جماعت احمدیہ مسلمہ کے فقہ کی اساس
’’ہماری جماعت کو علم دین میں تَفَقُّہ پیداکرنا چاہیے…ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ آیات ِقرآنی و احادیث نبوی اور ہمارے کلام میں تدبر کریں۔ قرآنی معارف و حقائق سے آگاہ ہوں‘‘(حضرت مسیح موعود ؑ)
علِم فقہ کا تعارف
فقہ کے لغوی معنی’’سمجھ‘‘کے ہیں۔قرآن مجید میں بھی فقہ کا لفظ ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وََطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ(التوبة:87)اور ان کے دلوں پر مُہر لگا دى گئى ہے پس وہ سمجھ نہىں سکتے۔
اسلامی علوم میں علم کا ایک شعبہ تفقہ فی الدین ہے یعنی دین سے متعلق سمجھ بوجھ حاصل کرنا۔ اسی سے لفظ’’ فقہ‘‘ اور’’فقیہ‘‘ مرکب ہیں۔ اصطلاح میں علم فقہ سے مر اد وہ احکام شرعیہ ہیں جن کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال سے ہے،اور جو تفصیلی دلائل سے ماخوذ ہیں۔احکام سے مراد وہ عملی مسائل ہیں جو انسان کو روزمرہ کی زندگی میں پیش آتے ہیں،خواہ وہ مسائل عبادات کے متعلق ہوں،مثلاًنماز،روزہ،زکوٰۃ،حج وغیرہ یا معاملات سے متعلق ہوں،مثلاًخریدوفرخت،ٹھیکہ،ہبہ، ہُنڈی، شرکت وغیرہ کے مسائل۔اور تفصیلی دلائل سے مراد وہ اصول اور شرعی دلائل ہیں جو ان عملی مسائل کے جواز کی سند پیش کرتے ہیں حدیث میں لکھا ہے کہ ’’ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ قَالَ: كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟ قَالَ:أَقْضِي بِكِتَابِ اللّٰهِ، قَالَ:فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي كِتَابِ اللّٰهِ؟ قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ قَالَ:فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ وَلَا فِي كِتَابِ اللّٰهِ؟ قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي، وَلَا آلُو۔ فَضَرَبَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ صَدْرَهُ، وَقَالَ:الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ، رَسُولِ اللّٰهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللّٰهِ۔ (سنن ابی داؤدکتاب الاقضیہ باب اجتہاد الرأی فی القضاء)ترجمہ:آنحضرتﷺنے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھجوانے کا ارادہ فرمایا تو آپﷺ نے حضرت معاذ سے فرمایا کہ جب تمہارے سامنے کوئی معاملہ آئے گا تو تم کس طرح فیصلہ کروگے؟انہوں نے عرض کی کہ میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔آپؐ نے فرمایا اگر تمہیں کتاب اللہ میں اس کاحل نہ ملا تو پھرکیا کروگے؟انہوں نے عرض کی کہ پھر رسول خدا کی سنّت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے فرمایااگر تمہیں وہ مسئلہ نہ رسولِ خدا کی سنّت میں ملا اور نہ ہی کتاب اللہ میں،تو پھر کیا کرو گے؟انہوں نے عرض کی میں اپنی رائے کے مطابق سوچ سمجھ کر فیصلہ کروں گا اور ہر گزکوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔حضرت معاذ کا یہ جواب سن کر رسول پاکﷺنے ان کے سینے پر شاباش کے انداز میں ہاتھ مارا اور کہا کہ تمام قسم کی تعریف اللہ کےلیے ہے جس نے رسول خداﷺ کے قاصدکو اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ جس سے اللہ کا رسول خوش ہوتا ہے۔
جیسا کہ متذکرہ بالا حدیث میں بیان ہے۔یعنی مسئلہ کے جائز اور ناجائز ہونے کے لیے کبھی قرآن پاک سے بتصریح دلائل ملتے ہیں اور کبھی سنت وحدیث سے راہنمائی ملتی ہے،اوربعض اوقات اجماع وقیاس کے ذریعہ حلت وحرمت ثابت کی جاتی ہے اور بعض مسائل کے حل کے لیے عوام الناس کے حالات اور ضروریات اور ان کی حقیقی مجبوریوں کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اس علم میں مہارت حاصل کرنے والے کواصطلاحاً فقیہ کہتے ہیں۔اس علم کو دور اولین میں جن شخصیات نے شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا اور بعد ازاں قبول عام کی سند حاصل کی ان سےفقہ کے چار مشہور مسالک کا آغاز ہوا۔
علم فقہ کا اطلاق چونکہ دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے مسائل پر ہوتا ہے۔اس لیے اس علم کو دوبڑی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(1)دینی اموریعنی عبادات وغیرہ۔
(2)دنیاوی امور۔
دنیاوی امور کو پھر تین اقسام میں منقسم کیا گیا ہے۔
٭…عقوبات یعنی حدود و تعزیرات:اس میں جرائم کے متعلق تفصیلی بحث کی جاتی ہے،جیسےقتل،چوری، زنا کاری،شراب خوری غرضیکہ جرائم کی نوعیت کیا ہے؟ اور ان کی سزائیں کیا ہیں؟ اور ان پر کس قسم کے احکام مرتب ہوتے ہیں؟
