ہمت کے ساتھ آگے بڑھو اور وقفِ جدید کی تحریک کو کامیاب بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۰؍جنوری۱۹۵۸ء)
۱۹۵۷ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے سامنے ’’وقف جدید ‘‘کی تحریک پیش کی جس کا مقصد دیہاتی علاقہ جات میں تبلیغ اور تربیت کے سلسلہ کو زیادہ مؤثر کرنا تھا۔ اس تحریک کے مطالبات میں سے ایک اہم مطالبہ وقفِ زندگی کا بھی تھا۔ چنانچہ اس تحریک کے اعلان کے بعد اگلے سال کے آغاز میں بیان فرمودہ خطبات جمعہ میں حضورؓ نے اس تحریک کے بعض پہلو مزید کھول کر بیان فرمائے اور جماعت کو اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔ ۳۱؍دسمبر کو وقف جدید کا مالی سال اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ اس مناسبت سے وقف جدید کی اہمیت کےحوالے سے ان خطبات میں سے بعض حصے ہدیہ قارئین ہیں۔(ادارہ)
تشہد، تعوّذ اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
ہماری جماعت کی حالت کا نقشہ سورہ انفال رکوع 2 میں کھینچا گیا ہے اور اس نقشہ کو شیخ سعدیؒ نے ایک حکایت کے رنگ میں اپنی کتاب ’’گلستان ‘‘میں بیان کیا ہے۔ ہم بچپن میں وہ شعر پڑھا کرتے تھے تو بہت مزہ آیا کرتا تھا۔ یوں تو جب ہم بڑے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول نے ہمیں مثنوی مولانا رومؒ بھی پڑھائی تھی مگر وہ زمانہ جب ہمیں مثنوی مولانا روم پڑھائی گئی 1911ء یا 1912ء کا زمانہ تھا اور گلستان اور بوستان اس سے پہلے زمانہ میں ہمیں شروع کرائی گئی تھیں۔ شیخ سعدیؒ نے گلستان میں ایک کہانی لکھی ہے کہ ایک بادشاہ تھا جس کے کئی بیٹے تھے۔ اس کے اَور تو سب بیٹے نہایت خوبصورت تھے اور بادشاہ اُن سے بہت محبت کیا کرتا تھا لیکن ایک لڑکا بہت چھوٹے قد کا تھا اور اس کی شکل بھی نہایت مکروہ تھی۔ اُس سے وہ سخت نفرت کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک بادشاہ جو اُس سے دشمنی رکھتا تھا اور جس کی طاقت بہت زیادہ تھی اُس پر حملہ آور ہوا۔ جب اُس کی فوج نے اس بادشاہ کے دائیں اور بائیں بڑے زور سے حملہ کیا تو اس کی ساری فوج بھاگ گئی اور میدان ِجنگ میں صرف چند آدمی بادشاہ کے ساتھ رہ گئے۔ جب بادشاہ نے دیکھا کہ اب دشمن مجھے بھی حملہ کر کے قید کر لے گا تو یکدم صفوں کو چِیرتا ہوا ایک سوار نکلا جس نے اپنے ہاتھ میں نیزہ پکڑا ہوا تھا۔ وہ پوری ہمت کے ساتھ اپنے دائیں اور بائیں نیزہ چلاتا ہوا آ رہا تھا جس کی وجہ سے دشمن کی فوج تتربتر ہو گئی۔ پھر اُس نے بادشاہ کی بچی کھچی فوج کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کی فوج بھاگ گئی۔ وہ شخص حملہ کرتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا
آں نہ من باشم کہ روزِ جنگ بینی پُشتِ من
آں منم کاَندر میانِ خاک و خوں بینی سرے
یعنی میں وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے دن تُو میری پیٹھ دیکھے بلکہ جنگ کے دن تُو صرف میرا منہ دیکھے گا میری پیٹھ نہیں دیکھے گا ۔اور اگر کوئی شخص [مجھ]سے میرا کچھ حال پوچھنا چاہے تو میں اُسے یہ بتاتا ہوں کہ میں جب لڑائی میں آؤں گا تو وہ میرے سر کو خاک اور خون میں لتھڑا ہوا پائے گا یعنی میں قتل ہو جاؤں گا لیکن بھاگوں گا نہیں۔ جب فتح ہوئی تو بادشاہ نے پہچان لیا کہ وہ اُس کا وہی بیٹا ہے جس سے وہ نفرت کیا کرتا تھا۔بادشاہ نے اُسے بلایا، اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا میں نے تم پر بڑا ظلم کیا ہے اور تمہاری بڑی بے قدری کی ہے۔ جن کی میں قدر کیا کرتا تھا اور جن سے محبت کیا کرتا تھا وہ تو پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے لیکن تم میدان میں رہے اور میری جان کی حفاظت کرنے کے لیے آگے آئے۔ اِس پر اُس لڑکےنے کہا اے باپ!
