حضرت سر چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کا آخری انٹرویو
محترم عبدالحی شاہ صاحب مدیر انصار اللہ ربوہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’یہ انٹرویو محترم ملک صلاح الدین صاحب مؤلف اصحاب احمد نے لاہور میں 6؍ جنوری 1983ء کو حاصل کیا تھا۔ یہ انٹرویو حضرت چوہدری صاحب نے بعدتحریر خود ملاحظہ فرمایا او ربعض ترامیم فرمائیں۔ یہ انٹرویو ادارہ انصاراللہ نے پہلی دفعہ شائع کیا۔ غالباً یہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کا آخری انٹرویو بھی ہے…(اس شمارے میں) تکرار سے بچنے کے لئے انٹرویو کے بعض حصے حذف کردیئے گئے ہیں۔‘‘
سوال: خاندانی حالات کے بارے میں کچھ تذکرہ فرمائیں۔
جواب: ڈ سکہ ضلع سیالکوٹ میرے وطن میں آباد ہماری ساری برادری ایک ہی مورث اعلیٰ کی اولاد ہے جس میں سے ایک حصہ سکھ ہو گیا اور ایک حصہ حسب سابق ہندو ہی رہا۔ برا دری کے اس ہند و حصہ میں سے ہمارے کسی بزرگ نے بھی دس بارہ پشت پہلے اسلام قبول کرلیا۔معلوم نہیں قبول اسلام کس کی تبلیغ سے یاکس طرح ہوا اس کی تفصیل کسی کو معلوم نہیں میرے ہوش کے وقت ابھی ایک دوخاندان ہندو موجود تھے۔
سوال: آپ کے خاندان کا دینی ماحول کیسا تھا۔
جواب: میرے دادا جان اور میرے والد صاحب دونوں وہابی تھے۔ پابند صوم وصلوٰۃ تھے۔ سو شرک وبدعت کا ہمارے ہاں کوئی شائبہ تک نہ تھا۔
سوال: آپ کا نام ظفراللہ خان کس کی طرف سے رکھا گیا تھا۔
جواب: میرے والدین کے ہاں مجھ سے پہلے تین چار بچے چھوٹی عمرمیں وفات پا چکے تھے سوغالباً بطور تفاؤل میرا نام نہ معلوم کس نے ’’اللہ رکھا‘‘رکھا لیکن میرا حقیقی نام شروع سے ہی ظفر اللہ خان ہے جو والدین نے نہیں بلکہ ممکن ہے کہ میرے دادا جان نے رکھا ہو۔
سوال : بچپن میں آپ نے کس کس سکول میں تعلیم پائی۔
جواب : میں سیالکوٹ میں ڈسٹرکٹ بورڈ سکول میں تعلیم پا رہا تھا۔جب والدصاحب نے احمدیت قبول کر لی تو اس وقت امریکی مشن سکول کے ایک احمدی ٹیچر کی تحریک پر والد صاحب نے اس سکول میں مجھے داخل کرا دیا۔ اس مشن سکول میں پانچ چھ اساتذہ احمدی تھے مثلاًً منشی کرم دین صاحب،سید امیرعلی صاحب، سید نواب شاہ صاحب، ماسٹر غلام محمد صاحب اور عزیز دین صاحب۔ ماسٹر غلام محمد صاحب احمدیہ جماعت کے نائب صدر تھے۔ وہ کئی مضامین پڑھاتے تھے اور میری طرف بہت توجہ دیتے تھے۔ ان کے بیٹے عبدالحمید صاحب میرے ہم جماعت تھے۔ بعد میں ڈائریکٹر آف ہیلتھ کی حیثیت سے قادیان بھی دورہ پر آتے رہے تھے اور حضرت فضل عمرؓ سے رابطہ رکھتے تھے اور ملاقات کرتے تھے اور میرے ساتھ بھی تعلقات رکھتے تھے اور شملہ آنے پر میرے ہاں ہی ان کا قیام ہوتا تھا۔ ماسٹر غلام محمد صاحب بعد میں غیرمبائع ہوگئے تھے۔ عزیز دین صاحب مرحوم بعد میں ملازمت ترک کرکے مرکز کی طرف سے انگلستان میں تجارت کے سلسلہ میں کام کرتے رہے اور اب ۱۹۸۲ء کے اواخر میں ان کے بیٹے عبدالعزیز دین صاحب نے وفات پائی ہے جو انگلستان کے نیشنل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ رہے ہیں۔
سوال: آپ کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے آپ کے والد ماجد نے کیا انتظام کیا۔
جواب: جیسا کہ میں ذکر کر چکا ہوں قرآن مجید ناظرہ پڑھانے کا آپ نے اہتمام کیا مجھے بھی دلچسپی پیدا ہوگئی تھی چنانچہ موسمی تعطیلات میں اپنے ننھیال چلا گیا اور ساتھ ہی اپنے ہم سبق لڑکوں کے سپارے بھی لے گیا جو کہ وہ میرے جزدان میں ہی رکھ دیتے تھے۔ میں ساتھ اس لئے لے گیا تا کہ وہ میری غیر حاضری میں آگے سبق نہ پڑھ لیں۔
والد ماجد اس بات کو سمجھتے تھے کہ قرآن مجید کی تعلیم سے واقفیت کی کتنی اہمیت ہے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ نے مولوی فیض الدین صاحب امام [مسجد] کبوتراں والی سے قرآن مجید با ترجمہ میرے پڑھنے کا انتظام کیا۔ مولوی صاحب نے بھی والد صاحب کی طرح حضور کے 1904ء میں سیالکوٹ تشریف لانے کے موقع پر ہی بیعت کی تھی۔ چونکہ میری آنکھوں میں کُکرے ہوگئے اور موسم گرما میں آنکھوں میں تکلیف کی شدت کی وجہ سے مجھے اندھیرے کمرے میں وقت گزارنا پڑتا تھا اس لئے ترجمہ قرآن مجید پڑھنے کی رفتار بھی بہت کم ہوتی تھی۔
میٹرک کے امتحان میں چھ ماہ باقی تھے کہ والد صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کتنا ترجمہ پڑھ لیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ ساڑھے سات پارے۔ فرمایا کہ امتحان تک تو زیادہ سے زیادہ تم نو پارے پڑھ سکو گے۔ میری خواہش ہے کہ تم اس امتحان سے پہلے سارے ترجمہ سے گذر جاؤ سوتم مترجم قرآن مجید سے خود ترجمہ پڑھ لیا کرو اور شام کو غیرمترجم قرآن مجید سے مجھے سنا دیا کرو۔ شام کو آپ گھر ہوتے تھے۔ سو صبح دو رکوع کے قریب ترجمہ دیکھ لیتا تھا شام کو آپ کو سنا دیتا تھا۔ سو میں نے سارا ترجمہ پڑھ لیا۔ یہ آپ کا مجھ پر بڑا بھاری احسان ہے۔ اس طرح مجھے قرآن مجید سے محبت ہوگئی جو کلام الٰہی ہے اور اسلام کی بنیاد ہے۔
مجھے بھی دینی بہتری میں شامل رکھنے کے لئے والدصاحب 1904ء میں اپنے ساتھ لاہور لے گئے تھے جہاں حضرت بانی سلسلہ کی تقریر ہوناتھی۔ والد صاحب نے ابھی احمدیت قبول نہ کی تھی اور میری عمر ابھی صرف ساڑھے گیارہ سال کی تھی۔
سوال: حضرت بانیٔ سلسلہ کا ذکر آپ نے کتنی عمر میں اور کیسے سنا۔
