نئے سال کے لیے جماعت احمدیہ کا پروگرام (قسط نمبر3۔آخری)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 04؍جنوری 1935ء)
(گذشتہ سے پیوستہ) پس مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد کیا ہو گا بلکہ ڈریہ ہے کہ خلافت سے علیحدہ ہو کر تم لوگ نقصان نہ اٹھاؤ۔کسی خلیفہ کی وفات سلسلہ کے لئے نقصان کا موجب نہیں ہو سکتی لیکن خلافت سے علیحدگی یقیناً نقصان کا باعث ہے۔یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا ہے جس کے دونوں پہلو ہو سکتے ہیں،منذر بھی اور مبشر بھی لیکن چونکہ باہر سے بھی قریباً ایک درجن خطوط آئے ہیںجن میں دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کو قتل کر دیا گیا ہے اور اسی طرح دشمنوں کے ارادوں کے متعلق بھی دوست اطلاع دیتے رہتے ہیں۔اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ دوستوں کو ہوشیار کر دوں کہ اصل چیز اصول ہیں۔اگر تم ان کو یاد رکھو گے تو کوئی تمہیں نہیں مٹا سکتا لیکن اگر اصول کو بھول جاؤ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اور مَیں مل کر بھی تم کو نہیں بچا سکتے۔ …
چند دن ہوئے میں نے ایک اور رؤیا دیکھا ہے جس کا مجھ پر اثر ہے اور اس سے مجھے خیال آیا کہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاؤں کہ وہ ہمیشہ اصل مقصود کو مدّ نظر رکھیں۔میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑی کی چوٹی ہے جس پر جماعت کے کچھ لوگ ہیں میری ایک بیوی اور بعض بچے بھی ہیں۔وہاںجماعت کے سرکردہ لوگوںکی ایک جماعت ہے جو آپس میں کبڈی کھیلنے لگے ہیں جب وہ کھیلنے لگے تو کسی نے مجھے کہا یا یونہی علم ہوا کہ انہوں نے شرط یہ باندھی ہے کہ جو جیت جائے گا،خلافت کے متعلق اس کا خیال قائم کیا جائے گا۔میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فقرہ کا مطلب یہ تھا کہ جیتنے والے جسے پیش کریں گے وہ خلیفہ ہو گا یا یہ کہ اگر وہ کہیں گے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو تو کوئی بھی نہ ہو گا۔بہر حال جب میں نے یہ بات سنی تو میں ان لوگوں کی طرف گیا اور میں نے ان نشانوں کو جو کبڈی کھیلنے کے لئے بنائے جاتے ہیںمٹا دیا اور کہا کہ میری اجازت کے بغیر کون یہ طریق اختیار کر سکتا ہے یہ بالکل ناجائز ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔اس پر کچھ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اکثریت پہلے صرف ایک تلعّب کے طور پر یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کون جیتتا ہے اور خلیفہ کا تعیّن کرتا ہے اور کم لوگ تھے جو خلافت کے ہی مخالف تھے مگر میرے دخل دینے پر جو لوگ پہلے خلافت کے مؤیّد تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے گویا میرے روکنے کو انہوں نے اپنی ہتک سمجھا۔نتیجہ یہ ہؤا کہ میرے ساتھ صرف تین چار آدمی رہ گئے اور دوسری طرف ڈیڑھ، دوسو۔اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ گویا احمدیوں کی حکومت ہے اور میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خون ریزی کے ڈر سے بھی میں پیچھے قدم نہیں ہٹا سکتااس لئے آؤہم ان پر حملہ کرتے ہیں۔وہ مخلصین میرے ساتھ شامل ہوئے مجھے یاد نہیں کہ ہمارے پاس کوئی ہتھیار تھے یا نہیں مگر بہر حال ہم نے ان پر حملہ کیا اور فریق مخالف کے کئی آدمی زخمی ہو گئے اور باقی بھاگ کر تہہ خانوں میں چھپ گئے۔اب مجھے ڈر پیدا ہؤا کہ یہ لوگ تو تہہ خانوں میں چُھپ گئے ہیں ہم ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتے۔اور اگر یہاں کھڑے رہے تو یہ لوگ کسی وقت موقع پا کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور چونکہ ہم تعداد میں بالکل تھوڑے ہیں ہمیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر ہم یہاں سے جائیں تو یہ لوگ پُشت پر سے آ کر حملہ کر دیں گے۔پس میں حیران ہوں کہ اب ہم کیا کریں۔میری ایک بیوی بھی ساتھ ہیںاگرچہ یہ یاد نہیں کہ کونسی اور ایک چھوٹا لڑکا انور احمد بھی یاد ہے کہ ساتھ ہے۔میرے ساتھی ایک زخمی کو پکڑ کر لائے ہیں جسے میں پہچانتا ہوںاور جو اس وقت وفات یافتہ ہے اور بااثر لوگوں میں سے تھا۔میں اسے کہتا ہوں کہ تم نے کیا یہ غلط طریق اختیار کیا اور اپنی عاقبت خراب کر لی مگر وہ ایسا زخمی ہے کہ مر رہا ہے۔مجھے یہ درد اور گھبراہٹ ہے کہ اس نے یہ طریق کیوں اختیار کیامگر جواب میں اس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ گر گیا۔اتنے میں پہاڑی کے نیچے سے ایک شور کی آواز پیدا ہوئی اور ایسا معلوم ہوا کہ تکبیر کے نعرے بلند کئے جا رہے ہیں۔میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا شور ہے؟تو اس نے بتایا کہ یہ جماعت کے غرباء ہیںان کو جب خبر ہوئی کہ آپ سے لڑائی ہو رہی ہے تووہ آپ کی مدد کے لئے آئے ہیں۔میں خیال کرتا ہوں کہ جماعت تو ہمیشہ غرباء سے ہی ترقی کیا کرتی ہے۔یہ خدا کا فضل ہے کہ غرباء میرے ساتھ ہیں مگر تھوڑی دیر بعد وہ تکبیر کے نعرے خاموش ہو گئے اور مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں سے فریب کیا گیا ہے۔انہیں کسی نے ایسا اشارہ کر دیا ہے کہ گویا اب خطرہ نہیں اور وہ چلے گئے ہیں۔کوئی مجھے مشورہ دیتا ہے کہ ہمارے ساتھ بچے ہیں اس لئے ہم تیز نہیں چل سکیں گے آپ نیچے جائیں آپ کو دیکھ کر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور آپ اس قابل ہو ںگے کہ ہماری مدد کر سکیں۔چنانچہ میں نیچے اترتا ہوں اور غرباء میں سے مخلصین کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تا مخلصین اکٹھے ہو جائیں۔تم اوپر جاؤ اور عورتوں اور بچوں کو با حفاظت لے آؤ۔اس پر وہ جاتے ہیں اتنے میں مَیں دیکھتا ہوں کہ پہلے مرد اترتے ہیں اور پھر عورتیں لیکن میرا لڑکا انور احمد نہیں آیا۔پھر ایک شخص آیا اور میں نے اس کو کہا کہ انور احمد کہاں ہے۔اس نے کہا وہ بھی آ گیا ہے پھر جماعت میں ایک بیداری اور جوش پیدا ہوتا ہے۔چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں۔ان جمع ہونے والے لوگوں میں سے میں نے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہچانا ہے۔ان لوگوں کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو باغی تھے اور میں انہیں کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اتحاد کے ذریعہ طاقت دی تھی اگر تم ایسے فتنوں میں پڑے تو کمزور ہو کر ذلیل ہو جاؤ گے۔کچھ لوگ مجھ سے بحث کرتے ہیں۔میں انہیں دلائل کی طرف لاتا ہوں اور یہ بھی کہتا ہوں کہ اس سے جماعت کاتو کچھ نہیں بگڑے گاالبتہ اس کے وقار کو جو صدمہ پہنچے گا اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کے حضور تم ذمہ دار ہو گے۔اس پر بعض لوگ کچھ نرم ہوتے ہیں لیکن دوسرے انہیں پھر ورغلا دیتے ہیںاور اسی بحث مباحثہ میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔اس رؤیا کے کئی حصوں سے معلوم ہوتا ہے یہ واقعات میری وفات کے بعد کے ہیں وَاﷲاَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اور اس موقع پر اس رؤیا کا آنا شاید اس امر پر دلالت کرتا ہو کہ مجھے جماعت کو آئندہ کے لئے ہوشیار کر چھوڑنا چاہئے کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔اس رؤیا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق رکھنے والے خواہ تھوڑے ہوں اپنے دشمنوں پر غالب آئیں گے۔اِنْشَاءَ اللّٰہ۔جب میں ابھی بچہ تھااور خلافت کا کوئی وہم وگمان نہ تھا۔یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اُس وقت بھی اﷲ تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی۔اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔یعنی تیرے ماننے والے اپنے مخالفوں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہے کیونکہ میرے اتباع کا تو خیال بھی میرے ذہن میں نہ آ سکتا تھاکہ کبھی ہوں گے۔یہ عبارت قرآن کریم کی ایک آیت سے لی گئی ہے جو حضرت مسیح ناصریؑ کے متعلق ہے مگر آیت میں وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ (آل عمرٰن:۵۶)ہے اور میری زبان پر اِنَّ الَّذِیْنَکے لفظ جاری کئے گئے۔غرضیکہ اﷲ تعالیٰ نے اس قدر عرصہ پہلے سے یہ خبر دے رکھی تھی اور کہا تھا کہ مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ تیرے متبع تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔اب اس کی ایک مثال تو موجود ہے۔کتنے شاندار وہ لوگ تھے جنہوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی مگر دیکھو اﷲ تعالیٰ نے ان کو کس طرح مغلوب کیا ہے۔بعد کا میرا ایک اور رؤیا بھی ہے جو اس کی تائید کرتا ہے۔میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ نور کے ستون کے طور پر زمین کے نیچے سے نکلا۔یعنی پاتال سے آیا اور اوپر آسمانوں کو پھاڑ کر نکل گیا۔اگرچہ مثال بُری ہے لیکن ہندوؤںمیں یہ عقیدہ ہے کہ شِو جی زمین کے نیچے سے آیا اور آسمانوں سے گزرتا ہؤا اوپر چلا گیا۔یہ مثال اچھی نہیں مگر اس میںاسی قِسم کا نظارہ بتایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ پاتال سے نکل کر افلاک سے بھی اوپر نکل گیا۔میں نے بھی دیکھا کہ ایک نور کا ستون پاتال سے آیا اور افلاک کو چیرتا ہؤا چلا گیا۔میں کشف کی حالت میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا کا نور ہے۔پھر اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا لیکن مجھے ایسا شبہ پڑتا ہے کہ اس کے رنگ میں ایسی مشابہت تھی کہ گویا وہ گوشت کا ہے۔اس میں ایک پیالہ تھا جس میں دودھ تھا جو مجھے دیا گیااور میں نے اسے پیااور پیالے کو منہ سے ہٹاتے ہی پہلا فقرہ جو میرے منہ سے نکلا وہ یہ تھا کہ اب میری امت کبھی گمراہ نہ ہو گی۔معراج کی حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺکے سامنے تین پیالے پیش کئے گئے۔پانی، شراب اور دودھ کا اور آپ نے دودھ کا پیالہ پیا تو جبرائیل نے کہا کہ آپ کی اُمت کبھی گمراہ نہ ہو گی۔ہاں اگر آپ شراب کا پیالہ پیتے تو یہ اُمت کی گمراہی پر دلالت کرتا۔(بخاری کتاب مناقب الانصار باب المعراج) پس ان رؤیاؤں سے معلوم ہوتاہے کہ ممکن ہے دشمن باہر سے مایوس ہو کر ہم میں سے بعض کو ورغلانا چاہے لیکن بہر حال فتح ان کی ہے جو میرے ساتھ ہیں میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ واقعات میری زندگی میں ہوں گے یا میرے بعدکیونکہ بعض اوقات زندگی کے بعد کے واقعات بھی رؤیا میں دکھا دیئے جاتے ہیں۔اور بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے واقعات ہیںمگر میں جماعت کو ہوشیار کرتا ہوں کہ یہ قیمتی اصول ہیں جن پر انہیں مضبوطی سے قائم رہنا چاہئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مأموریت اور آپ کے اُمتی ہونے کو کبھی نہ بھولو۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سب سے بڑی لذّت اس میں ملتی ہے کہ میں اُمتی نبی ہوں۔ پس جس خوبصورتی پر آپ کو ناز تھا،اسے کبھی نہ چھوڑو۔پھر آپ کی تعلیم اورالہامات کو سامنے رکھو۔اس کے بعد خلافت ہے جس کے ساتھ جماعت کی ترقی وابستہ ہے۔رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی تھی کہ جس دن مسلمانوں نے اس چادر کو پھاڑ دیااس کے بعد ان میں اتحاد نہیں ہو گا۔ حضرت عبد اﷲ بن سلام نے جو یہود سے مسلمان ہوئے تھے،حضرت عثمان کی شہادت کے وقت کہا کہ اب مسلمانوں میں قیامت تک اتحاد نہیں ہو سکتا پس خلافت بہت قیمتی چیز ہے۔بے شک خلیفہ کا وجود قیمتی ہوتا ہے مگر اس سے بہت زیادہ قیمتی چیز خلافت ہے جس طرح نبی کا وجود قیمتی ہو تا ہے مگر اس سے زیادہ قیمتی چیز نبوت ہوتی ہے۔
پس یہ اصول ہیں ان کو مضبوطی سے پکڑو۔پھر یہ خیال نہ کرو کہ تم تھوڑے ہویا بہت کیونکہ ان اصولوں کے پیچھے خدا ہے اور جو تم پر ہاتھ ڈالے گا وہ گویا خدا پر ہاتھ ڈالنے والا ہو گا۔جس طرح بجلی کی تار پر غلط طریق پر ہاتھ ڈالنے والا ہلاک ہو جاتا ہے لیکن صحیح طور پر ہاتھ ڈالنے والا اس سے انجن چلاتا ہے اور بڑے بڑے فوائد حاصل کر لیتا ہے۔اسی طرح ان اصول کے اگر تم پابند رہو،اﷲ تعالیٰ پر توکّل رکھواور ہر قربانی کے لئے تیاررہو تو تم پر حملہ آور ہونےوالا ہلاکت سے نہیں بچ سکے گا۔پس یہ باتیں اپنے اندر پیدا کرو اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی پرواہ نہ کروکہ یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ابھی اس قِسم کے واقعات کا کوئی وہم و گمان بھی نہ تھااور نہ ہی میری خلافت کاکوئی خیال تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے بتا دیا تھا کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے۔میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں اور کوئی مجھے کہتا ہے کہ راستہ میں بعض چیزیں آپ کو ڈرانا چاہیں گی اور کئی قِسم کی شکلیں بَن بَن کر آپ کی توجہ کو دوسری طرف پھیرنا چاہیں گی مگر آپ یہ کہتے جائیں۔ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘اور سیدھے چلتے جائیںاور کسی چیز کا خیال نہ کریں۔پس میں بھی آپ سے یہی کہتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے نفسوں پر قابو رکھیں اور ان چھوٹی موٹی چیزوں کی پرواہ نہ کریں ان کو چھوڑ دیں کہ یہ خَس و خاشاک کی مانند ہیں جس طرح ایک شخص جسے بہت جلدی ہواگر اس کے پاؤں میں کانٹا چُبھ جائے تو وہ چلتے چلتے ہی اس کو نکال دیتا ہے،ٹھہرتا بھی نہیں۔ آپ لوگ بھی ان مخالفتوںکو زیادہ وقعت نہ دیں بلکہ یاد رکھیں کہ بعض اوقات تو کام اتنا ضروری ہوتا ہے کہ کانٹا نکالنے پر بھی وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ایک شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کے لئے جانے والا کب کانٹے نکالنے بیٹھتا ہے۔پس تم اپنے مقصود کے پیچھے چلوجو دنیا میں اسلام اور سلسلہ کی عظمت کو قائم کرنا ہے۔اس کے ذرائع میں نے اپنی سکیم میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کر دیئے ہیں۔انہیں مدّنظر رکھتے ہوئے چلتے جاؤاور کوئی گالیاں بھی دے تو پرواہ نہ کرو۔
…پس جماعت کو میری نصیحت یہی ہے کہ مقصود کو سامنے رکھو اور موجودہ شرارتوںکو بھول جاؤ۔یہ باتیں بالکل چھوٹی ہیں اگرچہ بعض حالات میں بڑی ہو جاتی ہیں اور مجھے بھی ان کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے۔مگر میں پسند یہی کرتا ہوں کہ ان باتوں کی طرف زیادہ توجہ نہ کی جائے۔…تم دعاؤں میں لگے رہو اور اﷲ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرو۔… اگر تم نے دعائیں کی ہیں تو پھر تمہیں کسی سے خطرہ کی ضرورت نہیں۔سچے دل سے کی ہوئی ایک منٹ کی دعا کے بعد بھی انسان کو اطمینان ہو جاتا ہے۔…نیکیوں میں لگ جاؤ،دعائیں کرو،آپس کی لڑائیاں جھگڑے چھوڑ دواور ہر وقت اپنے مقصود کو مدّ نظر رکھو۔…اصل مقصود نیکی تقویٰ اور تبلیغ ہے۔تم میں سے کتنے ہیں جو تہجّد پڑھتے ہیں۔مجھے معلوم ہے کہ مساجد میں بیٹھ کر دوسرے تذکرے کرتے رہتے ہیں اور لغو باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔پس پہلے اپنی اصلاح کرو اور مساجد میں ایسی باتیں کرو جو دین کے لئے مفید ہوںجن سے سلسلہ کو مدد ملے،لغو باتیں نہ کرو۔
…خدا سے صلح کی کوشش کرو اور اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو۔… جب اﷲ تعالیٰ کو اس مضبوطی سے پکڑ لیا جائے تو وہ خود کمزور بن جاتا ہے اور بندے کو طاقتور کر دیتا ہے اور اﷲ تعالیٰ بندوں کے ساتھ ہمیشہ صلح کرتا رہتا ہے۔وہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ہم نے نبی بھیجے،دنیا نے ان کی مخالفت کی مگر ہم برابر نبی بھیجتے رہے۔یہ خود بخود صلح کی کوشش کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔کہتے ہیں ایک دھوبی تھا جو ہر روز روٹھ جانے کا عادی تھا۔ایک دن گھر والوں نے کہا کہ آج اسے نہیں منائیں گے۔وہ اپنا بیل ساتھ لے کر چلا گیااور جب شام تک کوئی منانے نہ آیا تو خود ہی اس کی دم پکڑ کر چل پڑا۔بیل نے گھر کو ہی جانا تھا یہ بھی دم پکڑے جا رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ یار کیا کرتے ہو،کیوں مجھے کھینچ کر گھر لئے جاتے ہو میں نہیں جاؤں گا۔تو ہمارا ربّ بھی اگرچہ خالق اور مالک ہے اور چاہے تو ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصہ میں ہمیں تباہ کر دے مگر اپنی محبت میں اس قدر بڑھا ہؤا ہے کہ بندوں سے صلح کرنے اور انہیںمعاف کرنے کے بہانے ہی تلاش کرتا ہے اور گویا زبردستی بندے کے دل میں داخل ہو جاتا ہے۔چنانچہ دیکھو محمد رسول ا ﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی وہ زبردستی آیا حالانکہ مکّہ کے لوگ اسے نکالنا چاہتے تھے۔پس ایسے خدا سے…ایسی صلح کرو کہ تمہارے دلوں میں، کانوں میں، زبانوں پر، سینوں میں اور جسم کے ذرّہ ذرّہ میںوہ سرایت کر جائے۔اور جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَ اجْعَلْ فِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ فِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ فِیْ کُلِّ اَعْضَائِیْ نُوْرًا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اَمَامَیْ نُوْرًا وَ اجْعَلْ خَلْفِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ یَمِیْنِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ یَسَارِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ تَحْتِیْ نُوْرًا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ نُوْرًا۔ تمہارے جسم کے ہر حصہ میں اﷲ تعالیٰ کا ہی نور ہو۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہاَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ (النور:۳۶) اور اس لئے اس دعا کا یہ مطلب ہؤا کہ خدا ہی خدا ہمارے ہر طرف ہو اور ہم میں اور اس میں فرق نہ رہے اور اگر تم یہ مقام حاصل کر لو تو پھر جو تم پر حملہ کرے گا،وہ خدا پر حملہ کرنے والا ہو گااور جو خدا پر حملہ کرے وہ اپنا ٹھکانا خود سمجھ لے کہ کہاں ہو گا۔اﷲ تعالیٰ آپ لوگوںکو صبر کی توفیق دے اور ایسی اعلیٰ ہمت دے کہ آپ لوگ دنیا کی چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبرا کر اپنے اصل مقصود کو ترک نہ کریں بلکہ اپنے نفس کی اصلاح اور پھر کُل دنیا کی اصلاح میں لگے رہیں۔اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔
(الفضل ۱۷؍جنوری ۱۹۳۵ء)