اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
ستمبر2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
دوبارہ ضمانت مسترد
چک 3/S.P ضلع اوکاڑہ؛ ستمبر 2021ء: منصور احمد طاہر پر ایف آئی آر نمبر 217…16 ایم پی او کے تحت پولیس کیس درج کیا گیا۔ 31؍مارچ 2021ء کو تھانہ حویلی لکھا ضلع اوکاڑہ سے انہیں گرفتار کیا گیا۔ مدعی نے الزام لگایا کہ طاہر نے ان کی مذہبی تقریب کے بارے میں منفی تبصرہ کیا۔ اس کے بعد پولیس نے ان کی چارج شیٹ میں توہین مذہب کی شق PPC 295-A شامل کر دی۔ 23؍اپریل 2021ءکو مجسٹریٹ نور عالم نے طاہر کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ اس کے بعد انہوں نے سیشن کورٹ میں درخواست دی۔ 14؍جون 2021ءکو ایڈیشنل سیشن جج محمد شفیق نے بھی ان کی ضمانت مسترد کر دی۔ ایڈیشنل سیشن جج لاہور سید علی عباس نے بھی موصوف کی درخواست مسترد کر دی۔ ڈی پی او نے فون کی جانچ پڑتال اور فرانزک کے لیے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے رابطہ کیا۔اس کے نتیجے میں ایف آئی اے نے اسی واقعے کی PECA ایکٹ 2016ءکے تحت ایک الگ ایف آئی آر نمبر 112 درج کی۔ انہیں اوکاڑہ جیل سے حراست میں لے کر لاہور جیل منتقل کر دیا گیا۔ 02؍ ستمبر 2021ء کو ایڈیشنل سیشن جج لاہور سید علی عباس نے نئے کیس میں بھی موصوف کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ منصور طاہر مذہب سے متعلق ایک غلط بات کہنے کے الزام کی وجہ سے پابند سلاسل ہیں۔ اب انہیں 10 سال قید کا سامنا ہے۔
دہشت گردوں کی مسلسل نظر
لاہور؛ اگست 2021ء: لاہور میں چند مجرموں کو گرفتار کیا گیا جو فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کے لیے احمدی بزرگان اور مقامات کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کا تعلق طالبان سے تھا۔ ان کے پاس سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا۔ انہوں نے اپنے منصوبوں کا اعتراف کیا۔ یہ معلومات ذرائع نے مختلف سیکیورٹی محکموں اور جماعت کے ساتھ شیئر کیں جس کہ وجہ سے جماعت کی انتظامیہ نے حساس مقامات کی سیکیورٹی سخت کر دی۔
احمدی اہلکار کو تبدیل کر دیا گیا
حسن ابدال، ضلع اٹک،ستمبر 2021ء: علی نصیر امینی بطور ایسوسی ایٹ برائے ترقی لوکل گورنمنٹ اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ بعد ازاں انہیں ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اٹک کا اضافی چارج دے دیا گیا۔ ان کی تقرری کے بعد سوشل میڈیا پر شدید احتجاج کیا گیا۔ مخالفین نے نصیرامینی کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ 2؍ ستمبر کو انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ چند ہفتوں میں پنجاب میں اس نوعیت کا یہ چوتھا واقعہ تھا۔
پولیس نے احمدی کا نام اس کی اپنی ہی دکان سے ہٹا دیا
تتہ پانی، آزاد کشمیر۔ ستمبر 2021ء: حاجی محمد شیر ایک دکان عسکری ٹریڈرز کے مالک ہیں۔ ان کا نام دکان کے مین بورڈ پر بطور پروپرائٹر لکھا ہوا تھا۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے لیے الیکشن لڑنے والے ٹی ایل پی کے ایک سابق امیدوار نے مقامی پولیس میں ان کے خلاف درخواست دائر کر دی۔ درخواست گزار نے لکھا کہ احمدیوں کو آئین میں کافر قرار دیا گیا ہے، اس لیے وہ اپنے ناموں میں ’’حاجی‘‘ اور ’’محمد‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے، جبکہ ملزم نے اپنی دکان کے بورڈ پر حاجی محمد شیرلکھا تھا۔ اس عمل سے مقامی لوگوں میں شدید غم و غصہ ہے اور اس سے انتشار پھیل سکتا ہے۔ 