ہرچہ بقامت کہتر بقیمت بہتر
جو شخص قدوقامت اور صورت کے لحاظ سے ذلیل نظر آتا تھا وہ قیمت کے لحاظ سے بہت بہتر تھا یعنی آپ تو مجھے چھوٹے قد کا آدمی سمجھ کر نفرت سے دیکھا کرتے تھے لیکن آپ کو معلوم ہو گیا کہ جو قدوقامت اور صورت میں ذلیل نظر آتا تھا قیمت کے لحاظ سے وہی بہتر تھا۔ (گلستان سعدی مترجم صفحہ24 مطبوعہ کراچی 1969ء)یہ تو ایک آدمی کا قصہ ہے لیکن ہماری جماعت بھی گو تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہے اور ’’بقامت کہتر‘‘کی مصداق ہے لیکن ’’بقیمت بہتر‘‘ہے۔ امریکہ، یورپ اور باقی ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا وہی گاڑ رہی ہے اور باقی مسلمان جن کو علماء نے اپنے سروں پر اُٹھا رکھا ہے انہوں نے بیرونی ممالک میں کسی مسجد کی ایک اینٹ بھی نہیں لگوائی۔اس کے مقابلہ میں خداتعالیٰ کے فضل سے یورپ میں ہماری تین مسجدیں بن چکی ہیں اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہمارا منشا ہے کہ تھوڑے عرصہ میں ہی ایک اَور مسجد بھی بنا دی جائے۔ ایک مسجد امریکہ میں بنانے کا میں نے آرڈر دے دیا ہے۔ ایک مسجد لندن میں بنی ہے، ایک مسجد ہیگ میں بنی ہے،ایک مسجد ہیمبرگ (جرمنی) میں بنی ہے، ایک فرینکفرٹ (جرمنی) میں بن رہی ہے۔ جب یہ مسجد بن گئی تو اِنْشَاءَ اللّٰہُ ایک مسجد ہنووَرْ(Hanover) (جرمنی) میں بنائی جائے گی۔ پھر ایک زیورچ میں بنے گی۔ پھر ایک روم میں بنے گی۔ پھر ایک نیپلز(Naples) میں بنے گی۔ پھر ایک جنیوا میں بنے گی اور پھر ایک وینس(Venice) میں بنے گی اور اس طرح یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جائے گا۔
بہرحال ہماری جماعت اِس وقت ’’بقامت کہتر‘‘اور ’’بقیمت بہتر‘‘کی مصداق ہے جو ہر جگہ مسجدیں بنا رہی ہے۔ مسلمان ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم اُن کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔مولوی ظفر علی خان صاحب اب تو فوت ہو گئے اور اُن کا معاملہ اﷲ تعالیٰ سے ہے۔ جب وہ زندہ تھے تو بڑی حقارت سے لکھا کرتے تھے کہ یہ لوگ تو مسلمانوں میں سَو میں سے ایک بھی نہیں۔ پاکستان کی ساری آبادی جس میں ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں آٹھ کروڑ ہے۔ اگر ہندوؤں اور عیسائیوں کو نکال دیا جائے تو غالباً مسلمانوں کی آبادی پانچ کروڑ رہ جاتی ہے اور ہماری تعداد کا زیادہ سے زیادہ اندازہ دس لاکھ ہے۔ ہندوستان کی آبادی بتّیس کروڑ ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان کی آبادی کو ملا لیا جائے تو یہ چالیس کروڑ بن جاتی ہے اور دس لاکھ کی آبادی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔
لیکن اب اگر اﷲ تعالیٰ ہمیں طاقت بخشے اور یہ نئی تحریک جو میں نے کی ہے پھیل جائے تو پھر امید ہے کہ ہماری جماعت اس ملک میں ایک نمایاں مقام پیدا کر لے گی۔ میں نے جلسہ سالانہ پر اس کے متعلق تحریک کی تھی اور پھر پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بھی اس کا ذکر کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیسیوں خطوط جماعت کے افراد کے آئے۔ انہوں نے لکھا کہ ہم نے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کی تقریر کا مفہوم نہیں سمجھا تھا مگر اب جو آپ کا پیغام چھپا ہے تو ہم نے اس کی حقیقت کو سمجھا ہے۔ اس لیے اب ہم نے وقف اور روپیہ کے لیے اپنے نام لکھوانے شروع کر دیئے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد اب تک چالیس وقف آ چکے ہیں اور بارہ ہزار کے قریب آمد کا اندازہ ہے۔
میں نے جو شکل وقف کی جماعت کے سامنے پیش کی ہے اور جس کے ماتحت میرا ارادہ ہے کہ پشاور سے کراچی تک اصلاح و ارشاد کا جال بچھا دیا جائے اس کے لیے ابھی بہت سے روپیہ کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے کم سے کم چھ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ اگر چھ لاکھ روپیہ سالانہ آنے لگ جائے تو پھر پچاس ہزارروپیہ ماہوار بنتا ہے اور اگر ہم ایک واقفِ زندگی کا ماہوار خرچ پچاس روپیہ رکھیں تو ایک ہزار مراکز قائم کیے جا سکتے ہیں اور اس طرح ہم پشاور سے کراچی تک رُشدواصلاح کا جال پھیلا سکتے ہیں۔ بلکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم نے رُشدواصلاح کے لحاظ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کا گھیرا کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں ایک کروڑ روپیہ سالانہ سے بھی زیادہ کی ضرورت ہے۔ اگر ڈیڑھ کروڑ روپیہ سالانہ آمد ہو تو بارہ لاکھ پچاس ہزارروپیہ ماہوار بنتا ہے۔ اگر بارہ لاکھ روپیہ بھی ماہوار آئے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایک واقفِ زندگی کا پچاس روپیہ ماہوارخرچ مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے چوبیس ہزار نئی طرز کے واقفِ زندگی بن جاتے ہیں۔ اور چوبیس ہزار واقفِ زندگی دو لاکھ چالیس ہزار میل کے اندر پھیل جاتے ہیں کیونکہ ہم نے دس دس میل پر ایک ایک آدمی رکھنا ہے اور گو ابھی تو اتنی رقم جمع نہیں ہو سکتی لیکن اگر اتنی رقم جمع ہو جائے تو خداتعالیٰ کے فضل سے چوبیس ہزار آدمی رکھے جا سکتے ہیں۔ ہاں! اگر یہ واقفِ زندگی ہمت کریں اور خوب کوشش کر کے جماعت بڑھانی شروع کر دیں تو ممکن ہے کہ اگلے سال ہی یہ صورت پیدا ہو جائے۔ اب تک جو آمد آئی ہے وہ ایسی نہیں کہ اُس پر زیادہ تعداد میں نوجوان رکھے جا سکیں۔ لیکن جب روپیہ زیادہ آنا شروع ہو گیا اور نوجوان بھی زیادہ تعداد میں آ گئے اور انہوں نے ہمت کے ساتھ جماعت کو بڑھانے کی کوشش کی تو جماعت کو پتا لگ جائے گا کہ یہ سکیم کیسی مبارک اور پھیلنے والی ہے۔
