نظامِ شوریٰ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں (قسط8)
فیصلہ کا آخر میں اختیار، صوابدیدی اختیارخلیفۂ وقت کو ہے
’’صبح میں نے حضرت عمرؓ کے حوالہ سے ذکر کیا تھا کہ شوریٰ کے بغیر خلافت نہیں ہے۔ مشورے کا بے شک اللہ تعالیٰ کا حکم ہے آنحضرت ﷺ کا بھی حکم ہے۔’’شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘ کا حکم آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا ہے۔…خلیفۂ وقت کا آپؐ سے کوئی بلند مقام نہیں، کہ وہ مشورہ نہ کرے۔ یا مقامی طور پر کسی بھی عہدیدار کا چاہے وہ مقامی امیر ہے یا لوکل امیر ہے یا نیشنل لیول پر کوئی عہد یداریا امیر ہے اس کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ مشورہ نہ کرے…مشورہ کرنا ضروری ہے اور پھر جوملکوں کی مجالسِ شوریٰ ہیں جو بھی وہ مشورہ دیتی ہیں وہ وہاں فائنل نہیں ہو جا تا۔ وہ تو خلیفۂ وقت کو مشورہ دے رہی ہوتی ہیں جو خلیفۂ وقت تک پہنچتا ہے اور وہاں سے آخری فیصلہ ہو کر آتا ہے۔ اور خلیفۂ وقت کو اس فیصلے کا اختیار ہے کہ چاہے وہ بدل دے یا مِن وعَن اسی طرح قبول کر لے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے’’شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘ کے بعد یہ نہیں فرمایا کہ ضرور ان کی بات ماننی ہے۔ پھر فرمایا’’اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ‘‘کہ جب فیصلہ کر لیا ہے۔ چاہے اس مشورہ کے حق میں کیا یا اس مشورہ کے خلاف کیا تو پھر اللہ پر توکل کرو۔ یہی حکم آنحضرت ﷺ کو ہے، یہی خلفاء راشدین نے طریقہ اختیار کیا،اور یہی حضرت مسیح موعودؑ کا طریقہ تھا اور آگے آپ کی خلافت کا طریقہ ہے۔ اس لئے بعض دفعہ یہ اعتراض بھی بعض جگہ سے اٹھ جاتا ہے کہ ہم نے تویہ رائے دی تھی فیصلہ یہ ہو گیا۔ جو بھی آپ نے رائے دی تھی وہ رائے تھی وہ فیصلہ نہیں تھا۔ فیصلہ کا آخر میں اختیار، صوابدیدی اختیار(discretionary) اختیار خلیفۂ وقت کو ہے۔ جو بھی وہ فیصلہ کرے تو اس کو خوشی سے قبول کرنا چاہیے۔گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ایسی مخلص ہے کہ ذرا بھی چوں چراں نہیں کرتی۔ لیکن بعض ایسے دماغ ہوتے ہیں یا بعض نوجوانوں کی تربیت نہیں ہوتی یا بعض فتنہ انگیز لوگ، بیچ میں فتنہ پرداز ہوتے ہیں جو غلط باتیں کر جاتے ہیں خاموشی سے اور بغیر کسی کو ایسا تاثر دیئے کہ جس طرح وہ کوئی فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں گویا معمولی سی بات ہوتی ہے۔ تو ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب فیصلہ خلیفۂ وقت کی طرف سے آ جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے فیصلہ کر رہا ہوتا ہے اور اس کی پابندی کرنا پھر ہر ایک کا فرض بن جا تا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جماعت کی خاطر، حضرت مسیح موعودؑ کی خاطر،آپ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے، خلیفۂ وقت کا اگر کوئی فیصلہ بظاہر غلط بھی لگ رہا ہوگا تو اس کے نتائج کبھی بھی اللہ تعالیٰ غلط نہیں ہونے دے گا۔ اس لئے ہمیشہ اس بات کو اپنے سامنے رکھیں۔‘‘(خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ جرمنی 20؍دسمبر2009ء، الفضل انٹرنیشنل، 26؍فروری2010ءصفحہ10)
ہرمشورہ پر بعدمنظوری تمام عہدیداران اور ممبران خود بھی عمل کرنے والے ہوں
’’اللہ تعالیٰ تمام نمائندگان کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اور مجلس شوریٰ کے مقام اور وقار کو قائم رکھتے ہوئے شوریٰ کی کارروائی میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔صرف مشورے اور منصوبہ بندی ہی نہ ہو بلکہ ہرمشورہ پر بعدمنظوری تمام عہدیداران اور ممبران خود بھی عمل کرنے والے ہوں اور عملدرآمد کروانے کے لئے بھر پورتعاون اور کوشش کرنے والے بھی ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان دنوں میں دعاؤں کی طرف خاص توجہ کریں۔نہ صرف اپنے لئے،جماعت کے لئے بلکہ ملک کی سلامتی کے لئے بھی دعائیں کریں۔‘‘ (پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2010ء،روزنامہ الفضل5؍اپریل2010ء صفحہ3)
