احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
وکالت کا امتحان
(گذشتہ سے پیوستہ) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’سیالکوٹ کے ایام بودوباش میں آپ نے ایک مرتبہ امتحان مختاری کا ارداہ کیا۔ اس کی وجہ زیادہ تر تو یہ معلوم ہوتی ہےکہ اہلکاروں کی زندگی کو آپ دیکھتے تھےکہ وہ بہت کچھ قابل اعتراض اور لائق اصلاح ہے جیسا کہ میں آپ کے بیان کی بناء پر اوپر لکھ آیا ہوں اس لئے آپ کا خیال تھا۔کہ ایک آزاد پیشہ کی طرف توجہ کرنا مفید ہو گا۔ اور اس پیشہ کے ذریعہ مظلوموں کی حمایت کی جاسکے گی۔آپ کے ایام طالب علمی کے رفقاء میں سے سیالکوٹ میں ایک کائستھ صاحب لالہ بھیم سین بھی تھے۔وہ بٹالہ میں آپ کے ہم مکتب تھے۔اور ایک ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر لالہ مٹھن لال صاحب کے رشتہ دار تھے۔اور اس وجہ سے حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے ساتھ انہیں پرانا تعلق تھا۔ لالہ بھیم سین اور حضرت مرزا صاحب ایک ہی مکان میں رہتے تھے۔ اور باہم بڑا ربط ضبط تھا۔لالہ بھیم سین حضرت مرزا صاحب کے اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کے گرویدہ اور معتقد تھے۔
پنجاب میں چیف کورٹ کا نیا نیا افتتاح ہوا تھا۔اور امتحان وکالت کے لئے ابتدائی آسانیاں میسر تھیں۔اور بعض اہلکاروں کو قبل از امتحان بھی قانونی پریکٹس کی صاحب ڈپٹی کمشنر کی سپارش پر اجازت دے دی جاتی تھی۔لالہ بھیم سین صاحب بھی اسی قسم کے اہلکاروں میں سے ایک تھے۔چونکہ لالہ مٹھن لال صاحب ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر صاحب سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر کے ملاقاتی تھے۔انہوں نے باوجودیکہ لالہ بھیم سین لوکل بورڈ میں اہلمد تھے۔ایک سپارشی چٹھی کے ذریعہ ان کو وکالت کی اجازت منگوا دی تھی۔ ہاں شرط یہ تھی کہ اگروہ امتحان میں پاس نہ ہوںتو انہیں اپنے اصلی عہدہ پر واپس ہوجانا پڑے گا۔چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے رخصت لے رکھی تھی۔ تیاری امتحان میں مشغول تھےاور دن کو باقاعدہ پریکٹس کرتے تھے۔انہوں نے حضرت مرزا صاحب کو بھی تحریک کی کہ وہ امتحان وکالت دے دیں۔غرض اس تحریک یا اور اسباب کی بناء پر حضرت مرزا صاحب بھی شامل امتحان ہوئے…‘‘(حیات احمدؑجلداول صفحہ109،108)پنڈت دیوی رام صاحب جوکہ قادیان میں حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒ کے زمانے میں سکول میں نائب مدرس تھے۔ان کا ایک تفصیلی بیان سیرت المہدی حصہ سوم کی روایت نمبر759 پر موجودہے۔ اس میں وہ بیان کرتے ہیںاوراس راوی کایہ کہناہے کہ یہ باتیں انہیں حضرت اقدسؑ نے خودبتائی تھیں۔وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’…اور یہ بھی سُنایا تھا کہ میں نے وکالت کے امتحان کی تیاری کی تھی اور بائیس امیدوار شاملِ امتحان ہوئے تھے۔ نرائن سنگھ امیدوار جو کہ میرا واقف تھا اس نے عین امتحان میں گڑ بڑ کی اور اس کا علم ممتحن کو ہو گیا۔ اور اس نے بائیس کے بائیس امیدوار فیل کر دئیے۔ کیونکہ اس امر کا شور پڑ گیا تھا۔ ‘‘
عین امتحان میں گڑبڑکاجوذکرپنڈت صاحب نے کیاہے اس کی تائید حضرت عرفانی صاحب ؓ کی ایک تحریر سے ہوتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں :’’امتحان کے کمرہ میں بعض حالات اور واقعات ایسے پیش آئے تھے کہ قریب تھا کہ وہ امتحان منسوخ ہو جائے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی ایسی صورت ضروردرپیش تھی کہ امتحان کالعدم ہی قرار دے دیاگیاہوگا۔جسے پنڈت صاحب نے تمام امیدواروں کو فیل ہونے سے مرادلیاہے۔