2؍ستمبر 2021ءکو TLPکارکنوں نے پولیس کو بورڈ ہٹانے کے لیے شام تک کی مہلت دیتےہوئے عدم تعمیل کی صورت میں انہوں نے اسے خود ہٹانے کی دھمکی دی۔ اسی شام ’حکم ‘کی ’تعمیل ‘کرتے ہوئے پولیس نے بورڈ سے الفاظ ’’محمد‘‘ اور ’’حاجی‘‘ کو مٹا دیا۔ ٹی ایل پی، مسلم کانفرنس اور دیگر مذہبی جماعتوں کے سیاسی کارکن اس عمل میں شامل ہیں۔ اب انہوں نے احمدیوں کے گھروں سے مقدس تحریرات کو مٹانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ بورڈ سے حاجی محمد شیر کا نام ہٹائے جانے کے بعد درخواست گزار ملک ظہیر احمد نے ایک واٹس ایپ گروپ میں پیغام بھیجا کہ وہ احمدیوں کے خلاف مہم شروع کرنے لگاہےجس کے تحت علاقے کے ہوٹل مالکان سے کہا جائے گا کہ وہ احمدیوں کے برتن اور میزیں الگ کر دیں۔ اس نے مزید کہا کہ وہ علاقے میں احمدیہ مساجد سے کلمہ اور مقدس تحریرات کو ہٹانے کی مہم چلائے گا۔
عقیدہ ختم نبوت کا دفاتر میں فروغ
لاہور۔23؍ستمبر 2021ء: روزنامہ دنیا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی نے ختم نبوت کی تشہیر سے متعلق قرارداد منظور کر لی ہے۔ اس رپورٹ میں شامل امور ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
لاہور(خصوصی رپورٹر)پنجاب اسمبلی میں دفاتر میں ختم نبوت آیات لگانے پر قرارداد منظور کر لی گئی۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں قرآنی آیات اور احادیث کو سرکاری دفاتر میں سنہری حروف میں لکھوانے اور کشمیری راہنما علی شاہ گیلانی کی خدمات کے اعتراف کے مطالبے کی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں۔ پرویز الٰہی (اسپیکر) نے حکومت سندھ کی طرف سے سرکاری دفاتر میں ختم نبوت سے متعلق قرآنی آیات اور احادیث لگانے کے احکامات جاری کرنے کی تعریف کی۔
لاہور میں احمدی مخالف گروپس قائم ہوئے
لاہور سلطان پورہ، ستمبر 2021ء: ایک احمدی شہزاد احمد کو معلوم ہوا کہ دو احمدی مخالف گروہ احمدی عہدیداروں کو مذہب کی بنیاد پر پولیس مقدمات میں پھنسانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ موصوف بھی ان کی ٹارگٹ لسٹ میں ہیںان گروپس نے بارہا ان سے ملنے کی کوشش کی۔ وہ ان سے اپنا لٹریچر ساتھ لانے کو کہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ موصوف کو تبلیغ کے الزام میں گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیںتاہم احمدی احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کا خصوصی پیغام
7؍ستمبر 2021ء: چودھری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی نے 7؍ستمبر 2021ءکو پاکستان کے آئین میں 1974ء میں کی گئی دوسری ترمیم کی یاد میں ایک خصوصی ویڈیو پیغام جاری کیا اور اس دن کو ’’یوم تحفظ ختم نبوت‘‘قرار دیا۔ ہم ذیل میں ان کا پیغام پیش کرتے ہیں:’میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں مسلمانوں نے برصغیر میں جانوں کے نظرانے پیش کیے اور تب کہیں جاکے تقریباً سو سال بعد بر صغیر میں ۱۹۷۴ء میں مسلمانوں کو عظیم کامیابی ملی اور ختم نبوت کا باقاعدہ پاکستان کی اسمبلی نے قانون پاس کیا جس میں حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑہ شریف، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اور چودھری ظہور الٰہی صاحب شہید اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب مولانا شاہ احمد نورانی صاحب، مفتی محمود صاحب، سردار طفیل احمد صاحب سمیت اس وقت کے تمام قومی اسمبلی کے ممبر اور سیاسی، مذہبی راہنماؤں جنہوں نے اس بل کو پاس کروانے میں حصہ لیا اور یہاں میں ان کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اس تحریک کے دوران لوگوں کی شہادتیں بھی ہوئیں۔میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ختم نبوت ﷺ کا کام کرنا رسول پاک ﷺ کی شفاعت حاصل کرنے کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔ اللہ ہمیں اور ہماری آنے والی جو نسلیں ہیں ان کو ختم نبوت سے تحفظ اور دین کی سر بلندی کے لیے قبول فرمائے۔آمین‘