اِس سکیم میں چودھری ظفراﷲ خاں صاحب نے جہاں اپنی طرف سے اور اپنے خاندان کی طرف سے چندہ لکھوایا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کراچی کے پاس ٹھٹھہ میں میری زمین ہے اُس میں سے میں اس سکیم کے ماتحت دس ایکڑ زمین وقف کرتا ہوں۔دس ایکڑ میں خود اِنْشَاءَ اللّٰہُ ضلع تھرپارکر یا حیدرآباد کے ضلع میں وقف کروں گا۔ اور ابھی تو اَور بہت سے احمدی زمیندار ہیں جو اِس غرض کے لیے زمین وقف کر سکتے ہیں۔ پھر ایک ایک، دو،دوایکڑ دے کر کئی آدمی مل کر بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ بہرحال چودھری صاحب کی زمین اور میری وقف شدہ زمین میں دو مرکز بن جائیں گے۔ تیسرا مرکز ضلع مظفرگڑھ میں بنے گا۔ وہاں کے ایک نوجوان نے لکھا ہے کہ میرا ایک مربع ہے جو مجھے فوجی خدمات کے صِلہ میں ملا ہے وہ مربع میں آپ کی اس سکیم میں دیتا ہوں۔ مگر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اُس کو اِس طرح ساری زمین سے محروم کر دیں۔ میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ ہم ان سے کہیں گے کہ اس زمین میں سے دس ایکڑ ہمیں کرایہ پر دے دے اور باقی پندرہ ایکڑ وہ خود استعمال کرے۔ اور دس ایکڑ کوئی معمولی زمین نہیں۔ ہالینڈ میں مَیں نے دریافت کیا تھا وہاں تین ہزار روپیہ فی ایکڑ آمد ہوتی ہے۔ اگر تین ہزار فی ایکڑ آمد ہو تو دس ایکڑ سے تیس ہزار آمد ہو سکتی ہے۔ اگر سَومربع ہمیں اِس سکیم میں مل جائے تو پچھتّر لاکھ سالانہ آمد ہو جاتی ہے اور اس سے ہم سارے مشنوں کا خرچ چلا سکتے ہیں۔ طریق ہم بتائیں گے کام کرنا ہمارے مبلّغوں کا کام ہے۔ اگر ان کو خداتعالیٰ اسلام کی خدمت کا جوش دے اور وہ شیخ سعدیؒ کے بیان کردہ واقعہ کو یاد رکھیں تو یہ سکیم بہت اچھی طرح چلائی جاسکتی ہے۔ کیونکہ جن لوگوں میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم حقیر اور ذلیل ہیں وہ صرف یہ بات مانتے ہیں کہ
آں نہ من باشم کہ روزِ جنگ بینی پُشتِ من
آں منم کاَندر میانِ خاک و خوں بینی سرے
میں وہ نہیں ہوں کہ جس کی پیٹھ تُو جنگ میں دیکھے بلکہ تُو میرے سر کو میدان میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا پائے گا۔ ہماری جنگ تلوار کی جنگ نہیں بلکہ دلائل کی جنگ ہے اور دلائل کی جنگ میں جس شخص میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو وہ یہی کہتا ہے کہ میں وہ نہیں جو دلائل کے میدان میں اپنی پیٹھ دکھاؤں بلکہ اگر مقابلہ کی صورت پیدا ہوئی تو میں سب سے آگے ہوں گا اور جب تک میری جان نہ چلی جائے میں قربانی کا عہد نہیں چھوڑوں گا۔ اگر اس طرز پر عمل کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سکیم بہت شاندار طور پر کامیاب ہو گی۔ ابھی تو میری جلسہ سالانہ کی تقریر پر صرف چودہ دن گزرے ہیں لیکن اب آکر لوگوں کو میری تحریک کا احساس ہوا ہے اور انہوں نے اپنے نام لکھوانے شروع کیے ہیں۔ اِسی طریق پر ہر تحریک بڑھتی ہے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