جواب: میں مدرسہ میں زیر تعلیم تھا اور بچہ ہی تھا کہ وہاں حضور کے بارے میں علم ہوا۔ میری عمرسات آٹھ سال کی ہوگی کہ ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی سکول سیالکوٹ کے ایک مدرس مولوی عبد الکریم یا عبدالحکیم صاحب سے قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کا انتظام والدصاحب کی طرف سے کیا گیا۔ وہ احمدی نہیں تھے۔ عمر کے لحاظ سے بزرگ ہونے کی وجہ سے انہوں نے مجھ سے احمدیت کا کیا ذکر کرناتھالیکن وہ تین چار لڑکے جو میرے ساتھ اس سبق میں شامل ہوگئے تھے مذاق وغیرہ کے رنگ میں حضور کا ذکر مجھ سے کرتے رہتے تھے۔ ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ تمہارے والد مرزائی ہو گئے ہیں یا ہونے والے ہیں تمہارا کیا خیال ہے۔ چونکہ مولوی صاحب موصوف دینی لحاظ سے میرے استاد تھے یعنی قرآن مجید پڑھانے والے تھے اس لئے میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کی مذہبی رائے صائب ہو گی یہ جواب دیا کہ دینی معاملہ میں مولوی صاحب کی بات میں قبول کروں گا لیکن حضرت بانی سلسلہ کی اولین زیارت کے بعد میرا تعلق حضور سے ہمیشہ کے لئے قائم ہوگیا۔
سوال: حضرت بانی سلسلہ کی اولین زیارت کا شرف آپ کو کب اور کہاں حاصل ہوا اور اس کا کیا اثر آپ نے محسوس کیا۔
جواب: لاہور میں حضرت بانی سلسلہ کی تقریر جو 3؍ ستمبر 1904ء کو ہوئی تھی اس کے سننے کے لئے والد صاحب مجھے بھی اپنے ساتھ سیالکوٹ سے لے گئے تھے۔
سوال: آپ کی والدہ ماجدہ کی بیعت کی کیا تفصیل ہے۔
جواب: والدہ صاحبہ بالکل اَن پڑھ تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے سے پہلے ان کی روحانی تربیت کا سامان رؤیا ہائے صالحہ کے ذریعہ کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے آپ نے شرک بکلی ترک کر دیا اور آپ کا ایمان اللہ تعالیٰ پر قوی ہو گیا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ کے بارے آپ رؤیا دیکھ چکی تھیں۔ حضور1904ء میں لاہور سے سیالکوٹ تشریف لائے آپ زیارت کے لئے جانے لگیںتو والد صاحب چونکہ بیعت کرنے کے بارے غور کر رہے تھے آپ نے والدہ صاحبہ سے کہا کہ میرے فیصلہ سے پہلے بیعت نہ کریں لیکن والدہ صاحبہ اس محکم یقین پر قائم تھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کی رہبری کرتا ہے۔ اس لئے کہنے لگیں کہ اگر مرزا صاحب وہی ہیں جو مجھے رؤیا میں دکھائے گئے ہیں پھر میں نہیں رکوں گی۔ چنانچہ حضور کو رؤیا والا یاپا کر آپ نے بیعت کے لئے عرض کیا اور حضور نے بیعت قبول فرمائی اور والد صاحب کو آکر بیعت کر لینے کا بتایا اس پر والد صاحب ناراض ہوئے۔
سوال: آپ کے والد ما جد [مسجد]کبوتراں والی کے مقدمہ میں مولوی مبارک علی صاحب کے وکیل تھے اور اس میں جماعت احمدیہ کے دفاع کے لئے آپ حضرت بانیٔ سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کر چکے تھے او رحضور سے متاثر تھے اور پھر کرم دین والے مقدمہ میں حضور کی طرف سے گواہ صفائی کے طور پر پیش ہوئے تھے اور حضور کی وہاں ملاقات سے اور حضور کو قریب سے دیکھنے پر حضور کی صداقت کے آپ قائل ہو چکے تھے ان حالات میں انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کو بیعت سے اپنے فیصلہ تک رکے رہنے کے لئے کیوں کہا تھا ؟
جواب: میں نے اس بارے میں غور کیا ہے بے شک والدصاحب حضور کی صداقت کے قائل ہو چکے تھے لیکن اس وقت شدید مخالفت تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی اَور شخص بھی ان کے دوستوں میں سے احمدیت قبول کر لے تاکہ ایک ساتھی میسر آجائے۔ چنانچہ حضور کے سیالکوٹ تشریف لانے پر خواجہ محمدامین صاحب وکیل کو بھی حضور کی ملاقات کے لئے آپ لے گئے اور پھر پوچھا تو خواجہ صاحب نے بیعت کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور آپ سے کہا کہ نماز فجر کے لئے مجھے اپنے ساتھ لے چلیں۔ میں بھی ساتھ ہی تھا۔ راستہ میں خواجہ صاحب کو اطلاع دی کہ وہ ساتھ چلیں لیکن انہوں نے معذرت کر دی۔ اس پر والدصاحب نے اپنے عزم کے مطالق بیعت کر لی مزید انتظار کرنے سے احتراز کیا۔
خواجہ صاحب موصوف گو عمر بھرا حمدیت کے مداح رہے۔ لیکن انہوں نے احمدیت قبول نہ کی۔ ان کی اکلوتی بیٹی محترمہ احمداللہ بیگم صاحبہ ہیں جو چودھری بشیر احمد صاحب کاہلوں کی اہلیہ ہیں اور عرصہ دراز تک وہ لاہور میں صدر لجنہ اماءاللہ رہیں۔
سیالکوٹ میں عام طور پر بھی احمدیت کی مخالفت تھی اور مخالفانہ وعظ ہوتے رہتے تھے لیکن حضور کی 1904ء میں سیالکوٹ میں تشریف آوری پر مخالفت کا شدید جوش تھا جس کا اس سے علم ہوتا ہے کہ حضور کی آمد پر حنفی مولویوں نے فتوی دیا کہ جو کوئی (حضرت) مرزا صاحب کو دیکھنے بھی گیا تو اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ چنانچہ بعض لوگوں نے چونکہ حضور کو دیکھا اس لئے انہوں نے دوبارہ اپنے نکاح پڑھوائے۔ یہ عجیب بات ہوئی کہ حنفیوں کی مخالفت کی وجہ سے وہابی علماء نے یہ فتوی دیا کہ جنہوں نے دوبارہ نکاح پڑھوائے ہیں ان کے نکاح دوبارہ نکاح پڑھوانے کی وجہ سے ٹوٹ گئے ہیں۔
ایک مولوی عبدالحکیم نامی کسی سرکاری محکمہ میں ناظر تھے ان کے متعلق کسی نے حضرت بانی سلسلہ کی خدمت میں عرض کیا کہ مولوی صاحب موصوف نے بیان کیا ہے کہ مجھے آواز آئی ہے کہ
’’زلزلہ کا دھکا مرزاسچا‘‘
حضور نے دریافت فرمایا آیا ان مولوی صاحب نے مجھے قبول کر لیا ہے۔ تو عرض کیا تھا کہ اس نے قبول نہیں کیا۔ حضور نے یہ سن کر فرمایا کہ وہ شقی ازلی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنے واضح طور پر بتایا گیا پھر بھی وہ قبول نہیں کرتا۔
سوال: آپ نے کب بیعت کی اور کیا منصب سمجھ کربیعت کی تھی۔