٭…مناکحات: اس میں نکاح،طلاق،خلع،عدّت،ایلا،اظہاروغیرہ احکام کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔
٭…معاملات:اس میں مالیات اور اس کے متعلقہ حقوق سے بحث کی جاتی ہے۔مثلاًبیع وشراء،اجارہ یعنی ٹھیکہ،عاریت،امانت، ضمانت،حوالہ یعنی ہُنڈی،شرکت یعنی کمپنی لاء،مصالحت،شفعہ وغیرہ۔
مجلۃ الاحکام العدلیہ جوکہ پہلی جنگ عظیم تک حکومت عثمانیہ (یعنی ترکی)کی سرکاری قانون کی کتاب سمجھی جاتی تھی،اس کی دفعہ اوّل میں احکام کی تقسیم ان الفاظ میں کی گئی ہے:’’مسائل فقہ یا تو آخرت کے متعلق ہیں،جو عبادات کہلاتے ہیں،یا دنیاوی امور کے متعلق ہیں،جن کی قسمیں یہ ہیں،مناکحات، معاملات اور عقوبات۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عالمِ آب و گل کو ایک معیّن مدّت کے لئے پیدا کیا ہے۔اور نظامِ عالم کی بقاء بنی نوع انسان کی بقاء سے وابستہ ہے اور نوعِ انسانی کی بقاء بیاہ شادی،اولاد اور افزائش ِنسل پر موقوف ہے۔اور مقصد یہ ہے کہ افرادِانسانی کہیں مٹ نہ جائیں۔اس کےساتھ ہی انسان اپنی بقاء کے لیے غذا،لباس اور جائے رہائش کا بھی محتاج ہے۔اوران کی تحصیل کے لئے افراد کے باہمی تعاون اور اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔اس لئے معاشرہ میں قرار واقعی عدل وانضباط قائم رکھنے کے لئے ایسے قوانین کی ضرورت ہے،جو زندگی کے بقاء کے ساتھ ساتھ اس کو خوشگوار بنانے کاموجب بنیں۔ان میں سے وہ قوانین جو تعلقات زن وشو کو استوار رکھنے کے لئے ہیں۔وہ علم فقہ میں مناکحات کے نام سے موسوم ہیں،اور جو معاشرتی اور اقتصادی قوانین تعاون باہمی اور اشتراک عمل کے لئےمقرر ہیں،وہ اصطلاح فقہ میں معاملات کہلاتے ہیں۔اور تمدن ومعاشرت کو برقرار رکھنے کے لئے جن تعزیری قوانین کی ضرورت ہے،وہ فقہ کی اصلاح میں عقوبات کہلاتے ہیں‘‘(مجلہ احکام العدلیہ،ترجمہ فلسفہ التشریح الاسلامی صفحہ 13۔بحوالہ ہدایۃ المقتصد،اردو ترجمہ بدایۃ المجتہد،صفحہ 11تا12)
جماعت احمدیہ مسلمہ کے فقہ کی اساس
جماعت احمدیہ مسلمہ کے نزدیک تمام اسلامی قوانین و احکام کا حقیقی اور بنیادی منبع قرآن ہے۔قرآ ن کریم کے احکام کی تشریح کے لیےآنحضرتﷺ کی فعلی روش جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے وہ سنّت کہلاتی ہے۔ان دونوں کے لیے حدیث کو تائیدی گواہ کی حیثیت حاصل ہے اور یہ قرآن وسنّت کی خادم کے طورپر تیسرا ذریعہ ہدایت کا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ (النحل:90)اور ہم نے تىرى طرف کتاب اتارى ہے اس حال مىں کہ وہ ہر بات کو کھول کھول کر بىان کرنے والى ہے اور ہداىت اور رحمت کے طور پر ہے اور فرمانبرداروں کے لئے خوشخبرى ہے۔اسی طرح فرمایا:لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَالۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا۔(الاحزاب:22)ىقىناً تمہارے لئے اللہ کے رسول مىں نىک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور ىومِ آخرت کى امىد رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو ىاد کرتا ہے ۔اسی طرح فرمایا کہوَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔(الحشر: 8)رسول جو تمہىں عطا کرے تو اسے لے لو اور جس سے تمہىں روکے اُس سے رُک جاؤ۔جبکہ قیاس، استحسان، استدلال،استصحابُ الحال اور عُرف وغیرہ قرآن اور حدیث کے تابع اور مسائل فقہ کے ضمنی مأخذ ہیں۔
جماعت احمدیہ کے بانی سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں۔سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے… سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ ‘‘(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد19صفحہ26)’’قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے۔ وہ شک اور ظنّ کی آلائشوں سے پاک ہے۔‘‘(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی،روحانی خزائن جلد 19صفحہ209) ’’خدا کا کلام لفظاً لفظاً تواتر سے ثابت ہے۔ وہ وحی متلوقطعی اور یقینی ہے اوراس کی قطعیت میں شک کرنے والا ہمارے نزدیک کافر مردود اور فاسق ہے اور یہ صرف قرآن کریم کی ہی صفت ہے اوراس کا مرتبہ ہر کتاب اورہر وحی سے بلند ہے۔‘‘ (عربی سے ترجمہ) (تحفہ بغداد، روحانی خزائن جلد7صفحہ31)