بہرحال یہ روایت اسی طرح تو درج کردی جس طرح کتاب میں تھی لیکن خاکسار کا خیال ہے کہ راوی پنڈت صاحب کچھ باتیں گڈمڈ کرجاتے ہیں یا بھول جاتے ہیں۔مثلاًیہی کہ اس امیدوارکانام نرائن سنگھ تھا۔اور اس سے اگلی سطروں میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’جب سوامی دیانند سے مباحثہ ہوتاتھا تواسی نرائن سنگھ نے مرزاصاحب کاایک خط بندلفافہ میں جس میں دوکاغذ لکھے ہوئے تھے محکمہ ڈاک میں بھیج دئے تھے کہ مرزاصاحب نے جرم کیاہے…‘‘اب سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ڈاک کے اس مقدمہ کا محرک تو رلیارام وکیل تھا اورسوامی دیانند سے مباحثہ بھی نہ تھا۔چونکہ ساٹھ سال کے بعد یہ واقعات بیان کیے گئے ہیں ممکن ہے کہ کچھ ناموں میں ذہول ہوگیا ہواور کثرت واقعات کی وجہ سے کچھ خلط ملط ہوگیاہو۔لیکن جیسابھی ہے پنڈت صاحب نے بھی ایک امتحان کی بابت بتایاہے۔اور اس میں امیدوارفیل ہونے کا ذکربھی ہے۔لیکن اس روایت میں بھی یہ حتمی طورپر بیان نہیں کہ حضرت اقدسؑ اس امتحان میں خود شامل بھی ہوئے کہ نہیں۔
ایک اور مؤقرسوانح نگارحضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب اس کے متعلق لکھتے ہیں :
“There is another report on this point to the effect that he studied the course but changed his mind and did not sit for the examination.”(Life of Ahmad part I p;41)
اس ضمن میں ایک اور امریہ بھی قابل ذکرہے کہ آپ نے نصاب کامطالعہ توفرمایالیکن ارادہ تبدیل فرمالیااورامتحان میں نہیں بیٹھے۔
الغرض سیالکوٹ میں آپؑ کے وکالت کا امتحان دینے کی بابت دونوں قسم کی روایات آتی ہیں یہ بھی کہ امتحان دیاہی نہیں اور یہ بھی کہ دیاتوتھالیکن کامیابی نہ ہوئی۔یا یہ کہ دودفعہ امتحان ہواپہلے امتحان میں آپؑ بیٹھے لیکن جب وہ کالعدم قراردے دیاگیا اور دوسراامتحان دینے کاوقت آیا تو اس میں آپؑ نہیں بیٹھے ہوں گے۔اور یوں یہ جو کہاجاتاہے کہ کامیابی نہ ہوئی تو چونکہ پہلاامتحان کالعدم قرار پایا اس لیے اس میں تمام امیدوارفیل کہے جائیں یا یہ کہا جائے کہ کوئی بھی کامیاب نہیں ہواایک نسبتی سی بات رہ جاتی ہے۔اورجب دوسراامتحان ہواتواس میں آپ شامل ہی نہیں ہوئے اور ارادہ ہی ترک کردیا۔
اورمؤخرالذکرموقف کی بابت حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓبیان فرماتے ہیں:’’قانونی امتحان جب آپؑ نے پہلی مرتبہ دیاتو اس وقت آپؑ کی غرض و مقصود اس پیشہ سے روپیہ کمانا نہ تھا۔بلکہ آپؑ اہل مقدمات کی بے کسی اور مظلومی کو دیکھتے تھےکہ بعض اوقات قانون کی ناواقفیت کے باعث وہ ان برکات اور مفاد سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جو قانون نے ان کے لئے عطا کر رکھے ہیں۔محض اپنے ہم جنسوں کی بھلائی اور مدد کے خیال نے آپؑ کو اس طرف متوجہ کیا تھا۔
……غرض ابتداءً جب یہ خیال آیا کہ امتحان قانونی دینا چاہیے تو آپؑ کی غایت مقصود غرباء اور ضعفاء کی امداد و اعانت تھی…غرض قانونی امتحان کی تیاری بھی محض اس اصل پر تھی کہ دوسروں کا بھلا ہو۔لیکن بعد میں جب آپ نے غور کیا تو یہ خیال دامن گیر ہوا کہ بعض اوقات اہل مقدمات محض جھوٹے اور فرضی بیانات پیش کرتے ہیں اور اول سے لے کر آخر تک ساری کارروائی جھوٹی ہوتی ہے وکیل مقدمہ اس کی تائید کرتا ہے۔ہر چند وکیل عالم الغیب نہیں اور وہ نہیں جانتا کہ حقیقت کیا ہے۔