جواب: میں نے 3؍ستمبر 1904ء کو جب حضرت بانیٔ سلسلہ کو دیکھا تو اسی وقت ایمان لے آیا اور مجھے حضور کی صداقت کے بارے بفضلہ تعالیٰ کبھی تذبذب نہیں ہوا چنانچہ میں والدہ صاحبہ سے کہا کرتا تھا کہ میں آپ سے پہلے ایمان لے آیا تھا۔ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ حضور کی صداقت کے بارے مجھے خوابیں اس سے پہلے آچکی تھیں اور میں اس وقت ہی ایمان لے آئی تھی۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے 1907ء میں والد صاحب کو تحریر فرمایا کہ ظفراللہ خاں کو اب بیعت کرلینی چاہیئے۔ میں نے یہ خط پڑھا اورجب تعطیلات موسمِ گرما ہوئیں تو والد صاحب کے ساتھ قادیان آگیا اور حضرت بانیٔ سلسلہ کی دستی بیعت (مسجد)المبارک میں کر لی۔ میں شروع سے ہی حضور کو صادق اور مامور من اللہ یقین کرتا تھا اور حضور کے تمام دعاوی پر ایمان رکھتا تھا۔
سوال : ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کے استاد شمس العلماء میرحسن صاحب کے تاثرات حضرت بانیٔ سلسلہ کے بارے میں کیا تھے۔
جواب: میں ان کو بچپن میں جانتا تھا۔ میر حامد شاہ والی مسجد میں وہ نماز ادا کیا کرتے تھے اور ان کے قریبی رشتہ دار تھے حضرت بانیٔ سلسلہؑ نے جب اپنی جوانی میں سیالکوٹ میں ملازمت کی تھی تو اسی محلہ میں قیام تھا جس میں میرحسن صاحب رہائش رکھتے تھے اور اس زمانہ سے حضور سے متاثر تھے اور حضورؑ کا بہت ادب کرتے تھے۔
سوال: ڈاکٹر محمد اقبال صاحب اور ان کے والد صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی کے متعلق اپنی کچھ معلومات مہربانی کر کے بیان فرمائیں۔
جواب: ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کے والد صاحب کومیں بچپن میں ہی جانتا تھا۔ وہ ٹوپی دوزی کا کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی طالب علمی کے زمانہ میں حضرت بانی سلسلہؑ کی مدافعت میں سعداللہ لدھیانوی کے خلاف نظم لکھی تھی اور ایک نکاح کے بارے میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے فتویٰ حاصل کیا تھا۔ اپنی پہلی بیوی کے بیٹے آفتاب اقبال کو قادیان میں تعلیم دلوائی تھی جو چند سال پہلے اپنے ایک بیٹے کو مسجدفضل لندن میں میرے پاس لائے تھے کہ اسے احمدی بنالیں۔ میں نے بتایا کہ پہلے اسے تعلیم احمدیت سے واقف ہونا چاہیے احمدیت کا قبول کرنا کسی ایسوسی ایشن کی ممبری قبول کرنا نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو ولایت میں تعلیم ان کے بڑے بھائی نے دلائی تھی اور ڈاکٹر صاحب ان کے ممنون اور قدردان تھے۔ بھائی احمدیت میں پختہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب جس وقت اپنے بھائی کے گھر میں رہائش رکھتے تھے تو ڈاکٹر صاحب کے بعض ساتھیوں نے احمدیت کے خلاف کسی موقع پر نامناسب بات کہی تو آپ کے بھائی نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو گھر سے نکال دوں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے معذرت خواہی کے رنگ میں کہا کہ میں نے تو ( حضرت) مرزا صاحب کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کہی۔ بھائی نے کہا کہ آپ سے میل جول والے ایسی باتیں کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے بھائی نے قدرت ثانیہ کے مظہر ثانی کی بیعت نہیں کی تھی۔ پھر ایک دن میں سیالکوٹ گیا اوران کو آمادہ کیا تو انہوں نے حضرت فضلِ عمر کی بیعت کرتے وقت عرض کیا کہ میں نے حضرت بانیٔ سلسلہؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور میں ہمیشہ اس پر قائم رہا ہوں میں اب آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ ان کے بیٹے شیخ اعجاز احمد صاحب نے غالباً 1936ء میں حضور کی بیعت کی تھی اور ہمیشہ جلسہ سالانہ پر قادیان میرے ساتھ جاتے تھے۔
گو ڈاکٹر صاحب اور خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہت اصرار کے ساتھ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی تشکیل میں اس کی صدارت حضرت فضل عمر ؓکو دلائی تھی اور پھر دوسرے سال بھی۔ لیکن احمدیت کا ایک شدید معاند ڈاکٹر صاحب کا ہم جلیس تھا اس کے احمدیت کے خلاف متواتر کان بھرنے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب بالآخر مخالف ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بچوں کا گارڈین اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب کو مقرر کر نا چاہالیکن پھر بتایا کہ علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ ایک کافر کسی مسلمان کا گارڈین نہیں بن سکتا۔ لیکن پھر اپنی وصیت میں جوتین گارڈین افراد کی کمیٹی مقرر کی ان میں شیخ صاحب کا بھی نام تھا۔ شیخ صاحب نے حضرت فضلِ عمر کی خدمت میں عرض کیا کہ میں تین میں سے ایک ہوں باقی دو میں سے ایک شدید مخالفِ احمدیت ہے۔ طے تو وہی ہوا کرے گا جو باقی دو چاہیں گے میرا تو یونہی نام ہوگا۔ کیا میں مستعفی ہو جاؤں ؟ حضور نے مشورہ دیا کہ آپ کے چچا کے آپ پر بہت احسان ہیں اور آپ اب ان کی یہی خدمت کر سکتے ہیں کہ آپ مشورہ کے وقت نیک نیتی سے اپنی رائےدے دیا کریں چنانچہ انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا اور عملاً اس کمیٹی میں کبھی اختلاف نہیں ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کے بھائی چندہ دینے میں وسیع حوصلہ تھے ایک عید کے موقع پر بعض احباب نے آٹھ آٹھ آنے کے قریب عید فنڈ ادا کیا جو کہ ایک روپیہ ہوتا ہے تو بھائی صاحب نے عہده دار سے کہا کہ ان سب کی کمی مجھ سے لے لیں۔
