احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
آپؑ کااٹھنا بیٹھنا،سوناجاگنا،کھاناپینا،رہن سہن، عبادت وریاضت ہرپہلواپنے محبوب آقا ﷺ کی اطاعت ومتابعت میں ہوتا
آپؑ کا انگریزی پڑھنا
(گذشتہ سے پیوستہ) ابھی خاکسارنے لکھاتھا کہ حضرت اقدسؑ انگریزی زبان کے الہامات کولکھاہوادیکھتے یااس کی آوازسن کراس کوایک ملہَم کی طرح لکھ لیتے اوربعدمیں کسی انگریزی خواں سے اس کامفہوم ومضمون پوچھ لیاکرتے تھے۔ چنانچہ مذکورہ بالااقتباس کی ذیل میں مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کی ایک شہادت درج کی جاتی ہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں:’’ بعد تحریر اِس جواب کے اُس دن (جس دن یہ جواب لکھا جاچکا تھا) جناب مؤلف اِس شہر بٹالہ میں جہاں میں اب ہوں تشریف لائے اور آپ کی ملاقات کا اتفاق ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا کہ انگریزی الہامات آپ کو کس طور پر ہوتے ہیں انگریزی حروف دکھائے جاتے ہیں انہوں نے جواب میں فرمایا کہ فارسی حروف میں انگریزی فقرات مکتوب دکھائے جاتے ہیں۔‘‘
حضرت اقدس علیہ السلام تحریرفرماتے ہیں :’’علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایاگیاجوایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے۔اس خط پرانگریزی زبان میں لکھاہواہےآئی ایم کورلر اور عربی میں یہ لکھاہواہےھذا شاھدنزّاغ اوریہی الہام حکایتاً عن الکاتب القاکیاگیا اورپھروہ حالت جاتی رہی چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا۔اس جہت سے پہلے علی الصباح میاں نوراحمدصاحب کواس کشف اورالہام کی اطلاع دے کراوراس آنے والے خط سے مطلع کرکے پھراسی وقت ایک انگریزی خوان سے اس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے تو معلوم ہواکہ اس کے یہ معنے ہیں…‘‘(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 563بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) حضرت اقدس علیہ السلام ایک اورجگہ لکھتے ہیں:’’ایک دفعہ کی حالت یادآئی ہے کہ انگریزی میں اول یہ الہام ہوا۔آئی لویویعنی میں تم سے محبت رکھتاہوں۔پھریہ الہام ہوا۔آئی ایم ود یویعنی میں تمہارے ساتھ ہوں پھرالہام ہوا۔آئی شیل ہیلپ یویعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔پھرالہام ہواآئی کین ویٹ آئی ول ڈو۔یعنی میں کرسکتاہوں جوچاہوں گا۔پھربعداس کے بہت ہی زورسے جس سے بدن کانپ گیایہ الہام ہوا۔وی کین ویٹ وی ول ڈو۔یعنی ہم کرسکتے ہیں جوچاہیں گے اوراس وقت ایک ایسالہجہ اورتلفظ معلوم ہواکہ گویاایک انگریز ہے جوسرپر کھڑابول رہاہے اورباوجود پُردہشت ہونے کے پھراس میں ایک لذت تھی جس سے روح کومعنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفی ملتی تھی اور یہ انگریزی زبان کاالہام اکثرہوتارہاہے۔ ایک دفعہ ایک طالبعلم انگریزی خوان ملنے کوآیا اس کے روبرو ہی یہ الہام ہوا۔دس ازمائی اینیمی یعنی یہ میرادشمن ہے اگرچہ معلوم ہوگیاتھاکہ یہ الہام اسی کی نسبت ہے مگراسی سے یہ معنی بھی دریافت کئے گئے اورآخر وہ ایساہی آدمی نکلااوراس کے باطن میں طرح طرح کے خبث پائے گئے۔ ایک دفعہ صبح کے وقت بہ نظرکشفی چند ورق چھپے ہوئے دکھائے گئے کہ جو ڈاک خانہ سے آئے ہیں اور اخیرپران کے لکھاتھا۔ آئی ایم بائی عیسیٰ یعنی میں عیسیٰ کے ساتھ ہوں۔چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خوان سے دریافت کرکے دوہندوآریہ کوبتلایاگیا۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 571۔574 بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳)