ممبرانِ شوریٰ اپنی حالتوں میں دوسروں سے بڑھ کر پاک تبدیلیاں پیداکرنے والے ہوں
’’مجلس شوریٰ کے ممبران اورعہدیداران اس بات کے زیادہ پابند ہونے چاہئیں کہ اپنی حالتوں میں دوسروں سے بڑھ کر پاک تبدیلیاں پیداکرنے والے ہوں تاکہ دوسروں کے لئے نمونہ بن سکیں۔کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے خطبہ میں اپنی ایک پرانی خواب کے حوالے سے حالات کے بدلنے کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ہر سطح کے عہدیداران اور ہرتنظیم کے عہدیداران اور شوریٰ کے نمائندگان اس طرف بہت توجہ دیں۔مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں بھر پور توجہ دی جارہی ہے کہ نہیں۔ یہ تو ہر کوئی اپنا اپنا جائزہ لے کر ہی فیصلہ کرسکتا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ حالات تو بدلنے ہیں اور جماعت نے ترقی بھی کرنی ہے جو کہ ہوبھی رہی ہے اور جوعارضی روکیں ہیں وہ بھی انشاء اللہ دور ہونی ہیں لیکن ان عارضی روکوں کے جلدتر دور ہونے کے لئے ہمارا خالص ہو کر عبادتوں کی طرف توجہ دینا اور حقوق العباد کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔پس مجلس شوریٰ کے ممبران سے بھی میری درخواست ہے کہ اس طرف بہت توجہ کریں اور اپنی جماعتوں کو بھی اس طرف بہت زیادہ توجہ دلانے کی کوشش کریں تاکہ جلد تر ہم احمدیت کی فتح ونصرت کے نظارے پاکستان میں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی دیکھنے والے ہوں۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2012ء، روزنامہ الفضل28؍مارچ2012ءصفحہ3)
ہمیشہ تقویٰ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مشورےدیں
’’ہمیشہ تقویٰ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مشورے دیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ تقویٰ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی کام تبھی ہوسکتا ہے جب آپ کی عام زندگیوں میں بھی ہر معاملہ میں آپ کا قول وفعل خداتعالیٰ کی رضا کے تابع ہو۔پس اس لحاظ سے بھی اپنے جائزے لیں کہ جب ہم مشورہ دے رہے ہیں تو اب تک اگر ہماری زندگیوں میں ان مشوروں سے تطابق نہ رکھنے والے قول وفعل ہیں تو آج سے ہم سب سے پہلے اپنے آپ کوان کا تابع کریں گے۔اگر یہ روح ہمارے عہدیداران اور ممبران شوریٰ میں پیداہوگئی تو ہم پچاس فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کرنے والے بن جائیں گے۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2013ء،روزنامہ الفضل یکم اپریل2013ء صفحہ3)
عملی کوشش کے لیے مصمم ارادہ اورعہدکریں اور پھر اپنی کوششوں کی انتہاکریں اوراللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں
’’اگر آپ جائزہ لیں تو جو منصوبہ بندی آپ کرتے ہیں۔جو مشورہ آپ خلیفۂ وقت کو دیتے ہیں اورجن کی خلیفۂ وقت سے منظوری کے بعد اس کی تعمیل اور اس کے مطابق عمل کا عہد کرتے ہیں۔حقیقت میں اس کا 20فیصد بھی کام نہیں ہوتا۔متعلقہ نظارتیں یا صدرانجمن احمدیہ بعض تجاویز کو شوریٰ میں پیش کرنے سے اس لئے ردّ کردیتے ہیں کہ حسب قواعد ان کو تین سال کا عرصہ نہیں ہوا۔بہت سی تجاویز ہیں جو تین سال بعد دوبارہ پیش کردی جاتی ہیں اس لئے کہ باوجودعمل کرنے کے عہد کے عہدیداران نے اس پر عملدرآمد کروانے کے لئے وہ کوشش نہیں کی جو کرنی چاہیے۔نتیجۃً پھر صفر سے کام شروع ہوتاہے۔خاص طور پر تربیتی امور میںخاطر خواہ کوشش نہ جماعتوں کی طرف سے ہوتی ہے،نہ متعلقہ نظارتیں صحیح طور پر پیچھا کرتی ہیں،نہ مربیان اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں۔پس اپنے جائزہ لیں۔صرف دعوے نہ ہوں کہ ہم یہ کردیں گے،وہ کردیں گے۔بلکہ عملی کوشش کے لئے مصمم ارادہ اور عہد کریں اور پھر اپنی کوششوں کی انتہا کریں اور اللہ تعالیٰ سے مددمانگیں۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2013ء،روزنامہ الفضل یکم اپریل2013ء صفحہ3)
(جاری ہے)
٭…٭…٭