استغفار اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کا وارث بناتا ہے
خالص ہو کر استغفار کرو گے، اللہ تعالیٰ کے رسول کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے گناہوں سے معافی مانگو گے اور آئندہ کے لئے گناہوں سے دور رہنے کا عزم اور کوشش کرو گے تو وہ حقیقی استغفار ہو گا۔ … اللہ تعالیٰ نے پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور پھر اس کے بعد اس زمانے میں بلکہ آئندہ زمانوں تک کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جانشین ہیں، جو خاتم الخلفاء ہیں۔ پس حقیقی استغفار کرنے والے اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کی یقیناً خدا تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا اگر وہ سچے جانشین کی حقیقی اِتّباع بھی کرنے والا ہو اور اُس کے حکموں پر چلنے والا بھی ہو۔ وہ اُس کے بھیجے ہوئے فرستادے کو قبول کرے پھر اُس تعلیم پر عمل کرے جو دی جا رہی ہے۔ بہر حال جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج استغفار بتایا ہے۔… پس استغفار جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مقصد کو پورا کرتا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اور زمانے کے فسادوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے انسان کو بچاتا ہے۔ اُن راستوں پر چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے راستے ہیں جن سے دنیا و آخرت سنورتی ہے، وہاں انسان کی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مشکلات سے نکالنے کا بھی ذریعہ بنتا ہے… انسان استغفار سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کا بھی وارث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر فضل فرمایا کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے جس نے ہمیں عبادتوں اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور اُس کے فضلوں کو سمیٹنے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ لیکن اس سے حقیقی فائدہ اُٹھانے کے لئے ہمیں مستقل استغفار کرتے چلے جانے کی بھی ضرورت ہے جسے ہر احمدی کو حرزِ جان بنانا چاہئے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍ جنوری ۲۰۱۲ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۳؍فروری۲۰۱۲ء)