امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ سویڈن کی (آن لائن) ملاقات
٭… اگرتم پڑھائی میں اچھے ہو، اپنے سکول میں اچھی پڑھائی کر رہے ہو، ماں باپ کا کہنا ماننے والے ہو، دوسرے بچوں سے لڑائی نہیں کر رہے،ان سے اچھے اخلاق سے پیش آتے ہو، اچھی زبان استعمال کرتے ہو، اچھےmoralہیں تو تم اچھے بچے ہو،اچھے طفل ہو۔یہی اچھے طفل کی خصوصیات ہیں
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ 20؍نومبر 2022ء کو مجلس اطفال الاحمدیہ سویڈن کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ مجلس اطفال الاحمدیہ سویڈن نے مسجد ناصر،گا تھن برگ سے آن لائن شرکت کی۔
پروگرام کاآغاز تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ سے ہوا۔اس کے بعد ایک طفل نےحدیث مع اردو ترجمہ پیش کی۔ بعد ازاں ایک طفل نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام میں سے ایک انتخاب خوش الحانی سے پیش کیا۔جس کے بعد ملفوظات میں سے اقتباس پیش کیا گیا۔
پروگرام کے دوسرےحصےمیں کچھ بچوں کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ انبیاء کا کام لوگوں کو راہ راست پر لانا ہے جبکہ شیطان کا کام لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہزاروں انبیاء مبعوث کیے ہیںتو کیا شیطان بھی ایک سے زائد ہیں؟
اس پر حضور انورنے مسکراتے ہوئےفرمایا کہ شیطان نے بھی اپنی بڑی ٹیم بنائی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں انبیاء مبعوث کیے ہیں۔ جہاں نبی کو بھیجا جاتا ہے اسی جگہ شیطان بھی اپنا کام کرنے پہنچ جاتا ہے۔
شیطان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ شیطان کوئی Physicalچیز نہیں جبکہ انبیاء انسانوں میں سے بنتے ہیں۔انسان کے دل میں اٹھنے والے خیالات بھی شیطانی ہو سکتے ہیں۔جب نبی لوگوں کو نیک کام کرنے کی تلقین کرتا ہے تو فرشتے نیک لوگوں کو نبی کی پیروی کرنے کی تحریک کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف شیطان ان کونبی کی بات نہ ماننے کا کہتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا تو اس نے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا جس کا مطلب تھا کہ وہ لوگوں تک آدمؑ کا پیغام پہنچائیں۔اس وقت شیطان نے آدمؑ کا مددگار بننے کا انکار کیا اور بغاوت کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہیں اور ہر اس شخص کو جو تمہاری پیروی کرے گا سزا دوں گا۔شیطان نے کہا کہ ٹھیک ہے مگر مجھے قیامت کے دن تک مہلت دو تاکہ میں لوگوں کو گمراہ کر سکوں۔اللہ نے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرو۔خلاصہ یہ کہ جب بھی انبیاء کی بعثت ہو اور وہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تبلیغ کریں وہاں شیطان ہمیشہ لوگوں کو بری باتیں سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ شیطان اور اس کی پیروی کرنے والوں کو سزا دے گا۔ قرآن کریم میں لکھا ہےکہ جب ایسے لوگ یا اقوام فوت ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہوں گی تب شیطان کہے گا کہ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا جبکہ میرا وعدہ جھوٹا نکلا جس کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا تھا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے نبی کا انکار اور شیطان کی پیروی کرنے کی وجہ سے ایسے لوگوں کو سزادےگا۔
آنحضرتﷺنےفرمایا کہ شیطان ہر انسان میں خون کی طرح دوڑتا ہے لیکن میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے۔ یعنی میں نے اس کو ہرا دیا ہے اور وہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ پس ہر انسان کے اندر ایک شیطان موجود ہے۔جب انسان پر برے خیالات کا حملہ ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہےاور اچھے نیک خیالات فرشتوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔اس لیے ایک نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں شیاطین ہیں۔ جتنے انسان ہیں اتنے ہی شیطان ہیں۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کو کیسے دیکھ سکتا ہوں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مجھے دیکھنا ہے تو میری قدرتوں کو دیکھو۔ تم دیکھو کہ میںنے کیسی خوبصورت دنیا بنائی ہے۔کتنے اونچے پہاڑ بنائے ہیں۔ سویڈن میں رہتے ہو،تمہارے ساتھ ہی ناروے ملک ہے۔ وہاں Northern Lightsہیں جہاں برف پڑی رہتی ہےوہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔ سویڈن خوبصورت ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے خوبصورت بنایا ہے۔ اونچے پہاڑ بھی ہیں، درخت بھی ہیں، نیچے valleysبھی ہیں۔ پلین (plain)جگہیں بھی ہیں۔یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی قدرت ہیں۔اللہ تعالیٰ کو پہچاننا ہے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دیکھ کے پہچانو۔
اللہ تعالیٰ کی physical bodyتو نظر نہیں آتی۔ جب تم اللہ تعالیٰ سے اچھی طرح رو کے دعا کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول کر لیتا ہے تو وہی اس کا دکھنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت دکھاتا ہے،تمہاری دعائیں قبول کرتا ہے، اسی کو اللہ تعالیٰ کا دیکھنا کہتے ہیں۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ عشاء کی نماز کے بعد اگر وتر پڑھ لیے ہوں تو کیا اس کے بعد نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھ کر نوافل نہیں ادا کرنے چاہئیں بلکہ پہلے کچھ دیر سوکر پھر اٹھ کر تہجد کے نفل ادا کرنے چاہئیں۔پہلے کچھ دیر سونا چاہیے پھر آدھی رات کے بعد اٹھ کر نفل پڑھنے چاہئیں۔یا پھر جو بھی نفل پڑھنے ہیں وتروں سے پہلے پڑھ لیں۔یہ وہ طریق ہے جو ہمیں سکھایا گیا ہے اور یہی سنت ہے۔ہمیں اُسی عملی نمونے کی پیروی کرنی ہو گی جو آنحضرتﷺاور حضرت مسیح موعودؑنے ہمیں کر کے دکھایا اور ان کا وہی طریق تھا جو میں نے ابھی بتایا۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے پھر ہم کعبہ کی طرف منہ کر کے کیوں نماز پڑھتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ کسی چیز کی طرف concentrateکرنے کے لیے ایک جگہ ہونی چاہیے جہاں سب نماز پڑھیں۔تو اللہ تعالیٰ نے ایک symbol بنا دیا کہ مَیں تو ہر جگہ ہوں لیکن یہ میرا ایک symbol ہے، پہلا گھر ہےجو دنیا میں سب سے پہلے بنا اور بعد میں نبیوں نے اس کی تعمیر کی۔پہلے پرانے نبیوں نے بنایا پھر حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر نو کی۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دوبارہ اس کی تعمیر ہوئی۔ بعد میں بھی ایک دو دفعہ اس کو نقصان پہنچا تھا۔ پھر اس کی تعمیر ہوئی۔لیکن بہرحال ایک symbol،ایک مرکز بنا دیا کہ اس طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔
اس سے پہلے مسلمان جب مکہ میں ہوتے تھے تو بیت المقدس یا مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے لیکن جب مدینہ چلے گئے تو اس وقت پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی ہے تا کہ ایک symbolرہےکہ یہ اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر ہے اس کی طرف نماز میں توجہ کرو۔باقی اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ ہے اور اصل چیز یہ ہے کہ جب انسان سجدہ کر رہا ہو تو اس کا دل بھی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا چاہیے اور اس کو پتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ یہ سجدہ کرو اس لیے میں سجدہ کر رہا ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ امت میں ایک وحدت اور اکائی پیدا کرنے کے لیے، ایک ہونے کے لیے، ہم نے خانہ کعبہ کوایک symbol بنا لیا۔ اب تم نارتھ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو تمہارا بھائی ساؤتھ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے کوئی ایسٹ میں نماز پڑھے کوئی ویسٹ میں نماز پڑھے تو ہر ایک کا مختلف سجدہ ہو گا۔اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ امت مسلمہ کو ایک امت واحدہ بننا چاہیے۔ایک امت بننا چاہیے۔ا ور اس زمانے میں مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ میاں نے اس لیے بھیجا اورآپ کو الہام بھی ہوا کہ سب مسلمانوں کو دین واحد پہ جمع کرو۔خانہ کعبہ بھی ایک symbolہے۔اللہ تعالیٰ نے ایک symbol بنا دیا اور تمہیں کہہ دیا کہ سب اس کی طرف رخ کرو تا کہ پتا لگے کہ مسلمان ایک ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ دنیا میں مسلمان خانہ کعبہ کی طرف قبلہ رکھ کے نماز پڑھتے ہیں لیکن پھر بھی آپس میں لڑتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو اس لیے یہ symbol بنایا تھا کہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو اور ایک امت بن کے رہو نہ کہ فرقے بن کے۔