اَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آجکل دنیا میں ہر جگہ معاشرے میں بچوں کی تعلیم اور دنیاوی ترقی کے لئے والدین بڑے پریشان رہتے ہیں لیکن روحانیت کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ یہاں مغربی ممالک میں تو آزادی کے نام پر اب بچوں کو اتنا بیباک کر دیا گیا ہے کہ وہ والدین کی نصیحت ماننے سے بھی انکاری ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اور اب ان لوگوں کو احساس ہو رہا ہے، پروگرام بھی ٹی وی پر آنے شروع ہو گئے ہیں کہ یہ ضرورت سے زیادہ آزادی ہے جو بچوں کو دی جا رہی ہے۔ والدین نے بچوں کا امام کیا بننا ہے اب تو بچے والدین کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہت سے کیس ایسے ہونے لگ گئے ہیں کہ بچے والدین پر ہاتھ اٹھانے لگ گئے ہیں۔ ذرا سی روک ٹوک بھی برداشت نہیں کرتے ہیں۔ کوئی نیک نصیحت کی جائے برداشت نہیں کرتے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اب یہ آوازیں اٹھنے لگ گئی ہیں کہ اگلی نسل کو اگر سنبھالنا ہے تو اس کی کوئی حد مقرر کی جائے کہ کس حد تک والدین نے برداشت کرنا ہے اور کہاں اپنے بچوں کو سزا دینی ہے۔ کیونکہ والدین جب کسی غلط حرکت پر سزا دیتے ہیں تو یہاں مغربی ممالک میں بچوں کی حفاظت کے جو ادارے بنے ہوئے ہیں وہ بچوں کو اپنے پاس لے جاتے ہیں یا بچے والدین کو یہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ کہا تو ہم وہاں چلے جائیں گے اور اس بات نے بچوں کو حد سے زیادہ بے باک کر دیا ہے۔ وہ کسی لینے دینے میں نہیں رہے۔ بعض خاندان تو ایسے ہیں کہ ان کے بچوں کی حالت بہت ہی بُری ہو چکی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دُعا کا خانہ خالی ہے۔ پس فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگو کہ بچوں کی صحیح تربیت ہو اور پھر اس کے ساتھ ہی اپنے نیک نمونے بھی قائم کرو۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍ستمبر 2009ء)
(مرسلہ:مریم رحمٰن)