’’دوسرا ذریعہ ہدایت کا جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے سنّت ہے یعنی آنحضرت ﷺ کی عملی کارروائیاں جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلائیں مثلاً قرآن شریف میں بظاہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں ہوتیں کہ صبح کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر،لیکن سنّت نے سب کچھ کھول دیا ہے۔یہ دھوکہ نہ لگے کہ سنّت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سَو ڈیڑھ سَو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنّت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھا مسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنّت کا ہے۔ خدا اور رسول کی ذمہ داری کا فرض صرف دو امرپر تھے اوروہ یہ کہ خدا تعالیٰ قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دے یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہﷺکا یہ فرض تھا کہ خدا کے کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں۔ پس رسول اللہﷺنے وہ گفتنی باتیں کردنی کے پیرایہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنّت یعنی عملی کارروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا۔ ‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ61)
’’جس طرح آنحضرت ﷺقرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سُنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت ﷺ اپنے ہاتھ سے بجا لائے۔ ‘‘(ریویو بر مباحثہ چکڑالوی و بٹالوی، روحانی خزائن جلد19صفحہ210)’’سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت ﷺکی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہرہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اورسُنّت رسول اللہ ﷺ کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے عملی فعل سے یعنی عملی طورپر اس قول کی تفسیر کردیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں۔‘‘(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی،روحانی خزائن جلد19صفحہ209تا210)
’’تیسراذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اِسلام کے تاریخی اوراخلاقی اور فقہ کے امور کو حدیثیں کھول کر بیان کرتی ہیں اور نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سُنّت کی خادم ہے۔ ‘‘ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد19صفحہ61)
البتہ ان دونوں بنیادی ماخذ کے لیے حدیث کامقام ایک زبردست تائیدی گواہ اور خادم قرآن وسنت کی حیثیت سے ایسامسلّم ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی فقہ پراس کوترجیح دیناایمان اور محبت رسول ؐکا عین تقاضاہے۔اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہماری راہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : “تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اسلام کے تاریخی اور اخلاقی اور فقہ کے امور کو حدیثیں کھول کر بیان کرتی ہیں اور نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خا دم اور سنت کی خادم ہے۔”(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ61) ’’سُنّت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سُنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرت ؐنے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے۔ اورجس طرح آنحضرت ؐقرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سُنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت ﷺاپنے ہاتھ سے بجا لائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرتؐ نے خدا تعالیٰ کے اِس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلادیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں۔ ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اِس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اب تک اُمّت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اِسی کا نام سنّت ہے۔ لیکن حدیث کو آنحضرت ﷺنے اپنے رُوبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کےلئے کوئی اہتمام کیا…پھر جب وہ دَور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے۔ تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بےخبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنّت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلادیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مُدّت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اِسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔ تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نورٌ علٰی نور ہوگیا اور حدیثیں قرآن اور سنّت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہوگئے اُن میں سے سچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا۔‘‘(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی، روحانی خزائن جلد19صفحہ210تا211)غرضیکہ مندرجہ بالا تین رہنما ومحکم اصول ہیں جن پربنیادی طورپر تمام شریعتِ حقّہ کی بنیاد ہے۔
