سیرت صحابہ کرام ؓ

سیرت حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ (قسط اول)

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

خدا تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں روحانی انقلاب کے داعی اور اصلاحِ خلق کے علمبر دار ہوتے ہیں۔ان کے بابرکت وجود سے روحانی طور پر مردہ دلوں میں زندگی پیدا ہوتی ہے۔ حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کرنے والے لوگوں کو انسانیت کا لبادہ عطا کیا جاتا ہے، درس اخلاق دیا جاتا ہے۔پھر ان بااخلاق انسانوں کا وجود بالآخر خدا نما وجود بن جاتا ہے۔ اس نوعیت کا عظیم روحانی انقلاب، اپنی انتہائی ارفع شان کے ساتھ، ہمارے ہادیٔ کامل،حضرت خاتم النبیین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ میں ظاہر ہوا جبکہ’’لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور دنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا ۔اور نہ کسی کان نے سنا۔‘‘(برکات الدعا ، روحانی خزائن جلد6صفحہ11)

روحانیت کا سفر

ہمارے آقا ومولیٰ، محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے روحانی فرزندِجلیل، سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات طیبہ میں بھی اس احیائے نو کی جھلک بڑی خادمانہ شان میں دکھائی دیتی ہے۔غلام نے اپنے آقا کے، اور شاگرد نے اپنے استاد کے فیض کی برکت سے ہزار ہا مردہ دلوں کو روحانی طور پر حیاتِ نو عطا فرمائی اور آسمانِ روحانیت کا ستارہ بنادیا۔ ان درخشندہ ستاروں میں سے ایک، ہاں ان مقدس لوگوں میں سے ایک، جو مسیح محمدی کے ہاتھوں سے پاک کیےگئے تھے، جنہوں نے مہدی علیہ السلام کے ذریعہ آبِ زلال پی کر نئی زندگی پائی اور دنیا و آخرت میں فلاح پاگئے، ان خوش قسمت افراد میں سے ایک بابرکت وجود حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کا ہے جن کی سیرت کا مختصر تذکرہ میرے مضمون کا عنوان ہے۔

حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اوّلین اور قدیمی صحابہ میں سے تھے۔ آپ کویہ غیر معمولی امتیاز حاصل ہے کہ آپ نے پندرہ سولہ سال کی عمر میں مسیح پاک علیہ السلام کے ہاتھ پر بیک وقت ہندو مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرنے اور احمدیت کی نعمت حاصل کرنے کی سعادت پائی اور پھر بہت لمبا عرصہ مسیح پاک علیہ السلام کی بابرکت صحبت میں وقت گزارا جس نے اس مسِ خام کو کندن بنا دیا۔

آپ کی استقامت

آپ کی سیرت کے بے شمار عناوین ہیں ۔ ان میں سے ایک نمایاں عنوان آپ کی استقامت سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ یکم جنوری 1879ء کو ایک کٹر ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندانی نام ہریش چندر تھا۔ ہریش چندر کے عبد الرحمٰن قادیانی بننے کی داستان خود آپ نے بڑی تفصیل سے لکھی ہے۔یہ تفصیل بہت دلچسپ بھی ہے اور دردناک بھی ۔ پڑھتے ہوئے بار بار آنکھیں نمنا ک ہو جاتی ہیں اور دل اس مردِ خدا کی استقامت اور دلیری پر عش عش کراٹھتا ہے۔

ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والے اور سخت متعصب ماحول میں پرورش پانے والے ہریش چندر کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہ سکتا ہوگا کہ کبھی یہ اسلام کا جانباز سپاہی بن جائے گا لیکن جسے خدا ہدایت دینا چاہےکون ہے جو اس راستہ میں روک بن سکے۔ یہ ہندو لڑکا سکول کی چوتھی یا پانچویں جماعت میں تھاکہ اس نے ’’رسوم ِھند‘‘ نام کی ایک کتاب پڑھی جس نے اس پرمقنا طیسی اثر کیا اور اس کی کا یا پلٹ گئی۔ آپ کے دل کی کھیتی میں حب اسلام کا پہلا پاک اور مقدس تخم اس قیمتی کتاب کے مطالعہ سے بویا گیا اور رفتہ رفتہ ترقی کرتا گیا اور بالآخر اس درخت کو اسلام کا شیریں پھل لگا۔