بہرحال ان چندایک اقتباسات سے یہ واضح کرنامقصودتھا کہ حضرت اقدسؑ انگریزی زبان سے ناواقف اوراُمّی تھے۔
ملازمت سے استعفیٰ
جب حضرت اقدس ؑکی والدہ ماجدہ سخت بیمارہوئیں توحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ نے حضور کو استعفیٰ دے کر واپس چلے آنے کا پیغام بھجوایا۔ حضرت مسیح موعودؑ پیغام سنتے ہی فوراً سیالکوٹ سے روانہ ہوگئے۔ امر تسر پہنچے تو قادیان کے لیے تانگہ کا انتظام کیا۔ اسی اثنا میں قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپ کو لینے کے لیے امرت سر پہنچ گیا۔ معلوم ہوتاہے کہ یہ شخص میراں بخش حجام تھا اور جب حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہؓ وفات پاگئیں تو آپؑ کے والدماجدؓ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ جانتے تھے کہ آپؑ کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی اور آپؑ کی وفات کا یکلخت علم نہ ہونے پائے۔اس لئےایک شخص قادیان سے روانہ کیا گیا تاکہ راستے میں وہ حضرت اقدس ؑ کو حکمت سے آہستہ آہستہ وفات کی اطلاع دے۔چنانچہ جس وقت بٹالہ سے یکہ لے کے قادیان کے لئے نکلے تو حضور کو حضرت والدہ صاحبہ کی علالت کی خبر دی گئی البتہ جب قادیان کی طرف آئے تو اس شخص نے یکہ والے کو کہا کہ بہت جلد لے چلو۔ حضرت نے پوچھا کہ اس قدر جلدی کیوں کرتے ہو؟اس نے کہا کہ ان کی طبیعت بہت ناساز تھی۔ پھر تھوڑی دور چل کر اس نے یکہ والے کو اور تاکید کی کہ بہت ہی جلدی لے چلو۔ تب پھر پوچھا۔ اس نے پھر کہا کہ ہاں طبیعت بہت ہی ناساز تھی کچھ نزع کی سی حالت تھی۔ خدا جانے ہمارے جانے تک زندہ رہیں یا فوت ہوجائیں۔ پھر حضرت خاموش ہوگئے۔ آخر اس نے پھر یکہ والا کو سخت تاکید شروع کی تو حضرت نے کہا کہ تم اصل واقعہ کیوں بیان نہیں کردیتے کیا معاملہ ہے۔ تب اس نے کہا کہ اصل میں مائی صاحبہ فوت ہوگئی تھیں اس خیال سے کہ آپ کو صدمہ نہ ہویک دم خبر نہیں دی۔ حضرت نے سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔(ماخوذازحیات احمدجلداول صفحہ219)
الغرض آپؑ ایک قابل قدرجوہر، ایک چمکتےہوئے ہیرے کی طرح سیالکوٹ شہرکی فضاؤں میں نورکی کرنیں بکھیرتے ہوئےجب تک کہ خداکی منشا تھی تب تک وہاں رہے اور پھر حسبِ منشائے الٰہی آپؑ قادیان واپس تشریف لے آئے۔ غالب امکان ہے کہ قادیان واپسی کا یہ سفر 18؍اپریل 1867ء کی تاریخ کوطے کیاگیاہوگا۔جوکہ آپؑ کی والدہ ماجدہؒ کی وفات کادن تھا۔
صحبت صالحین اور روزوں کاعظیم مجاہدہ