احادیث کے دو حصے
’’احادیث کے دو حصہ ہیں ایک وہ حصہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طور پر آگیا ہے۔ یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اور قوی اور لاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچا دیا ہے۔ جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اور عقود اور معاملات اور احکام شرع متین داخل ہیں۔ سو ایسی حدیثیں تو بلاشبہ یقین اور کامل ثبوت کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور جو کچھ ان حدیثوں کو قوت حاصل ہے وہ قوت فن حدیث کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوئی اور نہ وہ احادیث منقولہ کی ذاتی قوت ہے اور نہ وہ راویوں کے و ثاقت اور اعتبار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ وہ قوت ببرکت و طفیل سلسلہ تعامل پیدا ہوئی ہے۔ سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک ان کو سلسلہ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں لیکن دوسرا حصہ حدیثوں کا جن کو سلسلہ تعامل سے کچھ تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور صرف راویوں کے سہارے سے اور ان کی راست گوئی کے اعتبار پر قبول کی گئی ہیں ان کو میں مرتبہ ظن سے بڑھ کر خیال نہیں کرتا اور غایت کار مفید ظن ہوسکتی ہیں کیونکہ جس طریق سے وہ حاصل کی گئی ہیں وہ یقینی اور قطعی الثبوت طریق نہیں ہے بلکہ بہت سی آویزش کی جگہ ہے۔ وجہ یہ کہ ان حدیثوں کا فی الواقع صحیح اور راست ہونا تمام راویوں کی صداقت اور نیک چلنی اور سلامت فہم اور سلامت حافظہ اور تقویٰ و طہارت وغیرہ شرائط پر موقوف ہے۔ اور ان تمام امور کا کماحقہ اطمینان کے موافق فیصلہ ہونا اور کامل درجہ کے ثبوت پر جو حکم رویت کا رکھتا ہے پہنچنا حکم محال کا رکھتا ہے اور کسی کو طاقت نہیں کہ ایسی حدیثوں کی نسبت ایسا ثبوت کامل پیش کرسکے۔‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ35)
مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں
’’جس قدر حدیثیں تعامل کے سلسلہ سے فیض یاب ہیں وہ حسب استفاضہ اور بقدر اپنی فیضیابی کے یقین کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں لیکن باقی حدیثیں ظن کے مرتبہ سے زیادہ نہیں۔غایت کار بعض حدیثیں ظن غالب کے مرتبہ تک ہیں۔ اس لئے میرا مذہب بخاری اور مسلم وغیرہ کتب حدیث کی نسبت یہی ہے جو میں نے بیان کردیا ہے یعنی مراتب صحت میں یہ تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں۔ بعض بوجہ تعلق سلسلہ تعامل یقین کی حد تک پہنچ گئی ہیں اور بعض بباعث محروم رہنے کے اس تعلق سے ظن کی حالت میں ہیں۔ لیکن اس حالت میں مَیں حدیث کو جب تک قرآن کے صریح مخالف نہ ہو موضوع قرار نہیں دے سکتا۔ اور میں سچے دل سے اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ حدیثوں کے پرکھنے کیلئے قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی معیار ہمارے پاس نہیں۔‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ35،36) ’’تعامل حجت قوی ہے!میری غرض تو صرف اس قدر ہے کہ حدیث کو قرآن کریم سے مطابق ہونا چاہئے، ہاں اگر سلسلہ تعامل کے رو سے کسی حدیث کا مضمون قرآن کے کسی خاص حکم سے بظاہر منافی معلوم ہو تو اس کو بھی تسلیم کر سکتا ہوں کیونکہ سلسلہ تعامل حجت قوی ہے۔‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4صفحہ42)
تعا مل کے درجے
’’تعامل کے متعلق جو احکام ہیں وہ سب ثبوت کے لحاظ سے ایک درجہ پر نہیں جن امور کی مواظبت اور مداومت بلافتور و اختلاف چلی آئی ہے وہ اول درجہ پر ہیں اور جس قدر احکام اپنے ساتھ اختلاف لے کر تعامل کے دائرہ میں داخل ہوئے ہیں وہ بحسب اختلاف اس پہلے نمبر سے کم درجہ پر ہیں مثلاً رفع یدین یا عدم رفع یدین جودو طور کا تعامل چلا آتا ہے ان دونوں طوروں سے جو تعامل قرن اول سے آج تک کثرت سے پایا جاتا ہے اس کا درجہ زیادہ ہوگا اور باایں ہمہ دوسرے کو بدعت نہیں ٹھہرائیں گے بلکہ ان دونوں عملوں کی تطبیق کی غرض سے یہ خیال ہوگا کہ باوجود مسلسل تعامل کے پھر اس اختلاف کا پایا جانا اس بات پر دلیل ہے کہ خود آنحضرتﷺنے ہفت قراءت کی طرح طُرق ادائے صلوٰۃ میں رفع تکلیف امت کیلئے وسعت دےدی ہوگی اور اس اختلاف کو خود دانستہ رخصت میں داخل کردیا ہوگا تا امت پر حرج نہ ہو۔غرض اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ سلسلہ تعامل سے احادیثِ نبویہ کو قوت پہنچتی ہے اور سنتِ متوارثہ متعاملہ کا اُن کو لقب ملتا ہے۔ ‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ87)