صداقت قبول کرنے اور مسیح پاک علیہ السلام کے قدموں میں حاضر ہونے کا سفر جان جوکھوں کا سفر تھا۔ بچپن میں ہی پاکیزہ خوابوں نے دل میں اجالا کر دیا ۔کسوف و خسوف کے نشان کے بعد مہدی علیہ السلام کو پالینے کی تمنّا دل میں بیدار ہو گئی ۔ دن رات دعاؤں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سید بشیر حیدر کی شکل میں ایک نیک مسلمان ساتھی بھی آپ کو مل گئے۔لیکن پھر اس ماحول سے آپ کو نکلنا پڑا اور سخت متعصب ہندو ماحول میں مقید ہو کر رہ گئے۔ پھر تصرف الٰہی نے آپ کو اس کنویں سے نکالا۔ بھاگم بھاگ مسلمان دوستوں سے ملے ۔ مسیح پاک علیہ السلام کی کتب ۔’’نشان آسمانی‘‘ اور ’’انوار الاسلام ‘‘ کا مطالعہ کیا ۔ دل میں عرفان کی شمع روشن ہوگئی ۔ قادیان حاضر ہوئے اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت پائی۔ مسیح ِ پاک نے آپ کو اسلامی نام عبد الرحمٰن عطا فرمایا۔

یوں تو آپ دارالامان پہنچ گئے تھےلیکن ابھی آپ کا امتحان اور آزمائش مقدر تھی۔ والد صاحب پیچھے پیچھے قادیان آپہنچے اور مختلف بہانوں سے آپ کی واپسی کا اصرار کیا ۔ واپسی میں بےشمار خطرات تھے آپ بھی واپس نہ جانا چاہتے تھے۔ مسیحِ پا ک علیہ السلام نے بھی ابتداءً انکار کر دیا مگر بعد میں والد صاحب کے تحریری وعدہ پر کہ دو ہفتوں کے اندر اندرخیریت سے واپس لے آؤں گا،آپ کو ان کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔حضرت مولانا نور الدین صاحب نے تجویز کیا کہ احتیاطاً کسی دوست کو ساتھ بھجوا دیا جائے۔ اس پر مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا:’’ہمیں نام کےمسلمانوں کی ضرورت نہیں۔ ہمارا ہے تو آجائے گاوگرنہ کوڑاکرکٹ جمع کرنے سے کیا حاصل۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 75)

والد صاحب کے ساتھ اپنے علاقہ میں واپس پہنچتے ہی آپ پر مصائب کے پہاڑٹوٹ پڑے ۔زمین اپنی فراخی کے باوجود تنگ ہوگئی۔ہر رنگ میں، ہر قسم کی اذیت آپ کو دی گئی۔کبھی محبت کا واسطہ دے کر اور کبھی دھمکی اور خوف دلا کر قطع تعلقی پر مجبور کیا جاتا اور یہ سلسلہ آٹھ نو ماہ تک جاری رہا۔ لیکن آفرین ہےاس مردِ حق آشنا پر کہ آپ پورے استقلال اور استقامت کے ساتھ دینِ اسلام پر قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دستگیری فرمائی اور آپ اس ظالمانہ چنگل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے آقا حضرت مسیح زمان علیہ السلام کے قدموں میں دارالامان حاضر ہوگئے۔ آپ کے والد صاحب اس پر سخت برہم ہوئے اور تعاقب میں قادیان آئے۔ ہندوؤں کے ساتھ مل کر اغوا کرنے کا ہر ممکن جتن کیا لیکن ان کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ ہر مخالفانہ کوشش کے ساتھ آپ کا ایمان اور بھی پختہ ہوتا گیا۔ جس طرح مکہ کی وادی سیدنا بلالؓ کی زبانِ مبارک سے اَحَد اَحَد کی صدا سے گونج اٹھی تھی اسی طرح رحمٰن خدا کے بندے عبد الرحمٰن نے اپنی استقامت اور ایمان کی پختگی کا اعلان ان الفاظ میں کیا کہ اپنی والدہ کو ایک خط میں لکھا: ’’اسلام کی خوبیوں نے میرا دل فتح کر لیا ہے…بالفرض آپ لوگ مجھے پکڑ لے جانے میں کامیاب بھی ہو جائیں اور میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کا قیمہ بھی بنا دیں تب بھی ہر ذرّہ سے لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی صدا بلند ہو گی۔اسلام میرے رگ و پے میں رچ چکا ہے۔ جسم مغلوب ہو سکتے ہیں مگر قلوب نہیں۔‘‘ (اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 118)

