احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
محترم لالہ بھیم سین صاحب کولکھے جانے والے دوخط
(گذشتہ سے پیوستہ) اسی طرح نہ ایک نشان بلکہ ہزار ہا نشان ظاہر ہوئے جو انسان کی طاقت سے بالا تر ہیں۔ جن سے روز روشن کی طرح کھل گیا کہ دین اسلام ہی دنیا میں سچا مذہب ہے اور سب انسانوں کے اختراع ہیں اور یا کسی وقت سچے تھے اور بعد میں وہ کتابیں بگڑ گئیں۔ اے عزیز! ہم آپ کی باتوں کو کہ جو کوئی روشن دلیل ساتھ نہیں رکھتیں کیونکر مان لیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف دعویٰ ہے جس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں۔ دنیا میں ایک ادنیٰ مقدمہ بھی جب کسی عدالت میں پیش ہوتا ہے تو ثبوت کے سوائے کسی حاکم کے نزدیک قابل سماعت نہیں ہوتا اور ایسا مدعی ڈگری حاصل نہیں کر سکتا تو پھر نہ معلوم آپ ان خیالات پر کیونکر بھروسہ رکھتے ہیں جو بے ثبوت ہیں۔ خدا ایک ہے اور اس کی مرضی ایک ہے پھر وہ کیونکر متناقض امور کا مصداق ہو سکتا ہے اور کیونکر ہم ان سب باتوں کو سچی مان سکتے ہیں کہ عیسیٰ خدا ہے اور رام چندر خدا ہے اور کرشن خدا ہے اور یا کہ خدا ایسا عاجز ہے کہ ایک ذرّہ بھی اُس نے پیدا نہیں کیا۔ وہ مذہب قبولیت کے لائق ہے جو ثبوت کا روشن چراغ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ اسلام ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ جو زبردست نشان اور معجزات اسلام میں ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے مذہب میں بھی ہوتے ہیں تو ہم آپ کی اس بات کو بشوق سنیں گے۔ بشرطیکہ آپ اس بات کا ثبوت دیں۔ مگر یاد رکھیں کہ یہ آپ کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ اس زمانہ میں کوئی ایسا زندہ شخص بھی دکھلا سکیں کہ وہ برکات اور آسمانی نشان جو مجھے ملے ہیں ان میں وہ مقابلہ کر کے دکھلاوے۔
اب میں آپ کے بعض خیالات کی غلطی کو رفع کرتا ہوں۔
قول آں عزیز۔ خدا نے کافر اور مومن کو اس دنیا میں یکساں حصہ بخشا ہے۔
اقول۔ چونکہ خدا نے ہر ایک کو اپنی طرف بلایا ہے اس لئے سب کو ایسی قوتیں بخشی ہیں کہ اگر وہ ان قوتوں کو ٹھیک طور پر استعمال کریں تو منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں۔ مگر تجربہ سے ثابت ہے کہ بجز اس کے کوئی اسلام پر قدم مارے ہر ایک شخص ان قوتوں کو بے اعتدالی سے استعمال میں لاتا ہے اور منزلِ مقصود تک نہیں پہنچتا۔
قول آں عزیز۔ بہت مشکل ہے کہ تمام لوگ ایک ہی مذہب پر چلیں۔
اقول۔ سچے طالب کے لئے ہر ایک مشکل سہل کی جاتی ہے۔
قول آں عزیز۔ اگرچہ ریل پر چلنے والے بہت آرام پاتے ہیں لیکن اگر کوئی پیادہ پا سفر اختیار کرے تو ریل والے اس کو کافر نہیں کہتے۔
اقول۔ یہ قول دینی معاملہ پر چسپاں نہیں ہے اور قیاس مع الفارق ہے۔ خدا کے ملنے کی ایک خاص راہ ہے یعنی معجزات اور نشانوں سے یقین حاصل ہونا۔ اسی پر تزکیہ نفس موقوف ہے اور یقین کے اسباب بجز اسلام کے کسی مذہب میں نہیں۔
قول آں عزیز۔ خدا بے انت ہے۔ سو ہم بے انت کو اُسی وقت محسوس کر سکتے ہیں جب پابندیٔ شرع سے باہر ہو جائیں۔