حضرت اقدس علیہ السلام کی سوانح کے بیان میں جب آپؑ کی عبادت اور زہد و ریاضت کاذکرآئے گا تو آپؑ کے یہ معمولات عام صوفیاء اور فقراء کی ڈگرسے یکسر مختلف، قرآن کریم اور کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن کے مصداق آنحضرتﷺ کے اسوہ و شمائل کے رنگ میں رنگین نظرآئیں گے۔آپؑ کی زندگی کاایک ایک پل اپنے آقا ومطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے شمائل کے مطابق گزرتا۔آپؑ کااٹھنا بیٹھنا،سوناجاگنا،کھاناپینا،رہن سہن،عبادت وریاضت،ہرپہلو اپنے محبوب آقاﷺ کی اطاعت ومتابعت میں ہوتا۔ ہم نے کئی بار یہ واقعہ پڑھااور سنا ہے کہ ایک بار جب غالباً سیالکوٹ میں مہمان بن کرتشریف لے گئے اور چھت پرسونے کے لیےچارپائیاں بچھائی گئیں۔اس چھت پرمنڈیرنہ تھی۔تو آپؑ جب وہاں تشریف لے گئے تووہاں سونے سے یہ کہہ کرانکارفرمادیا کہ میرے آقا نے بغیر منڈیرکی چھت پرسونے سے منع فرمایا ہے لہٰذا میں باوجودگرمی کے چھت پرنہیں سوسکتا اور یہ کہہ کرنیچے تشریف لے آئے۔
قارئین کرام! اس واقعہ کی عظمت اور شان اس تناظرمیں اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب ہم آپؑ کی سوانح اورسیرت میں یہ پہلودیکھتے ہیں کہ آپؑ اپنے میزبان کے جذبات کابھی کس قدرخیال رکھتے تھے۔کسی کی دلداری کابھی ازحدخیال ہوتا۔اور خودتکلیف برداشت کر لیتے لیکن دوسرے کواحساس بھی نہ ہونے دیتے۔لیکن یہاں جب بات تھی نبی اکرمﷺ کے ایک فرمان کی کہ جس کوایک معمولی بات سمجھ کر اکثر نظرانداز کر دیا جاتاہے۔لیکن آپؑ چھوٹی سے چھوٹی بات کوبھی اتناہی بڑااوراہم سمجھتے کہ جیسانبی اکرم ﷺکے فرمان کی شان اور اہمیت اورعظمت کاحق ہے۔ آپؑ کایہی وصف آپؑ کی زندگی کے ہرشعبہ پرحاوی اور نمایاں نظر آتا ہے۔ آپؑ کی زندگی کایہ عہدمبارک وہ ہے کہ جس کوعموماً سیرت نگار اور سوانح نویس گمنامی کا دورقراردیتے ہیں۔آپؑ زاویۃ الخمول میں بیٹھےہوئے نظرآتےہیں۔لیکن یہ گمنامی بھی ایک نام رکھے ہوئے تھی اور یہ خلوت بھی جلوت کے رنگ میں رنگین تھی۔غریبوں،مسکینوں اور حاجت مندوں کے دل ودماغ میں ایک نام تھا۔اوروہ آپؑ کاہی نام تھا۔ان سب کوجب بھی ضرورت پڑتی،جب بھی کوئی مشکل وقت آتا تو ایک ہی چوکھٹ تھی جس پریہ آتے اوران سب کے لئے یہ دروازہ کھلارہتا اور یہ غریبوں اور یتیموں کی آس وامیدتھی جوایک ’’یوروپین سپاہی‘‘ کی طرح مستعداور چاک وچوبند ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔دسترخوان پریتیموں کی مجلس لگی ہوتی اور وکونوا مع الصادقینکی تعمیل میں اولیاء اللہ وصلحائے امت کی صحبت کے لیے قادیان سے باہردوسرے شہروں میں بھی تشریف لے جاتے۔
سیالکوٹ میں جب آپؑ کاقیام تھا تووہاں آپ کا ایک بزرگ مولوی محبوب عالم صاحب مرحوم سے ملاقات کاعلم ہوتاہے۔ گورداسپورضلع میں واقع طالب پور کے متصل ایک مقام سم شریف کہلاتاہے۔وہاں پانی کاایک چشمہ ہے۔جہاں شرف الدین صاحب نام کے بزرگ رہتے تھے۔ کونوا مع الصادقین کی تعمیل میں حضرت اقدسؑ ان کے پاس بھی چندمرتبہ تشریف لے گئے۔(ماخوذ ازحیات احمدؑ جلداول صفحہ 130-۔ 131)
تاریخ سے آپ کے یہاں بعض لوگوں کا آنا بھی ثابت ہے۔ مثلاً ایک صاحب مکے شاہ نام ساکن لیل متصل دھاری وال قادیان آتے اور آپ ہی کے پاس قیام کرتے تھے۔(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 132)