غیر متزلزل ایمان کے اس جلالی اعلان نے باطل کو ہمیشہ کے لیے مایوس اور سر نگوں کر دیا ! آپ کی استقامت،مسیح پاک علیہ السلام سے محبت اور آپ پر فدائیت ایک عجیب شان رکھتی تھی اور دور اوّلین کے صحابہ کرامؓ کی یاد دلاتی تھی۔اسے دیکھ کر مسیح پاک علیہ السلام کا یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے کہ

مبارک وہ جو اب ایمان لایا

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

آپؓ بیان فرماتے ہیں:’’جب بچپن میں خدا تعالیٰ کے خاص ہاتھ نے مجھے بت پرست قوم سے نجات دے کر نورِ ایمان و اسلام سے منور کیا تو میری حقیقی والدہ جس نے مجھے جنا تھا، اپنی مامتا سے مجبور ہوکر ایک سے زیادہ بار مجھے واپس لے جانے کے لئےقادیان آئیں۔لیکن مجھے حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت اماں جانؓ کی غلامی اتنی محبوب اور پسند تھی کہ میں نے اس کو ہزار آزادیوں اور آراموں پر ترجیح دی۔اور جب ایک دفعہ میرے والد نے بڑی آہ وزاری اور الحاح سے مجھے واپسی کے لئے مجبور کرنا چاہا تو میں اس واقعہ کے مطابق جو حضرت زید رضی اللہ عنہ،مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کے والدین کو پیش آیا تھا۔اپنے مقدس آقا کو،جس کی غلامی میں تھا، چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 209)

دینی خدمات کی سعادت

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صا حب قادیانی رضی اللہ عنہ بڑی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو متنوع قسم کی دینی خدمات کی توفیق عطا فرمائی اور اپنے فضل سے غیرمعمولی امتیازات سے بھی نوازا۔1895ء میں آپ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام اور احمدیت کے نور سے منور ہوئے۔ضمیمہ انجام آتھم کتاب میں313 صحابہ کی فہرست میں 101 نمبر پر آپ کا نام درج ہے۔ عبدالرحمٰن نام کے صحابہ کرامؓ میں آپ ہی ہیں جو خاص طور پر قادیانی کہلائے۔آپ نے بیان فرمایا کہ جب قادیان میں عبدالرحمٰن نام کے کئی صحابہ اکٹھے ہو گئے اور کئی نو مسلموں کو بھی حضور نے یہی نام عطا فرمایا تو تمیز کے لیے نام کے ساتھ مختلف اضافتیں استعمال ہونے لگیں۔آپؓ فرماتے ہیں کہ’’یہ خدا کی دین ہے کہ مجھ نالائق کے حصہ میں قادیانی کا مبارک نام آیا۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 64)آپ کا یہ امتیاز بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کو ایک لمبا عرصہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی پاکیزہ صحبت نصیب رہی۔بہت قرب حاصل رہا اور آپ نے بھی خوب جی بھر کر خدمت کی سعادت پائی۔ہمیشہ سائے کی طرح آقائے نامدار کے ساتھ رہےاور ہر دم خدمت پر کمر بستہ! حضور کے پیچھے نمازیں پڑھنے کی سعادت پائی۔بالکل ساتھ کھڑے ہو کرنماز پڑھنے کا بارہا موقع ملا۔ متعدد سفروں میں ہم رکاب رہے۔آپ کے نام کے بہت سے مکتوبات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ مسیح پاک علیہ السلام کے متعدد خطابات اور مختلف مواقع کی گفتگو قلم بند کرنے کی سعادت آپ کو ملی۔حضور کی زندگی کی آخری تقریر جو ۲۵؍مئی کو فرمائی گئی وہ بھی آپ نے قلم بند فرمائی۔آپ کے بلند مقام اور ممتاز خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا:’’ہندوؤں میں سے بعض ایسے لوگ اس سلسلہ میں آئے ہیں کہ ان کی خدمات اور غیرت اسلام پر رشک آتا ہے اور وہ دوسرے دس دس ہزار مسلمانوں کے مقابلہ میں ایک ہیں۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء جلد9،صفحہ 377)