اور بعض اوقات کسی مرحلہ پر اسے معلوم بھی ہوجائے تو چونکہ وہ معاوضہ لے چکا ہوتا ہے اس لیے پیروی کرتا ہے۔اور چھوڑ نہیں سکتا اس لئے تقویٰ کی باریک در باریک رعایت نے اس خیال کو ہمیشہ کے لیے آپؑ کے دل سے نکال دیا۔ایک وقت اس پیشہ کے مختلف پہلووٴں پر آپؑ نے خوب غور کیا ہے۔اس کے تمام نشیب و فراز پر متقیانہنظر ڈالی ہے۔لیکن آخریہ پہلو غالب آیاکہ چونکہ امکان ہے کہ محض غلط اور فرضی مقدمات کی پیروی ہو یا ایک ظالم مجرم کی حمایت اور تطہیر ہو۔اس لیے کلیةً اس سے الگ رہنے میں امن سمجھا اور دوسری مرتبہ امتحان دینے کا خیال جو آیا تھا وہ ترک کر دیا۔‘‘(حیات احمدجلداول صفحہ295تا 297)
اسی امتحان کی بابت ایک اہم بات کاذکرکیے بغیریہ بات ادھوری رہے گی کہ یہ امتحان بھی خدائے تعالیٰ کی ہستی کی ایک دلیل اورحضرت اقدسؑ کی صداقت کے لاکھوں نشانوں میں سے ایک نشان رہ گیا۔اورتفصیل اس کی یہ ہے کہ اس عالم الغیب والشہادة ہستی نےاس امتحان کے نتیجہ کی بابت قبل ازوقت حضرت اقدسؑ کواطلا ع بھی دے دی اور آپؑ کو بھی اس علیم وخبیرذات پراس کے ساتھ اس تعلق پر اتنااعتمادتھاکہ درجنوں لوگوں کوآپؑ نے پہلے سےبتلابھی دیاتھا۔چنانچہ حضرت اقدسؑ اس کا بطورنشان کے ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ایک وکیل صاحب سیالکوٹ میں ہیں جن کا نام لالہ بھیم سین ہے۔ ایک مرتبہ جب انہوں نے اِس ضلع میں وکالت کا امتحان دیا تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے اُن کو بتلایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا مقدر ہے کہ اس ضلع کے کل اشخاص جنہوں نے وکالت یا مختاری کا امتحان دیا ہے فیل ہوجائیں گے مگر سب میں سے صرف تم ایک ہوکہ وکالت میں پاس ہوجاؤگے۔ اور یہ خبر میں نے تیس کے قریب اور لوگوں کو بھی بتلائی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیالکوٹ کی تمام جماعت کی جماعت جنہوں نے وکالت یا مختار کاری کا امتحان دیا تھا فیل کئے گئے اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہوگئے اور اب تک وہ سیالکوٹ میں زندہ موجود ہیں… اور یہ نشان آج سے بیس۲۰ برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے۔ ‘‘(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15 صفحہ256)
ایک قابل غورامریہ بھی ہے۔جوایک سوانح نگارمحقق کوغوروفکرکے لیے متوجہ ضرور کرتا ہے کہ حضرت اقدسؑ نے جب یہ واقعہ تحریرفرمایاہے تو حضوراقدسؑ نے اس میں یہ کہیں نہیں بیان فرمایا کہ میں بھی اس امتحان میں شامل تھا۔بلکہ یہ لکھاہے کہ ایک مرتبہ جب انہوں نے اِس ضلع میں وکالت کا امتحان دیا…آپ کااس واقعہ کی تفصیلات میں اپنا ذکرنہ کرناظاہر کرتا ہے کہ اس امتحان میں آپؑ خودشریک نہیں ہوں گے۔اس کی مزیدتفصیل حضرت عرفانی صاحب ؓنے یوں بیان کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:’’حضرت مرزا صاحب نے روٴیا میں دیکھاکہ امتحان کے جو پرچے تقسیم ہوئے ہیں وہ دو قسم کے کاغذات پر ہیں۔ زرد اور سرخ۔تمام امیدواروں کو زرد رنگ کے پرچے تقسیم ہوئے ہیں اور لالہ بھیم سین کو سرخ رنگ کا پرچہ۔ حضرت مرزا صاحب نے اس کی تعبیر یوں کی ہے کہ لالہ بھیم سین پاس ہو جائیں گے گویا سرخروہوں گے اور زرد رنگ سے نا کامی کی تعبیر کی۔امتحان کے کمرہ میں بعض حالات اور واقعات ایسے پیش آئے تھے کہ قریب تھا کہ وہ امتحان منسوخ ہو جائے۔لیکن آخر جب نتیجہ نکلا۔ تو وہ عین خواب کے مطابق تھا۔‘‘(حیات احمدؑجلداول صفحہ109)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