سوال: قدرت ثانیہ کے مظہر اوّل کی آپ سے شفقت وغیرہ کے بارے میں مہربانی کرکے کچھ بیان فرمائیں۔
جواب : حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے چہرہ پر زخم آنے سے بیمار تھے۔ جب میں بی۔ اے کا امتحان دے کر قادیان چلا گیا سارا دن حضور کی خدمت میں حاضر رہتا تھا۔ آپ کی ایسی حالت میں عیادت کرنے کے لئے احباب آتے تھے۔ آپ قرآن مجید کا درس بھی دیتے تھے۔ مریضوں کو بھی دیکھ لیتے تھے اور صدر انجمن احمدیہ کے کاغذات آنے پر انہیں بھی ملاحظہ فرماتے اور پھر درس و وعظ جاری رہتا۔ ایک دفعہ اذان ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ سب دوست خانۂ خدا میں جائیں۔ میں بھی جانے لگا تو مجھے آپ نے روک لیا۔ وہیں چھ سات افراد کی معیّت میں آپ نماز ادا فرما لیتے تھے اور چارپائی پر ہی کعبہ رخ ہوجاتے اور شیخ محمد تیمور صاحب امامت کراتے تھے۔ ایک روز غالباً نماز عصر کے وقت شیخ صاحب موجود نہ تھے تو شفقت سے حضور نے مجھے فرمایا :میاں تم نے بھی تو قرآن مجید پڑھ لیا ہوا ہے تم نماز پڑھاؤ۔ میں نے شکر کیا کہ یہ نماز جہری قراءت والی نہیں اور تعمیل ارشاد میں نماز پڑھائی۔ عصر کے وقت صحن میں سایہ ہو جانے پر حضورصحن میں چلے جاتے تھے اور مغرب تک وہاں ٹھہرتے تھے۔ چونکہ عصر کے بعد مدرسہ کے طلباء کھیل کے لئے جاتے تھے۔ ایک روز حضور نے مجھ سے پوچھا تم کھیل کے لئے نہیں جاتے۔ میں نے عرض کیا کہ میں جہاں ہوں اچھا ہوں۔
ایک دن ایندھن کی لکڑیاں آئیں آپ کے شاگردوں نے ڈیوڑھی سے اندر پہنچانی شروع کیں اس وقت میں بہت کمزور تھا میں نے بھی ایک لکڑی اٹھائی لیکن حضور نے مجھے روک دیا اور فرمایا چھوڑ دیں یہ آپ کا کام نہیں۔
دریافت کرنے پر میں نے عرض کیا کہ میرے امتحان کے پرچے اچھے ہوگئے ہیں۔ مبارک اسمٰعیل صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں تو اسی وقت میں حضور کی خدمت میں واپس گیا اور یہ خط دکھایا۔ آپ بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد جوبھی اس روز آپ کے پاس آیا آپ اس سے ذکر کرتے کہ ہمیں آج بہت خوشی ہے ظفر اللہ خاں کا میاب ہوگیا ہے اور ان کو پہلے ہی پاس ہو جانے کی امید تھی۔
سوال : کیا کبھی آپ نے کوئی کھیل تعلیمی زندگی میں کھیلی ہے؟
جواب: میٹرک تک مجھے کئی سال تک آشوبِ چشم کی تکلیف رہی اس لئے مجھے موسم گرما میں اندھیرے کمرے میں رہنا پڑتا تھا اور میں پڑھائی ان دنوں بہت کم کرتا تھا۔ ایف اے کی تعلیم کے وقت میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اگر میں اس میں کامیاب نہ ہوا توتعلیم ترک کر دوں گا۔ میرے مضامین بھی زیادہ محنت والے تھے یعنی سائنس،عربی اور انگریزی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے آرام آگیا اور میں روزانہ بارہ گھنٹے پڑھائی کرتا تھا اور پھر اب تک آنکھوں کی کو ئی تکلیف مجھے نہیں ہوئی۔
سوال: کیا قدرت ثانیہ کے مظہرِ اول حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے آپ کو قانون کی تعلیم پانے کے لئے ولایت جانے کی اجازت دی تھی۔
جواب: والدصاحب کا ایک خط حضور کی خدمت میں کئی باتوں کے بارے میں مَیں نے پیش کیا۔ حضور مختصر گو اور مختصر نویس تھے ہر ایک بات کا جواب آپ نے حاشیہ پر دیا۔ ولایت جانے کے بارے میں تحریر فرمایا کہ والد صاحب اور میں دونوں استخارہ کریں اگر اطمینان ہو تو اجازت ہے۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ کئی طلباء نے اس دفعہ ولایت جانے کی اجازت چاہی تھی لیکن آپ نے ان کو اجازت نہیں دی تھی۔
سوال: مہربانی کر کے حضرت فضلِ عمر ؓکی قبولیت دعا کے ایک دو واقعات بیان فرمائیں۔
جواب : (۱) میں نے دیکھا ہے کہ دعا کے لئے عرض کرنے پر بعض دفعہ حضرت فضل عمر ایسی طرز سے جواب دیتے تھے کہ میں دعا کروں گا کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ دعا قبول ہوجائے گی۔
مثلاًً شیخ اعجاز احمد صاحب برا در زا دہ ڈاکٹر محمداقبال صاحب کی خواہش پر 1924ء میں مَیں نے حضور کی خدمت میں لندن میں ان کے لئے دعا کی درخواست کی۔ غالباً سب ججی کا معاملہ تھا حضور کے جواب کی طرز سے ہی میں نے سمجھ لیا کہ یہ دعا قبول ہوگی۔ بعدازاں وہ اس ملازمت کے حصول میں کامیاب ہوگئے تھے۔
(۲) گوجرانوالہ کے شیخ صاحب دین صاحب اور ان کے ملازم پر جعلی نوٹ بنانے کے الزام میں سرکاری طور پر الگ الگ فوجداری مقدمات دائر ہوئے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور کے عمّ زا د شیخ عبدالرحمٰن صاحب مجسٹریٹ نے ملازم کا بیان اس کے مقدمہ میں قلمبند کیا تھا۔ چونکہ الزام کے بارے میں اَور تو کوئی شہادت نہ تھی اس ملازم کی گواہی پر بنیاد رکھ کر شیخ صاحب دین صاحب کو پانچ سال قید کی سزا دی گئی۔
یہ دعا عجیب رنگ اور غیر معمولی حالات میں پوری ہوئی۔اس مقدمہ کے فیصلہ کے بارے میں قانوناً براہ راست ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ جرم شدید نوعیت کا تھا۔ حضرت فضل عمر کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا گیا۔ حضور نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا اور یہ دعا عجیب رنگ میں غیرمعمولی حالات میں پوری ہوئی۔
اپیل میں شیخ صاحب دین صاحب کے وکیل نے یہ نکتہ پیش کیا کہ دوسرے ملزم کا بیان بطور ثبوت شیخ صاحب کے خلاف قبول نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ ہائی کورٹ کے جج نے اس نکتہ کو قبول کرتے ہوئے اپیل منظور کرلی اور عدالت ماتحت کا فیصلہ کا لعدم کر دیا اور شیخ صاحب بری ہو گئے۔ بعد میں ایک اور مقدمہ میں اس نکتہ کے بارے میں شیخ صاحب والے مقدمہ کا فیصلہ ایک اَور جج ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا اس نے فل بنچ سے اس کافیصلہ کروانا چاہا جس نے اس نکتہ کو ردّ کر دیا۔ لیکن شیخ صاحب تو بَری ہو چکے تھے۔ گویا جو کھڑکی شیخ صاحب کی بریت کی کھلی تھی وہ حضور کی دعا کا غیرمعمولی نتیجہ تھی ورنہ یہ کھڑکی دوسروں کے لئے ہمیشہ کے لئے بند کر دی گئی۔
سوال: حضرت فضل عمرؓ کا آپ سے جو مشفقانہ سلوک سوال رہا اس کا مختصراً ذکر فرمائیں۔
جواب : ولایت سے تعلیم حاصل کر کے میں واپس آیا تو جنوری تا اگست 1915ء والد صاحب کے ساتھ سیالکوٹ میں پریکٹس کی اور کام سیکھا لیکن میں اس عرصہ میں اس کام سے اُ کتا گیا تھا۔ پھر میں لاہور چلا آیا اور رسالہ انڈین کیسز (Indian Cases)کے نائب ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے لگا۔ 1916ء میں (مسجد) احمد یہ مونگیر کے مقدمہ کی پیروی کے لئے حضرت فضل عمر نے مجھے ارشادفرمایا کہ میں اس کی پیروی کروں حالانکہ میں نے لاہور میں ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں اس عرصہ میں ایک کیس بھی نہیں لیا تھا۔ میرے لئے اس مقدمہ کی پیروی ایک انوکھی چیز تھی کیونکہ میں اس کے حالات سے بالکل نا واقف اور خالی الذہن تھا۔ میں پٹنہ پہنچا تو سیّد وزارت حسین صاحب مرحوم نے فقہی لحاظ سے مطلوبہ تمام حوالہ جات مہیا کر رکھے تھے میں نے یہ مقدمہ کے حالات کے مطابق قانونی کام ایک ہی روز میں کر لیا اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مقدمہ میں کامیابی ہوئی۔یہ کامیابی محض حضرت فضل عمر کی دعاؤں کا نتیجہ تھی۔
اپریل 1915ء میں دہلی میں جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ منعقد ہونا تھا اور اس میں اردو اور انگریزی میں تقریریں ہونی تھیں مجھے حضور کی طرف سے ارشاد ہوا کہ NEED OF RELIGION (ضرورت مذہب)کے موضوع پر انگریزی میں اس جلسہ میں تقریر کروں۔ میں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ مجھے پبلک سپیکنگ (عوامی تقریر) کا ذرہ بھر تجربہ نہیں۔ فرمایا میں نوٹ لکھوا دیتا ہوں چنانچہ ان نوٹوں کو میں نے پھیلایا۔ پھر ہمیشہ یہی طریق رہا کہ جب بھی ضرورت پیش آتی حضورکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کر کے نوٹ لے لیتا اور مضمون تیار کر لیتا تھا اور آپ کی برکات، توجہ اور دعاؤں سے کامیابی ہوتی تھی۔
1917ء میں ہندوستان میں آئینی اصلاحات کے لئے وزیر ہند مسٹر مانٹیگو(Edwin Samuel Montagu) ہندوستان آئے تو جماعت احمدیہ کا ایک وفد بھی ان سے ملا۔ وفد کے لیڈرحضرت نواب محمد علی خاں صاحب تھے۔ ایڈریس میں نے پڑھا تھا۔ پھر مسٹر مانٹیگو سے حضرت فضل عمر کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں حضرت فضل عمر کا میں ترجمان تھا حضور کے منشاء کے مطابق میں نے ایک ایک فقرہ کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ آپ نے ساری بات اردو میں کر لی تو اس کا ترجمہ کیا۔ اس میں مشکل یہ تھی کہ ترتیب بھی وہی قائم رکھنی ہوتی تھی اورمفہوم بھی۔ پھر حضورخود بھی انگریزی پوری طرح سمجھتے تھے۔ گویا کہ ساتھ ہی نگرانی ہو رہی ہوتی تھی کہ صحیح ترجمانی ہوئی ہے یا نہیں۔ میں حسب ضرورت اپنی طرف سے آپ کے منشاء کی وضاحت بھی کر دیتا تھا آپ میری ترجمانی سے خوش ہوئے۔
حضرت فضل عمر ؓسے میرا تعارف 1904ء میں ہوا تھا جبکہ حضرت بانیٔ سلسلہ سیالکوٹ تشریف لائے تھے۔ آپ 1914ء میں امام جماعت احمدیہ بنے۔ 1915ء سے ہی آپ کی مشفقانہ توجہ مجھ پر ہوئی جو ہمیشہ بڑھتی رہی اور وہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر مرحلہ پر میرے لئے برکات کا موجب بنی و رنہ من آنم کہ من دانم۔
سوال : حضرت فضل عمرؓ کا کوئی ارشا د خاص طور پر قابل توجہ ہوا ور صرف آپ ہی کو اس کا علم ہو مہربانی کر کے بیان فرمائیں۔
جواب: جب میں نے حضرت فضل عمر کی خدمت میں آپ کی پچیس سالہ خلافت جوبلی منانے کی تجویز پیش کی تو فرمایا کہ اپنے بارے میں جو بلی منانے میں مجھےانقباض ہے۔ البتہ چونکہ سلسلہ احمدیہ کے قیام پر پچاس سال پورے ہوئے ہیں اس وجہ سے میں جوبلی منانے کی اجازت دیتا ہوں لیکن ساتھ ہی تاکید فرمائی کہ سلسلہ احمدیہ کی صد سالہ جوبلی بڑی شان سے منانا۔ استفسار پر میں نے یہ بات قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؓ کی خدمت میں بیان کر دی تھی۔
سوال: حضرت اماں جانؓ کی شفقت کا کوئی واقعہ آپ بیان فرماسکتے ہیں ؟
جواب: میرے انگلستان روانہ ہونے سے پہلے میرے والد صاحب اور میرے ماموں چوہدری عبداللہ خاں صاحب مجھے لے کر قادیان حاضر ہوئے۔ خاندانی اراضیات کے منتظم میاں جُمّاں بھی ساتھ تھے تو حضرت اماں جان نے ازراہ شفقت غالباً دوپہر کے کھانے کے لئے ہمیں بلایا۔ یہ کھانا آپ نے اپنے ہاتھ سے تیار کیا تھا۔ والدہ صاحبہ کا حضرت اماں جان سے بہت جوڑ تھا۔
سوال: بعض بزرگوں کے متعلق آپ کچھ بتاسکیں تو میں ممنون ہوں گا۔
(۱) حضرت ڈاکٹر سیدعبدالستارشاه صاحب کو اللہ تعالیٰ نے یہ فخر بخشا کہ ان کو حضرت سیده ام طاہر صا حبہ جیسا وجود عطا کیا۔ ان کو حضرت بانیٔ سلسلہ نے جب کہ وہ گود میں تھیں، بہو کے طور پرمنتخب کیا لیکن محترم صا حبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات جلد ہی ہوگئی۔ پھراسی تعلق کی بناء پر حضرت فضل عمر نے انہیں اپنی زوجیت میں لے لیا اور ہر دو کے اکلوتے فرزند کو اللہ تعالیٰ نے قدرت ثانیہ کا مظہر را بع بنایا ہے۔ ان الفضل بيداللّٰه يؤتيه من تشاء۔
(۲) حضرت سیدہ امة الحی صاحبہ : حضرت بانیٔ سلسلہ نے ایک لڑکی کا رشتہ تجویز کیا تو لڑکی کے والد نے تجویز منظور نہ کی۔ یہ سن کر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے فرمایا کہ حضرت صاحب مجھے اپنی بیٹی امة الحئ کے متعلق فرمائیں کہ اس کا رشتہ متابی چوڑھی کے لڑکے سے کر دو تو کر دوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس جذبہ کو قبول کیا اور حضرت فضل عمر جیسے وجود کی زوجیت ان کو میسر فرمائی۔
(خاکسار انٹرویو لینے والے کا یہ نظریہ ہے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو یہ یقین کامل تھا کہ ان کی یہ بیٹی ایسی سعادتمند ہے کہ حضرت بانی سلسلہ کی طرف سے ایسی تجویز ہونے پر اسے قبول کر لیں گی اور قبول نہ کر کے اپنے والد کے لئے تکلیف کا موجب نہ بنیں گی حضرت چوہدری صاحب کو اس نظریہ سے اتفاق ہے۔)
(۳) حضرت بانی سلسلہ کی ولادت 1835ء میں ہوئی 1982ء میں آپ کی دختر حضرت سیدہ نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہ زندہ ہیں گو یا تقریباً ڈیڑھ سو سال کا طویل را بطہ حضرت بانیٔ سلسلہ کے وجود سے قائم ہے۔
سوال: بزرگوں کے ادب کی برکات او ربے ادبی کے برے نتائج کے بارے میں اپنا تجربہ بیان فرمائیں۔
جواب: شیخ محمدتیمور صاحب کے والد شیخ عبدالوہاب صاحب جموں میں وکیل تھے۔ ان کاوطن پسرور ضلع سیالکوٹ تھا۔ وہ دہریہ تھے۔ ان کے بیٹے شیخ تیمور صاحب کو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے اپنی نگرانی اور تربیت میں لے لیا تھا۔ انہوں نے علی گڑھ میں تعلیم پائی۔ اپنی علالت میں قدرت ثانیہ کے مظہر اول حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے خلافت کے بارے میں جو مختصر وصیت فرمائی تھی وہ شیخ محمد تیمورصاحب کے پاس ہی رکھوائی تھی۔ اس وقت حضور کی ایسی حالت تھی کہ زیادہ لکھنے کا وقت نہیں تھا اس میں صرف ’’محمود‘‘ لکھا تھا۔ کچھ صحت یاب ہونے پرحضورنے اسے تلف فرما دیا تھا۔
میرے ولایت تعلیم کے لئے جانے سے پہلے میں قادیان میں ٹھہرا تو شیخ صاحب بھی وہاں تھے۔ ہمارا باہمی میل جول بہت زیادہ تھا۔ ان کوفٹ بال کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ میں بیت المبارک میں مغرب کی نماز کے لئے ان کے لئے جگہ رکھتا تھا اور وہ نماز میں شریک ہوتے تھے۔
اس قیام کے دوران سید بشارت احمد صاحب وکیل اور میرمحمد سعید صاحب حیدر آباد دکن سے آئے ہوئے تھے۔ سید صاحب سناتے تھے کہ مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے فرمایا تھا کہ میں ان کے ساتھ کھانا کھایا کروں۔ ایک روز کھانا آیا تو حضور نے فرمایا کہ شیخ صاحب آئیں تو ہم کھانا شروع کریں۔ لیکن میں نے کہا کہ آپ ان کا انتظار کرلیں ہم تو کھانا کھاتے ہیں سعید صاحب نے کہا کہ مجھ پرحقیقت کھل چکی تھی کہ شیخ صاحب آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں۔
شیخ صاحب کا واقعہ انہی ایام کا ہے کہ ان کو قدرت ثانیہ کے مظہر اول حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ بخاری شریف پڑھا رہے تھے اور انہوں نے سبق کے دوران کئی بارکوئی بات ایک حدیث کے بارے میں کی ہو گی جس کا جواب حضور نے غالباً نہ سننے کی وجہ سے نہ دیا۔ وہ آگے بڑھنے لگے تو حضور کی توجہ اس حدیث کی طرف ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ اس کے متعلق بات بتانی تھی تو شیخ صاحب نے کہا کہ میں نے تو کئی بارپوچھاتھا آپ نے جواب نہ دیا تو میں آگے پڑھنے لگا۔حضور نے یہ سن کر فرمایا کر شیخ آج ناراض ہو گیا ہے۔ گویا حضور تو ہر طرح دلداری سے پیش آتے تھے لیکن شیخ صاحب میں کبر کی کوئی رمق تھی۔
اس وقت شیخ محمد تیمور صاحب کا یہ حال تھا کہ بظاہران میں کو ئی خرابی معلوم نہ ہوتی تھی اور وہ حضرت فضل عمر سے محبت رکھنے والوں میں تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ابھی آپ (حضرت فضل عمر) کی بیعت کرنے کو تیار ہوں تو حضرت فضل عمر نے فرمایا تھا کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں ایسی بات نہیں کرنی چاہیے لیکن جب خلافت ثانیہ پر حضور کا انتخاب ہوا تو جماعت مبائعین سے الگ ہی ہو گئے بلکہ دہریہ ہوگئے۔
میں جب 1914ء میں قانون کی تعلیم پاکر سیالکوٹ وہیں آیا تو میں مسجد سے باہر نکلا تو وہ سامنے سے گذر رہے تھے تومیں نے ان کی اس دینی حالت کے مد نظر دوسری طرف منہ پھیر کر مصافحہ کیا تو انہوں نے میرے بارے میں کسی سے شکوہ کیا کہ اتنا گہرا دوستانہ رہا ہے اور اب ایسی بے رخی دکھائی ہے۔
تقسیم ملک کے بعد ان سے ایک پرانے دوست نے ان کے اکلوتے بیٹے کے بارے دریافت کیا جو انگلستان میں مقیم تھا تو کہنے لگے کہ میں اسے ہستی باری تعالیٰ کے دلائل تحریر کرتا رہتا ہوں۔
وزیرااعلیٰ فرنیٹر عبدالقیوم خاں نے شیخ صاحب کو پشاور یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کرنا چاہا تو لیاقت علی صاحب وزیراعظم کو اپنی سفارش میں لکھا کہ اس منصب کے لئے یہ بہترین شخص ہیں اور میرے متعلق لکھا کہ ان سے بھی دریافت کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ لیاقت علی صاحب نے مجھے یہ سفارش دکھائی اورمیں نےاس کی تصدیق کی۔اس پر وہ وائس چانسلرمقررکر دیئے گئے۔
سوال: آپ کے پیغامات مطلوب ہیں:
٭…احمدی بچوں کے لئے۔
٭… احمدی نوجوانوں کے لئے۔
٭… احمدی خواتین کے لئے۔
جواب: ہمارے بچوں کو یوروپین رسوم واقدار کی پیروی بلاوجہ کرنے سے محترز رہنا چاہیے۔ ہماری اپنی دینی اقدار ہیں جو کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں ہمیں ان پر قائم رہنا چاہیئے میں ہمیشہ اس امر کی تلقین کرتا ہوں محض اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے۔حضرت بانی سلسلہ سے وابستگی کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ غلبہ دین حق کا باعث بنانے والا ہے۔سو بچوں کو جن پر کل سارا بوجھ پڑنے والا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیم دینی چاہیئے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو اداکرنے کےقابل ہوسکیں۔
اگر ہم پوری توجہ دیں تو ہر ملک کے حتیٰ کہ یورپ و امریکہ کے احمدی بچے بھی تربیت پا کرمعیاری احمدی بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پریٹی ایک نوجوان کا ذکر کرتا ہوں وہ انگلستان میں رہائش پذیر ہے۔ اس کی بیوی انگریز ہے۔ اس نوجوان کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق ہے۔ چھ سات انگریز اس کے ذریعہ احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ اس خاندان کی تربیت کا یہ حال ہے کہ میں نے اس نوجوان کو حضرت بانی سلسلہ کی وہ دعائیں پڑھائیں جو آپ نے جلسہ سالانہ پر آنے والوں کے لئے کی ہیں اور کہا کہ جلسہ سالانہ پر اس دفعہ کم از کم دو بچوں کو ربوہ بھجوا دیں۔ پاسپورٹ اکٹھا تھا الگ الگ کرانے میں دقّت تھی۔ وقت صَرف ہوتا عزم کر لینے پر مشکل بھی جلد حل ہوگئی۔ پھر اس دفعہ فلائٹ ساری پُرتھیں یہ مشکل بھی حل ہوگئی۔ 21؍دسمبر کو ایک سپیشل فلائٹ کا انتظام ہوا۔ یہ خاندان ہمارے ہاں ٹھہرا۔ تیرہ اور چودہ سال کے یہ بچے نماز تہجد کے لئے اٹھتے تھے اور میرے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ (مسجد)المبارک کی باجماعت نماز تہجدمیں شریک ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جب دس سال کا تھا تو امتحان میں اپنی جماعت میں اول آیا۔ اس نے اپنے خط میں لکھا کہ استاد نے میرے اول آنے پرتعجب کا اظہار کیا ہے لیکن وہ دعاؤں کی قوت سے ناواقف ہے۔
ایسی مثالیں ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے لئے نمونہ ہیں اور قابل تقلید ہیں۔ میں ہمیشہ بچوں اور نوجوانوں کو محبت سے ان کی تربیت کی خاطر دینی باتیں سمجھاتا ہوں۔
احمدی نوجوانوں کے لئے پیغام
پیدروآباد(سپین) کی اولین مسجد یعنی بیت بشارت کی افتتاحی تقریب میں میں نے اپنی تقریر میں دو بڑی نعمتوں کا ذکر کیا تھا۔ جو امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی ہیں۔ وہ ہیں ایک سلسلۂ مجددین اور ایک نظام قدرت ثانیہ۔ اس صدی کا مجدداورخلیفہ ایک ہی وجود میں موجو دہیں اور یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو جماعت احمدیہ کو حاصل ہے جس سے دوسرے محروم ہیں۔
امام جماعت کی اپنی اپنی خصوصیت ہے
قدرت ثانیہ کے مظہرا وّل حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ استحکام خلافت ہوا۔ حضرت فضل عمر ؓکی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ کا الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ توسیع پیغام احمدیت کے رنگ میں پورا ہوا۔
قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کے خصائص نصرت جہاں سکیم، فضل عمر فاؤنڈیشن اور صد سالہ جوبلی منصوبہ ہیں جو اشاعت دین میں بھاری توسیع کا موجب ہوئے اور ہوں گے۔
قدرت ثانیہ کے مظہر را بع حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ؒکا انتخاب ہی بہت بڑا نشان ہے۔ آجکل تو میونسپل کمیٹی کا انتخاب بغیر جوت پیزار کے نہیں ہوتا۔ جماعت احمدیہ جو تمام دنیا میں پھیل چکی ہے اس کے چوتھے امام جماعت کا انتخاب چالیس منٹ میں ہوگیا۔ یہ فعلی شہادت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے۔
اے احمدی نونہالو اور پیارے نوجوانو! نظام قدرتِ ثانیہ ایک عظیم نعمت ہے اس کا دامن مضبوطی سے تھام لو۔ اس نعمت کی قدرکرو۔ تمام دینی و دنیوی نعماء اس کی برکت سے پاؤ گے اور اپنی نسلوں کی ایسی تربیت کرتے چلے جاؤ کہ ان کے دل نظام قدرت ثانیہ کی محبت سے معمور ہوں اور وہ ہمیشہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ …الخ کی شرائط ایمان او رعمل صالح کو پورا کرتے رہیں اور اس بارے میں ہمیشہ دعائیں بھی کرتے رہو۔
احمدی خواتین کے لئے پیغام
حضرت بانیٔ سلسلہ کے مبعوث ہونے کی غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کے الہام میں یہ بتائی ہے يُحْيِ الدِّيْنَ وَيُقِيْمُ الشَّرِيْعَةَ کہ آپ دین حق کا احیاء کریں گے اور شریعت کو قائم کریں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپؑ کی زوجہ محترمہ حضرت اماں جانؓ سختی سے پردہ کی پابند تھیں۔ گو وہ گھر سے باہر بھی تشریف لے جاتی تھیں اور بعض افراد کو بلوا کر کام کے لئے بھی کہتی تھیں۔ سو آپ کی تقلید میں احمدی خواتین بھی پردہ کی پوری پابندی کریں۔ عدمِ پابندی کے شدید نقصانات کے بارے حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ امام جماعت احمدیہ نے جماعت کو متنبہ فرما دیا ہے۔
عام جماعت کے لئے پیغام
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ارشاد خداوندی سے انحراف کی وجہ سے مسلمان روبہ انحطاط ہوئے۔ اب جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اس فریضہ کو ادا کرے اور وہ اداکر رہی ہے اور یہ مثمرثمراتِ حسنہ ہو رہا ہے۔ میرا پیغام یہی ہے کہ حضرت بانی سلسلہ اور جماعت احمدیہ کے ائمہ کے ارشاد کے تتبع میں ہمیں اس طرف پوری توجہ کر نی چاہیے تاکہ دوسری صدی کامل غلبۂ دین حق کی صدی بنے۔