سعادتوں کا مبارک سفر

الغرض صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں آپ کا ایک نرالا انداز اور نہایت ارفع و اعلیٰ مقام تھا۔آپ اس زمرۂ ابرار کے ایک درخشندہ گوہر تھے اور آپ کی جلیل القدر خدمات کا تذکرہ ہمیشہ تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے پروانہ صفت عاشق حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی کو اللہ تعالیٰ نے یہ غیرمعمولی سعادت عطا فرمائی کہ آپ نے لمبا عرصہ اپنے آقا کی خدمت میں ایسا گزارا کہ زندگی کا ایک ایک گوشہ بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔سفروحضر میں اور خلوت و جلوت میں آپ نے مسیح پاک علیہ السلام کی سیرت کا بڑی تفصیل اور گہری نظر سے مطالعہ کیا۔اس لحاظ سے آپ کا بیان وقیع عینی شہادت کا درجہ رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ عظیم احسان ہےکہ اس نے آپ کو آقا کا غیر معمولی قرب بھی عطا کیا۔دیکھنے والی آنکھ بخشی، محسوس کرنے والا دل عطا فرمایا اور پھر ایک ایسے قلم سے نوازا جس کے بھرپور استعمال سے آپ نے اپنے مشاہدات کا عظیم خزانہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ان ساری خوبیوں کا دلکش امتزاج اس بیان میں ملتا ہے جس میں آپ نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے لطف و احسان کا تذکرہ فرمایا ہے۔فرماتے ہیں:’’دلداری اور دلجوئی کرنے میں حضور مادرِمہربان سے کہیں زیادہ مہربان اور شفیق سے شفیق باپ سے کہیں بڑھ کر شفیق تھے۔خلق خدا کی ایسی دلداری فرماتے، ایسی دلجوئی کیا کرتے کہ کیا کوئی ماں باپ کسی عزیز ترین اکلوتے کی بھی کر سکیں گے؟دنیا میں ایسا کون ہے جو دوسروں کا غم اٹھائے،بیگانوں کا درد بانٹے اور ان کے مصائب و آلام اپنے گلے ڈال لے،مگر میرے آقا سچ مچ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔غمزدوں کے غم اٹھاتے، رنجوروں کے رنج خود سہتے،اپنی جان پر بوجھ ڈالتے اوران کو رنج و غم سے آزاد کر دیا کرتے تھے ۔کتنا ہی کوئی مفلوک الحال، درد و غم سے نڈھال ہوتا حضور اس طرح دلداری فرماتے، ایسی دلجوئی کرتے کہ وہ رنج و غم کو بھول جاتا۔غریب سے غریب، ناتواں اور کمزور بھی حضور کو اپنا ہمدرد، غمخوار اور بہی خواہ سمجھ کر حاضر ہوتا۔بے تکلف عرض حال کرتا اورحضور کے لطف و کرم سے حصہ پاتا۔کتنی طویل کہانی ہے،بے معنی قصہ، بے محل راگ اور بے ہنگام بانگ کوئی کہتا چلا جاتا،حضور سنتے اور سنتے، نہ روکتے نہ ٹوکتے بلکہ اس طرح توجہ فرماتے جس سے اس کی دلداری و دلجوئی ہوتی۔کتنی ہی کوئی چھوٹی چیز، ادنیٰ سی خدمت، معمولی سا ہدیہ کوئی پیش کرتا، مٹھی بھر بیر،ایک دو گنے یا چند بھٹے مکئی کے، حتی ٰکہ حقیر تر ین رقوم کو یوں قبول فرماتے،اتنا نوازتے اور پیش کرنے والے کا شکریہ ادا فرماتے جیسے کسی نے بھاری خزانہ یا نعمتوں کا انبار پیش کر دیا ہو۔ کیونکہ حضور کی نظر درہم یا دینار اور نذر و نیاز سے دور آگے نکل کراس دل اور اس کی نیت و اخلاص اور محبت و پیاس پر پڑا کرتی تھی جس سے وہ چیز پیش کی جاتی ۔غلطی پر گرفت و سختی کی بجائے لطف فرماتے۔چشم پوشی کرتے اور الٹا دلجوئی فرما کر نوازتے،دل بڑھاتے۔ غلطی سے کسی نے قیمتی چیز،ضرورت کا سامان گرا دیا،پھینک دیا،یا بگاڑ دیا تو ناراضگی و سرزنش کی بجائے ایسا طریق اختیار فرماتے کہ اس کو ندامت و شرمندگی سے بھی بچا لیتے اور دلجوئی و دلداری بھی فرمادیتے۔میرے سامنے حقائق اورواقعات ہیں۔ دل و دماغ میں بکثرت اس کی مثالیں ہیں اور ان سب سے بڑھ کر میری آنکھوں میں وہ صورت اور قلب کے اندر وہ موہنی صورت جلوہ فگن ہے جو نذر و نیاز اور تحفے تحائف لے کر اتنا خوش نہیں ہوتی جتنا خلق خدا کی ضرورت میں دے کر یا اس کی حاجت پوری کر کے یا اس کی خدمت یا مدد کرنے اور سلوک فرمانے سے۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 281-282)

