلکہ اس جگہ اس نے احسان کا لفظ استعمال کیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء :108) یعنی تمام دنیا پر رحم کر کے ہم نے تجھے بھیجا ہے۔ اور عالمین میں کافر اور بے ایمان اور فاسق اور فاجر بھی داخل ہیں۔ اور ان کے لئے رحم کا دروازہ اس طرح پرکھولا کہ وہ قرآن شریف کی ہدایتوں پر چل کر نجات پاسکتے ہیں۔ میں اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ قرآن شریف میں خدا کی محبت انسانوں سے اس قسم کی بیان نہیں کی گئی کہ اس نے کوئی اپنا بیٹا بدکاروں کے گناہوں کے بدلہ میں سولی دلوا دیا اور ان کی لعنت اپنے پیارے بیٹے پر ڈال دی۔ خدا کے بیٹے پر لعنت نعوذ باللہ خود خدا پر لعنت ہے…..اور اس سوال کی تیسری جز یہ ہے کہ قرآن شریف میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انسان انسان کے ساتھ محبت کرے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے اس جگہ بجائے محبت کے رحم اور ہمدردی کا لفظ لیا ہے کیونکہ محبت کا انتہا عبادت ہے اس لئے محبت کا لفظ حقیقی طور پر خدا سے خاص ہے۔(حاشیہ: محبت کا لفظ جہاں کہیں باہم انسانوں کی نسبت آیا بھی ہو اس سے درحقیقت حقیقی محبت مراد نہیں ہے بلکہ اسلامی تعلیم کی رو سے حقیقی محبت صرف خدا سے خاص ہے۔ اور دوسری محبتیں غیر حقیقی اور مجازی طور پر ہیں۔ منہ)
اور نوع انسان کے لئے بجائے محبت کے خدا کے کلام میں رحم اور احسان کا لفظ آیا ہے کیونکہ کمال محبت پرستش کو چاہتا ہے اور کمال رحم ہمدردی کو چاہتا ہے۔ اس فرق کو غیر قوموں نے نہیں سمجھا اور خدا کا حق غیروں کو دیا۔ میں یقین نہیں رکھتا کہ یسوع کے منہ سے ایسا مشرکانہ لفظ نکلا ہو بلکہ میرا گمان ہے کہ پیچھے سے یہ مکروہ الفاظ انجیلوں میں ملا دئیے گئے ہیں اور پھر ناحق یسوع کو بدنام کیا گیا۔ غرض خدا کی پاک کلام میں بنی نوع کے لئے رحم کا لفظ آیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ(العصر:4) ۬ۙ ، وَتَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ِ (البلد: 18)یعنی مومن وہ ہیں جو حق اور رحم کی وصیت کرتے ہیں۔ اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی(النحل: 91) یعنی خدا کا حکم یہ ہے کہ تم عام لوگوں کے ساتھ عدل کرو۔ اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم احسان کرو۔ اوراس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم بنی نوع سے ایسی ہمدردی بجالاؤ جیسا کہ ایک قریبی کو اپنے قریبی کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 366تا 370)
خداشناسی کے جوہر سمجھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی نظم ونثر میں خوب خوب موتی بکھیرے ہیں اور ہرطرح کا پس منظررکھنے والوں اور متفرق فکری استعداد رکھنے والوں کے لیے کماحقہ مواد مہیا فرمایا ہے۔ جس کے چند نمونے درج ذیل کتاب میں مل سکتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ جَلَّ شَانُہٗ وَ عَزَّاِسْمُہٗ از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ‘‘یہ کتابچہ محترم سید میر داؤد احمد صاحب کی تالیف ’’حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ اپنی تحریروں کی رو سے‘‘ میں مذکور مختلف عناوین میں سے صرف ایک عنوان’’اللہ تعالیٰ جل شانہ و عز اسمہ‘‘ پر مشتمل ہے۔ جسے منصوبہ بندی کمیٹی بھارت، قادیان نے 2015ء میں دیدہ زیب ٹائپ کرواکر قریباً ڈیڑھ سو صفحات پر شائع کیا ہے۔کتاب کا لنک یہ ہے: