جماعت احمدیہ فرانس کی سرگرمیاں
Armistice Day کے موقع پر ایک تقریب میں جماعت کی شرکت
فرانس بھر میں ہر سال مورخہ 11؍نومبر کو جنگ عظیم اول کے اختتام کی یاد میں ’’Armistice Day‘‘ یعنی جنگ بندی کا دن منایا جاتا ہے۔ اس روز ملک بھر میں سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک تقریب فرانس کے شمالی ریجن Hauts-de-France میں منعقد کی گئی جس میں ہر سال کی طرح امسال بھی جماعت احمدیہ نے شرکت کی۔
چنانچہ مورخہ 11؍نومبر کو صبح گیارہ بجے مقامی صدر جماعت، سیکرٹری تبلیغ، سیکرٹری اشاعت پھولوں کے گلدستہ کے ساتھ تقریب کے مقام پر پہنچے۔ اسی طرح احمدی بچوں نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی۔ جب سب لوگ وہاں جمع ہوگئے تو میئر نے وہاں پھول رکھے۔ اس کے بعد علاقہ کے میئر نے صدر جماعت کو پھول رکھنے کی دعوت دی۔
تقریب کے بعد میئر نے تقریر کی اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ آخر میں میئر نے ایک ہال میں دعوت دی جہاں ریفریشمنٹ کا انتظام تھا۔ وہاں پر میئر نے جماعت کا شکریہ ادا کیا اور مزید باتوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ میئر سے ہماری بین المذاہب کانفرنس کے موضوع پر بھی بات ہوئی۔
بین المذاہب کانفرنس
جماعت احمدیہ فرانس کی ایک جماعت او دے فرانس (Hauts-d- France) نے، جو پیرس سے 250 کلومیٹر شمال میں ’’بیوغاج‘‘ (Beuvrages) میں واقع ہے، 13؍نومبر 2022ء کو اپنی نویں بین المذاہب کانفرنس منعقد کی۔ یہ کانفرنس علاقہ Beuvrages کے ہال Maison de Quartier میں ہوئی۔ اس کانفرنس کا موضوع عالمی بحران اور امن کی راہ رکھا گیا۔
الحمدللہ اس کانفرنس میں 5 مذہبی راہنماؤں نے شرکت کی جن کا تعلق جماعت احمدیہ مسلمہ، عیسائی پروٹسٹنٹ، عیسائی کیتھولک، بدھ مت اور ہندو ازم سے تھا۔
ان مذہبی نمائندوں کے علاوہ علاقہ کے میئر علی بن یحییٰ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور اس کانفرنس کی صدارت کی۔اس کے علاوہ یونیفیکیشن عقیدہ کے 4 مہمانوں نے بھی شمولیت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
کانفرنس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم ایزودین آکوش صاحب نے کی۔ اس کے بعد مکرم نعمان رشید صاحب سیکرٹری اشاعت نے جماعت احمدیہ کا تعارف پیش کیا۔ پھر تمام مہمانوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
بدھ مت سے تعلق رکھنے والے LEFEBVRE Jean-Jacques صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم عالمی بحران پر مثبت انداز میں بات کرنے جارہے ہیں۔ مہاتما بدھ کی تعلیم کہتی ہے کہ ہم تکلیف اٹھاتے ہیں کیونکہ ہمیں سیکھنا ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ عالمی بحران ہمیں کس چیز کی طرف لے جائے گا۔ یہ بحران اجتماعی ہے، یہ ہم سب کو پریشان کرتا ہے۔ اگر یہ بحران مصائب پیدا کرتا ہے، تو یہ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنے کی اجازت دے گا۔ ہمارے ہاں دھرم اور کرما کا تصور ہے۔ ہم کائنات پر یقین رکھتے ہیں اور اس کائنات میں ہمارا ایک مقام ہے۔ ہم اجتماعی کرما کا شکار ہیں۔ بحران ہمارے انتخاب کا نتیجہ ہو سکتا ہے کیونکہ ہم نے کائنات کے بعض قوانین کا احترام نہیں کیا ہے۔ ہم شاید محبت کا کردار کھو چکے ہیں۔ ہم جس چیز کا تجربہ کر رہے ہیں وہ امن، بھائی چارہ ، غیر مشروط محبت اور اس کی مزید تفہیم کی طرف ایک قدم ہے۔ یہ ہمیں روشنی میں لے آئے گا۔ مختصراً، بدھ کی تعلیم ہمیں کرما کے ذریعے ذمہ دار بننا سکھاتی ہے۔
عیسائی پروٹسٹنٹ کے راہنما Lavoisy Pierre صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اس پر انصاف کے مطابق فیصلہ کیا جائے نہ کہ ہماری مذہبی یا فلسفیانہ من گھڑت باتوں پر۔
ہندو ازم کے راہنما Gaura Bakta صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ساتھ رہنا ہمیشہ خوشی کی بات ہے۔ گیتا ایک ایسی کتاب ہے جو بحران سے نمٹتی ہے لیکن سب سے بڑھ کر امن کے ساتھ۔ ہمیں یہ جاننے کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، لیکن جو ہم نہیں جانتے وہ امن کا راستہ ہے۔ کیونکہ اگر ہم جانتے تو ہم کسی بحران میں نہ ہوتے۔ ہم یہاں آئے ہیں کیونکہ ہم خدا کے قوانین کا احترام نہیں کرتے اور ہم نے خود کو خدا سے دور کر لیا ہے۔ جب آپ خدا سے محبت کرتے ہیں تو آپ اپنے پڑوسی سے محبت کریں گے کیونکہ خدا اس کے دل میں ہے۔
یونیفیکشنسٹ عقیدہ کی نمائندہ مکرمہ اونانا چھانتل صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج جو موضوع ہمیں یہاں اکٹھا کرتا ہے وہ عالمی بحران اور امن کا راستہ ہے۔ ہم جنگ، قحط اور امیر اور غریب کے درمیان فرق کی ہوا کے ذمہ دار ہیں۔ ہم سب کی ایک مشترکہ بنیاد ہے جو کہ خدا ہے۔ کیا خدا جنگ، قحط یا غریب اور امیر میں فرق چاہتا تھا؟ ہرگز نہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ ہم ایک خاندان بنیں۔
مکرم نصیر شاہد صاحب مبلغ انچارج فرانس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا ایک پریشان دور سے گزر رہی ہے۔ ہر روز صورت حال نئے تنازعات کو جنم دیتی ہے جو پچھلے تنازعات سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ میں قرآن مجید، انبیاء کرام علیہم السلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پر مبنی اپنے تاثرات پیش کروں گا۔ ہم اکثر موجودہ صورت حال اور دوسری عالمی جنگ کے درمیان ایک متوازی کھینچتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ صورت حال دنیا کو تیزی سے تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے جس کے اثرات انسانی سوچ سے باہر ہیں۔ اس کی وجہ ناانصافی ہے جو غرور، خود غرضی اور غریب اور بے اختیار ممالک کے وسائل پر قبضے سے جنم لیتی ہے۔ دنیا امن کے لیے راہنما کی تلاش میں ہے۔ احمدی مسلمانوں کی راہنمائی کی جاتی ہے اور یہ راہنما ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دنیا کو متنبہ کر رہا ہے اور دنیا کے سیاسی راہنماؤں کو خطوط کے ذریعے امن کا پیغام پہنچا رہا ہے۔ اب تک کسی لیڈر نے اس پر یقین نہیں کیا تھا لیکن آج ہر کوئی تیسری عالمی جنگ کی بات کر رہا ہے۔
میئر علاقہ Beuvrages مکرم علی بن یحییٰ صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں جمہوریت کے علاوہ کوئی مذہب پیش نہیں کرتا۔ کانفرنس میں ہر کی گئی بات قابل تعریف ہے۔ میرے خیال میں ہم سب بہت زیادہ امن اور محبت کے ساتھ ایک بہتر دنیا کی آمد چاہتے ہیں۔ اگر انسان اپنے موقف پر نظر ثانی نہیں کرتا تو اسے اس قیامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ جس بھی عقیدے کی پیروی کرتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ آپ کے اندر اپنے پڑوسی کے لیے محبت، امن اور احترام ہو۔
میئر صاحب نے تمام شاملین کا شکریہ ادا کیا اور جماعت احمدیہ کو اس کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی اور آئندہ بھی اس قسم کے پروگرام کرنے کی درخواست کی۔
آخر پر دعا ہوئی اور تمام لیڈران کو کتاب عالمی بحران اور امن کی راہ اور چند پمفلٹ بطور تحفہ پیش کیے گئے۔ شاملین کے لیے ریفریشمنٹ کا بھی انتظام تھا۔ اس کانفرنس میں کل حاضری 78 رہی۔ اس سال محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پروگرام کو یوٹیوب پر لائیو نشرکیا گیا جس میں شاملین کی تعداد 190 رہی۔ اس طرح کل 268افراد نے کانفرنس میں شمولیت اختیار کی۔
(رپورٹ:منصوراحمد مبشر۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل )