حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نظامِ شوریٰ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں (قسط10۔آخری)

(’م م محمود‘)

ایک سال گزرنے کے بعدمثبت مساعی پرمشتمل رپورٹ پیش کرنے کی بجائے صرف یہی نہ لکھا ہو کہ کوششیں جاری ہیں

’’آپ سب نمائندگانِ شوریٰ اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھائیں اور ان حالات میں جہاں آپ خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے اور اسے بڑھانے والے ہوں وہاں خاص طورپرعہدیداران عدل و انصاف کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اپنی جماعتی ذمہ داریوں کوبھی احسن طور پر بجالانے والے ہوں اور گزشتہ سال کی شوریٰ میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے اور کرانے کے لحاظ سے ایک سال گزرنے کے بعد اپنی مثبت مساعی پر مشتمل رپورٹ پیش کرنے کی بجائے آپ نے صرف یہی نہ لکھا ہو کہ کوششیں جاری ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے اورتقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے اسلوب سکھائے۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2017ء)

نمائندگانِ شوریٰ کا تعلق باللہ،محبتِ رسولﷺ،اطاعتِ مسیحِ موعودؑ اور ادائیگی حقوق العباد کے معیار باقیوں سے بلند ہونے چاہئیں

’’چاہیے کہ آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ، آنحضرت ﷺ سے محبت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت کے معیار باقیوں سے زیادہ ہوں ۔ اسی طرح آپ کے حقوق العباد کی ادائیگی کے معیار بھی خاص طور پر بہت بلند ہونے چاہئیں اورنہ صرف اپنے پر بلکہ بحیثیت عہدیدار بھی او ربحیثیت نمائندہ شوریٰ بھی اپنے گھر والوں پر اور جن پر آپ عہدوں کے لحاظ سے نگران بنائے گئے ہیں ان پر آپ کو اس حوالے سے اپنا ایک خاص اثر قائم کرنا چاہیے ۔اگر جماعتی عہدیداران اور نمائندگانِ شوریٰ اپنے عمل اس حوالے سے بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور اپنے معیار بلند کریں تو تربیت کے لحاظ سے پاکستانی جماعتوں میں آپ لوگ ایک انقلاب پیدا کرسکتے ہیں ۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2018ء)

تجاویز شوریٰ کی تعمیل کی اصل ذمہ داری جماعتی امراء،صدران اورعہدیداران کی ہے

’’بعض لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہور ہا ہے کہ مرکزی عہدیداران ،ناظران اور وکلاء کو جب میں شوریٰ پر اپنے اپنے کاموں کی رپورٹیں پیش کرنے کےلئے کھڑے ہونے کا کہتاہوں تو یہ سمجھا جاتاہے کہ بس یہ ان ہی کی ذمہ داری ہے اور جماعتی عہدیداران اپنے کاموں اور رپورٹوں کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔حالانکہ اصل ذمہ داری جماعتی امراء ، صدران اور عہدیداران کی ہی ہے کہ انہوں نے جو کام اپنے ذمہ لئے تھے یا اللہ تعالیٰ نے جس خدمت کاانہیں موقع دیا وہ پوری ذمہ داری سے ان کاموں کو سرانجام دیں اور اس کی رپورٹ تیار کرکے پیش کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ شوریٰ کے سامنے رپورٹ دینا ہمارا کام نہیں بلکہ یہ مرکز کی ذمہ داری ہے ۔ پس واضح ہو کہ میں ناظران یا مرکزی عہدیداران کو کوئی رپورٹ پیش کرنے کےلئے کہتا ہوں تو اس سے جماعتی عہدیداران اپنے کاموں کی رپورٹ دینے سے بری الذمہ نہیں ہوجاتے انہیں تو محض اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی رپورٹ میں آپ کی اور جماعتوں کی کارکردگی اور فیصلوں پر عملدرآمد کی صحیح صورتحال سامنے آجائے لیکن اس دفعہ اس تاثر کو ختم کرنے کےلئے جو بعض جماعتی عہدیداران اورعام لوگوں میں بھی پیدا ہوگیا ہے،میں نے بعض امرا ء اور جماعتی عہدیداروں پر بھی یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ اپنی رپورٹس خود شوریٰ میں پیش کریں اور بتائیں کہ کس حد تک انہوں نے شوریٰ کے فیصلوں پر عمل کیا اور کروایا ہے۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2019ء)

نمائندگانِ شوریٰ کی اہم ذمہ داری خلیفۂ وقت کے ہرارشاد کوآگے پہنچانا

’’آپ اپنی اپنی جماعتوں کے نمائندہ بن کر جمع ہوئے ہیں۔ آپ کی اہم ذمہ داری خلیفۂ وقت کے ہرارشاد کوآگے لوگوں تک پہنچانا ہے۔ آج جبکہ ایم ٹی اے اور رسل و رسائل کے دیگربہت سے ذرائع موجود ہیں اس کے باوجود بھی کئی لوگ ان سے استفادہ نہیں کرتے ایسے لوگوں تک خلیفۂ وقت کی آواز پہنچانی چاہیے۔ مثلاً جمعہ کے موقع پر خطبہ جمعہ کا خلاصہ سنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ پڑھ لکھ نہیں سکتے یا جو خطبے یا خطاب کی زبان نہیں سمجھتے ان کے لیے ان کی زبان میں ترجمہ کا مستقل انتظام ہونا چاہیے۔ اسی طرح وہ لوگ جو جماعتی تربیت کا کام کرتے ہیں انہیں اپنی تقریروں وغیرہ میں بھی خلیفۂ وقت کی تقاریر اور خطبات میں سے نکات لے کر پیش کرنے چاہئیں۔ اس سے تربیت میں اکائی پیدا ہوگی اور یہ وہ وحدت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کے نظام کے ذریعہ عطافرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب دنیاکے احمدی جب خلیفہ ٔ وقت کی نصائح اور ہدایات سنتے ہیں تو ان پر غیرمعمولی نیک اثر ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ بات روزمرہ کے مشاہدہ اور تجربہ میں آتی ہے کہ ایک ہی بات کسی اورکی زبان سے سن کرسننے والے پر وہ اثرنہیں ہوتاجو خلیفۂ وقت کی آوازسن کر ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے دراصل وہ محبت وعقیدت ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دلوں میں خلیفۂ وقت کے لیے پیدا فرمائی ہے۔ پس اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ بھارت2020ء، الفضل انٹرنیشنل،28؍فروری2020ء صفحہ12)

خلیفۂ وقت کو صحیح اور صائب رائے دیں

’’ہمیشہ یاد رکھیں کہ مجلس شوریٰ ایک ایسا اداراہ ہے جو کسی بھی دنیاوی ادارے یا پارلیمنٹ سے یکسر مختلف ہے۔ دنیاوی پارلیمنٹس کو دیکھیں تو ان کی کارروائیوں میں ناختم ہونے والی بحث ہوتی ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا اور آپس میں تنازعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات یہ کارروائی باہمی حالات کو کشیدہ بھی کردیتی ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی سطح پر ممالک میں باہمی دوریاں بڑھادیتی ہے۔ ایک ایجنڈے کے دو مخالف گروپ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور اپنی یا اپنی پارٹی کے نظریہ کو زبردستی تھوپا جاتا ہے۔

عام دنیاوی پارلیمان کے ممبران کی تو خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی انفرادی شخصیت کو ابھار کر پیش کرسکیں، اس کے لیے وہ بسا اوقات انصاف اور حقیقت سے ہٹ کر بھی رائے کا اظہار کردیتے ہیں۔ لیکن ہماری مجلسِ مشاورت دوسری پارلیمان اور کانگریس وغیرہ سےافضل ہے اور اس کی یہ افضلیت اسی بنا پر قائم رہ سکتی ہے کہ جب آپ ممبران کے اخلاق اور رویّے مثالی ہوں۔ آپ کی رائے صداقت پر مبنی اور دھوکا دہی سے مبرّاہو۔ یاد رکھیں کہ شوریٰ کا بنیادی مقصد وہ سفارشات پیش کرنا ہے کہ جو امامِ وقت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مشن کو آگے بڑھانے والی ہوں۔ آپؑ کا مشن اسلام اور آنحضرتﷺ کے پیغام کو دنیا کے کونوں تک پہنچاناہے۔ پس یہ آپ ممبران کی ڈیوٹی ہے کہ خلیفۂ وقت جو تمام جماعت کے لیے بمنزلہ باپ کے ہے اُسے صحیح اور صائب رائے دیں تاکہ خلیفۂ وقت اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لیے وہ اقدامات کرسکے جس کے نتیجے میں بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہچاننے والی بنے۔‘‘(خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ برطانیہ22؍مئی2022ء، الفضل انٹرنیشنل31؍مئی2022ءصفحہ2)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button