اقول۔ شرع عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں راہ۔ یعنی خدا کے پانے کی راہ۔ پس آپ کے کلام کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب ہم خدا کے پانے کی راہ چھوڑ دیں تب ہمیں خدا ملے گا۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ یہ کیسا مقولہ ہے۔
قول آں عزیز۔ ذات پات نہ پوچھے کو۔ ہَر کو بھجے سو ہَرکا ہو۔
اقول۔ یہ سچ بات ہے۔ اس سے اسلام بحث نہیں کرتا کہ کس قوم اور کس ذات کا آدمی ہے۔ جو شخص راہِ راست طلب کرے گا خواہ وہ کسی قوم کا ہو خدا اُسے ملے گا۔ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ خواہ کسی مذہب کا پابند ہو خدا کو مل سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک پاک مذہب اختیار نہیں کرے گا تب تک خدا ہرگز نہیں پائے گا۔ مذہب اَور چیز ہے اَور قوم اور چیز۔
قول آں عزیز۔ یہی وجہ ہے کہ پیروانِ وید نے کسی شخص کی پیروی نجات کیلئے محصور نہیں رکھی۔
اقول۔ جس شخص کے نزدیک وید کے مؤلّف کی پیروی نجات کے لئے محصور نہیں وہ وید کا مکذّب ہے۔ آپ خود بتلائیں کہ اگر مثلاً ایک شخص وید کے اصولوں اور تعلیموں کو نہیں مانتا۔ نہ نیوگ کو مانتا ہے نہ اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ اولاد کی خواہش کے لئے اپنی زندگی میں اپنی جورو کو ہمبستر کراوے اور یا وہ اس بات کو نہیں مانتا کہ پرمیشور نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا اور تمام روحیں اپنے اپنے وجود کی آپ ہی خدا ہیں اور یا وہ اگنی، وایو، سورج وغیرہ کی پرستش کو نہیں مانتا۔ غرض وہ بہرطرح وید کو ردّی کی طرح خیال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جس پرمیشور کو وید نے پیش کیا ہے اُس کو پرمیشور ہی نہیں جانتا تو کیاایسے آدمی کیلئے نجات ہے یا نہیں؟ اگر نجات ہے تو آپ وید سے ایسی شُرتی پیش کریں جو ان معنوں پر مشتمل ہو اور اگر نجات نہیں تو پھر آپ کا یہ قول صحیح نہ ہوا۔ کیونکہ ہم لوگ بھی تو صرف اس قدر کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن شریف کی تعلیموں کو نہیں مانتا اُس کو ہرگز نجات نہیں اور اس جہان میں وہ اندھے کی طرح بسر کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ(اٰل عمران:86) یعنی قرآن نے جو دین اسلام پیش کیا ہے۔ جو شخص قرآنی تعلیم کو قبول نہیں کرے گا وہ مقبول خدا ہرگز نہ ہوگا اور مرنے کے بعد وہ زیاں کاروں میں ہوگا۔ یہ کہنا کہ کسی شخص کی پیروی وید کی رُو سے درست نہیں، یہ غلط ہے۔ جب اُس کی کتاب کی پیروی کی تو خود اُس کی پیروی ہوگئی۔ اگر ہندوصاحبان وید کی پیروی نہیں کرتے تو پھر وید کو پیش کیوں کرتے ہیں؟
قول آں عزیز۔ ہر ملّت اور ہر مذہب میں صاحبِ کمال گزرے ہیں۔
اقول۔ زمانہ موجودہ میں بطور ثبوت کے کسی صاحبِ کمال کو پیش کرنا چاہئے۔کیا آپ کے نزدیک پنڈت لیکھرام صاحبِ کمال تھا یا نہیں؟ جس کو آج تک آریہ سماجی لوگ روتے ہیں۔
میں نے آں محب کی دلجوئی کے لئے باوجود کم فرصتی کے یہ چند سطریں لکھی ہیں۔ امید کہ اس پر غور فرمائیں گے۔
خاکسار
غلام احمد۔ قادیان
14؍ جون 1903ء
(مکتوبات احمد جلد1صفحہ87تا 93)
٭…٭…٭