احمدی پر حملہ۔ بال بال بچ گئے
426 جی بی کانا کونٹا، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ؛ 10؍ستمبر 2021ء: اس گاؤں کے کچھ غنڈوں نے ایک احمدی محمد عابد کو ہراساں کیا۔ کامران نامی نوجوان نے ان سے جھگڑا کیا اور انہیں گالی گلوچ اور دھمکیاں دیتے ہوئے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے 6ساتھیوں سمیت واپس آیا۔ ان کے پاس اسلحہ اور ڈنڈے تھے۔ انہوں نے عابد پر حملہ کرنے کی کوشش کی جنہوں نے اپنے پڑوسیوں کے پاس پناہ لے رکھی تھی۔ موصوف نے حملہ آوروں کے خلاف تھانہ صدر گوجرہ میں شکایت درج کرائی۔ پولیس نے فریقین کو بلایا اور حملہ آوروں کو وارننگ دی۔ احمدیوں کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
مسلم بمقابلہ احمدی۔ اختلاف کا ایک نمونہ
کوٹ دیالداس، ضلع ننکانہ: جولائی-ستمبر 2021ء: یہ کیس جزوی طور پر ہماری جولائی 2021ء کی ماہانہ رپورٹ میں رپورٹ کیا گیا تھا۔ ہم اس کے پس منظر اور حالیہ معاملات کو درج کرتے ہیں تاکہ یہ امر عیاں ہو سکے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر آپس میں کیا رویہ برتا جا رہا ہے اور ان سے آپس کے تعلقات پر کیسا اثر پڑ رہا ہے۔ اس واقعہ کو کسی حد تک بطور نمونہ آپس کے تعلقات سمجھنے کے لیے سمجھا جا سکتا ہے۔
چند غیر احمدی شرپسندوں نے ایک احمدی کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور دعویٰ کیا کہ 20کنال کی زمین ان کی ملکیت نہیں بلکہ غیر احمدی قبرستان کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہ زمین اس قبرستان سے ملحق ہے۔آخر کار لاہور ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے ضلعی انتظامیہ اور مجسٹریٹ کو زمین انہیںکو منتقل کرنے کا حکم جاری کیا۔ جب مقدمہ زیر سماعت تھا تو غیر احمدیوں نے اپنے دو فوت شدگان کو اُن کی زمین میں دفن کر دیا تاکہ زمین پر اپنے دعوے کو مضبوط کیا جا سکے۔ موصوف نے ان سے کہا کہ وہ اپنے وفات یافتہ کو متنازعہ زمین میں دفن نہ کریں لیکن دوسرے فریق نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ پھر فیصلہ ہونے پر عدالت نے حکم دیا کہ 20کنال کی پوری زمین انہیںدی جائے۔ اس کے بعد بھی احمدی نے مزید تنازعہ سے بچنے کے لیے مخالفین کو بغیر کسی معاوضے کے دو کنال زمین کی پیشکش کی جہاں دو قبریں ہیں۔انہوں نے موصوف کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اپنے بے بنیاد دعوے کی حمایت کے لیے مقامی انتظامیہ پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالتے رہے۔ان حالات میں اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر مجسٹریٹ نے حکم دیا کہ 20کنال کا پورا رقبہ دونوں قبروں کو مسمار کرنے کے بعد موصوف کے حوالے کر دیا جائے۔ احمدی دوست قبروں کو مسمار کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے اور اس لیے انہوں نے مجسٹریٹ کے سامنے مندرجہ بالا تجویز پیش کی۔اس کے مطابق، مجسٹریٹ نے فیصلہ دیا کہ احمدی دوست زمین کی منتقلی کے وقت اس حصہ سے دستبردار ہوجائیں گے جہاں قبریں موجود ہیں۔ اس کے بعد پولیس انہیں باقی زمین فراہم کر سکتی ہے اور تعمیل کی رپورٹ ہائی کورٹ کو بھیج سکتی ہے۔