احباب کو یہ امر مستحضر رہے کہ ہمارا کام احسن طریق سے پیغام حق پہنچانا ہے ہمیں تو علم نہیں ہوتا کہ سننے والوں میں سے کون اس سے نیک اثر لے گالیکن تجربہ بتاتا ہے کہ سعید روحیں اثر لیتی ہیں۔
میں نے دہلی میں ایک دفعہ اسلام کے بارے میں لیکچر دیا۔ سامعین میں سے ایک ہند و طالب علم نے موٹر کے پاس آکر مجھے کہا کہ میں آپ سے پھر ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا جب چاہیں آپ آجائیں۔ وہ جب آئے تو میرے سیکرٹری نے پوچھا کہ کیا آپ کا یہ نام ہے۔ انہوں نے تصدیق کی۔ ملاقات میں انہوں نے پوچھا کہ آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہو گیا۔ میں نے کہا کہ سٹوڈنٹس یونین کا پریذیڈنٹ مجھے واپس چھوڑنے جا رہا تھا اس سے میں نے معلوم کر لیا تھا۔
انہوں نے مجھے دعا کے لئے کہا۔ میں نے کہا کہ ہندو مذہب میں تو دعا کی گنجائش نہیں۔ اس میں تو کرم کی فلاسفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف پیدائشی ہندو ہوں مذہباً نہیں۔ سو انہوں نے مجھ سے رابطہ رکھا۔ قرآن مجید و ریاض الصالحین منگوائیں۔ جوانی سے ہی وہ بہت متاثر ہوئے۔ ایک دفعہ ان کی ڈیوٹی بمبئی ڈاک پر تھی۔ ایک دن رات کو ان کو تاخیر ہوگئی اور وہ پریشان تھے کہ کیسے واپس پہنچیں۔ اتنے میں ایک انگریز موٹر میں جارہے تھے کہ آپ کے پاس موٹر لے آئے۔ بشپ آف بمبئی تھے۔ پوچھنے پر بتایا کہ میں پیدائش کے لحاظ سے ہندو ہوں۔ قابل قبول مذہب اسلام ہے اور قرآن مجید کی رو سے عیسیٰ میرے نزدیک صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔ تو بشپ صاحب نے کہا کہTHIS IS AN OLD HEARESAY (یہ پرانی باتیں ہیں)۔
ایک دفعہ ان کے مسلمان افسر سے انہوں نے ذکر کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف توحید پر اس قدر پختہ تھا اور آپ نے اس کی اس قدر تاکید کی تھی کہ اگرچہ مسلمان قبر پرستی وغیرہ بدعتوں میں ملوث ہوگئے تاہم وہ حضورﷺ پر درودشریف پڑھتے ہیں اور ان کے لئے دعا کرتے ہیں۔ ان سے دعا مانگتے نہیں۔ اس ہند و دوست نے تو صحیح بات کہی لیکن وہ مسلمان اسلامی تعلیم سے ایسا غافل تھا کہ کہنے لگا کہ ہم حضور سے دعا مانگتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ نہیں مانگتے۔
اس نوجوان نے مجھ سے رابطہ رکھا اور اسلامی کتب کا مطالعہ کرتے رہے۔ وہ مسلمانوں سے محبت رکھتے تھے تقسیم ملک کے وقت وہ ایک بڑے عہدہ پر تھے اور انہوں نے اپنا نام پاکستان میں ملازمت میں رہنے کے لئے دے دیا تھا لیکن ان کے مسلمان احباب نے ان سے کہا کہ یہاں حالات خراب ہیں ہم آپ کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے او ہمدردی سے ان کو مجبور کر کے ہندوستان بھجوا دیا۔ پھر وہ ایک بہت بڑے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ ملازمت میں تقسیم ملک کے بعد انہوں نے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔
جب ان کی شادی ہوگئی تو انہوں نے کہا کہ دنیوی لحاظ سے میرا سسرال خوشحال اور اچھا ہے لیکن دینی لحاظ سے میں نے اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی ماری ہے اب میں اس ماحول میں اس وجہ سے جکڑا گیا ہوں۔ انہوں نے قرآن مجید اور ریاض الصالحین منگوائیں۔ ان کا بیٹا ان کی ہدایت پر بیرون ملک آنے پر مجھے ملا۔
دعوت الی اللہ کے بارے میں یہ بات قابل توجہ ہے۔اب زیادہ گہرا جانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت صداقت احمدیت کے بارے میں ایک قطعی دلیل ہے جو نا قابل تر دید ہے۔ مثلاًً غیر مبائعین کے سامنے یہ بات بیان کی جائے کہ بشیر اول کی وفات ہوگئی۔ بشیر ثانی کی وفات سے پہلے حضرت بانی سلسلہ کو یہ بتایا گیا کہ وہ اپنی والدہ کو کہہ رہا ہے لا أفارقك بسرعةِِ کہ میں آپ سے جلدی جدا نہ ہوں گا۔ اس میں دونوں کی مشترکہ لمبی عمر ہونے کی بشارت ہے چنانچہ 1889ء میں حضرت فضل عمرؓکی ولادت ہوئی اور 1952ء میں حضرت اماں جانؓ کی وفات ہوئی۔ گو یا چونسٹھ سال کا طویل عرصہ دونوں کا مشترکہ گذرا۔
پھر الہام’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘اس کا مفہوم ظاہر ہے کہ زمین کے کناروں تک صحیح پیغام احمدیت پہنچے گا۔ دیکھ لو مبائعین و غیر مبائعین کس فریق کے ذریعہ یہ الہام پورا ہوا۔ وہی فریق صادق ہے۔
پھر ایک بنیادی بات یہ ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ کا جو مقام آپ کے الہامات میں بیان ہوا ہے ہمیں اس پر ایمان لانا چاہئے۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
صداقت احمدیت کے بارے میں زیادہ پیچیدہ باتیں بیان کرنےکی ضرورت نہیں بعض بنیادی باتیں پیش کی جانی چاہئیں۔ ایک دفعہ کراچی میں ہائی کورٹ کے کئی جج مدعو تھے۔ میں نے ان سے ذکر کیا کہ آیت لو تقول علينا بعض الاقاویلمیں ایک مفتری علی اللہ کے بارے میں ہلاکت کا معیار بیان کیا گیا ہے کہ اسے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جتنی مہلت نہیں ملتی لیکن حضرت بانیٔ سلسلہ کو اتنی مہلت دعویٰ الہام کے بعد ملی جوان کی صداقت کی دلیل ہے۔
ایک جج کہنے لگا یہ آیت نبی کریمؐ کے بارے میں ہے میں نے کہا پھر اس سے آنحضرتؐ کی صداقت ثابت نہیں ہوسکتی۔
(ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر، دسمبر 1985ء صفحہ 15تا 25)
(مرسلہ:ذیشان محمود۔مربی سلسلہ سیرالیون)