ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 121)
سیر کے دوران کتابو ں کی اشاعت کے متعلق خلیفہ صاحب سے فرمایا کہ ان کی اشاعت کرو ایسا نہ ہو کہ صندوقوں میں بند پڑی رہیں ……میرا اصول ہے کہ جو شخص حکمت اور معرفت کی باتیں لکھنا چاہے وہ جوش سے کام نہ لیوے ورنہ اثر نہ ہوگا۔ہاں بعض امور حقہ بر محل عبارت میں لکھنے پڑتے ہیں۔مگر اَلحَقُّ مُرٌّمعاملہ ہوکر ہم اس میں مجبور ہوجاتے ہیں۔ میرے خیال میں سناتن دھر م اور نسیم دعوت وغیرہ لاہور۔بمبئی۔کشمیر وغیرہ شہروں میں آریوں کے پاس ضرور روانہ کرنی چاہئیں اگر شائع نہ ہوں تو پھر وہی مثال ہے۔ زبہرنہادن چہ سنگ وچہ زر‘‘(ملفوظات جلدپنجم صفحہ 209-210 ایڈیشن 1984ء)
تفصیل:بوستان سعدی کےدوسرے باب میں ایک حکایت بعنوان ’’بخیل باپ اور لاپروا لڑکا ‘‘کے ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے جو درج بالا ملفوظات میں استعمال ہوا ہے۔مکمل شعر مع حکایت درج ذیل ہے۔
حکایت:ایک شخص مال خر چ کرنا نہیں جانتا تھا۔اس کے پاس مال تھا لیکن کھانے کی ہمت نہیں تھی۔وہ نہ کھاتا کہ اپنے آپ کو آرام پہنچائے۔نہ دیتا کہ کل کو اس کے کام آئے۔دن رات سونے چاندی کی فکر میں رہتا۔گویاسونا اور چاندی ایک کمینہ شخص کی قیدمیں تھا۔ایک دن اس کےلڑکے نے پوشیدہ مقام سے دیکھ لیا کہ بخیل نے سونا زمین میں کسی جگہ چھپا رکھا ہے۔اس نے زمین سے نکال کرعیاشی میں اڑا دیا۔اور اس جگہ ایک پتھر رکھ دیا۔جوان لڑکے کے پاس سونا نہ ٹکا۔ایک ہاتھ سے اس کے پاس آیا دوسرے سے اڑا دیا۔وہ ایسا فضول خرچ اور بد وضع تھا کہ اس کی لنگی اور ٹوپی بازار میں گروی رہتی تھی۔جب باپ کو پتا چلا تو ستار حلق میں رکھ لیا (یعنی حلق سے رونے کی آوازیں نکالنے لگا)باپ روتے دھوتے ساری رات نہ سویا۔لڑکا صبح کو ہنسا اور بولا۔
زَرْ اَزْبَہْرِ خُوْرْدَنْ بُوَدْ اَےْ پِدَرْ
زِبَہْرِ نِہَادَنْ چِہْ سَنْگ وچِہْ زَرْ
ترجمہ:اے باپ! مال و دولت کھانے پینے پر خرچ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔رکھ چھوڑنے کے لیے پتھراور سونا یکساں ہے۔
سنگ خارا سے سونا نکالتے ہیں (سونا پتھر کی رگوں میں سے نکالاجاتاہے) تاکہ دیں،پہنیں اور آرام سے کھائیں۔جبکہ دنیا پرست کی ہتھیلی میں ابھی تک سونا پتھر ہی کے اندر ہے…چیونٹی کی طرح جمع کرنے کے بعد کھا لے۔ ا س سے پہلے کہ تجھے قبر کے کیڑے کھائیں۔
٭…٭…٭