عاجزی اور انکساری

کتنی سادگی ہے اس بیان میں،کتنی بے ساختہ تحریر ہےلیکن کتنی روانی اور زور ہے ان الفاظ میں کہ سیدھے دلوں میں اترتے چلے جاتے ہیں ۔مسیح پاک کی پاکیزہ سیرت کے نقوش لوح ِقلب پر نقش ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور حضرت بھائی جی کی عظمت ِکردار کا دلربا پہلو یہ ہے کہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد بھی اپنے عجز کا اعتراف کتنے پیارے انداز میں کرتے ہیں۔فرمایا:’’مجھےاس بات کا صدمہ اور انتہائی رنج ہے کہ میں ان ساری کیفیات کے اظہارو بیان سے عاجز ہوں، نہ ہی مجھ میں طاقت ہے اور نہ ہی یہ مختصر مضمون ان باتوں کا متحمل ہے۔ ورنہ حضور کے اخلاق کا یہ حصہ اور حضور کے حسن و خوبی کا یہ پہلو ضخیم کتاب بلکہ کئی مجلدات میں بھی نہیں سما سکتا….افسوس میں عاجز ہوں اس کے بیان سے اور قاصر ہوں اس کے اظہار سے۔گنگ محض ہوں، طاقت گویا ئی نہیں کہ اس کے عشر عشیر کا بھی بیان کرسکوں۔ کوتاہ قلم کوتاہ دست ہوں اتنا کہ اس حقیقت و کیفیت کا شائبہ بھی سطح قرطاس پر نہیں لا سکتا!

حضرت بھائی جی کےیہ الفاظ ہر گز لفّاظی نہیں ۔ ان میں ہر گز کوئی مبالغہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ اس شخص کی قلبی کیفیت کے آئینہ دار ہیں جس کے سامنے تا حدنظر،پھول ہی پھول ہوں۔ ایک سے ایک بڑھ کر دلکش اور دلربااور اسے کچھ سمجھ نہ آتی ہو کہ وہ کس کا تذکرہ کرے اور کرے تو کیونکر اور وہ الفاظ کہاں سے لائے جو بیان کا حق ادا کر سکیں!

فلک رسا دعائیں

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ایک دلکش پہلو آپ کی دعائیں ہیں۔ مسیح پاک علیہ السلام کے قرب کی برکت نے آپ کوایک عارفانہ نظر اورگداز دل عطا فرمایا۔آپ کے حالاتِ زندگی میں جگہ جگہ یہ ذکر ملتا ہےکہ آپ اٹھتے بیٹھتے دعاؤں میں مصروف رہتے۔ہر ایک کو دعاؤں سے نوازتے اور مشکل گھڑیوں میں تو آپ کی دعا کی یہ کیفیت ہوتی کہ جیسے روح آستانۂ الٰہی پر بہتی چلی جاتی ہے۔صرف ایک نمونہ اس جگہ عرض کرتا ہوں۔جس سے آپ کے لطیف اور عارفانہ انداز کا پتہ چلتا ہے ۔آپ نے ایک موقع پر یوں دعا کی کہ’’اے میرے اللہ آقا و مالک اور میرے ہادی و رہنما!جس طرح تونے خود اپنے ہاں اپنے ہی ہاتھ سے مجھ ناکارہ انسان،انسان نہیں انسانوں کی بھی عار بلکہ محض ایک کرم خاکی کو بچپن اور کم عمری میں نوازا ۔ اور خود میرے دل میں تخم ایمان بو کر اس کی آبیاری فرمائی۔اسے پودا بنایا اور ہر قسم کی باد صر صر اور مخالف ہواؤں سے محفوظ رکھتے ہوئے، وحوش اور درندوں کی پامالی سے بچا کر اس باغ احمد صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچایا اور اس گلستان میں محض فضل سے ایسی جگہ دلائی جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتی تھی اور جہاں میرے خواب و خیال کو بھی رسائی نہ تھی۔اے میرے پیارے اور میری جان کی جان !جس طرح یہ سب کچھ آپ نے خود کیا اسی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کرآ ئندہ بھی میرے ساتھ معاملہ فرمائیو۔اور طرفۃ العین کے لئے بھی مجھے میرے نفس کے سپرد نہ کریو۔بلکہ میرا کھانا اور پینا،سونا اور جاگنا،میرا اٹھنا اور بیٹھنا،میرا جینا اور مرنا سب کچھ ہی آپ اپنی رضا کے مطابق کر دیں۔آمین۔

حی و قیوم و قدیر! تیری عطاؤں کو کوئی روکنے والا نہیں۔جبکہ جسے تو رد کردے کوئی بچانے والا بھی نہیں۔ میں تجھے تیری کبریائی،عظمت و جبروت کا واسطہ دے کر پکارتا ہوں اور تیرے آستانہ پر گر کر التجا کرتا ہوں کہ مجھے ایک خاک آلودہ بیج کی طرح اپنی ربوبیت کے طفیل اتنا بڑھا ۔پھلا اور پھل دار بنا…میرے اثمار اور پھلوں میں اپنے کرم سے ایسی شیرینی،لطافت اور نفاست بھر دے کہ دنیا ان کی طلب گار ہو اور ان کو پا کر سیری حاصل کرےاور روحانی حاجات اور جسمانی ضروریات میں وہ حاجت مندوں کی مراد بنیں۔آمین

اے ستار و غفار ہستی ! میری پردہ پوشی فرما اور میرے گناہوں اور معاصی کو قبول فرما اور ایسا ہو کہ میری کوئی غلطی معصیت یا گناہ میری دعاؤں کی قبولیت میں روک نہ بن سکے۔(الحکم 7،14 مئی 1938،ء صفحہ 16) ‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992، جلد9،صفحہ 474)

شکر گزاری کا انداز

اخلاق حسنہ میں سے ایک امتیازی خلق شکرگزاری کا خلق ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی عظمت اور روحانی بلندی کا اندازہ اس کے شکرگزاری کے جذبات سے ہوتا ہے۔ایک مومن اور عارف با اللہ ہمیشہ ان جذبات سے مغلوب رہتا ہے اور یہ وصف کچھ اس طرح اس کے رگ و پے میں رچ بس جاتا ہے کہ انگ انگ پھوٹ پھو ٹ کر بہنے لگتا ہے۔ حضرت بھائی عبدالرحمٰن صا حب قادیانی رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئےآپ کا یہ وصف بھی بڑی شان سے نمایاں ہوتا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات کو یاد کر کے اس کے آستانہ پر جھکتے چلے جاتے ہیں اور بار بار مسیح پاک علیہ السلام کے ان اشعار کی عملی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے کہ

شمار فضل اور رحمت نہیں ہے

مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہے

اگر ہر بال ہو جائے سخن ور

تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر

اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات کو یاد کر کے حضرت بھائی جی کا دل جذبات شکر سے مغلوب ہو جاتا اور شکر گزاری کےنیک اور پاکیزہ جذبات ایک سیلِ رواں کی طرح بہنے لگتے۔ اللہ کے فضلوں اور نعمتوں کو یاد کرتے ہوئے آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے جو کچھ بھی لکھا اور ظاہر کیا کانپتے ہوئےدل اور لرزتے ہوئے ہاتھوں سے ڈرتے ڈرتے خدا کی بے نیازی اور نکتہ گیری سے کانپتے کانپتے کیا ہے۔ورنہ من آنم کہ من دانم والی بات ہے۔کہاں میں کفر و شرک کے اتھاہ گڑھے اور ظلمت و ضلالت کے بے پناہ سمندروں میں غرق،کہاں یہ فضل کہ نور ایمان عطا فرمایا۔نعمت اسلام بخشی اور ایسا نوازا ۔ایسا نوازا کہ اس بزرگ و برتر ہستی کے قدموں میں لا ڈالا۔اس کی زیارت کے لئے لاکھوں نہیں کروڑوں صلحاء اور اولیاء امت ترستے ترستے ہی کوچ کر گئے۔یہ فضل،یہ کرم،یہ ذرہ نوازی یقیناً یقیناً سرا سر احسان،سرتا پا فضل، اور ابتداء تا انتہاء موہیت اور بخشش ہی کا رنگ رکھتی ہے۔جس کے لئے میری روح آستانۂ الوہیت پر سر بسجود ہے۔(الحکم 7،14؍ اگست 1938ء) (اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 461,460)

ہر خدمت کے لیےمستعد

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صا حب قادیانی رضی اللہ عنہ ہمیشہ ہر خدمت کے لیےمستعد رہتے۔پنڈت لیکھرام کے قتل کے آسمانی نشان کےبعد حالات کے پیش نظر قادیان میں پہرہ کی ضرورت محسوس کی گئی ایک روز مسیح پاک علیہ السلام نے ایک مجلس میں فرمایا:’’جو لوگ اس خدمت کے لئے تیار ہوں وہ آگے آ جائیں یا کھڑے ہو جا ئیں۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 232)مسیح پاک علیہ السلام کے فرمانے کی دیر تھی کہ اس عاشق صادق نے اپنے آپ کو فوراً پیش کر دیا۔حضرت بھائی جی کس محبت سے اس سعادت کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان خوش قسمت قبول ہونے والوں میں سے ایک تھا جس کو خدا کے موعود نبی،مسیح الخلق،جری اللّٰہ فی حلل الا نبیاء، نے نظر شفقت اور محبت بھری نگاہوں سے دیکھا اور قبول فرمایا۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 232)آپ کو نہ صرف پہرہ کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ اس سارے کام کا انتظام اور نگرانی بھی آپ کے سپرد ہوئی اور سعادت کا یہ سلسلہ سال ہا سال جاری رہا۔آپ نے یہ فریضہ نہایت ذمہ داری اور جانفشانی سے ادا کیا۔ مسیح پاک علیہ السلام کے در کی دربانی کا اعزاز ایسا ہے کہ آپ کی نسلیں قیامت تک اس پر بجا طور پر فخر کرتی رہیں گی۔پہرہ کی اس عظیم خدمت اور سعادت کے دوران آپ کو مسیح پاک علیہ السلام کی کس کس شفقت اور عنایت سے حصہ ملا۔ اس کا تذکرہ آپ ہی کے الفاظ میں کرتا ہوں:’’خاموش سنسان اور اندھیری رات کی گھڑیوں میں اچانک کبھی وہ ماہِ کنعان،نور قادیان،جانِ جہاں،دنیا و مافیہا کی روح و رواں،ہم پر طلوع فرماتا۔میاں عبدالرحیم،میاں عبدالعزیز،میاں غلام محمد،میاں عبدالرحمٰن نام لے کر محبت بھری،نرم،شیریں اور دلکش آواز سے نوازتا اورخود ہماری خبر گیری و دلجوئی فرماتا۔قربان اُس جانِ جہاں کے اور فدا ہو جاؤں اس پیارے نام کے جو مخدوم ہو کر الٹا غلاموں کی خدمت،خبر گیری کرتا۔آقا ہو کر غلاموں کی فکر کرتا اور نوازتا تھا۔بار ہا وہ رحمت مجسم اپنے رہائشی دالان کی غربی کھڑکیوں سے جھانکتا،نظر شفقت و رحمت سے ہمیں نوازتا۔ اور اپنے دست مبارک سے اپنے رومال میں لپیٹ باندھ کر شیرینی، خشک پھل وغیرہ جو بھی ہوتا ہمیں عطا فرماتا۔ اور دیر تک مصروف گفتگو رہ کر خوش وقت فرمایا کرتا۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 235)(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button