سنن متوارثہ متعاملہ
’’سلسلہ تعامل کی حدیثیں یعنی سنن متوارثہ متعاملہ جو عاملین اور آمرین کے زیرنظر چلی آئی ہیں اور علیٰ قدر مراتب تاکید مسلمانوں کی عملیات دین میں قرناً بعد قرنٍ وعصراً بعد عصرٍ داخل رہی ہیں وہ ہرگز میری آویزش کا مورد نہیں اور نہ قرآن کریم کو ان کا معیار ٹھہرانے کی ضرورت ہے اور اگر ان کے ذریعہ سے کچھ زیادت تعلیم قرآن پر ہوتو اس سے مجھے انکار نہیں۔ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں۔‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ80تا81)
الہام ملہم کے لیے حجت شرعی کے قائمقام ہے
(مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ) ’’صاف تسلیم کر آئے ہیں کہ الہام ملہم کیلئے حجت شرعی کے قائم مقام ہوتا ہے علاوہ اس کے آپ تو صاف طور پر مان چکے ہیں بلکہ بحو الہ حدیث بخاری بہ تصریح بیان کرچکے ہیں کہ الہام محدث کا شیطانی دخل سے منزہ کیا جاتا ہے۔ ماسوا اس کے میں اس بات کیلئے آپ کو مجبورنہیں کرتا کہ آپ الہام کو حجت سمجھ لیں مگر یہ تو آپ اپنے ریویو میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ ملہم کیلئے وہ الہام حجت ہوجاتا ہے۔ سو میرا دعویٰ اسی قدر سے ثابت ہے۔ میں بھی آپ کو مجبور کرنا نہیں چاہتا۔‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ24)
اجماع کی تعریف
(کتب اصولِ فقہ کی روشنی میں)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتبِ اصولِ فقہ میں مندرج اجماع کی مختلف تعریفوں کاذکر کرتے ہوئے تحریرفرمایا:’’اَلْاِجْمَاعُ اِتِّفَاقُ مُجْتَھِدِیْنَ صَالِحِیْنَ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ مُصْطَفٰی ﷺ فِیْ عَصْرٍ وَاحِدٍ وَالْاَوْلٰی اَنْ یَّکُوْنَ فِیْ کُلِّ عَصْرٍ عَلٰی اَمْرٍقَوْلِیٍّ اَوْفِعْلِیٍ…یعنی اجماع اس اتفاق کا نام ہے جو امت محمدیہ کے مجتہدین صالحین میں زمانہ واحد میں پیدا ہو اور بہتر تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں پایا جائے اور جس امر پر اتفاق ہو برابر ہے کہ وہ امر قولی ہویافعلی۔اور اجماع کی دو نوع ہیں ایک وہ ہے جس کو عزیمت کہتے ہیں اور عزیمت اس بات کانام ہے کہ اجماع کرنیوالے صریح تکلم سے اپنے اجماع کا اقرار کریں کہ ہم اس قول یافعل پر متفق ہوگئے۔ لیکن فعل میں شرط ہے کہ اس فعل کا کرنا بھی وہ شروع کردیں۔دوسری نوع اجماع کی وہ ہے جس کو رخصت کہتے ہیں اور وہ اس بات کانام ہے کہ اگر اجماع کسی قول پر ہے تو بعض اپنے اتفاق کو زبان سے ظاہر کریں اور بعض چپ رہیں اور اگر اجماع کسی فعل پر ہے تو بعض اسی فعل کا کرنا شروع کردیں اور بعض فعلی مخالفت سے دستکش رہیں۔ گو اس فعل کو بھی نہ کریں اور تین دن تک اپنی مخالفت قول یا فعل سے ظاہر نہ کریں یا اس مدت تک مخالفت ظاہر نہ کریں جو عادتاً اس بات کے سمجھنے کیلئے دلیل ہوسکتی ہے کہ اگر کوئی اس جگہ مخالف ہوتا تو ضرور اپنا خلاف ظاہر کرتا اور اس اجماع کا نام اجماع سکوتی ہے اور اس میں یہ ضروری ہے کہ کل کا اتفاق ہے۔مگر بعض سب کے اتفاق کو ضروری نہیں سمجھتے تا مَنْ شَذَّ شُذَّ کی حدیث کا مورد باقی رہے اور حدیث باطل نہ ہوجائے۔اور بعض اس طرف گئے ہیں کہ مجتہدین کاہونا ضروری شرط نہیں بلکہ انعقاد اجماع کے لئے عوام کا قول کافی ہے جیسا کہ باقلانی کا یہی مذہب ہے۔‘‘
’’اور بعض کے نزدیک اجماع کے لیےیہ ضروری شرط ہے کہ اجماع صحابہ کا ہو نہ کسی اور کا۔اور بعض کے نزدیک اجماع وہی ہے جو عترت یعنی اہل قرابت رسول اللہؐ کا اجماع ہو۔اور بعض کے نزدیک یہ لازم شرط ہے کہ اجماع کرنے والے خاص مدینہ کے رہنے والے ہوں۔ اور بعض کے نزدیک تحقیق اجماع کیلئے یہ شرط ہے کہ اجماع کا زمانہ گذر جائے۔ چنانچہ شافعی کے نزدیک یہ شرط ضروری ہے وہ کہتا ہے کہ اجماع تب متحقق ہوگا کہ اجماع کے زمانہ کی صف لپیٹی جائے اور وہ تمام لوگ مر جائیں جنہوں نے اجماع کیا تھا اور جب تک وہ سب نہ مریں تب تک اجماع صحیح نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے قول سے رجوع کرے اور یہ ثابت ہونا ضروری ہے کہ کسی نے اپنے قول سے رجوع تو نہیں کیا اور نقل اجماع پر بھی اجماع چاہئے۔ یعنی جو لوگ کسی امر کے بارہ میں اجماع کے قائل ہیں ان میں بھی اجماع ہو۔اور اجماع لاحق مع اختلاف سابق جائز ہے یعنی اگر ایک امر پہلے لوگوں نے اجماع نہ کیا اور پھر کسی دوسرے زمانہ میں اجماع ہوگیا ہو تو وہ اجماع بھی معتبر ہے اور بہتر اجماع میں یہ ہے کہ ہر زمانہ اس کا سلسلہ چلا جائے۔اور بعض معتزلہ کا قول ہے کہ اتفاق اکثر سے بھی اجماع ہوسکتا ہے بدلیل مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِاور بعض نے کہا ہے کہ اجماع کوئی چیز نہیں اور اپنی جمیع شرائط کے ساتھ متحقق نہیں ہوسکتا۔ دیکھو کتب اصول فقہ ائمہ اربعہ۔
