سوال وجواب IAAAEسالانہ انٹرنیشنل سمپوزیم برائے سال2022ء
خلاصہ خطاب سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 05؍مارچ2022ء
سوال نمبر1:IAAAEانٹرنیشنل سمپوزیم کا انعقاد کہاں ہوا؟
جواب:IAAAEانٹرنیشنل سمپوزیم کاانعقاد ایوانِ مسرور اسلام آباد، ٹلفورڈ میں ہوا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے سامنے سال 2020ء/21ءکےحوالے سے ایسوسی ایشن کی کیا رپورٹ پیش کی گئی؟
جواب: چیئرمین IAAAEمکرم اکرم احمدی صاحب نے سال 20۔2021ءکے لیے ایسوسی ایشن کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ایسوسی ایشن کا قیام حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے افریقہ کے غریب ممالک میں خدمت انسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا تھا۔ بعد ازاں حضور انور کی راہنمائی اور ہدایت کے مطابق اس کا دائرہ کار دنیا کے تمام ممالک تک پھیلا دیا گیا۔سب سے اہم پراجیکٹ واٹر فار لائف ہے جس کے لیے ایسوسی ایشن کے ممبران نے افریقہ کے دور دراز ممالک میں انتھک محنت کے بعد بہت سے کنویں بنائے جن کے ذریعہ مقامی لوگوں کو پانی کی سہولت مہیا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور انور کی راہنمائی کے ساتھ گذشتہ کورونا وبا کے عرصہ میں بھی ہمارے رضا کار احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس کام کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اب تک 2667 ہینڈ پمپس لگائے جا چکے ہیں۔ہیومینٹی فرسٹ کے تعاون سے اب تک 20 ڈرلنگ واٹر پمپس لگائے گئے ہیں۔ یہ پراجیکٹس مکمل کرنے کے بعد ان کی مرمت و دیکھ بھال بھی ساتھ ساتھ کی جارہی ہے۔ان ممالک میں سولر سسٹم بھی مہیا کیے گئے ہیں جن سے مقامی آبادی بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آلٹر نیٹو انرجی کے 60سسٹم تین افریقن ممالک میں لگائے جاچکے ہیں۔ انہوں نے بینن اور گھانا میں اسٹریٹ لائٹس،روڈ ورکس اور واٹر ٹینکس بنانے اورلگانے میں ایسوسی ایشن کے کاموں کا بھی ذکر کیا۔ اسی طرح انہوں نے برکینا فاسو،تنزانیہ اور مالی میں بھی ایسوسی ایشن کی جانب سے مکمل کیے جانے والے پراجیکٹس کا ذکر کیا۔انہوں نے مختلف ممالک میں مسرور انٹر نیشنل ٹیکنیکل کالج پراجیکٹس کا بھی ذکر کیا۔
سوال نمبر3: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹیکس اینڈ انجینئرزکی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:الحمدللہ! کورونا وبا کی پابندیوں کی وجہ سے تین سال کے بعد انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹیکٹس اینڈ انجنیئرزکو اپنا سالانہ سمپوزیم منعقد کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ الحمدللہ ایسوسی ایشن نے پچھلے سالوں میں بہت ہی شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ اگر اس کے قیام سے جائزہ لیا جائے تو اب ان کے کاموں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ہے۔IAAAE اب جدید ترین خطوط پر کام کررہی ہےاور دنیا کے مختلف ممالک میں واٹر فار لائف اور سولر سسٹم کی سہولتیں مہیا کر رہی ہے۔ ماڈل ولیج پراجیکٹس بھی کم سے کم قیمت پر مکمل کیے جارہے ہیں جوکہ انسانیت کی عظیم خدمت ہے۔مجھے علم ہے کہ آپ کے ممبران بے انتہا محنت سے کام کر رہے ہیں اور سستے سے سستے آلات خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سال میں نو ممالک کے لوگوں نے واٹر فار لائف پراجیکٹ سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ افریقہ کے دُور دراز ممالک میں صاف پانی کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے اور IAAAE ایسے علاقوں میں صاف پانی لوگوں کے گھروں تک پہنچا رہی ہے جس سے اُن لوگوں کی خوشی قابل دید ہے۔ اسی طرح سولر سسٹم کے ذریعہ بھی لوگوں کے گھروں میں نہ صرف روشنی کا انتظام کیا گیا بلکہ میڈیا تک رسائی کی سہولت بھی مہیا کی گئی جس سے اب اُن لوگوں کو دنیا کے اصل حالات کا اندازہ ہورہا ہے۔
سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے IAAAEسے چندسال قبل کس خواہش کا اظہارکیا تھا؟
جواب: فرمایا:چند سال قبل میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ IAAAE دنیا کے دور دراز علاقوں میں پینے کاصاف پانی پہنچانے کا انتظام کرے۔ یہ میرے لیے خوشی کا باعث ہے کہ آپ نے اس بارہ میں اچھا کام کیا ہے۔
سوال نمبر5:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے موجودہ حالات کے حوالہ سےIAAAEکی کیا راہنمائی فرمائی؟
جواب: فرمایا: IAAAE کےہر وقت یہ پیشِ نظر رہے کہ دنیا کے حالات کے مطابق کس طرح کام کیا جائے۔ دنیا کی حالت تشویش ناک اور خطرناک ہے۔ خصوصاً آج کل جو دنیا میں ہو رہا ہے اور یوکرائن، رشیا اور یورپ کے درمیان جو ہو رہا ہے اس سے دنیا کے ایک بڑے خطے میں جنگ پھیلنےکے نتیجہ میں ہونے والا نقصان انسان کے وہم و گمان سے بالا ہے۔ اور ایسی تباہی آنے والی ہے کہ انسان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔IAAAEکو چاہیے کہ بنی نوع انسان کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھائے اور ہر قسم کے حالات سے نپٹنے کی تیاری کرے۔ لوگوں نے زیرِ زمین بنکر بنائے ہیں جس میں بہت سی ضروریات مہیا ہوں گی۔ یہ امیر لوگوں کے لیے تو کافی ہوں گی لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے لیے یہ ممکن نہیں۔ یہ بھی غلط خیال ہے کہ یہ بنکر انہیں بچا لیں گے۔ وہاں رہنے کے نتیجہ میں نفسیاتی مسائل، بےچینی اور گھبراہٹ پیدا ہو گی۔ پھر امیر لوگ کیا کریں گے جب وہ بنکر سے نکلنے کے بعد دنیا کی تبدیل شدہ ہیئت دیکھیں گے کہ جن لوگوں پر ان کا تکیہ تھا وہ تو لقمہ اجل بن گئے۔ اور دنیا ایک ظلمت اور اندھیروں کی لپیٹ میں آ گئی ہو گی۔ ان لوگوں کو خیال کرنا چاہیے کہ ان حالات کے نتیجہ میں فرد واحدپر اس کا کیا اثر ہو گا۔ دنیا کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ دنیا کے راہنما ہوش سے کام لیں مبادا دیر ہو جائے۔ اور ہمیں اس بارہ میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔ ایسی جنگ کے بعد انسانیت کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہو گا کہ دنیا از سرِ نو تعمیر کی جائے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس بارہ میں بڑا کام کیا جائے۔ IAAAE اس بارہ میں ایک تفصیلی پلان بنائے۔ ان کے لیے جو بے گھر ہو جائیں گے ایک رہائشی سکیم کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ احمدی آرکیٹیٰکٹس کو عام حالات میں بھی سستے گھروں کے پراجیکٹس کے متعلق سوچنا چاہیے جو جماعت کے فائدہ کے ہوں۔ آپ کو ایسے پلان بنانے چاہئیں کہ ہماری مساجد، مشن ہاؤسز اور دیگر پراجیکٹس بہترین معیار، کم خرچ اور ماحول دوست ہوں۔ خدا نخواستہ اگر بڑے پیمانے پر جنگ ہو گئی تو ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا کے کئی خطے شدید تباہی سےبچ جائیں گے۔ افریقہ، جزائر اور دور دراز کے علاقے براہِ راست متاثر نہ ہوں گے۔ہمیں ایسے مستقبل کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ مغربی دنیا کا امن اور حفاظت قائم نہ رہ سکے تو وہ کام دوسرے علاقوں میں کیے جا سکیں اور ان کم ترقی یافتہ ممالک کو مضبوط بنا سکیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ان علاقوں میں کیسے کام کیا جائے تاکہ یہ پسماندہ اقوام بڑے وقار کے ساتھ کھڑی ہو سکیں اوردنیا کی ازسرِنو تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ IAAAE کو چاہیے کہ وہ ایک دور اندیش منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے۔ تا کہ اس زمانے کے حالات ٹھیک ہو بھی جائیں تو جماعت اور IAAAE ایک ادارے کے طورپر مستقبل کے لیے کام کرتی رہے۔ ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کم وسائل کے ساتھ بہترین انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی اور وسائل ان کو مہیا ہوں۔ آپ کا پلان یہ ہو کہ یہ اقوام کیسے قرضے کے بوجھ سے اپنے آپ کو نکال سکیں اور دنیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں۔
سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےIAAAEکی طرف سے نائیجیریا میں قائم ہونے والے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کے حوالہ سے کیا ارشادفرمایا؟
جواب: فرمایا: IAAAE ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ قائم کر رہی ہے۔نائیجیریا میں یہ قائم ہو رہا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ جلد از جلد اس پراجیکٹ کو مکمل کریں۔ اور پھر بہترین رنگ میں آپ اس کو manageبھی کر سکیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ نائیجیرین عوام اور افریقہ کی دوسری اقوام بھی اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ اَور کالجز کا پیش خیمہ ہو گا جو افریقہ کے مختلف ممالک میں لوگوں کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لیے ممد و مددگار ثابت ہو۔ اور ان لوگوں کی ترقی اور اقوام کی ترقی کا ذریعہ بنے۔ خدا کرے ان اقوام کی تمام بےچینیاں جو پسماندگی کی وجہ سے ان میں سرایت کی ہوئی ہیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔ اور اگر ان کے حالات بہتر ہوئے، میں دعا کرتا ہوں تو پھر ایسی خود غرضی کے طریق پر یا نہج پر نہ چلیں جو آج کی بڑی طاقتوں کا وطیرہ ہے۔
سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مغربی اقوام کے لالچ اور کمزوراقوام پرمسلط ہونے کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: مغربی اقوام کی یہ لالچ ان کی ایسی نا بجھنے والی پیاس ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اور وہ کمزور اقوام پر اپنے زور اور جبر کے ساتھ مسلط ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ ختم ہونے والی بھوک چاہے وہ رشیا کی ہو یا دوسری مغربی طاقتوں کی بنی نوع انسان کو اس رستے پر لے گئی ہے کہ دنیا کا امن تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور بہت ہی گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان حالات، اس تنازع کا حل جلد از جلد ہو۔اگر مغربی اقوام کی وجہ سےدنیا میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تو ہم نے انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنی ہے اور اس آگ کو بجھانا ہے۔ یہ ہمارا فرض اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نے معاشرے کو از سر نو تعمیر کرنا ہے اور انسانوں کو غموں سے نجات دلانی ہے۔ ان کے غموں کا، دکھوں کا مداوا بننا ہے۔
سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخدمت انسانیت کے لیے کس امرکی طرف توجہ دلائی؟
جواب: فرمایا:ہمیں دعا کرنی چاہیےاوربہترین Infrastructure بنانا چاہیے تاکہ خدمتِ انسانیت کی جائے اور اگر جنگ نہ بھی ہو تب بھی پسماندہ علاقوں کے افراد بھی مستقبل میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ بعض آپ میں سے سوچتے ہوں گے کہ جو میں کہہ رہا ہوں یہ آپ کے بس کی بات نہیں، یہ آپ کے دائرہ کار میں شامل نہیں۔ لیکن آپ جب خلوص کے ساتھ اس کے لیے محنت کریں گے اور جانفشانی سے کام کریں گے تو ہم ایسے زبردست پلان بنا سکتے ہیں، ایسے پراجیکٹ بنا سکتے ہیں کہ دنیا کی حکومتیں اور دنیا کے لیڈر ہماری پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور ہمارے تجربے سے فیض اٹھائیں اور ہماری طرف دیکھیں۔
٭…٭…٭