انبیاء اور اولیاء کی فطرت میں بندگان خدا کی بھلائی کے لیے عشق ڈالا جاتا ہے
کوئی نبی اور ولی قوتِ عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا یعنی ان کی فطرت میں حضرتِ احدیت نے بندگان خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے۔ پس وہی عشق کی آگ ان سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر ان کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غمخواری خلق اللہ نہ کرو تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتے اور ان کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو اس جان کنی سے کیا اجر ملے گا کیونکہ ان کے جوشوں کی بنا کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَعَلَّکَ باخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُونُوا مُؤمِنِینَ۔(الشعراء:۴) خدا اپنے نبی کوسمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور درد کہ تو لوگوں کے مومن بن جانے کے لئے اپنے دل پر اٹھاتا ہے، اس سے تیری جان جاتی رہے گی سو وہ عشق ہی تھا جس سے آنحضرتﷺ نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی۔
(مکتوبات احمد جلد سوم صفحہ ۲۸۶تا۲۸۷)