اب اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ علماء کا اس تعریف اجماع پر بھی اجماع نہیں اور انکار اور تسلیم کے دونوں دروازے کھلے ہوئے ہیں…‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ116تا118)
حضرت مسیح موعودؑ کے نزدیک اجماع کی تعریف
’’میرے نزدیک اجماع کا لفظ اس حالت پر صادق آسکتا ہے کہ جب صحابہ میں سے مشاہیر صحابہ ایک اپنی رائے کو شائع کریں اور دوسرے باوجود سننے اس رائے کے مخالفت ظاہر نہ فرماویں تو یہی اجماع ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اسی صحابی نے جو امیر المومنین تھے ابن صیاد کے دجال معہود ہونے کی نسبت قسم کھا کر آنحضرت ﷺ کے روبرو اپنی رائے ظاہر کی اور آنحضرت نے اس سے انکار نہیں کیا اور نہ کسی صحابی نے اور پھر اسی امر کے بارے میں ابن عمر نے بھی قسم کھائی اور جابر نے بھی اور کئی صحابیوں نے یہی رائے ظاہر کی تو ظاہر ہے کہ یہ امر باقی صحابہ سے پوشیدہ نہیں رہا ہوگا، سو میرے نزدیک یہی اجماع ہے۔ اور کون سی اجماع کی تعریف مجھ سے آپ دریافت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کے نزدیک یہ اجماع نہیں تو اور جس قدر ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پر صحابہ نے قسمیں کھا کر اس کا دجال معہود ہونا بیان کیا ہے یا بغیر قسم کے اس بارے میں شہادت دی ہے دونوں قسم کی شہادتیں بالمقابل پیش کریں اور اگر آپ پیش نہ کرسکیں تو آپ پر حجت من کل الوجوہ ثابت ہے کہ ضرور اجماع ہوگیا ہوگا کیونکہ اگر انکار پر قسمیں کھائی جاتیں تو ضرور وہ بھی نقل کی جاتیں آنحضرت صلعم کا قسم کو سن کر چپ رہنا ہزار اجماع سے افضل ہے اور تمام صحابہ کی شہادت سے کامل تر شہادت ہے۔‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ43)
اجماع کے معنوں میں اختلاف
’’خود اجماع کے معنوں میں ہی اختلاف ہے۔ بعض صحابہؓ تک ہی محدود رکھتے ہیں بعض قرون ثلاثہ تک بعض ائمہ اربعہ تک مگر صحابہ اورائمہ کا حال تو معلوم ہوچکا اوراجماع کے توڑنے کے لئے ایک فردکا باہررہنا بھی کافی ہوتا ہے۔چہ جائیکہ امام مالک رضی اللہ عنہ جیسا عظیم الشان امام جس کے قول کے کروڑہا آدمی تابع ہوں گے حضرت عیسیٰ کی وفات کا صریح قائل ہواورپھر یہ لوگ کہیں کہ ان کی حیات پر اجماع ہے۔‘‘(اتمام الحجۃ،روحانی خزائن جلد8صفحہ295)
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا
’’اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا پھر فیج اعوج کا زمانہ شروع ہوگیا اور لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور اس وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ رحمان خدا کی طرف سے ایک حَکَم مبعوث ہو۔‘‘(لجۃ النور، روحانی خزائن جلد16صفحہ415-416 ترجمہ از عربی عبارت)
قرآن مجید کے خلاف کوئی اجماع قابلِ قبول نہیں
’’وَلَا نَقْبَلُ اِجْمَاعًا یُخَالِفُ الْقُرْآنَ وَحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ وَلَا نَسْمَعُ قَوْلَ الْآخَرِیْنَ‘‘ ترجمہ: اورہم کسی ایسے اجماع کو قبول نہیں کریں گے جو قرآن کریم کے مخالف ہو اورہمارے لئے تو اللہ کی کتاب کافی ہے اورہم (اس کے مقابلے میں) دوسروں کے اقوال نہیں سُنیں گے۔‘‘(انجام آتھم،روحانی خزائن جلد11صفحہ133 ترجمہ از عربی عبارت)
اجماع صحابہ ؓکی اتباع ضروری ہے
’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوگا جو دینِ اسلام میں داخل ہو اور کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ کا متبع ہو اور اللہ اور اس کے رسول اورحشرونشر اورجنت و دوزخ پر ایمان رکھے اور یہ وعدہ اور اقرارکرے کہ وہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین نہیں چاہتا اور وہ اس دین پر مرے جو دینِ فطرت ہے اوراللہ کی کتاب کو پکڑے رکھے اورسنت اور قرآن اوراجماعِ صحابہؓ سے جو ثابت ہو، اس پر عمل کرے اورجس نے ان تین چیزوں کو چھوڑاتو اس نے گویا اپنے نفس کو آگ میں چھوڑا۔‘‘(مواہب الرحمان، روحانی خزائن جلد19صفحہ315،ترجمہ از عربی عبارت)