لیکن کیونکہ یہ تفرقہ بھی ہونا تھا ،اللہ تعالیٰ کو پتا تھا کہ انسان کی فطرت ہےوہ اس طرح کرتا ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرمایا کہ آخری زمانے میں مَیں مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجوں گا جو تمہاری امت کو پھر اکٹھا کرے گا۔ تو ہم احمدیوں نے مسیح موعود علیہ السلام کو مانا اور آپؑ کے آنے کا مقصد یہی تھا کہ تمام مسلمانوں کو جمع کریں اور تمام دوسری دنیا کے لوگوں کو بھی جمع کریں اور ایک امت واحدہ بنا دیں تا کہ سارے اکٹھے ہو کے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور یہ اظہار کریں کہ ہم سب ایک ہیں اور ہم سب ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اس وقت دنیا کے لیے ایک خدا کا جوsymbolبنایا ہوا ہے وہ خانہ کعبہ ہے جس کی طرف ہم نے منہ کر کے نماز پڑھنی ہے تا کہ ہماری اکائی اور unityقائم رہے۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ ہندو اور عیسائی بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں۔ہماری نماز میں اتنی movementsکیوں ہیں؟ہم بھی صرف بیٹھ کرکیوں نہیں نماز ادا کرتے ؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ان کی تو نماز ہے ہی کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میںلکھا ہے کہ بعض لوگوں کی عبادتیں کیا ہیں۔ خانہ کعبہ میں آتے ہیں تالیاں بجا کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے عبادت کر دی۔ یا بعض لوگ اس طرح ہاتھ کھڑے کر کے[حضور انور نے دونوں ہاتھ بلند کر کے دکھائے]عبادت کرتے ہیں کہ عبادت کر لی۔یا یوں ہو گئے [حضور انور نے سر جھکا کر دکھایا] تو بس عبادت ہو گئی۔یہ عبادت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عبادت کا perfectطریقہ سکھایاہےکہ پہلے کھڑے ہو کر ہاتھ باندھو۔ تم کسی بڑے آدمی کے پاس جاتے ہوتو اس کی عزت و احترام کرنے کے لیے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو جاتے ہو۔پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے کے لیے دل میں ایک اور کیفیت پیدا ہوتی ہے تو پھر نیچےجھکتے ہو۔وہ رکوع کی حالت آ جاتی ہے۔ بے چینی سے پھر کھڑے ہو کے کہتے ہو اللہ تعالیٰ میری سن لے۔ بعض دفعہ آدمی بڑا desperate ہوتا ہے،بڑا بےچین ہوتا ہے توپھر کھڑے ہو کے کسی سے مانگتا ہے۔ کھڑے ہو کے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے ہو۔پھر بےچینی کی حالت طاری ہوتی ہے۔پھر تم ایک دم سجدے میں چلے جاتے ہو۔ اللہ میاں سے پھر رو رو کے دعا مانگتے ہو۔ پھر اٹھ کے بیٹھتے ہو۔ پھر سجدے میں چلے جاتے ہو۔ پھر کھڑے ہو کے نماز پڑھتے ہو۔پھر التحیات پہ بیٹھ کے دعائیں پڑھتے ہو اور پھر سلام پھیرتے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے نماز میں ہمیں یہ مختلف posturesاس لیے سکھائے ہیں کہ یہ انسان کی عاجزی کی مختلف حالتیں ہیں۔کسی بھی بڑے آدمی کے سامنے پیش ہو اور بات منوانی ہویا تم نےاپنے اماں ابا سے کوئی ضد کرنی ہو تو چیختے ہو، کبھی ہاتھ پیر مارتے ہو،کبھی نیچے زمین پر بیٹھ جاتے ہو، کبھی کھڑے ہو جاتے ہو۔چھوٹے بچےاس طرح کرتے ہیں۔ تم تو اب بڑے ہو گئے ہو تم نہیں کرتے ہوگے۔جب چھوٹے تھے تواس طرح ضد کرتے تھے۔وہ نیچرل طریقہ ہے۔کبھی ضد کر کے زمین پہ لیٹ گئے،کبھی بیٹھ گئے،کبھی کھڑے ہو کر چیخنا شروع کر دیا۔ تو اپنی بات منوانے کے لیے انسانی فطرت میں یہ مختلف حالتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نماز میں ہی یہ مختلف حالتیں سکھا دیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جاؤ تو اس طرح مختلف postures اختیار کرو ،مختلف شکلیں بناؤ اور پھر اللہ تعالیٰ کےآگے دعائیں بھی کرو۔نماز کےمختلف الفاظ بھی سکھا دیے۔ پھر کہا رو رو کر دعائیں کرو۔پھر اللہ تعالیٰ ان کو قبول بھی کر لیتا ہے۔ تو ہمارا طریقہ بڑا perfect ہے۔ صرف بیٹھ کے آرام کرنے والا طریقہ نہیں۔یہ نیچرل طریق ہے جو فطرت کے مطابق ہے۔کسی بھی چیز کو مانگنے کے لیے،کسی بڑے آدمی کے پاس جانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہےاور اللہ تعالیٰ سے بڑی ہستی کوئی نہیں۔اس لیے جب ہم اللہ کے پاس جاتے ہیں تو یہ سارے postures اختیار کرتے ہیں۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ قادیان دارالامان کا لنگر خانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شروع کیا تھا اور دنیا کے دوسرے ممالک کےلنگر خانے ،کیا ان سب کی برکات اور اہمیت ایک جیسی ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ میری بعثت کا ایک مقصد،بہت سارے کام جو سپرد کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک لنگر خانہ بھی ہے۔
