سوال وجواب پیغام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع بین الاقوامی وزارتی کانفرنس برائے آزادی مذہب 05؍ جولائی 2022ء
سوال نمبر1:بین الاقوامی وزارتی کانفرنس برائے آزادی مذہب کہاں منعقدہوئی اور اس کا انعقاد کس کی طرف سے کیا گیا؟
جواب: بین الاقوامی وزارتی کانفرنس برائے آزادیٔ مذہب Queen Elizabeth II Centreلندن میں منعقد ہوئی۔اوراس تقریب کا اہتمام برطانوی حکومت کی طرف سے کیا گیا۔
سوال نمبر2: بین الاقوامی وزارتی کانفرنس برائے آزادی مذہب کے انعقاد کا مقصدکیا تھا؟
جواب:اس کا مقصد عالمی سطح پر مذہب اور عقیدے کی آزادی کی کوششوں میں تیزی لانا نیزحکومتوں، ارکان پارلیمینٹ، مذہبی نمائندوں اور سول سوسائٹی کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا تھا۔
سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پیغام کے علاوہ تقریب کے افتتاحی سیشن میں کن کن راہنماؤں کے پیغامات شامل تھے؟
جواب:افتتاحی سیشن میں رائل ہائینس، پرنس آف ویلز اور برطانوی وزیراعظم سمیت دیگر معززین اور مذہبی راہنماؤں کے پیغامات شامل تھے۔
سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کانفرنس کے مقاصدکی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے اپنے پیغام میں کانفرنس کے مقاصد کی تعریف کی اور مذہب کی آزادی کے بارے میں قرآنی تعلیمات کا خاکہ پیش فرمایا نیز حقیقی اوردیرپا امن کے قیام کے لیے لوگوں کو اپنے خالق کو پہچاننے کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔ حضور انور نے فرمایا’’مذہب اور عقیدے کی آزادی بنیادی انسانی حقوق ہیں اور ہر ایک شخص کے لیے ہر جگہ اس کا تحفظ یقینی ہونا چاہیے۔ اگرچہ ہم ایک بڑھتی ہوئی سیکولر دنیا میں رہ رہے ہیں، جس میں لوگ مذہب سے دُور ہو رہے ہیں، پھر بھی دنیا بھر میں لاکھوں لوگ مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں اور یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے عقائد کے مطابق گزار سکیں۔‘‘
سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی مسلمانوں پرظلم وستم کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:احمدی مسلمانوں کو اسلام پرایمان لانےکی وجہ سے جس ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔احمدی مسلمان کبھی بھی نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیتے اور نہ دیں گے۔ احمدیہ مسلم جماعت خود بھی شدید مذہبی ظلم و ستم کا شکار رہی ہے، اس حد تک کہ ہمارے خلاف نفرت انگیز قوانین بنائے گئے ہیں اور ہماری جماعت کو بنیادی مذہبی عقائد کا اظہار کرنے اور اس پر عمل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ کئی دہائیوں سے احمدی مسلمانوں کو صرف ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے بے دردی سے نشانہ بنایا گیا ہے، اور بہت سے لوگ مذہبی انتہا پسندوں کے غیر انسانی اور وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدیوں کے خلاف مظالم پر ردعمل کی بابت کیا بیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا:ہم (احمدی مسلمانوں) نے اس طرح کے نفرت اور ظلم کا جواب کبھی ظلم سے نہیں دیا اور نہ ہی دیں گے۔ بلکہ ہمارا ردعمل ہمیشہ محبت اور امن کا ہو گا۔ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر، ہم مسلمانوں اور غیر مسلموں سے یکساں طور پر کہتے ہیں کہ تمام لوگوں کو اپنے پرامن مذہبی عقائد کا دعویٰ کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے ہمیشہ آزاد ہونا چاہیے۔
سوال نمبر7: قرآن کریم میں طاقت کے استعمال کی اجازت کس صورت میں دی گئی ہے؟
جواب: فرمایا:قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے عقیدہ کی آزادی اور ضمیر کی آزادی کو اس حد تک متعین فرمایا ہے کہ طاقت کے استعمال کی اجازت صرف ان لوگوں کے جواب میں دی گئی ہے جو دین کو دنیا سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔درحقیقت قرآن پاک واضح طور پر بتاتا ہے کہ اگر کوئی مذہب کو تباہ کرنے والوں کو زبردستی جواب نہیں دیتا تو کوئی گرجا گھر، synagogue، مندر،مسجد یا کوئی اَور عبادت گاہ جہاں خدا کا نام لیا جائے، محفوظ نہیں رہے گی۔ چنانچہ قرآن کریم نے تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کو مسلمانوں کا مذہبی فریضہ قرار دیا ہے اور عقیدہ کی آزادی کو ہمارے مذہب کا بنیادی ستون قرار دیا ہے۔
سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حقیقی آزادی اوردیرپا امن کے لیے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ایک مذہبی شخص کے طور پر، یہ میرا دلی ایمان ہے کہ دنیا میں حقیقی آزادی اور دیرپا امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ انسان اپنے خالق کو نہ پہچان لے، اس کے حقوق کو پورا نہ کرے اور اس کے احکام پر عمل نہ کرے۔ خواہ مذہبی رجحان ہو یا نہ ہو، ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک خدا ہے جو خالق ہے اور جس کے ہاتھ میں ساری مخلوق ہے، اس لیے خالق کے اور پوری انسانیت کے حقوق کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔
سوال نمبر9:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پیغام کے آخرپر کیا دعافرمائی؟
جواب: فرمایا اللہ تعالیٰ حقیقی مذہبی آزادی اور ہم آہنگی کو غالب کرنے اور دنیا بھر میں تمام برادریوں اور لوگوں کو اپنے عقائد کے مطابق آزادی سے اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