یوم جنگ بندی کے حوالہ سے احمدیہ مسلم مشن فرانس میں تقریب
پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ 11؍نومبر 1918ء کو ہونے والے جنگ بندی کے معاہدہ سے ہوا۔ فرانس اور بعض دیگر مغربی یورپ کے ممالک میں 11 نومبر کو (Armistice Day) ہر سال سرکاری سطح پرتقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اور جنگ کے حوالے سے جو یادگاریں بنائی گئی ہیں وہاں حکومتی نمائندگان، منتخب سیاسی نمائندگان اور ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیموں کے نمائندگان اپنی اپنی وردیوں اور میڈلز کے ساتھ پرچم تھامے شریک ہوتے ہیں۔ اس موقع پر جنگ میں جاں بحق ہونے والے سویلین کویاد کیا جاتا ہے اور فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
جماعت احمدیہ فرانس نے بھی مورخہ 12؍نومبر بروز ہفتہ مرکزی مشن ہاؤس میں ’’حب الوطنی اور ماضی کی یاد‘‘ کے موضوع پرایک تقریب کا انعقاد کیا۔ اس پروگرام کا انتظام شعبہ امور خارجہ کے تحت ہوا۔ پروگرام میں دونوں کونسلز کے نمائندگان کے علاوہ ان کے سابقہ میئرز، سابقہ فوجی اور احمدی بچے اور بچیاں شامل ہوئے۔ اس تقریب میں بطور خاص شمولیت کے لیے ناٹو میموریل کی فیڈریشن کے صدر جناب ولی بروتوں اور سیکرٹری مادام ماری ہیلن لپاج فرانس کے انتہائی شمال سے تشریف لائے۔ یاد رہے کہ سالہا سال سے ناٹو میموریل کی سالانہ تقریبات میں جماعت احمدیہ کے مبلغ کو اسلام کی نمائندگی میں مدعو کیا جاتا ہے۔
اس پروگرام کا مقصد یہ تھا کہ نوجوانوں اور بچوں کی وطن سے محبت اور اس کی خاطر خدمت اور قربانی کی روح کو زندہ رکھا جائے۔ نیز دونوں عالمی جنگوں کے متعلق سابقہ فوجیوں کی ذاتی معلومات اور تجربات ان کی زبانی بچوں کو سنائی جائیں۔
مہمانوں کی سہولت کے لیے مسجد کے صحن میں دو ٹینٹ لگائے گئے۔ ان میں رجسٹریشن، جماعتی کتب کی نمائش اور گرم مشروبات کا انتظام کیا گیا۔ مقررہ وقت سے پہلے مہمان آنا شروع ہوگئے۔ رجسٹریشن کے بعد ان کی خدمت میں چائے اور کافی پیش کی گئی۔
تقریباً تین بجے سہ پہر مہمان اور سب بچے مشن ہاؤس کے داخلی گیٹ کے ساتھ ایک طرف قطار در قطار کھڑے ہوگئے۔ ان کے سامنے پرچم تھامے فوجی بھی کھڑے ہوگئے۔ سب بچے اپنے ہاتھوں میں فرانس کا پرچم تھامے بہت بھلے لگ رہے تھے۔ سابقہ فوجیوں کی ایک تنظیم کے صدر جاں مارک لکلرک نے تقریب کے اس حصہ کو فوجی طریق سے نبھایا۔ سب سے پہلے ایک منٹ کی خاموشی ہوئی اور پھر کورس کی صورت میں بچوں نے قومی ترانہ پیش کیا جس میں تمام شرکاء شامل ہوئے۔ اس کے بعد ناٹو (NATO)کا ترانہ پیش کیا گیا۔
تقریب کا دوسرا حصہ مسجد میں ہوا۔ تمام فوجی، عوامی نمائندگان، سول مہمان اور افراد جماعت بشمول بچے مسجد میں تشریف لے گئے۔ مسجد کو مختلف بینرز سے سجایا گیا تھا۔ اس تقریب کی صدارت امیر جماعت فرانس مکرم فہیم احمد نیاز صاحب نے کی۔ تلاوت قرآن کریم سے یہ پروگرام شروع ہوا۔اس کے بعد خاکسار (مبلغ سلسلہ) نے ’’حب الوطنی‘‘ کے موضوع پر اسلامی تعلیمات اور ایک مسلمان کی ذمہ داری پر تقریر کی۔ دوسری تقریر ناٹو میموریل کی فیڈریشن کے صدر جناب ولی بروتوں کی تھی۔ موصوف ناٹو کے تحت افغانستان میں کچھ عرصہ فوجی خدمات بجا لاتے رہے ہیں۔ بعد ازاں جاں مارک لکلرک نے حب الوطنی، جنگوں کی تاریخ اور وطن کی خاطر جان کی قربانی کرنے والوں کی یاد میں تفصیلی گفتگو کی۔ بچوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔ چند ایک دلچسپ سوالات کچھ یوں تھے:۔ فرانس کے پرچم کےتین رنگ نیلا، سفید اور سرخ کیوں ہیں؟ ہمارےملک کا نام فرانس کیوں ہے؟ پہلی جنگ عظیم کیوں ہوئی؟ فوجی (یونیفارم پر)میڈل کیوں لگاتے ہیں؟ ان فوجیوں نے جنگ کیوں کی؟
صدر مجلس مکرم امیر صاحب نے اختتامی کلمات میں وطن کی محبت کے ذکر کے ساتھ سب شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ دعا کے ساتھ اس تقریب کا اختتام ہوا۔ تمام مہمانوں کی خدمت میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کتاب ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘ اور دو پمفلٹس ’’وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے‘‘ اور ’’ایک تیسری جنگ نہیں چاہیے‘‘ کوبطور تحفہ پیش کیاگیا۔ پروگرام کے بعد تمام شرکاء کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔
مہمانوں کے تاثرات
ناٹو میموریل کی فیڈریشن کے صدر جناب ولی بروتوں نے کہا کہ آج کی تقریب میں شمولیت اور بچوں اور نوجوانوں سے گفتگو سے بہت خوشی ہوئی۔ ممکن ہے کل کو فوج میں شامل ہو کر ہماری آزادی اور امن کے لیے قوم کی خدمت کریں۔ وطن کا تصور رنگ، مذہب اور نسل سے ماورا ہوتا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ پروگرام میں شامل ہونے والے نوجوان اس بات کو سمجھتے ہیں۔ ان کی شمولیت اور ان کے سوالات حیران کن تھے۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں۔ احمدیہ مشن ہاؤس اور مسجد میں آنے کا میرا پہلا تجربہ ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ (2019ء میں موصوف حضور انور ایدہ اللہ کا یونیسکو میں خطاب سن چکےہیں)۔
ناٹو میموریل کی فیڈریشن کی سیکرٹری Mrs. Marie-Hélène Lepageنے کہا کہ میں بچوں کے سولات کو جو سادہ اور فطرتی تھے بہت سراہتی ہوں۔ اس سے پہلے بھی آپ کے ایک پروگرام میں شامل ہوچکی ہوں۔ (2019ء میں محترمہ حضور انور ایدہ اللہ کا یونیسکو میں خطاب سن چکی ہیں)۔ آپ کی دعوت کا بہت شکریہ۔
سابقہ فوجیوں کی ایک تنظیم کے صدر Mr. Jean-Marc Leclerc نے کہا کہ میں نوجوانوں سے بہت خوش ہوں۔ آپ کی جماعت کی غیر معمولی میزبانی کا بہت شکریہ۔ بچوں نے جس بہترین طریقے سےترانہ پیش کیا اس نے مجھے بہت متأثر کیا ہے۔ مذہبی مرکز میں اس طرح کے موضوع پر ایسی تقریب ایک غیر معمولی بات ہے۔ مسجد میں ایسے پروگرام کا انعقاد سحر انگیز تھا۔ بدقسمتی سے فرانس میں اسلام سے متعلق بہت غلط فہمیاں ہیں۔
محترم غلام جانی صاحب نے، جو سابقہ فوجی ہیں، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بچوں نے جس توجہ سے سارے پروگرام کو سنا اور ان کے سوالات، سوال کرنے کا انداز اور قومی ترانہ پیش کرنے کا اندازمجھے بہت اچھا لگا۔مسجد کے احاطہ میں مسلمان بچوں کا قومی ترانہ پیش کرنا بے شک حیرت انگیز تھا۔
Mr. David Addo نے کہا کہ سابقہ فوجیوں، مہمانوں اوربچوںکی شمولیت اور ان کے سوالات بلکہ سارا پروگرام میرے لیے غیر متوقع تھا۔ میں نےکبھی بھی ایسے پروگرام کا انعقاد کسی مسجد میں ہوتے نہیں دیکھا۔
تقریب کے ایک مہمان خصوصی ناٹو میموریل کی فیڈریشن کے صدر جناب ولی بروتوں نے اپنے ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس تقریب کی مختصر رپورٹ اور تصاویر کو شیئر کیا۔ موصوف کے ہزاروں فالوورز ہیں۔
دیگر شہروں کی سرکاری تقریبات میں جماعتی وفود کی شرکت
قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امسال فرانس کے مرکزی مشن ہاؤس کے علاقہ سینٹ پری کی کونسل کی دعوت پر بشمول مکرم اسلم دوبوری صاحب نائب امیر، مکرم نصیر احمد شاہد صاحب مبلغ انچارج اور حلقہ مسجد کے صدر مکرم صوفی مبشراحمد صاحب ایک وفد شامل ہوا۔ اس سرکاری تقریب میں جماعت احمدیہ کے وفد کی شمولیت پرکونسل کی میئر نے بطور خاص ملاقات کر کے شکریہ ادا کیا۔
پھرایک قریبی علاقہ Eaubonneکی کونسل کی طرف سے منعقدہ تقریبات میں ان کی دعوت پر بشمول مکرم طلحہ رشید صاحب نیشنل سیکرٹری امور خارجیہ اورمکرم سعید احمدچیمہ صاحب سیکرٹری وصایا ایک وفد شامل ہوا۔ اس کونسل کی میئر نے بھی جماعتی وفد کا شکریہ ادا کیا۔
فرانس کے شمالی علاقہ Beuvragesکی جماعت کو بھی ایک جگہ سرکاری تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ اس تقریب کی مفصل رپورٹ الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہوچکی ہے۔
ان تقریبات میں جماعتی وفود کی شرکت سے جماعت کی نیک نامی میں اضافہ ہوا اور اسلام کی مثبت تصویر پیش کرنے کا موقع ملانیز فرنچ معاشرہ کا فعال حصہ ہونے اور رابطوں کی وسعت میں اضافہ ہوا۔ قارئین الفضل سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مساعی میں برکت ڈالے اور یورپین لوگ اس حقیقت کو پہچان لیں کہ احمدی مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور اہل یورپ اسلام کے قریب تر آتے جائیں۔آمین
(رپورٹ: منصور احمد مبشر۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)