تبلیغ کے لیے جولوگ آتے ہیں، ضرورت مند لوگ آتے ہیں، دین سیکھنے کے لیے لوگ آتے ہیں، ان کے لیے لنگر جاری ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جو لنگر جاری تھا اس کی اپنی بہت بڑی برکات تھیں۔بہرحال وہ نبی کے زمانے کا لنگر تھا۔ لیکن اب جو لنگر جاری ہے وہ اور اس کے بعدقائم ہونے والے لنگر مثلاً اب جو یہاں اسلام آباد میں ایک لنگر چل رہا ہے جہاں خلیفہ وقت رہتے ہیں یہ لنگر بھی اسی لیے چل رہا ہے کہ لوگ دین سیکھنے کے لیے یا دینی مقاصد کے لیےآتے ہیں۔ اسی لیے جو دنیا میں دوسرے لنگر چل رہے ہیں وہ مستقل تو نہیں چلتے لیکن جلسے کے دنوں میں چلتے ہیں یا اجتماعوں پہ چلتے ہیں یا جماعت کا کوئی اجتماعی فنکشن ہو رہا ہو تب چلتے ہیں۔تو وہ ایک دینی مقصد سیکھنے کے لیے چلتے ہیں اور دینی مقصد کیا ہے؟ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تعلیم کو نئے سرے سے صحیح طرح بتانے کے لیے دنیا میں بھیجا تھا اس کو بتایا جائے۔ لوگ سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔جو سیکھنے کے لیے آتے ہیں تو ان کو کھانے کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ان کو کھانا بھی دینا پڑتا ہے۔ تو اب وہ لنگر خانے جو بھی دینی مقصد کے لیے جاری ہوں گے دین کی تعلیم کو جاری کرنے کے لیے جاری ہوں گے ان لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے جاری ہوں گے جو دین سیکھنے کے لیے آتے ہیں تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مقصد کو بھی پورا کرنے والے ہیں جو لنگر خانہ بنانے کا مقصد تھا۔ تواسی لیے سارے ایک ہو جائیں گے۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ میں سویڈن میں تبلیغ کا کون سا طریقہ اختیار کروں کہ دوسروں کو احمدی کر سکوں؟
اس پر حضور انورنے اس طفل سے اس کی عمر دریافت فرمائی جس پراس طفل نے بتایا کہ وہ دس سال کا ہے۔
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ کمال کر دیا تمہارے بڑے اعلیٰ خیالات ہیں ماشاء اللہ۔
سب سے پہلے تو یہ ہے کہ تم دس سال کے ہو گئے ہو تمہارے پہ نمازیں فرض ہو گئیں۔ پانچ نمازیں پڑھا کرو۔ نمازوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تبلیغ کرنے کی توفیق دے اور تمہارے تبلیغ کے کام میں برکت رکھے۔ پھر دین کا علم سیکھو۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ تم مسلمان کیوں ہو؟ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں مانا ہے؟ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کیوں مانا ہے؟ تم خلیفہ وقت کی بیعت میں کیوں آئے ہو؟ تم احمدی کیوں ہو؟ احمدیت کیا چیز ہے؟ یہ ساری باتیں تمہیں اچھی طرح پتا ہونی چاہئیں۔پھر جب یہ پتا ہوں گی کہ مَیں احمدی کیوں ہوں،مَیں مسلمان کیوں ہوں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم لائے وہ perfectاور کامل تعلیم تھی یہ قرآن کریم میں درج ہے۔مَیں نے اس کے اوپر عمل بھی کرنا ہے۔پھر تم عمل کرو گے۔جب عمل کروگے تو تمہاری عبادتیں، تمہاری نمازیں اور زیادہ اچھی ہو جائیں گی۔ تمہارے اخلاق زیادہ اچھے ہو جائیں گے۔ تمہارے میں اور دوسرے سٹوڈنٹس میں فرق نظر آئے گا۔دوسرے سٹوڈنٹس دیکھیں گے کہ یہ لڑکا پڑھائی میں بھی ہوشیار ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرتا ہے،وقت پہ نمازیں پڑھتا ہے۔اس کے اخلاق بھی اچھے ہیں یہ کسی سے لڑائی نہیں کرتا۔ بری باتیں نہیں کرتا۔ گندی زبان استعمال نہیں کرتاتو تمہاری عمر کے بچے یا تمہارے سے دو چار سال بڑے تمہاری طرف توجہ کریں گے۔جس طرح تمہاری عمر بڑھتی جائے گی اپنے ماحول میں انہی چیزوں کو تم زیادہ کھول کر بیان کرتے رہنا اور جب لوگ تمہارے اخلاق دیکھیں گے، تمہارے اندر اچھی باتیں دیکھیں گے،تمہاری طرف توجہ کریں گےپھر وہ تمہارے سے پوچھیں گے کہ تم کون ہو؟ پھر تم ان کو بتانا کہ مَیں کون ہوں، مَیں کس قسم کا مسلمان ہوں۔مَیں احمدی مسلمان ہوں۔ احمدی مسلمان کیا ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صحیح تعلیم بتانے کے لیے بھیجا اور مَیں نے ان کو مانا۔ تو اس طرح تم تبلیغ کرو گے۔ہمارا کام ہے تبلیغ کرنا۔ ان پہ اچھا اثر ہو گا۔اس میں سے جو نیک فطرت لوگ ہوں گے جن کے بارے اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ تمہاری باتیں سن کے احمدیت قبول کر لیں،وہ قبول کر لیں گے۔اورجو بچے ہیں ان کے دل میں اچھے خیال پیدا ہوں گے اور اگر تمہارا ان سے تعلق رہے گا تو بڑے ہو کر وہ خود سوچیں گے اور پھر احمدی ہو جائیں گے۔ جب تم بڑے ہوتے جاؤ گے اور بڑوں کو تبلیغ کرتے جاؤ گے تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہارا کام تبلیغ کرنا ہے، پیغام پہنچا دو باقی ہدایت مَیں دیتا ہوں۔اللہ تعالیٰ سمجھے گا کہ جس کے اندر کوئی نیکی ہے جو شیطان کے پنجے سے آزاد ہونا چاہتا ہے اس کو پھر اللہ تعالیٰ ہدایت دے گا اور وہ احمدی ہو جائے گا۔ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو اچھا رکھیں، اپنی نمازیں اچھی طرح پڑھیں،اپنے اخلاق اچھے رکھیں ،اچھی باتیں کریں اور اگر سکول میں ہیں تو اچھے سٹوڈنٹس بنیں پھر انشاء اللہ تعالیٰ لوگ ہماری طرف توجہ کریں گے۔جب توجہ کریںگے تو اسی طرح تبلیغ ہو جائے گی اور جب تبلیغ ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتیجے بھی نکالے گا۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ سکولز میں Halloween Christmas یا ایسٹر کی جوپارٹیز ہوتی ہیں کیا ہم احمدی بچوں کو ان میں جانا چاہیے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ گھروں میں تم نےکسی کے ساتھ مانگنے کے لیے نہیں جانا۔ ہاں اگر کوئی بچے مختلف شکلیں بنا کے تمہارے گھر مانگنے آ جاتے ہیںتو چاکلیٹ اور ٹافیاں نکال کے دے دو۔ کوئی بھی ایسی بات جس میں شرک ہوتا ہو جس میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی بات کی جاتی ہو وہاں تم نے نہیں جانا۔ کرسمس، ایسٹر پارٹیاں ہوتی ہیں وہاں اگر لوگ اپنے طور پر نظمیں پڑھ رہے ہیں Jesus Christکو خدا کا بیٹا کہتے ہیں توتم نے ان کے ساتھ گانے نہیں گانے۔ ویسے اگر سکول تمہارے لیے compulsaryکر دیتا ہے کہ ضرور تم نے آنا ہے تو وہاں چلے جاؤ ،بیٹھے رہو، attendکر لو لیکن ان کے ساتھ Jesus is the son of God کی نظمیں نہ پڑھنے لگ جانا۔یہ نہیں کہنا تم نے۔ ہم تو ایک خدا کو مانتے ہیں۔ باقی اگر وہاں جانا compulsoryنہیں ہے تو پھر نہ جانا ہی بہتر ہے۔گھر میں بیٹھ کے تم کوئی اچھے کام کر لو اور اگر پارٹی میں جانا لازمی ہے تو جاؤ۔
باقی کرسمس اور ایسٹر وغیرہ پر اپنے دوستوں کو جہاں تک تحفے دینے کا سوال ہے توتم تحفے دے سکتے ہو تا کہ تمہارے ان سے تعلقات اچھے رہیں اور اچھے اخلاق کابھی مظاہرہ ہو۔ تحفہ دینے میں کوئی ہرج نہیں لیکن ان کے ساتھ نظمیں گانا اور گانے پڑھنا جس میں شرک ہو وہ نہیں کرنا۔ کوئی ایسی بات نہیں کرنی جس میں اللہ تعالیٰ کے خلاف بات ہوتی ہو یا اللہ کے مقابلے پر کسی کو کھڑا کیا جائے۔ ہاں اگر compulsoryہے توپیچھے بیٹھ کے تم دیکھتے رہو کہ یہ لوگ کیا تماشے کر رہے ہیں۔لیکن ان سےمتاثر یاimpressedنہیں ہو جانا۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ حضور انورکا bodyguardکس طرح بن سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ احمدی بچوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کےکوئی ایسا پیشہ اختیار کریں جس سےانسانیت اور دنیا کی کی خدمت ہو مثلاً engineering, medicineیا teaching۔
حضور انور نے اس طفل کو فرمایا کہ اسے فی الحال اپنی پڑھائی پر توجہ دینی چاہیے اور جب secondary schoolمکمل کر لے توفیصلہ کرسکتا ہے کہ اس نےکیا بننا ہے۔ اگر اسےsecurity guardبننے کا شوق ہے یا وہ پڑھائی میں اچھا نہیں توپھر security guardبننے کے لیے professional trainingحاصل کرنا ضروری ہے۔
حضور انور نے اس بات پر زور دیا کہ احمدی بچوں کو پڑھائی میں اچھا ہونا چاہیے اور خدمت انسانیت کرنے والا ہوناچاہیے۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ ایک بچہ جو وقف نو میں شامل نہیں جماعتی خدمت کیسے کر سکتا ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ وقف نو تو 1987ء میں شروع ہوا ہے اس سے پہلے لوگ جماعت کی خدمت نہیںکرتے تھے؟ مَیں تووقف نو نہیں ہوں۔ اللہ میاں خدمت کی توفیق دے ہی رہا ہے۔بہت سارے لوگ وقف نو نہیں ہیں اور خدمت کر رہے ہیں۔ 1987ء سے پہلے بھی لوگ وقف کرتے تھے اورخدمت کر تے تھے۔ اگر تم وقف نو نہیں ہو تو پڑھائی کرو۔وقف نو نہیں بھی ہو تب بھی جامعہ میں جا سکتے ہو۔ تم ڈاکٹر بن کے جماعت کے ہسپتالوں میں خدمت کر سکتے ہو۔ تم وکیل بن کے خدمت کر سکتے ہو تم کوئی اور پروفیشن جیسے ٹیچر بن کے خدمت کر سکتے ہو۔اور اگر تم نوکری بھی کر رہے ہو تو اچھے اخلاق دکھا کے لوگوں کو بتا کے کہ میں احمدی ہوں جماعت کا پیغام پہنچا سکتے ہو۔ہفتہ میں اپنےایک دو دن وقف کر کے تبلیغ کر کے تم جماعت کی خدمت کر سکتے ہو۔ جماعت کے اور کاموں میں حصہ لے سکتے ہو۔ بہت سارے کام ہیں۔سارے وقف نو توجماعت کی باقاعدہ خدمت نہیں کر رہے۔وہ بھی باقی لڑکوں کی طرح اپنے اپنے کام ہی کر رہے ہیں۔اسی طرح تم بھی کر سکتے ہو۔اگر وہ وقف نومربی بن سکتے ہیں تم بھی بن سکتے ہو۔وہ ڈاکٹر بن کے خدمت کر سکتے ہیں تم بھی کر سکتے ہو۔وہ انجینئر بن کے خدمت کر سکتے ہیں تم بھی کر سکتے ہو۔ وہ وکیل (Lawyer)بن کے خدمت سکتے ہیں تم بھی کر سکتے ہو۔ وہ ٹیچر بن کے خدمت کر سکتے ہیں تم بھی کر سکتے ہو اور اگر وہ weekendپہ یا ویسے weekdays میں اپنا وقت دے کے جماعت کی خدمت کر سکتے ہیں تم لوگ بھی کر سکتے ہو۔ فرق تو کوئی نہیں ہے۔ صرف وقف نو میں یہ ہے کہ وقف نوکا ایک بانڈ (bond)ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ضروروقف کریں گے۔لیکن اگر کوئی بانڈ فِل کر کے وقف نہیں کرتا تو پھر اس کا یا عام لڑکے کا کیا فرق ہے ؟کوئی فرق نہیں۔تم وقف نو نہیں ہو تب بھی سب کچھ کر سکتے ہو۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ کیاکسی فوت شدہ کی طرف سےصدقہ دیا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ فوت شدہ کی طرف سے صدقہ اور چندہ ادا کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح فوت شدہ کی طرف سے charitiesیا trustsبھی قائم کیے جا سکتے ہیں جس سے ضرورتمند مددحاصل کرسکتے ہوں۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ چھوٹی عمر میں اللہ میاں سے دوستی کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ جو بڑی عمر میں کرنا چاہیے وہی چھوٹی عمرمیں بھی کرنا چاہیے۔ نماز پڑھو، اللہ میاں سے دعا کیا کروکہ اللہ میاں مجھے اپنا دوست بنا لے۔اللہ تعالیٰ نے جو اچھی باتیں کہی ہیں وہ کرواوربری باتوں سے بچ کے رہو تو اللہ تعالیٰ دوست بنا لیتا ہے۔ جتنی بھی نماز آتی ہے اس میں دعا کرو۔
حضور انور نے اس طفل سے اس کی عمر دریافت کی جس پر اس نے بتایا کہ وہ سات سال کا ہے۔حضور انورنے اس کو پوچھا کہ کیا وہ نمازیں پڑھتاہے؟جس پر اس نے اثبات میں جواب دیا۔چنانچہ حضور انور نے فرمایا کہ بس نماز میں دعا کیا کرو اللہ میاں مجھے اپنا دوست بنا لے۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ کیا ہم آئندہ آپ سے مصافحہ کرسکیں گے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر تو نہیں کر سکیں گے۔ویسے ملیں گے تو کر لیں گے۔ٹی وی پہ تو مَیں یوں کروں گا [حضور انور نے سکرین کی طرف ہاتھ بڑھایا]تم بھی آگے یوں کرو گے [سکرین کی طرف ہاتھ بڑھا کے]اور بیچ میں دو ہزار میل کا فاصلہ ہو گا۔ ہاں یہ کہو کہ کب ملاقاتیں شروع ہوں گی؟ جب کووڈ ہٹ جائے گا تو انشاء اللہ کر لیں گے۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ کون سی age میں اپنا فون لے سکتے ہیں؟
حضور انورنے پوچھا کہ تمہاری عمر کیا ہے؟ اس پر اس طفل نے بتایا کہ وہ سات سال کا ہے۔
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ تم نے موبائل لے کرکیا کرنا ہے ؟اگر تم سکول میں ہوتو سکول کی administration کو بتا دو گے وہ تمہاری ماما، ابا کو فون کر کے بتا دیں گے کہ آپ کا بچہ آپ کویاد کر رہا ہے۔ اگر تم نے کھیلنا ہے تو پتا نہیں کھیلوں میں تم کون سی گیموں میں چلے جاؤ۔ اس لیے تمہارے اماں ابا کے سامنے بیٹھ کے ان کے فون کے اوپر کوئی جائز گیم ہے جس کا کوئی نقصان نہیں وہ تمہیں اگر کھیلنے کی اجازت دے دیں تو تم اس عمر میں بھی کھیل سکتے ہو۔لیکن ان کے سامنے بیٹھ کے کھیلو تا کہ ان کو پتاہو کہ کیا کھیل رہا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ تم ایسی جگہ کسی غلط لنک پر چلے جاؤ جہاں گیموں کے بہانے تمہیں وہ بری باتیں سکھانے لگ جائیں، گندی باتیں سکھانے لگ جائیں ،کسی غلط قسم کے ٹریپ میں تم آ جاؤ یا اپنے اماں ابا کے اکاؤنٹ ہی ان کو دینا شروع کر دو۔ اس طرح بعض بچوں کو وہ غلط رستوں پر ڈال لیتے ہیں۔ ہاں تمہارے اماں ابا اگر کوئی سائٹ یا کوئی گیم تمہیں اپنے فون پہ یا اپنے ٹیبلٹ پہ یا آئی پیڈ پہ کھول کر دے دیتے ہیں تو تم دیکھ سکتے ہو لیکن ان کے سامنے بیٹھ کے چیزیں دیکھا کرو۔ان کو پتا ہو کہ کیا دیکھ رہے ہو۔لیکن وہ بھی آدھا گھنٹہ یا گھنٹے سے زیادہ نہیں۔ یہ نہیں کہ سارا دن دیکھ دیکھ کرآنکھیں خراب ہو جائیںاور تمaddictہو جاؤ۔جب تم بڑے ہو جاؤ گے اور فون کی ضرورت پڑے گی توپھر تمہارے اماں ابا تو خود ہی تمہیں فون دے دیں گے۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ مجھے کیسے پتا چلے گا میں ایک اچھا طفل بن گیا ہوں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اگر تم نمازیں پڑھ رہے ہو۔ اللہ میاں نے کہا ہے کہ سات سال کی عمر میں نمازیں پڑھنی شروع کر دینی چاہئیں، دس سال کے بعد نمازیں لازمی فرض ہو جاتی ہیں۔تم پانچ نمازیں پڑھ رہے ہو، اللہ میاں سے دعا کر رہے ہو۔ اللہ میاں سے یہ دعا کر رہے ہوکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اچھا بچہ بنائے ،اچھا طفل بنائے ،اچھا انسان بنائے۔پھر اگرتم پڑھائی میں اچھے ہو، اپنے سکول میں اچھی پڑھائی کر رہے ہو، ماں باپ کا کہنا ماننے والے ہو، دوسرے بچوں سے لڑائی نہیں کر رہے،ان سے اچھے اخلاق سے پیش آتے ہو، اچھی زبان استعمال کرتے ہو، اچھےmoralہیں تو تم اچھے بچے ہو،اچھے طفل ہو۔ یہی اچھے طفل کی خصوصیات ہیں۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے مگر غیر احمدی مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے یا ان کی بیعت نہیں کرتے۔ تو کیا اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے گا؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ بخشنا یا نہ بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم میرے نبیوں پہ ایمان لاؤ اور قرآن کریم میں مسلمانوں کو یہی کہا ہے کہ سب نبیوں پہ ایمان لاؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی بھی فرمائی کہ آخری زمانے میں مسیح و مہدی آئے گا۔یہ اور بات ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ وہ امت میں سے آئے گااورمسلمانوں میں سے ہی آئے گا۔ وہ مسیح موعودؑ کی صورت میں آ گیا اورہم نے اسےمان لیا۔باقی مسلمان نہیں مانتے۔وہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور پھر مہدی پیدا ہو گا پھر اس کا ظہور ہو گا اور دونوں مل کے یہ کریں گے اوروہ کریں گے۔خیر وہ لمبی کہانی ہے۔ تو جو بھی آئے گا وہ نبی ہو گا۔ مسلمان بھی مانتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو نبی کی شکل میں آئیں گے۔ہم بھی مانتے ہیں کہ جو بھی مسیح موعود بن کر آئے گا وہ نبی کی حالت میں آئے گا۔ہم نے تومان لیاانہوں نے نہیں مانا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا نہ ماننے کا معاملہ اگلے جہان میں ہے۔ کس کو کیا سزا دینی ہے،کس کو بخشنا ہے ،کس کی نیکی پسند آئی ،کس کی نیکی پسند نہیں آئی،کس کو کم سزا دینی ہے ،کس کو زیادہ سزا دینی ہے۔
اس دنیا میں جو لوگ فساد اور ظلم کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی سزا دیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی ان کو سزا دے گا۔ باقی قوموں پر تباہیاں صرف اس وجہ سے نہیں آتیں کہ انہوں نے نبی کا انکار کر دیابلکہ اس لیے آتی ہیں کہ پھر وہ ظلم بھی کرتے ہیں۔ اب مسلمانوں کو اکثر جگہ دیکھ لو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑی اچھی حالت میں ہیں۔ ان کے پاس پٹرول کے پیسے آگئے، بڑے امیر ملک ہو گئے یا یہ بڑے امیر ہیں۔ ایسا نہیںہے مسلمانوں کے اور دوسری قوموں کے حالات بھی بہت خراب ہیں۔ اگر نبیوں کا انکار کر کے پھر ان کا استہزا کرو، ان کا مذاق اڑاؤ، ان کے ماننے والوں پر ظلم کرو پھر اللہ تعالیٰ سزا دیتا ہے اور وہ ان کوضرور دے گا۔اس کی سزا یہاں بھی دے گا اور اگلے جہان میں بھی دے گا۔ باقی ماننے یا نہ ماننے والے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیا سلوک کرے گا ؟اگر ان کی کچھ نیکیاں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ ان نیکیوںکا اجر دیتا ہے اور جو ان کی برائیاں ہیں ان کی برائیوں کا بھی بدلہ دے گا۔ کچھ عرصہ سزا کے طور پر ہر آدمی کو جہنم دیکھنی پڑتی ہے۔ کوئی اس دنیا میں دیکھ لیتا ہے کوئی اگلے جہان میں جا کے دیکھ لے گا۔ بخشنا نہ بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن اس نے کس طرح بخشنا ہے کتنی دیر کے بعد بخشنا ہے اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب جہنم خالی ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ سارے لوگوں کو بخش دے گا لیکن سزا دے کے۔ ہر ایک جو جرم کرتا ہے اسے کچھ عرصہ سزا ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سزا دینی ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ،ہم نہیں جانتے۔لیکن نیکی اسی میں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پہ چلیں، اس کو مانیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ مسیح موعود نے آنا ہے تم اس کو مان لینا توہمارا کام ہےکہ ہم اس کو مان لیں اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھیں کہ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے گالیکن ساتھ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر بھی چلنا چاہیے۔ اگر ہم احمدی ہو جاتے ہیں مسیح موعود ؑ کو مان لیتے ہیں اور مسیح موعودؑ کے آنے کا مقصد یہ ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا اور اسلا م کی صحیح تعلیم کو رائج کرنا۔ اگرہم نمازیں نہیں پڑھتے تو ہمارا ماننے کا کیا فائدہ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم ان لوگوں سے زیادہ گناہگار بن جاؤ گےجنہوں نے نہیں مانا۔اگر تم نمازیں نہیں پڑھ رہے جو بنیادی مقصد ہے، اگر تمہارے اچھے اخلاق نہیں ہیں،اچھے moralنہیں ہیں تو تم زیادہ گناہ گار بن گئے۔اگر تم اس دنیا میں بری باتوں میں ملوث ہو، دنیا میں پڑ گئے ہو اور بظاہر یہ دعویٰ ہےکہ میں نے مسیح موعود ؑکو مان لیا ہے تو مَیں بخشا جاؤں گا تو یہ بخشے جانے والی بات نہیں۔ عمل بھی کرنا پڑے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ساتھ عمل کرو۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر مجھے مانا ہے تو عمل کرو۔صرف اس بات پہ خوش نہ ہو جاؤ کہ میں نے مسیح موعود کو مان لیا ہے۔ ہمیں بھی اتنی فکر کرنی چاہیے بجائے دوسروں کی فکر کرنے کے کہ ہم نے مانا ہے پھر ہمارے اندر پاک اور نیک تبدیلیاں بھی ہونی چاہئیں۔ اگر مان کے بھی ہم نے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا نہیں کیں، ہماری نمازیں اور ہماری عبادت کے سٹینڈرڈ اچھے نہیں ہوئے تو پھر ہمیں بجائے دوسروں کی فکر کرنے کے اپنی فکر کرنی چاہیے۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ سورج اور چاند گرہن کے وقت ہم نماز کسوف و خسوف کیوں پڑھتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے روٹین کے نظام میں تبدیلی کی ہے۔اس پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہونا چاہیے۔اس وقت نمازپڑھنی چاہیے کیونکہ قیامت کے دن بھی سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اس وقت پھر زندگی باقی نہیں رہے گی۔ دل میں خوف رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے برے اثرات سے بچاکر رکھے۔اور اس کے ذریعہ آئندہ بھی ہمیں اللہ تعالیٰ یاد رہے اور اس کے بد اثرات سے بچائے کیونکہ زندگی میں سورج گرہن کے بھی بعض برے اثرات پیدا ہوتے ہیں۔مثلاًجو pregnantعورتیں ہیںان میں بھی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں یا نقصان ہو سکتا ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے برے اثرات سے ہمیں بچا کر رکھے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی اچھی چیزیں عطا فرمائے۔روٹین کے ہٹنے سے کیونکہ ایک changeآتا ہےاورجب بھی کوئی changeآئے تو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہونا چاہیے۔جب بارش ہوتی تھی، بادل آتے تھے یا بجلی کڑکتی تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی استغفار پڑھا کرتے اور دعا مانگا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے برے اثرات سے بچا کر رکھے کیونکہ قوموں پہ عذاب بارشوں اور بادلوں کی وجہ سے بھی آیا ہے۔اس لیے جب بھی کوئی تبدیلی پیدا ہوتو ہمیں اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ چلو پھر اللہ حافظ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
٭…٭…٭