ایک صحابی کی رائے شرعی حجّت نہیں
’’یہ مسلّم امر ہے کہ ایک صحابیؓ کی رائے شرعی حجّت نہیں ہوسکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے۔سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع صحابہؓ ہوچکا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ410)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد
’’آنحضرت ﷺ…کا اجتہادسب اجتہادوں سے اسلم اور اقویٰ اور اصحّ ہے۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ169)
قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں!
’’میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بینہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتا ہوں۔ صرف بعض اخبار گزشتہ و مستقبلہ کی نسبت الہام الٰہی کی وجہ سے جس کو میں نے قرآن سے بکلّی مطابق پایا ہے بعض اخبار حدیثیہ کے میں اس طرح پر معنی نہیں کرتا جو حال کے علماء کرتے ہیں کیونکہ ایسے معنے کرنے سے وہ احادیث نہ صرف قرآن کریم کے مخالف ٹھہرتی ہیں بلکہ دوسری احادیث کی بھی جو صحت میں ان کے برابر ہیں مغائر و مبائن قرار پاتی ہیں۔ ‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد4صفحہ82)
ہماری مسلمہ کتابیں
’’ہماری کتبِ مسلّمہ مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں بہ تفصیلِ ذیل ہیں۔اوّل قرآن شریف۔ مگر یاد رہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں۔کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اورنیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسّر نہ آسکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسّر ہو۔ غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں۔پس ہر یک معترض پر لازم ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے۔دوم دوسری کتابیں جو ہماری مسلّم کتابیں ہیں اُن میں اوّل درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جوقرآن شریف سے مخالف نہیں اور اُن میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو۔ اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی، ابن ماجہ، مؤطا، نسائی، ابوداؤد، دارقطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں۔ یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے۔‘‘(آریہ دھرم،روحانی خزائن جلد 10صفحہ 86تا87)
آپؑ نے صحیح مسلم کے بارے میں فرمایا:’’صحیح مسلم اس شرط سے وثوق کے لائق ہے کہ جب قرآن یا بخاری سے مخالف نہ ہو اور بخاری میں صرف ایک شرط ہے کہ قرآن کے احکام اور نصوص صریحہ بینہ سے مخالف نہ ہو اور دوسری کتب حدیث صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گی کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔‘‘(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد10صفحہ60،حاشیہ)حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم کے مقابل پر صحیح بخاری اور مسلم کے بارے میں فرمایا:’’میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں ظنی طور پر صحیح ہیں۔ مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہوگی وہ صحت سے باہر ہوجائے گی۔ آخر بخاری اور مسلم پر وحی تو نازل نہیں تھی۔‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد4صفحہ15)مزید فرمایا:’’امام بخاری اور مسلم کی عظمت ِ شان اور ان کی کتابوں کا امت میں قبول کیا جانا اگر مان بھی لیا جاوے تب بھی اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ وہ کتابیں قطعی اور یقینی ہیں۔ کیونکہ امت نے ان کے مرتبہ قطع اور یقین پر ہرگز اجماع نہیں کیا۔‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4صفحہ98)
بخاری کتاب الطب باب السحرمیں یہ ذکر ہے کہ آنحضرتﷺ پر جادو کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں نعوذ باللہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی یادداشت متاثر ہوگئی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے جب اس کا ذکر کیا گیا تو حضورؑ نے فرمایا:’’آنکھ بند کرکے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے برخلاف ہے۔ یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا ہو،ایسی ایسی باتیں کہ اس جادو سے (معاذاللہ )آنحضرتؐ کا حافظہ جاتا رہا یہ ہوگیا اور وہ ہوگیاکسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتیں۔معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملادی ہیں۔ گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کودیکھتے ہیں، لیکن جو حدیث قرآن کریم کے برخلاف، آنحضرت ﷺکی عصمت کے برخلاف ہو، اس کو ہم کب مان سکتے ہیں۔ اُس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا گوانہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا۔ مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے۔ وہ جمع کرنے کا وقت تھا۔ لیکن اب نظر اور غور کرنے کاوقت ہے۔ آثار نبی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے۔اب ہر ایک کو اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے جو ماننے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے۔‘‘ (الحکم 10؍نومبر1907ء صفحہ 8)
حکم وعدل اورخلفائے راشدین کے فرمان کی اتباع ضروری
’’مندرجہ بالا راہنما ومحکم اصولوں پر تمام شریعتِ حقّہ کی بنیاد ہے۔ اگر اس کے بعد بھی کوئی مسئلہ حل طلب رہ جائے یا اس کے حل میں مزید روشنی اورراہنمائی کی ضرورت ہو یا کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوجائے تو ان مسائل کے حل کے لیے جماعت کے مجتہدین اور راسخین فی العلم کو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہؑ کی حسبِ ذیل ہدایت ہے:’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالفِ قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو، اس پر وہ عمل کریں اورانسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کوترجیح دیں اوراگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں، ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔‘‘ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی، روحانی خزائن جلد19صفحہ212)
’’ہماری جماعت کو علم دین میں تَفَقُّہ پیداکرنا چاہیے،مگر اس کے وہ معنے نہیں جو عام ملاّں لوگوں نے سمجھ رکھے ہیں کہ استنجا وغیرہ کے چند مسائل آگئے وہ بھی تقلیدی رنگ میں فقیہ بن بیٹھے۔ بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ آیات ِ قرآنی و احادیث نبوی اور ہمارے کلام میں تدبر کریں۔ قرآنی معارف و حقائق سے آگاہ ہوں۔” (ملفوظات جلد پنجم صفحہ211تا212ایڈیشن1988ء) چونکہ آنحضرت ﷺنے اپنی امت کو یہ تاکیدی نصیحت کی ہےکہعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (مسند احمد بن حنبل) یعنی میرے بعد جب اختلافات ہوں گے تو تم میری اورمیرے خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کرنا۔ اس زمانے میں آنحضرتﷺکی بعثت ثانیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوئی ہے اس لیے آپ کی اور آپ کے خلفاء کی سنت اور طریق کی اتباع بھی اسی طرح ضروری ہے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک اور رسم کے سلسلہ میں بحیثیت حکم وعدل اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے یہ اصولی اور بنیادی نکتہ بیان فرمایا کہ’’پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم ؐ یا صحابہ کرام ؓ وائمہ عظام میں سے کسی نے یُوں کیا ؟جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 213تا214ایڈیشن1988ء)
پس مذکورہ بالا ماخذ شریعت کی بنیاد ہیں، رسول کریم ؐکے ارشاد کے مطابق اس زمانہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکم عدل کے منصب پر فائز ہیں۔ اس لیے ان ماخذ کی روشنی میں فقہی مسائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی بیان فرمودہ تشریح دیگر تمام تشریحات پر فائق ہے۔ اس کے باوجود اگرکوئی مسئلہ حل طلب محسوس ہو یا اس کے حل میں مزید روشنی اور راہنما ئی کی ضرورت ہو یا کوئی نیا مسئلہ پیدا ہو جائے تو پیش آمدہ مسائل پر اجتہاد کےلیے جماعت احمدیہ میں “مجلس افتاء” قائم ہے جو غور اور تحقیق کے بعد اپنی رائے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں بھجواتی ہے۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح جو فیصلہ فرماتے ہیں وہ جماعت احمدیہ کی فقہ کا حصہ قرار پاتا ہے اور تمام احمدی اس پر عمل کرنے کے پابندہوتے ہیں۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’شریعت کے جو مسائل نصّ قرآنی یا سنّت نبویؐ پر مبنی ہیں اور انہیں تواتر عملی کی حیثیت حاصل ہے وہ دائمی ہیں باقی مسائل ائمۂ دین اور فقہائے اسلام کے اجتہاد پر مبنی ہیں۔ایسے اجتہادی مسائل میں مقررہ ضابطہ کے تحت سلسلہ کے اہل الرائے علماء کے مشورہ اور خلیفۂ وقت کی منظوری سے تبدیلی ہو سکتی ہے۔‘‘(ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 10.02.1983۔مطبوعہ فقہ احمدیہ حصہ دوم صفحہ 1)
٭…٭…٭